انشائیہ کیا ہے؟
یہ سوال برصغیر کے ادبی حلقوں میں اتنی بار دہرایا جا چکا ہے اور اس کے جواب میں اس قدر صفحات سیاہ کئے جا چکے ہیں کہ ادب کی کسی دوسری صنف کے متعلق اس کی مثال ملنی محال ہے۔ سوال کا لہجہ اس صنف کے متعلق اجنبیت کا تاثر پیش کرتا ہے۔
جاوید وششٹ نے ملّا وجہی کی تصنیف ’سب رس‘ سے انشائیہ کے نقوش کی نشاندہی کر کے بتایا کہ ہمارا انشائیہ کلیتاً ہمارا اپنا انشائیہ ہے۔
بیشتر ناقدین کے نزدیک انشائیہ ایک ایسی صنف ہے جسے مغرب سے بر آمد کیا گیا ہے۔ یہ مغرب کے باغ سے فراہم کی گئی ایک قلم ہے جسے اردو کے باغ میں لگایا گیا ہے۔ انشائیے کے متعلق اردو میں پا ئی جانے والی یہ الجھن ان مباحث سے آشکار ہے جو ہند وپاک کے اخبارات و رسائل میں ابھرے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں موجود متضاد تصورات کا اندازہ فضیل جعفری کے اس اقتباس سے بہ آسانی لگا یا جا سکتا ہے:
’’جس طرح پچّیس برس پہلے تک ادبی گالی گلوچ کے لیے رجعت پسند اور زوال آمادہ جیسے کلیشیز بنا لیے گئے تھے ویسے ہی ان دنوں انشائیہ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے یعنی جس سے نا راض ہوئے اسے رجعت پسندا نہ کہہ کر انشائیہ نگار کہہ دیا۔ حساب بیباق ہو گیا چنانچہ ترقّی پسند ٹیم کے نئے گول کیپر مشکور حسین یاد، عسکری کے مضامین کو اگر انشائیہ کہتے ہیں توادھر ممتازنقّاد شمس الرحمن فاروقی فراق ؔصاحب کے مضامین کو انشائیہ کہنا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف سرکش ادیب باقر مہدی کرشن چند رکے افسانوں کو انشائیہ سے تشبیہ دیتے ہیں تو لسانی تنقید کے سر گرم وکیل ڈاکٹر مغنی تبسم وارث علوی کے مضامین کو انشائیہ گر دانتے ہیں۔‘‘ (۱)
یہی سبب ہے کہ مشکور حسین یاد انشائیہ کو اس ہاتھی سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے متعلق چار اندھے مختلف قیاس آرائیوں میں مبتلا تھے، وہ کہتے ہیں:
’’ہم نے انشائیہ کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جیسا کہ کچھ اندھوں نے ہا تھی کے ساتھ کیا تھا یعنی جس کے ہا تھ میں ہا تھی کے جسم کا جو حصّہ آ گیا اس نے اسی کو ہا تھی سمجھ لیا…اس میں کو ئی شک نہیں کہ ہاتھی کی دم بھی ہاتھی ہی کے جسم کا ایک حصّہ ہے اور ہم ہاتھی کی دم پکڑ کر بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہاتھی ہے، لیکن ایسا اس وقت ممکن ہے جب کہ ہا تھی کی دم کے ساتھ ہماری نگاہیں پو رے ہا تھی پر بھی پڑ رہی ہوں یا کم از کم ہم نے ایک بار پورے ہا تھی کا نظا رہ کر لیا ہو۔‘‘ (۲)
انشائیہ کی بعض جز وی خصوصیات کی بنا پر کم و بیش ہر قسم کی تحریر کو انشائیہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔ انشائیہ کی شناخت میں یہ چیز اس قدر اہم ہے کہ اردو میں انشائیہ کے متعلق پائے جا نے والے اختلاف کی بنیاد بھی یہی ہے۔ ایک طبقہ اسے ایک کل کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے جس میں مخصوص محاسن متوقع ہیں۔ اس کے حدودِ اربعہ اور ہیئت بھی متعین ہیں۔ اس کے بر عکس دوسرا طبقہ انشائیہ کو ان قیود سے آزاد خیال کرتا ہے اس نقطہ نظر کی ترجمانی احمد ندیم قاسمی نے ان الفاظ میں کی ہے:
’’میرے نزدیک انشائیہ کسی خاص موضوع کے بارے میں ادیب کی سوچ کا عکس ہوتا ہے۔ اس صنف کی متعین صورت نہیں ہے۔ ہر ادیب کا سلسلہ خیال دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس میں حکمت کی گہرائی اور زندگی کی شگفتگی، مسائلِ حیات کی متانت اور ساتھ ہی ہلکی پھلکی ہنسی، سبھی کچھ سما سکتا ہے۔ اسی لیے میں انشائیہ پر کسی ہیئت کی چھاپ لگانے کا مخالف ہوں۔‘‘ (۳)
انشائیہ کے متعلق مختلف تصورات کی مو جو دگی کے سبب اس کی شناخت کے سلسلے میں حتمی قسم کی کو ئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کا کو ئی واضح تصور سامنے نہیں آتا۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’جہاں تک انشائیہ پر تنقیدی تحریروں کا تعلق ہے تو ان میں بیشتر کی بنیادی خرابی یہ ہے کہ ان میں اخذ نتائج کے ذہن میں inductive method سے کام نہیں لیا جاتایعنی انشائیوں کے مطالعہ کے بعد ان کی مشترک خصوصیات یا ما بہ الامتیاز خصائص کے استنباط کی بنیاد پر بات کرنے کے برعکس پہلے سے طے شدہ نتائج، مفروضوں یا پھرپالتو تعصبات کی روشنی میں اچھے یا برے انشائیہ کا فیصلہ کیا جا تا ہے۔‘‘ (۴)
انشائیوں کے اعلیٰ نمونے پیشِ نظر رکھ کر انشائیوں کی تعریف بھی پیش کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں مغربی نقّادوں کی آراء معتبر اور حقیقی محسوس ہو تی ہیں کہ ان کے ہاں انشائیہ کے معیاری تخلیقی نمونے وافر تعداد میں مو جود ہیں اور اس صنف کا چارصدیوں پر محیط ارتقاء اس کے واضح خد و خال سمیت انشائیہ کے بنیادی محاسن کو پیش کرنے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ معیاری انشائیوں کا فقدان ہے۔ دوّم انشائیے کی ہماری بیشتر تعریفیں ذہنی قیود اور تعصبات سے مبرا نہیں ہیں۔ اسی طرح ان میں سے اکثر تعریفیں مغربی ناقدین کے خیالات کی باز گشت ہیں۔ علاوہ ازیں مغرب میں بھی اس صنف سے متعلق اختلافِ رائے مو جود ہے، بلکہinductive method کو اپنایا جائے تب بھی مسئلہ اتنا آسان نہیں۔ انگریزی ایسّے میں مختلف اسالیب، رجحانات اور طریقہ کار کی بنیاد پر انشائیہ کی قطعی صورت موجود نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہڈسن لکھتے ہیں:
“Its outlines are so uncertain, and it varies so much in matter, purpose and style that systematic treatment of it is impossible. The question may indeed be raised whether the essay is to be considered as an independent and settled form of literary art at all.” (5)
انگریزی انشائیہ اور ہمارے انشائیہ کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ انگریزی میں انشائیہ کے ساتھ فکر اور تخیل جیسے عناصر کو خصوصی تعلق ہونے کے علاوہ انشائیہ کی ذات کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس کے برعکس انشا پردازی کے ساتھ اردو میں حسنِ عبارت اور بیان کی لطافتیں وابستہ ہیں اور ان ہی کی بدولت ہماری تحریریں انشائیہ کہلاتی ہیں:
’’انشائیہ کی شناخت کے سلسلے میں بنیادی اختلاف کے باوجود اس کے محاسن اور بنیادی خصوصیات کا تذکرہ کثرت سے ہوتا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں کسی مخصوص نقطہ پر اجماع نہیں ہوپایا اور نہ ہی ممکن ہے۔ اسی ضمن میں سجاد باقر رضوی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مغربی فنِ انشائیہ نگاری کے اصولوں کی روشنی میں انشائیہ کا مطالعہ کیا جائے۔
صنف انشائیہessay اردو کی اور کئی اصناف کی طرح مغرب سے مستعار ہے۔ لہٰذا اسلوب انشائیہ کے سلسلے میں بنیادی طور پر وہی موقف ہو نا چاہئے جو مغرب میں بر تا گیا ہے۔ مغرب میں یہ صنف اپنے پیچھے کو ئی بڑی روایت نہیں رکھتی اس کی ابتداہی ایسے عہد میں ہوئی جس میں روایت ترمیم و تنسیخ کے عمل سے گزر رہی تھی۔ ایک شخص کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ زندگی اور اس سے متعلق اقدار و اشیاء کو اپنے زاویے سے اور اپنے تجربات کی روشنی میں دیکھے تو اس نے یہ صنف اختیار کی۔ اسے ایک خاص صنف کا درجہ یوں ملا کہ اس میں وحدت کا وہ بنیادی اصول موجود تھاجو زمانہ قدیم سے ہرفن پارے کی بنیادی خصوصیت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کے آگے یہ ہوا کہ لوگوں نے اس روایت کو آگے بڑھایا اور یوں انشائیہ ایک مستقل صنف قرار پائی۔‘‘ (۶)
انشائیہ کی مختلف اساسی خصوصیات در اصل اس کے اجزا ء ہیں جن کی بنیاد پر کسی فن پارے کی انشائی کیفیت کو دریافت کیا جا سکتا ہے، البتہ انشائیہ بحیثیت کل جن اہم عناصر پر مشتمل ہوتا ہے ان میں انشائیہ نگارکی ذات اور اس کا منفرد نقطہ نظر خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی انشائیوں میں دیگر محاسن کم و بیش موجود ہیں۔ البتہ ان چیزوں کو وہاں بھی انشائیہ کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ ان عناصر کے سائے انشائیہ کے دیگر اجزاء پر پڑتے ہیں۔ مثلاً انشائیہ کی زبان، اسلوب، اندازِ فکر، ہیئت اور اس کا فن۔ یہ تمام مل کر انشائیہ کو ایک کل کی شکل عطا کر تے ہیں۔ انشائیہ کے یہ عناصر کیا رول ادا کر تے ہیں یہ جاننے کے لیے ہم ہر ایک کا الگ الگ جا ئزہ لیں گے:
انشائیہ اور مضمون میں فرق
انشائیہ اور مضمون کو ہمارے ہاں تقریباً ایک ہی چیز خیال کیا جا تا ہے۔ انشائیہ مضمون ہی کی ایک قسم ہونے کے باوجود اپنے مخصوص طریقہ کار اور تخلیقی خصوصیت کے سبب مضمون کی مختلف اقسام میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ عہدِسرسید میں لکھے جانے والے بیشتر مضامین عموماً ایسّے کے خطوط پر لکھے گئے اور انھیں مضمون کا نام دیا گیا۔ مثلاً مضامینِ سرسید، مضامینِ رام چندر، مضامینِ ذکاء اللّٰہ وغیرہ۔
ان مضامین کے علاوہ خالص علمی اور تحقیقی مضامین بھی اسی نام سے پیش کیے جاتے رہے۔ اس نوع کی تحریروں میں جو طریقہ استدلال اور قطعیت پا ئی جا تی ہے۔ اس سے انشائیہ مختلف قسم کی تحریر واقع ہوا ہے۔ اسی فرق کو واضح کر تے ہوئے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’انشائیہ کو بالعموم مضمون سے خلط ملط کر تے ہوئے، مزاحیہ طنزیہ یا پھر تاثراتی مضمون قسم کی شے سمجھ لیا جا تا ہے جو کہ قطعی غلط ہے مضمون ایک عمومی اصطلاح ہے نہ ہی اپنی انفرادی حیثیت سے مضمون کو ئ جدا گانہ صنف ہے مضمون کی کئی اقسام ہیں۔ مگر مضمون بذاتِ خود قسم نہیں ہے۔ اس لیے مزاحیہ یا طنزیہ مضمون کی منصوبہ بندی اور ادبی مقاصد قطعی طور سے انشائیہ کے مقابلے جداگانہ نوعیت رکھتے ہیں۔‘‘ (۷)
ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے کے بر عکس وزیر آغا انشائیہ کو مضمون کی جدا گانہ نوعیت تسلیم کرنے کے بجائے ایک مختلف صنف قرار دیتے ہیں۔ اپنے موقف کو واضح کرنے کی غرض سے انھوں نے ادب کی مختلف اصناف کا ایک شجرہ ترتیب دیا ہے: (۸)
ادب
نثر
شاعری
داستان
ناول
افسانہ
ڈرامہ
سوانح عمری
سفرنامہ
انشائیہ
مضمون
طنزیہ مضمون
مزاحیہ مضمون
تنقیدی مضمون
تحقیقی مضمون
علمی مضمون
فلسفیانہ مضمون
بیشتر ناقدین کے نزدیک انشائیہ مضمون ہی کا ایک پیرایہ ہے جس طرح انگریزی میں لائٹ ایسّے اور پر سنل ایسّے کہہ کر مضمون نگاری کے ایک مخصوص رجحان کو علاحدہ طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ اسی کو اردو میں انشائیہ کے نام سے پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں دیگر مضامین سے اس قسم کی شخصی تحریروں کو الگ کرنے کے لیے جو چیز بنیاد بنائی گئی وہ اس کا غیر رسمی طریقہ کار اور ذاتی عنصر تھا۔ اس سلسلے میں انگریزی ایسے کے متعلق وضاحت کر تے ہوئے ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی لکھتے ہیں:
’’ایسیز کو دو قسموں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پہلی قسم میں تمام سیاسی، سماجی، مذہبی، ادبی، سوانحی وغیرہ ایسیز کو شامل کیا گیا ہے اور انھیں Formal فارمل یعنی تکلفی اور رسمی کا نام دیا ہے۔ اور دوسری قسم کے ایسیز کو فیمیلیئرFamiliar یعنی ذاتی اور شخصی کہا ہے۔ پہلی قسم کے ایسیز کی مثال ایسی ہے جیسے ایک موضوع پر طول طویل مقالہ بھی لکھا جا سکتا ہے اور اس موضوع پر پندرہ منٹ میں ختم ہونے والی ریڈیائی تقریر بھی ہو سکتی ہے جو مربوط تو ہوتی ہے مگر مختصر اور نا مکمل سی رہتی ہے۔‘‘ (۹)
ان منضبط اور مر بوط مقالات اور انشائیہ میں امتیازی طور پر یہ فرق پایا جاتا ہے کہ انشائیہ موضوع کو شخصی یا ذاتی حوالے سے پیش کرتا ہے موضوع کے کسی زاویے کو روشن کر کے ایک نئی راہ سجھا کر تصویر مکمل کرنے کا کام قاری کو سونپ دیتا ہے۔ یہ عدم تکمیلیت اس کا حسن ہے جب کہ مضمون میں عدم تکمیلیت کو ایک سقم شمار کیا جائے گا۔
مضمون یا مقالہ کی بندش مصنف کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ نفسِ موضوع سے بہت دیر کے لیے دوری اختیار کرے۔ مضمون میں نفسِ مضمون کے ساتھ انصاف شرط ہے۔ اس کے علمی تخلیقی پہلوؤں کو منضبط طور پر پیش کرنا اس کے آداب میں شامل ہے جبکہ انشائیہ میں بے ترتیبی اپنا ایک الگ حسن ایجاد کرتی ہے۔ انشائیہ نگار اپنے موضوع سے الگ ہٹ کر دیگر موضوعات کے ذریعے انشائیہ کے عنوان پر کسی ایک زاویئے سے نئی روشنی ڈال سکتا ہے یا اپنے متعلق تاثرات و احساسات رقم کر کے انشائیہ کے موضوع کو ایک نئی شکل عطا کر سکتا ہے۔ اسی طرح اختصار اور اشارے کنائے میں اپنی بات کو مبہم انداز میں پیش کر سکتا ہے، جس طرح شاعری میں ہوا کرتا ہے۔ اس کے برعکس مضمون یا مقالات وضاحت قطعیت اور تفصیلات سے سروکار رکھتے ہیں۔ اس بنیاد پر انشائیہ مضمون سے قطعی مختلف قسم کی چیز ہے۔
منصوبہ بندی کسی نہ کسی سطح پر دیگر تخلیقی اصناف میں بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے لیکن انشائیہ اس قسم کی منصوبہ بندی سے مبرا ہوتا ہے کیونکہ اس میں سوچ کا آزادانہ بہاؤ پایا جا تا ہے۔ پلاٹ سازی جسے ہم ایک قسم کی منصوبہ بندی ہی کہہ سکتے ہیں، بقول ارسطوؔ ڈرامے کی جان ہے۔ اس کے برعکس انشائیہ نگار جب انشائیہ لکھنے بیٹھتا ہے تو اس کے آگے انشائیہ کا خاکہ واضح طور پر موجود نہیں ہوتا۔ مضمون نگار یا مقالہ نگار کو اپنا تھیسِس اور نتائجِ فکر طے کر لینے پڑتے ہیں۔ غرض منصوبہ بندی ایک اہم نکتہ ہے جو انشائیہ کو مضمون یا مقالہ سے جدا کرتا ہے۔
اسی طرح انشائیہ اور مقالہ کا حاصل بھی مختلف ہے اس فرق کی وضاحت ڈ اکٹر سید محمد حسنین نے ان الفاظ میں کی ہے:
’’مقالہ پڑھنے کے بعد ہم کچھ سیکھتے یا پا تے ہیں۔ ایسی بات یا ایسا خیال جس سے ہماری علمیت میں گو نا گوں اضا فہ ہوتا ہے جس سے ہماری شخصیت میں علم کی تابندگی آتی ہے۔ انشائیہ پڑھنے کے بعد ہم کو ئی گم کر دہ شے پا لیتے ہیں۔ ایسی شے جو روزانہ کی سادہ اور سپاٹ زندگی میں آنکھوں سے روپوش رہتی ہے، ایسی شے جو ٹھوس اور ناقابلِ انکار حقیقتوں میں اوجھل رہتی ہے۔‘‘ (۱۰)
ان تمام امور کے علاوہ انشائیہ اپنی تخلیقی حیثیت کے سبب مقالات اور مضامین سے قطعی مختلف ہے، جو اسلوب زبان اور فکر کی سطح پر غیر تخلیقی طریقہ کار اپناتے ہیں اسی طرح انشائیہ اپنی فنّی نزاکتوں کے سبب بعض تخلیقی فن پاروں سے بھی مختلف ہے مثلاً طنزیہ اور مزاحیہ مضمون جن کا فن زندگی کے مختلف مظاہر کو پیش کرنے کے لیے مخصوص طریقہ اپنا تا ہے۔ انشائیہ طریقہ کار، مقصد اور اپنی دلچسپیوں کے اعتبار سے مضامین کی ان اقسام سے بھی مختلف قسم کا نثر پارہ قرار پا تا ہے۔
طنزیہ و مزاحیہ مضمون اور انشائیہ
اردو میں طنز یہ و ظریفانہ مضامین کو انشائیہ قرار دینے کا رواج عام ہے۔ اس میں اخباروں کے کالم، ہلکے پھلکے شگفتہ مضامین، خاکے وغیرہ سبھی پر انشائیہ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ان تحریروں کے مطالعے سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ادیب اپنے مضمون میں بھر پور طنز و مزاح کو بروئے کا رنہ لا سکے یعنی وار اوچھا پڑ جائے تو اسے بھی انشائیہ سمجھ لیا جاتا ہے گویا ایک ناکام قسم کا مضمون انشائیہ ہو گیا!بقول ڈاکٹر سید محمد حسنین انشائیہ نگاری کو مزاح نگاری قرار دینا بڑی مضحکہ خیز سی بات ہے۔
طنز و مزاح، ہجو، المیہ، رومان یہ تحریر کی خوبیاں ہیں، تحریر کی صورتیں نہیں ان صفات کو صنف کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ انشائیہ ایک صنف ادب ہے نہ کہ کسی صنف کا اندازِ تحریر۔ اس سلسلے میں انشائیہ کی امتیازی حیثیت کو انیس ناگی اس طرح بیان کر تے ہیں۔
’’مقالہ یا مضمون سیال قسم کی ادبی ہیئت ہے جو تصور یا جذبہ کے ساتھ مختلف رنگ اختیار کرتی ہے اس لیے اس کی کو ئی معین ہیئت نہیں ہے یہ موم کی ناک ہے۔ اگر ہنسی مذاق پھبتی اور جگت سے انشائیہ جنم لیتا ہے تو پھر نقال بہت بڑے انشا پر داز ہیں اور تہواروں پر جواب الجواب اور تمسخر انشائیوں کے مجموعے ہیں۔‘‘ (۱۱)
اردو میں طنز و ظرافت کی تخلیق دیگر اصناف کی بہ نسبت بیشتر مضمون ہی کے فارم میں ہو ئی ہے۔ انشائیہ کے فنی آداب و رموز سے بے خبری کے سبب ان تمام تحریروں کو انشائیہ کے زمرے میں شامل کرنے کا رجحان عام رہا ہے۔ طنز و مزاح کی شوخی اور انشائیہ کی شگفتگی کی علاحدہ پہچان نہ ہو سکی۔ اسی لیے جو طنز و مزاح نگار ہے وہ انشائیہ نگار بھی گر دانا گیا جب کہ یہ دونوں اصناف الگ خواص اور طریقہ کار کو اپناتے ہیں۔
انشائیہ طنز و ظریفانہ مضامین سے مختلف قسم کے اظہار کا پیمانہ ہے۔ اس میں طنز و مزاح متوازن مقدار میں ایک معاون قوت کے طور پر بروئے کار لایا جاتا ہے لیکن یہ عناصر اپنی طبعی صلاحیتوں کے ساتھ کسی مضمون میں اپنے فرائضِ منصبی سے عہدہ بر آہو نے لگیں، اس تحریر کا غالب رجحان بن جائیں اور زندگی یا کائنات کے مظاہر سے متعلق کسی انوکھے نقطہ نظر کو پیش کرنے کا وہ مقصد جو انشائیہ کے پیشِ نظر ہوتا ہے فوت ہو جائے تو اس صورت میں وہ تحریر طنز و ظرافت کا اعلیٰ معیار قائم کرنے کے با وجود انشائیہ نہیں کہلا سکتی۔ اسے طنزیہ مزاحیہ مضمون ہی کے زمرے میں شامل کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’طنزیہ مزاحیہ مضامین انشائیہ نگاری کے مختلف اسالیب نہیں بلکہ قطعاً الگ قسم کی تحریریں ہیں اور یہ فرق محض لہجہ اور انداز کا فرق نہیں مزاج کا فرق بھی ہے۔ مثلاً غور کیجئے کہ ایک مزاحیہ مضمون کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں فاضل جذبہ خارج ہو جاتا ہے جب کہ انشائیہ میں جذبہ صرف ہوتا ہے۔‘‘ (۱۲)
انشائیہ اور طنزیہ و مزاحیہ مضمون میں جذبہ کے صرف ہونے کی نوعیت مختلف ہونے کی وجہ سے ان دونوں سے پیدا ہونے والا تاثر بھی جدا گانہ ہوتا ہے۔ انشائیہ چونکہ فطری اظہار اور انشائیہ نگار کے خیالات و تاثرات کا آئینہ ہوتا ہے نیز ایک متوازن اور مہذب شخصیت کا اظہارِ خیال ہے اس لئے اس میں ایک ٹھہراؤ اور لطیف انداز پا یا جا تا ہے۔
طنز و مزاح ایک شعوری کاوش کے طور پر تحریر کی مجموعی فضاپیدا کرتا ہے جو اس کے مخصوص ارادوں اور مقاصد کی نمائندگی سے عبارت ہے۔ اس میں طنز اور مزاح الگ الگ رول ادا کر تے ہیں۔ اسٹیفن لی کاک کے بقول:
’’مزاح زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا اظہار فنکارانہ طور پر کیا گیا ہو۔‘‘
کلیم الدین احمد طنز و ظرافت کے فرق کو یوں سمجھاتے ہیں:
’’خالص ظرافت نگارکسی بے ڈھنگی شے کو دیکھ کر ہنستا ہے اور پھر دوسروں کو ہنساتا ہے وہ اس نقص، خامی، بد صورتی کو دور کرنے کا خواہش مند نہیں۔ ہجو گو اس سے ایک قدم آگے بڑھتا ہے اس ناقص و ناتمام منظر سے اس کا جذبہ تکمیل حسن، موزونیت، انصاف جوش میں آتا ہے اور اس جذبہ سے مجبور ہو کر اس مخصوص مذموم منظر کو اپنی ظرافت اور طنز کا نشانہ بناتا ہے۔ نظری اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ خالص ظرافت اور ہجو کی راہیں الگ الگ ہیں اور منزلیں جدا جدا ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں کو جدا کرنا عموماً دشوار ہے۔‘‘ (۱۳)
طنز اور ظرافت یا ہجو کو الگ کرنا دشوار سہی لیکن نا ممکن نہیں۔ اسے کسی بھی فن پارے میں یا عملی زندگی میں علاحدہ کرنے میں جو دشواری پیش آتی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ طنز یا ہجو کے ذریعے کسی برائی یا نا پسندیدہ عمل کا احساس دلایا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے طنز کرنے والا مبالغہ آرائی کا سہارا لیتا ہے اسی لیے چسٹر ٹن کے مطابق:
’’ایک سوّر کو اس سے بھی زیادہ مکروہ شکل میں پیش کرنا جیسا کہ خود خدا نے اسے بنایا ہے طنز یا تضحیک سٹائرsatire ہے۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ طنز کا اصل مقصد نا پسندیدہ افعال یا مظاہر کی روک تھام ہے۔ اور مزاح جو اسٹے فن لی کاک کے مطابق زندگی کی نا ہمواریوں کے شعور کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اس کا مقصد بھی نا ہمواریوں پر قہقہوں کے ذریعے ایک نرم قسم کی تنقید ہی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغاکا خیال ہے:
’’ہنسی ایک ایسی لاٹھی ہے جس کی مدد سے سوسائٹی کا گلہ بان محض شعوری طور پر ان تمام افراد کو ہانک کر اپنے گلّے میں دوبارہ شامل کرنے کی سعی کرتا دکھائی دیتا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے سو سائٹی کے گلّے سے علاحدہ ہو کر بھٹک رہے تھے۔ یعنی ہنسی ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے سوسائٹی ہر اس فرد سے انتقام لیتی ہے جو اس کے ضابطہ حیات سے بچ نکلنے کی سعی کرتا ہے۔‘‘ (۱۴)
مقصد کے اعتبار سے طنز اور مزاح میں ناہمواریوں اور عدم توازن پر اظہارِ ناپسندیدگی ایک قدرِ مشترک ہے اس اعتبار سے یہ بات انشائیہ کے سلسلے میں ایک نیا زاویہ نظر مہیا کر تی ہے کہ انشائیہ ایک غیر مقصدی صنفِ ادب ہے۔ طنز و مزاح کے ذریعے جن جذبات کا اظہار کیا جا تا ہے انشائیہ میں یہ عناصر ان مقاصد کے ساتھ رچ بس نہیں سکتے۔ دوم یہ کہ برہمی یا بہجت کے جذبات طنزیہ مزاحیہ تحریر میں طنز و ظرافت کی شکل میں ایک ردِعمل کی صورت میں ظاہر ہو تے ہیں۔ جب کہ انشائیہ میں ان جذبات کی فقط عکاسی ہو تی ہے شاید ڈاکٹر وزیر آغا کے قول کے مطابق فاضل جذبے کے خارج ہونے اور صَرف ہونے کے مابین بھی یہی فرق ہے۔ اسی مختلف ردِّ عمل اور طریقہ کار کو سمجھانے کی غرض سے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
’’طنز میں ادیب ایک مصلح کا روپ اختیار کر لیتا ہے اور بقول ڈاکٹر وزیر آغا وہ فراز پر کھڑا ہو کر نشیب کی ہر چیز پر ایک استہزائی نظر ڈالتا ہے مزاح میں ادیب استہزا اور ہیئت کذائی کا خود نشانہ بنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ نشیب میں گر کر ناظر کے جذبہ ترحم کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ پہلے ناظر کے لبوں پر قہقہہ بیدار ہوتا ہے پھر دل کی کسی اندرونی گہرائی میں رحم کا جذبہ، انشائیہ میں ادیب ایک ہموار سطح پر ناظر کے دوش بہ دوش کھڑا ہو کر منظر سے تحصیل مسرت کرتا ہے اور اپنا ردِعمل بھی رواں دواں انداز میں بیان کرتا جاتا ہے۔‘‘ (۱۵)
ان تمام شواہد کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انشائیہ طنزیہ مزاحیہ مضامین سے قدرے مختلف چیز ہے۔ یہ عناصر انشائیہ میں جگہ تو پا سکتے ہیں لیکن ان کی حیثیت معاون قوت ہی کی طرح ہے نیزانشائیہ میں ان کا مقام بھی وہی ہے جو ان دیگر اجزا کا ہے جن کی شمولیت انشائیہ میں ممکن ہے مثلاً ڈرامائیت، افسانوی انداز، شاعرانہ احساس، فلسفیانہ تفکر وغیرہ، لیکن ان تمام یا کسی ایک عنصر کی موجودگی میں بھی انشائیہ انشائیہ ہی رہے گا نہ کہ ڈرامہ، افسانہ یا شاعری کہلائے گا۔ اسی طرح ان ہی اصناف میں اگر انشائیہ کی کو ئی خصوصیت در آئے تو محض اسی بنیاد پر اسے انشائیہ کے زمرے میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
ہمارے ہاں پائے جا نے والے اس تصور کے باوجود کہ مزاح یا طنز اور انشائیہ ایک ہی چیز ہے، انشائیہ کی فنی اور فکری تنظیم و تشکیل، شگفتگی اور شوخی کی متحمل تو ہو سکتی ہے مگر اس کا وجود لازمی نہیں ہے۔ انشائیہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین سے قطعی مختلف قسم کے مزاج، طریقہ کار اور تاثر کو جنم دیتا ہے۔ اسی لیے ان دونوں کے درمیان واضح حدِّفاصل موجود ہے۔
انشائیہ کا فن
انشائیہ زندگی اور کائنات کی تفہیمِ نو سے عبارت ہے۔ اس میں پایا جانے والا موضوعات کا تنوع اور آزادانہ تفکر زندگی کی رنگا رنگی اور وسعتوں کو سمیٹنے کی ایک سعی ہے۔ جمود، بے حسی اور فر سودگی سے جو موت کی علامت ہے انشائیہ براْت کا اظہار کرتا ہے۔ ہرشام دنیا کے مزید ایک دن پرانا ہو جانے کی خبر دیتی ہے، وہیں ہر صبح اس کے نشاۃ ثانیہ کا اعلان بن کر نمودار ہوتی ہے۔ انشائیہ نئے لمحات میں ڈھلتی ہوئی زندگی کا آئینہ ہے، ہر لمحہ بدلتی ہو ئی اس دنیامیں ہماری نظر انقلابات کی سیڑھیاں پھلانگتی ہو ئی دنیا کا تعاقب کرنے اور پلکوں پر گرتی ہو ئی برف ہٹانے سے قاصر ہے۔ ہم ان چیزوں کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ یہ انقلابات ہمارے لیے اب حیرت افزاہیں نہ مسرت بخش، حتیٰ کہ ان کا احساس بھی ہمیں چھو نہیں پاتا۔ انشائیہ نگار ان تمام مردہ آوازوں کو زندگی عطا کرتا ہے۔ ہمارے احساس کے خرابے میں دھندلائے ہوئے عکس انشائیہ اور کائنات کی کی تخلیقِ نو کے ذریعے ظہور پذیر ہو تے ہیں۔ ظاہر ہے یہ نازک کام زبردست قسم کی ہنر مندی کے بغیر ممکن نہیں اسی لیے کہا جاتا ہے کہ انشائیہ نگاری ایک مشکل فن ہے۔
انشائیہ نگاری اپنے متنوع موضوعات، اسالیب اور گوناگوں دلچسپیوں کے باوصف ادب کی مختلف اصناف کے رنگوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ اسی لیے ادبی اظہار کے مختلف پیرایے انشائیہ کی جھلکیاں پیش کر تے ہیں۔ یہ صنف انشائیہ نگار سے بھی شخصیت کی رنگارنگی اور زبردست قسم کی ہنرمندی طلب کر تی ہے۔ انشائیہ میں ان خوبیوں کے علاوہ سب سے اہم چیز اس کا تخلیقی فن پارہ ہونا ہے، بقول ڈاکٹر وزیر آغا:
’’لفظ انشاء طرزِتحریر کی تخلیقی سطح کی نشان دہی کرتا ہے، لازم ہے کہ اس کا اسلوب بھی تخلیقی سطح کے محاسن کا آئینہ دار ہو۔‘‘ (۱۶)
انشائیہ میں انشائیہ نگار کا اسلوب اور فکر بھی اس لیے اہمیت رکھتے ہیں کہ انشائیہ متنوع عناصر کے حسنِ توازن کے نتیجے میں خلق ہوتا ہے۔ بعض اوقات کسی ایک عنصر کی خامی انشائیہ کو اس معیار سے نیچے گرا دیتی ہے۔ آزادانہ تفکر اور زندگی کے متعلق کسی انوکھے پہلو کا اظہار مجموعی طور پر انشائیہ کی امتیازی خصوصیت قرار دی گئی ہے۔ بقول رابرٹلِنڈ:
’’انشائیہ انسانی فطرت کے کسی نیم تاریک گوشے کو منوّر کرنے کی ایک سعی ہے۔‘‘
اگر انشائیہ اس مقصد کو پورا نہیں کرتا تو بحیثیت ایک انشائیہ اپنے وجود کا جواز پیش کرنے سے قاصر ہے۔ انشائیہ اپنے موضوع کے ان پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل تھے جیسے ماچس کی تیلی اپنے اطراف کو منّور کر دیتی ہے اسی طرح انشائیہ بھی موضوع کو نئی روشنی کے ساتھ پیش کر کے مسرت بہم پہنچا تا ہے۔ یہی مسرت اور لطف اندوزی انشائیہ کا حاصل ہے اس کے برعکس طنزیہ و مزاحیہ تحریروں سے حاصل ہونے والامسرت کا احساس جدا گانہ ہے۔
انشائیہ میں نئے مفاہیم کی دریافت کے طریقہ کار کو بیان کر تے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
’’انشائیہ دوسرے کنارے کو دیکھنے کی ایک کاوش تو ہے، مراد محض یہ نہیں کہ آپ دریا کا پل عبور کر کے دوسرے کنارے پر پہنچیں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔ اپنی جگہ یہ بات بھی غلط نہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ جب آپ دوسرے کنارے پر پہنچتے ہیں تو آپ کا ہر روز کا دیکھا بھالا پہلا کنارہ دوسرا کنارہ بن کر آپ کے سامنے ابھر آتا ہے۔ اب آپ اسے حیرت اور مسرت کے ساتھ دیکھنے لگتے ہیں جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ انشائیہ نگار یہی کچھ کرتا ہے۔ وہ شے یا مظہر کو سامنے سے دیکھنے کے بجائے عقب سے اس پر ایک نظر ڈالتا ہے اور اس کی معنویت کو گرفت میں لے لیتا ہے جو ہمہ وقت ایک ہی مانوس زاویہ سے مسلسل دیکھنے کے باعث اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔‘‘ (۱۷)
انشائیہ در اصل اندرونی طور پر ایک ایسے نظام کو پیش کرتا ہے جس میں غضب کی لچک اور بے پناہ امکانات ہیں۔ انشائیہ حقائق کے اظہار میں نہ صرف ندرت کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ انگریزی اور اردو کے انشائیوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ انشائیہ نگار کا اس معاملہ میں اپنا طریقہ کار ہے۔ مثلاً انشائیہ نگار مضمون نگار کی طرح حقیقت کی مکمل وضاحت ہر گز نہ کرے گا بلکہ نشاندہی اور مزید بہتر انداز اپنا کر آپ کے ذہن کو ایک نئی وادیِ خیال میں چھوڑ دے گا اس کے علاوہ فلسفیانہ تفکر کو بروئے کار لائے گا مگر اس کی سنگلاخی اور خشکی کو منہا کر دے گا۔ منطق کی قطعیت سے گریزاں ہو کر اپنی لطیف منطق ایجاد کرے گا جو فلسفیانہ منطق کے بر عکس شگفتگی اور شوخی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے، اس لحاظ سے انشائیہ میں کیا طریقہ کار اپنا یا جا تا ہے۔ اس ضمن میں مشکور حسین یاد لکھتے ہیں:
’’انشائیہ صرف منطق پر آکر رک نہیں جاتا وہ اس سے بھی آگے جانا چاہتا ہے اور جاتا بھی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم زندگی کی صداقتوں کو محض منطق کے بل بوتے پر حاصل نہیں کر سکتے۔ سچائی کی راہ میں منطق ہمیں ایک خاص منزل پر لا کر خود آگے چلنے سے انکار کر دیتی ہے۔ کسی ایک صداقت کے بہت سے رخ آپ کو ایک انشائیہ میں نظر آ سکتے ہیں۔ شاید اس کا ایک ہزارواں حصہ بھی منطق میں نظر نہیں آ سکتا اور یوں انشائیہ کی منطقی صورت خالی پھیکی منطق کی صورت سے کہیں بڑھ کر صداقت ساماں اور صداقت افروز ہو تی ہے۔‘‘ (۱۸)
دیگر اصناف کی بہ نسبت انشائیہ کی تنظیم اس کے مختلف عناصر میں اس کے اسلوب سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔ انشائیہ میں craftsmanshipکے علاوہ شخصیت کا اظہار فطری طور پر راہ پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انشائیہ منفرد اسلوب میں نمودار ہوتا ہے۔ انشائیہ کے فن کی طرح اسلوب کا معاملہ بھی حد درجہ نازک ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’انشائیہ کے اسلوب میں جو لچک ملتی ہے اس کی بنا پر دیگر اصناف کے اسلوب سے بھی بقدرِظرف استفادہ کیا جا سکتا ہے لیکن سلیقہ اور احتیاط کے ساتھ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذراسی بے احتیاطی یا فنّی چوک کے نتیجے میں انشائیہ کا اسلوب اس رس سے محروم ہو جائے گا جو اس کا جوہر سمجھا جا تا ہے اور جس کے بغیر انشائیہ محض ایک روکھا پھیکا نثر پارہ بن کر رہ جا تا ہے۔‘‘ (۱۹)
انشائیہ میں پائی جانے والی لطافت اور تخیل آفرینی بعض اوقات انشائیہ کو غنائیت کی حدود میں داخل کر دیتی ہے اور انشائیہ کی زبان نثر اور نظم کی سر حد پر وجود میں آتی ہے۔ اس پہلو پر غور کریں تو یہ بات آئینہ ہو جاتی ہے کہ انشائیہ میں پائی جانے والی نثری اور شعری زبان کی خصوصیات در اصل اس کا حسن ہی نہیں اس کی ایک بہت بڑی طاقت بھی ہے۔
ایک انشائیہ اور غزل کے ایک شعر میں ہمیں گہری مماثلت محسوس ہوتی ہے، اس کی وجہ دونوں میں فنکار کا وہ شخصی اظہار ہے جس کے توسط سے وہ اپنے دل کی بات اور منفرد محسوسات ہم تک پہچانا چاہتا ہے اور اس کا وہ تپیدہ جذبہ اظہار کی سعی میں غنائیت کی سرحدوں کو چھو کر دیگر اصناف سے ممتاز پیرایہ اختیار کر لیتا ہے۔ انشائیہ میں ہمیں اسی منفرد زبان و اسلوب کے نقوش ملتے ہیں۔
نثر کی خصوصیت وضاحت اور تفصیل کا پیش کرنا ہے اس کے برعکس شاعری ایجاز و اختصاراور رمز و کنایہ کو بروئے کار لا کر اپنا مطلب ادا کر تی ہے۔ غرض انشائیہ ان دونوں خصوصیات سے بھر پور استفادہ کر کے حقائق کا فنی اظہار کرتا ہے اسی سے مماثل عنصر، فلسفیانہ تفکر اور منطق بھی ہے۔ ان عناصر کو بھی انشائیہ اظہاری قوت کے طور پر اپنے انداز سے استعمال کرتا ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انشائیہ کا فن پر پیچ و نازک ہونے کے علاوہ فطری سادگی اور پر کاری کا مظہر ہے۔ با ایں ہمہ انشائیہ نگاری اپنے دامن میں لا محدود امکانات سمیٹے ہوئے ہے اور زبردست قسم کی فنکاری اور ہنرمندی سے عبارت ہے۔
حواشی
۱۔ فضیل جعفری، زخم اور کمان، بمبئی، ۱۹۸۵ء، ص: ۱۸
۲۔ مشکور حسین یاد، ممکناتِ انشائیہ، لاہور، ۱۹۸۳ء، ص: ۵۳
۳۔ احمد ندیم قاسمی، انشائیہ اور اہلِ قلم، مشمولہ: انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص: ۳۷۱
۴۔ ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص: ۳۸۴
۵۔ W. H. Hudson, An Introduction to the study of literature, Page 331, London,1558.
۶۔ سجادباقر رضوی، انشائیہ اور اہلِ قلم، مشمولہ: انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، لاہور، ص: ۳۷۳
۷۔ انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص: ۳۷۳
۸۔ ڈاکٹر وزیر آغا، انشائیہ کا سلسلہ نسب، مشمولہ: تنقید اور مجلسی تنقید، نئی دہلی، ۱۹۸۲ء، ص: ۵۱
۹۔ ظہیر الدین مدنی، اردو ایسز، ص: ۲۵
۱۰ٰ۔ صنف انشائیہ اور انشائیے، ڈاکٹر سید محمد حسنین، لکھنو، ۱۹۷۳ء، ص: ۱۵
۱۱۔ انیس ناگی، بحوالہ: انشائیہ کی بنیاد، ڈاکٹر سلیم اختر، ۱۹۸۶ء، ص: ۳۶۵
۱۲۔ ڈاکٹر وزیر آغا، انشائیہ کا سلسلہ نسب، مشمولہ: تنقید اور مجلسی تنقید، نئی دہلی، ۱۹۸۲ء، ص: ۵۳
۱۳۔ کلیم الدین احمد ، اردو میں طنز و ظرافت، مشمولہ: طنز و مزاح۔ تاریخ و تنقید، مر تّبہ: طاہر تونسوی، دہلی، ۱۹۸۶ء، ص: ۲۷
۱۴۔ ڈاکٹر وزیر آغا، اردو ادب میں طنز و مزاح، نئی دہلی، ۱۹۷۸ء، ص: ۲۴
۱۵۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو انشائیہ، مشمولہ: ذکر اس پری وش کا، سرگودھا، ۱۹۸۲ء، ص: ۳۰
۱۶۔ انشائیہ کے خد و خال،ڈ اکٹر وزیر آغا، ص: ۱۴
۱۷۔ ڈاکٹر وزیر آغا، دوسرا کنارہ، سر گودھا، ۱۹۸۲ء، ص: ۱۵
۱۸۔ مشکور حسین یاد، ممکناتِ انشائیہ، لاہور، ۱۹۸۳ء، ص: ۹۵-۹۹
۱۹۔ ڈاکٹر سلیم اختر، انشائیہ کی بنیاد، لاہور، ۱۹۸۶ء، ص: ۲۴۵
٭٭٭