(Last Updated On: )
انشاء کی انکھ سے کچھ آنسو گرے ۔۔۔ جنہیں صاف کرتی وہ صوفے پر بیٹھ گئی کیونکہ دل بوجھل ہورہا تھا ۔۔۔
کچھ دیر میں وہ تیار ہونے لگا ، وہ محسوس کررہی تھی اسے چلنے میں دقت ہورہی ہے ۔۔۔
انشاء کو فکر ہورہی تھی اس کی کہ وہ سیڑھیوں سے کیسے اترے گا ۔۔۔
اسی وقت دروازے پر ناک ہوا ۔۔۔ انشاء سے پہلے عیان نے کہا ۔۔۔
“آجاؤ ۔۔۔ بالوں میں برش پھیرتا پھر اسپرے کرتے ہوۓ اس نے کہا تھا ۔ وہ اسے دیکھے جارہی تھی پر وہ لاپرواہ بنا رہا ۔۔۔
اسی وقت رحیم اندر ایا اس کے ہاتھ میں اسٹک تھی ، “سر یہ اسٹک اپنے منگوائی تھی ۔۔۔
“شکریہ رحیم ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“سر اگر مناسب لگے تو میں اپ کو سہارا دے کر نیچے تک لے چلوں ، سیڑھیوں سے اترنا خطرے سے خالی نہیں سر ۔۔۔
رحیم کے لہجے میں اپنے مالک کے لیۓ فکر تھی ۔۔۔ انشاء حیران تھی کہ ایک ملازم بھی اس کے لیۓ اتنی فکر رکھتا ہے ۔۔
“نہیں رحیم میں مینج کرلوں گا ۔۔۔ کیونکہ عارضی سہاروں کی عادت نہیں ڈالنی چاہیۓ انسان کو ، اپنی مدد آپ کی کہاوت کو مانتا ہوں ۔۔۔
“جی سر ۔۔۔ رحیم نے کہا ۔۔۔
کہا رحیم کو تھا پر ایک سلگتی نظر انشاء پر ڈالنا وہ نہ بھولا تھا ۔۔۔ انشاء نے خود کو اک عجیب اگ میں جلتا ہوا محسوس کیا ۔۔
اب وہ خود اپنی کیفیت پر حیران تھی کہ اسے کیوں اتنی تکلیف ہو رہی ہے عیان کے اس رویۓ پر ۔۔۔
وہ اسٹک کے سہارے جانے لگا رحیم نے بریف کیس لے لیا اس سے دوقدم پیچھے چل رہا تھا ۔۔۔ انشاء اسے جاتا دیکھتی رہی ۔۔۔
@@@@@@
سارا دن بولائی پھرتی رہی گھر پر کسی کام میں اسے سکون نہیں مل رہا تھا ۔۔۔
نیکسٹ ویک عید تھی ۔۔۔ پر کسی قسم کی تیاری نہیں کی تھی اس نے ۔۔
“کیا بات ہے انشاء کوئی ہریشانی ہے ۔۔۔ زینب بی نے اسے دیکھا ۔۔
“نہیں زینب بی کوئی بات نہیں ۔۔۔ انشاء نے ان کو ٹالا ۔
“پر بیٹی ، مسئلے بتانے سے حل ہوتے ہیں ۔۔۔ کچھ بتاؤ گی تو ہی کچھ حل نکلے گا ۔۔۔
ان کے لہجے میں فکر تھی ۔۔۔
“کچھ نہیں ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
“حیدر بھائی ہوتے تو خود ہی تم سے پوچھ لیتے ۔۔۔ زینب بی نے کہا ۔ وہ اس کے چہرے کے بدلتے تاثرات کو اچھی طرح محسوس کررہی تھیں ۔۔
“سہی کہے رہیں ہیں اپ زینب بی باباجان ہوتے تو اس طرح نہ ہوتا جو اب تک ہورہا تھا ۔۔۔ اتنی اکیلی نہ ہوتی میں ۔۔۔ انشاء نے دکھ سے سوچا اور جلدی سے صوفے سے اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف چلی گئی ۔۔۔
زینب بی اسے جاتا دیکھتی رہیں اور کہا ۔۔۔
“جانے کس کی نظر لگ گئی ہے اس گھر کی خوشیوں کو ۔۔۔ سارے گھر کو غم نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
انہوں نے افسوس سے سوچا ۔۔۔
@@@@@@@
وہ کمرے میں اکر پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔۔ سمجھ نہیں ارہا تھا کس بات پر اتنا رونا ارہا ہے ۔۔ کچھ دیر رونے کے بعد خود کو سنبھال کر کچھ سوچ کر اٹھی اور جلدی سے الماری سے اچھا سوٹ نکالا اور واشروم میں چلی گئی ۔۔
فریش ہوکر انے سے اعصاب ہر اچھا اثر پڑا تھا ۔
جلدی سے خود کو بلیک سوٹ میں دیکھا جو اس کی گوری رنگت پر سج رہا تھا ۔ دل سے تیار ہونے لگی ۔۔۔
ادھے گھنٹے بعد خود کو دیکھا بلیک سوٹ پر سلور جیولری پہنے اور ہلکہ میک اپ کرکے وہ انتہائی حسین لگ رہی تھی ۔۔۔
“ہممننممم اب سہی ہے ۔۔۔ وہ مطئمن ہوئی خود سے ۔۔۔ سلور بینگل اور واچ پہن کر ۔۔۔
@@@@@@
زینب بی حیران ہوئی انشاء کو سیڑھیوں سے اترتا دیکھ کر ۔۔۔
“ماشاء اللہ ۔۔۔ اللہ نظر سے بچاۓ ۔۔۔ اب لگ رہی ہو عیان کی دلہن ۔۔۔
وہ ان کی اس بات پر شرما گئی ۔۔۔
“آج تو تمہیں دیکھ کر عیان خوش ہوجاۓ گا ۔۔۔
انشاء خود حیران تھی وہ یہ سب کیوں کررہی ہے ۔۔۔ زینب بی کا عیان کی دلہن کہنا اسے برا بھی نہیں لگا تھا ۔
“شکریہ زینب بی ۔۔۔ انشاء نے مسکرا کر کہا ۔۔
“رکو نظر اتاروں تمہاری ۔۔۔ زینب بی جلدی سے مرچوں سے اس کی نظر اتارنے لگیں ۔۔
“میں نماز پڑھ کے اتی ہوں ۔۔۔ زینب بی نے کہا ۔۔۔
“جی ٹھیک ہے ۔۔۔ انشاء نے کہا ۔۔۔
اب وہ بے صبری سے عیان کا ویٹ کرنے لگی ۔
وہ کبھی ٹہلتی تو کبہی بیٹھ جاتی بےصبری سے ۔۔۔ شاید وہ عیان کے چہرے کے رنگ دیکھنا چاہ رہی تھی ۔
آخر ادھے گھنٹے کے بعد عیان اگیا وہ بلکل دروازے کے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔
اسی وقت زینب بی بھی کمرے سے نکلیں ۔۔۔
“السلام علیکم زینب بی ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔ انشاء کو اگنور کرتا اس کے پاس سے گزر کر صوفے پر بیٹھ گیا ، سامنے اتی زینب بی سے کہا ۔۔۔
“وعلیکم سلام عیان بیٹے ۔۔۔ کیسا گزرا دن ۔ انہوں نے ہوچھا ۔۔۔
“زبردست زینب بی ، ایک کام کریں گی ۔۔ عیان نے کہا اور پھر پوچھا ۔۔۔
“ہان کہو بیٹے۔۔۔ انہوں نے اجازت دی ۔۔۔
“میرا ایک شلوار سوٹ لائیں گی کمرے سے ۔۔۔ اوپر جاؤں گا پھر تکلیف ہوگی اترنے میں اس لیۓ یہیں بابا کے روم میں چینج کرلوں ۔
عیان نے تفصیل سے اپنی بات کہی ۔۔۔ جو اس کی عادت کم ہی تھی ۔۔۔
انشاء حیران ہوئی اس کے اس طرح اگنور کرنے پر ۔ ۔ پر خود پر ضبط کرتے ہوۓ انشاء نے جلدی سے کہا ۔۔۔
“میں لادیتی ہوں زینب بی کو تکلیف ہوگی ۔۔۔
” تمہیں زیادہ تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہے زینب بی لے کر آ جائیں گی ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
وہ کچھ کہنے کے لئے لب کھولنے والی تھی عیان نے دوبارہ کہا ۔۔۔
“وسیم ( کک) جلدی چاۓ لاؤ ، پھر مجھے نکلنا ہے ۔۔۔
“جی سر ۔۔ کچن سے باہر اکر وسیم نے کہا ۔۔۔
انشاء کو شدید بےعزتی محسوس ہوئی پر زینب بی کی ہمت نہ ہوئی کچھ کہنے کی عیان سے ۔۔۔ ان کو اندازہ ہوگیا عیان کسی بات پر شدید خفا ہے انشاء سے ۔۔۔
اس طرح کی ناراضگی کے دوران میاں بیوی کے بیچ میں بولنا سہی نہیں ہے ۔۔۔ اس لیۓ ان کو اپنا خاموش رہنا مناسب لگا ۔۔۔ وہ سیڑھیان چھڑتی اوپر جانے لگیں ۔۔۔ عیان کے کپڑے لینے کے لیۓ ۔۔۔ ویسے بھی یہ کام پہلے بھی وہ عیان کے لئے کرتی رہتی تھیں ۔۔۔
@@@@@@
کچھ دیر میں ملازم نے چاۓ لاکر دونوں کے سامنے رکھی ۔۔۔
زینب بی عیان کے کپڑے بابا کے کمرے میں رکھ چکی تھیں ۔
یوں تو وہ اکثر ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی لیتی تھیں ۔۔ پر اج ان کو مناسب نہ لگا اس لیے وہ عیان کے کپڑے رکھ کر اپنے کمرے میں واپس چلی گئیں ۔۔۔ تاکہ تنہائی میں وہ ایک دوسرے سے کچھ بات کر سکیں ۔۔۔
عیان سکون سے چائے پی رہا تھا ۔۔۔ انشاء کی آنکھیں پانی سے بھرنے لگیں ۔۔۔
” ویسے پوچھنا تو مجھے نہیں چاہیے پھر بھی پوچھ لیتا ہوں کیا کوئی گیسٹ آنے والا ہے جو اتنی تیاری کی ہوئی ہے ۔۔۔ اس کا اشارہ اس کی سج دھج کی طرف تھا ۔۔۔
اس کی چپ کو دیکھتے ہوئے عیان نے ایک اور طنز کیا۔۔
” اور یقینا میرے لیے تو تم نے یہ تیاری کی نہیں ہوگی ۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اسی وقت عمر آگیا ۔۔۔
دونوں کو سلام کیا اس نے بیک وقت ۔۔
دونوں نے جواب بھی دیا ۔۔
” کیا بات ہے عیان۔۔ کہیں بھابھی نے تمہارے ساتھ باہر جانے کے لیے تو نہیں پلان بنایا ہوا جو اتنا تیار ہو کر بیٹھی ہیں ۔۔
وہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوۓ کہا ۔۔
یعنی اس کی تیاری کو عمر بھی محسوس کرگیا ۔ انشاء کو شدید سبکی کا احساس ہوا ۔۔۔
” ارے بھابھی مذاق نہیں کر رہا سچ کہہ رہا ہوں اگر ایسی کوئی بات ہے تو میں چلا جاتا ہوں ۔۔۔ ہم دوست پھر کبھی گیٹ ٹو گیدر کر لیں گے باہر فی الحال آپ لوگ انجوائے کریں۔۔۔
عمر جو سمجھ ایا وہ کہے رہا تھا کیونکہ جو بھی انشاء کو اس طرح دیکھتا شاید یہی سمجھتا کہ وہ کہیں باہر جانے کے لیۓ تیار ہوئی ہو ۔
“ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔ عیان نے جلدی سے کہا جبکہ انشاء سے کچھ بولا ہی نہیں جارہا تھا شرمندگی کے مارے ۔۔۔
خود کو سنبھال کر انشاء نے کہا ۔۔۔
“ایسی کوئی بات نہیں عمر بھائی ۔۔۔ بس ویسے ہی تیار ہوئی تھی ۔۔ اپ بیٹھین میں چاۓ لاتی ہوں ۔۔ کچھ اور نہ سوجھا تو چاۓ کی بات بنالی ۔۔۔
“ارے نہیں بھابھی اس کی ضرورت نہیں ۔۔۔ ہمیں نکلنا ہے ۔۔۔ عمر نے روکا اسے ۔
“اب جا چینج کرکے جلدی آؤ چلنا ہے ۔۔ عمر نے عیان سے کہا ۔۔۔
“ہممم ، تم بیٹھو میں ایا پانچ منٹ میں ۔۔۔ عیان اتنا کہے کر اٹھنے لگا ۔۔
“نازیہ بھابھی اور بچوں کو لاتے ، تو اچھا ہوتا ۔۔۔ انشاء نے کہا کچھ دیر بعد ، شاید اپنی شرمندگی کا احساس ختم کرنے کے لیۓ وہ بولی ۔۔۔
“مجھے پتا ہوتا اپ یاد کررہی ہیں تو ضرور لاتا ۔۔۔ عمر نے احترام سے کہا ۔۔۔
“اگلی مرتبہ آئییں تو ضرور لے کر آئیۓ گا ۔۔۔ انشاء نے خلوص سے کہا ۔۔۔
“ضرور بھابھی ۔۔۔ عمر نے بھی اسی خلوص سے کہا ۔۔۔
کچھ دیر میں عیان ایا اور وہ دونوں چلے گۓ ۔۔۔ بغیر سوچے سمجھے وہ دروازے تک آئی ۔۔۔ عمر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ عیان ا گے بیٹھا ۔۔اور جب تک گاڑی نظر سے اوجھل نہیں ہوئی ان کو جاتا دیکھتی رہی انشاء ۔۔۔
@@@@@@
تھوڑا اگے جاکر عمر نے اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارا اور کہا ۔۔۔
“یہ کیا تھا عیان ۔۔۔ عمر نے ضبط سے کہا ۔۔۔
“کیا کیا تھا ۔۔۔ کس کی بات کررہے ہو ۔۔۔ عیان دائیں بائیں دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔۔
” تو اچھی طرح سمجھ رہا ہے نا میں کیا کہہ رہا ہوں ۔۔۔ عمر نے انکھیں دکھائیں ۔۔۔
وہ سامنے دیکھتا رہا اتی جاتی گاڑیوں کو ۔۔۔
“جو ابھی گھر پر ہوا وہ کیا تھا ۔۔۔ عمر نے دانت کچاۓ اس کی ڈھٹائی پر ۔۔۔
“مجھے کیا پتا کیا ہوا تھا ۔۔۔۔ کیونکہ میرے سامنے تو کچھ نہیں ہوا ۔۔۔ عیان نے شانے اچکاتے ہوئے کہا ۔۔
” آوہ تو میری بلی مجھ سے میاؤں ۔۔۔۔ عمر نے چڑتے ہوۓ کہا ۔۔۔ ” کتنا ڈھیٹ ہوگیا تھا عیان ۔۔۔ اس نے سوچا ۔۔۔
” کم آن یار میں بلی نہیں بلا ضرور ہو سکتا ہوں ۔۔۔ عیان نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔
“بہت فنی ہوگۓ ہو ۔۔۔ بھابھی تمہارے لیۓ تیار ہوکر بیٹھی تھیں اور تم نے سراہایا بھی نہیں ہوگا یقینن اہ کے تاثرات بتارہے ہیں ۔۔ دروازے تک آئیں تم نے اللہ حافظ تک نہ کہا ۔۔۔ یہ کونسا طریقہ ہے ۔۔۔ اب بتاؤ تم نے کہا نہیں اب میں بھابھی کو اللہ حافظ کہتا اچھا لگتا ۔۔۔
عمر نے غصے سے کہا ۔۔۔ اسے واقعی برا لگ رہا تھا انشاء کے لیۓ ۔۔
“چھوڑ دو اسے اس کے حال پر ، اس کا پتا نہیں چلتا کب کس بات کو کیا رنگ دے دے میں نے تو بس توبہ کرلی عورت ذات میری سمجھ سے باہر ہے ۔۔۔ عیان نے نارملی کہا تھا پر عمر اسے افسوس سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
” تمہیں تو شاید یہ بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ دروازے پر کب تک کھڑی رہیں تھیں جب تک گاڑی ٹرن نہیں ہوئی وہیں تھیں وہ ۔۔۔
“ہان مجھے پتا ہے میں نے دیکھا تھا ۔۔۔ پر عورت کے ان ڈراموں پر میں بھروسا نہیں کرتا اب ۔۔۔ عیان نے دوٹوک کہا ۔۔
” ایک بات تم سے بھی کہۓ رہا ہوں آئندہ کے بعد کبھی بھی تم میری اور انشاء کی زندگی پر تبصرہ نہیں کرو گے ۔۔۔
اب کے عیان نے اسے وارن کیا ۔۔
“یہ تم مجھ سے کہہ رہے ہو ۔۔۔ وہ شاک ہی ہوا تھا ۔۔۔
“ہاں تم سے ہی کہہ رہا ہوں پہلے ہی تمہارے ایک مشورے پر عمل کر کے کسی کا مجرم بن بیٹھا ہوں اب پلیز کوئی دوسرا فضول مشورہ مت دینا ۔۔۔
عمر تو حیران پر حیران ہوتا رہا اس کی باتوں پر ۔۔۔ ایسا لگتا تھا عیان کی باتوں نے اس کی زبان تاڑو سے لگا دی تھی ۔۔۔
” پلیز عمر یار شاک سے باہر نکل آؤ ، گاڑی پر توجہ دو پہلے ہی ایک ایکسیڈنٹ سے ابھی مکمل سنبھلہ نہیں اور تم دوسرا کرنے کے چکر میں نہ پڑ جاؤ ۔۔ پلیز ڈرائیونگ پر توجہ دو ۔۔۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو ۔۔۔
عمر واقعی شاک ہی ہوا تھا اور عیان نا کہتا تو شاید وہ اپنی توجہ ڈرائیونگ پر دوبارہ نہ کرتا ۔۔۔
عیان نے ضبط سے ہونٹ بھینچے ہوۓ تھے ۔۔۔ شاید واقعی وہ کسی گہرے درد سے گزر رہا تھا .. “کتنا بےخبر رہا میں ۔۔۔ عمر نے سوچا ۔۔۔
“ہماری زندگی کبھی نارمل نہیں ہوسکتی عمر اور اب نہ ہی میں کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ اک ایسے رشتے میں بابا جان نے مجھے جکڑا ہے جو بےمعنی سا ہے جو سواۓ اذیت کے کچھ نہیں ہم دونوں کے لیۓ ۔۔ اور واقعی کوئی تعلق ایک طرفہ نہیں نبھایا جا سکتا اسے دونوں طرف سے ہی نبھانے کی جستجو ہونی چاہیے۔۔ میں تھک گیا ہوں میرے یار ۔۔
ایک لمحے کو رک کر سانس لے کر دوبارہ کہا عیان نے ۔۔۔
“میں نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس نے مجھے شدید اذیت سے دوچار کیا ہو پر اب ایسی اذیت سے گزر رہا ہوں اج کل ۔۔۔ میرے لیۓ مشکلیں نہ بڑھاؤ ۔۔۔ ایسا نہ ہو میان بیوی کے رشتے میں فیل ہونے بعد اب جان سے پیارا دوست کھو دوں پہلے ہی ایک بھائی جدا ہوچکا ہے میرا ۔۔۔ کاش میرے درد کو کوئی سمجھ سکے میں کس تکلیف میں ہوں مرد ہوں رو نہیں سکتا ورنہ میں نے بھی بھائی کھویا ہے جسے بیٹے کی طرح چاہتا تھا ۔۔۔
“اور وہ سمجھتی ہے صرف وہی دکھی ہے دنیا میں سارے درد اسے ہی ہیں جیسے ہم تو بہت خوش ہیں نا ۔۔۔ بابا جان بھی تو اسی وجہ سے دور گۓ ہیں کیونکہ اس درد سے نکلنے کا اس سے بہتر آپشن کوئی نہ لگا ان کو ۔۔۔ کاش وہ بھی ہمارے درد کو سمجھتی تو اج حالات الگ ہوتے ۔۔۔ میں نے اور بابا نے اپنا درد بھلا کر اس کا احساس کیا اور وہ بےوقوف ہمیں پتھر کا سمجھ ہی بیٹھی ہے ۔۔۔ اتنی بےخبر کیوں ہے وہ اتنا انجان کیوں بن رہی ہے ۔۔۔
عمر کو اندازہ ہوا وہ کس اذیت سے گزرہا ہے ۔۔۔
“سوری یار ۔۔۔ عمر نے کہا ۔۔۔ وہ اس وقت کچھ کہنے کی پوزیشن میں رہا ہی نہیں اسی لیے چپ چاپ ڈرائیونگ کرنے لگا ۔۔۔
“اٹس اوکے ۔۔۔ بس اب اس ٹاپک پر بات نہیں ہوگی ۔۔۔
“ہمممم ۔۔۔ عمر نے کہا ۔۔۔ آج پہلی دفعہ عیان نے عمر کو لاجواب کر دیا تھا ۔۔۔۔
” بس ٹھیک ہے اپنا موڈ درست کرو عمر ۔۔۔ عیان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا ۔۔۔
عیان اچھی طرح سمجھ رہا تھا کتنا حساس تھا اس کے بارے میں اس لیۓ عیان نے اسے ریلکس کرنا چاہا ۔۔
ایسے ہی تھے دونوں اور ایسی تھی ان کی دوستی ۔۔۔۔ ایک دوسرے کا درد اندر تک محسوس کرنا اور ایک دوسرے کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا۔۔۔ ابھی بھی عیان خود کو بھول کر عمر کی فکر میں ہلکان تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اس کا دوست کتنا ریگریٹ کررہا ہوگا اپنے دیۓ مشورے پر ۔۔۔ اور وہ عمر کو اس ریگریشن سے نکالنا چاہ رہا تھا ۔۔۔
@@@@@@@@
پھر واقعی عیان کا عجیب رنگ دیکھا انشاء نے ۔۔۔ جو بلکل لاپرواہ اور بےفکر ہوگیا تھا اس کی طرف سے ۔ نا اسے اپنے کسی کام کے لئے کہتا تھا نہ اس سے بات کرتا تھا ۔۔ اک چپ اور خاموشی دونوں کے بیچ آ گئی تھی۔۔۔۔
اس دیوار کو انشاء چاہ کر بھی گرا نہیں پارہی تھی ۔۔
آخرکار اسی کشمکش میں عید کا دن اگیا ۔۔
کل باباجان نے عید منائی تھی سعودی میں ۔۔ کل خیر خیرات عیان نے بھی کروائی تھی اور غریبوں میں کھانا بانٹا گیا ۔۔۔
آج بےانتہا اداس تھی صرف سرد لہجے میں عیان نے اسے وش کیا جس کا جواب اس نے دیا ۔۔ اس سے زیادہ بات چیت کرنے کا عیان اس سے روادار نہ تھا ۔۔۔۔ وہ گھر سے باہر جا چکا تھا ناشتہ کر کے ۔۔ کیونکہ قربانی جو کروانی تھی ۔
انہیں سوچوں میں گم تھی موبائل کی رنگ ہوئی ۔۔
موبائل پر باباجان کی کال اتے دیکھ کر بےانتہا خوش ہوئی ۔۔
وڈیو کال ریسوو کی ۔۔۔ سلام دعا اور عید وش کے بعد باباجان نے کہا ۔۔۔
“کیسی ہے میری بیٹی ، کیوں اتنی اداس لگ رہی ہے۔۔ ان کے لہجے میں بہت پیار تھا اس کے لیۓ ۔۔
“آپ کی یاد ارہی ہے باباجان ۔۔ انشاء نے اداس لہجے میں کہا ۔
” وہ تو ہے پر کمزور کیوں لگ رہی ہو ۔۔ کیوں عیان خیال نہیں کرتا تمہارا آنے دو پھر اس کی خبر لیتا ۔ ان کے انداز پر اس کی انکھین نم ہونے لگیں ۔۔ کتنی محبت تھی انہیں اس سے ۔ جو اپنے بیٹے سے زیادہ اس کا خیال تھا ان کو ۔
“ایسی لازوال محبت تو نصیب سے ملتی ہے ۔۔۔ انشاء نے سوچا ۔۔۔
“نہیں باباجان پلیز ان سے کچھ نہ کہیں ۔۔ بس اپ کب ارہے ہیں اتنا بتائیں ۔۔ انشاء نے جلدی سے کہا ۔۔۔
“فی الحال یہیں ہوں ، دوست کے ساتھ اگے گھومنے کا پلان بنا ہے ۔۔۔ کچھ ہسٹورک پلیسز گھومنے کا ۔ ترکی اٹلی اور روم ۔۔۔
“واٹ ۔۔۔ نہیں باباجان ، اور دوری اپ کی کیسے برداش ہوگی ۔۔۔ انشاء بے بےساختہ کہا ۔۔۔ وہ گم صم ہی ہوگئی ان کا پروگرام سن کر ۔۔۔
“تم اور عیان ہونا ایک دوسرے ساتھ مجھے فکر نہیں اب ۔۔۔
انہوں نے پیار سے کہا ۔
“جی باباجان ۔۔۔ انشاء نے مری مری آواز میں کہا ۔۔۔
“آپ نے ان کو بتایا ہے اپنے پروگرام کا ۔۔۔ انشاء نے جھجھک کر پوچھا عیان کا ۔۔
“وہ جانتا ہے انشاء ۔۔۔ باباجان کے بتانے پر وہ چونکی اور کہا ۔۔
“اچھا تو بس مجھ سے چھپایا اپ دونوں نے ۔۔ ورنہ یہ سب ڈیسائیڈڈ تھا ۔۔۔
انشاہ نے شکوہ کیا نا چاہتے ہوۓ بھی ۔۔
“انشاء بیٹی تم اپنے شوہر کے ساتھ ہو اس لیۓ اب یہ بوڑھا باپ تھوڑا بےفکرا ہوا ہے ۔۔۔ سو دوستوں نے کہا پروگرام بن گیا ۔۔۔ عیان نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔۔۔ تو کیا تم کو کوئی اعتراض ہے میرے بچے ۔۔
انہوں نے محبت سے لبریز لہجے میں کہا ۔۔۔
“نہیں باباجان ۔۔۔ بس اپ کی یاد آۓ گی ۔۔۔ جلدی سے خود کو سنبھال انشاء نے کہا تھا ۔۔
“تو تم بھی کوئی بہانہ کرو یہ بوڑھا دوڑتا پہچنے پر مجبور ہوجاۓ ۔۔۔
انہون نے مذاحیہ لہجے میں کہا ۔۔۔
“بہانہ کیسا بہانہ باباجان ۔۔۔۔ انشاء نے حیرت سے کہا ۔۔۔
“ایسی باتین اس سے نا کیا کریں باباجان اور ویسے بھی اس کو ساری باتیں دیر سے سمجھ اتی ہیں ۔۔ اسی وقت عیان نے پیچھے سے اکر کہا ۔ انشاء کے پاس بیٹھ کر باتین کرنے لگا ان سے کیونکہ عید وش پہلے ہی کرچکے تھے دونوں ۔
اب قربانی وغیرہ کے ریلیٹڈ دونوں بات کرنے لگے ۔۔
انشاء اٹھنے لگی عیان نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔ وہ دوبارہ بیٹھ گئی ۔۔۔
وہ اس کا ڈرامہ خوب سمجھ رہی تھی بابا کے سامنے سب اچھا ہے تاثر دینے کے لیۓ وہ یہ سب کررہا تھا ۔۔۔
شام کو فریحہ آنٹی آئیں اور انشاء کی لاپرواہی پر ٹوکا جو سادا لباس پہنے ہوۓ تھی ۔۔۔
کچھ دیر بیٹھیں اور دعوت دے کر چلیں گئیں ۔۔۔
اگلے دو دن دعوت وغیرہ میں گزر گۓ ۔۔۔ انشاء جتنا بھی اچھا تیار ہوتی پر عیان ایک دفعہ بھی متوجہ نہ ہوا تھا ۔۔۔
@@@@@@@
ایک دن پہلے ہی عیان نے کہے دیا تھا زینب بی سے کے کل مہمان آئیں گے ۔۔۔ گیسٹ روم بھی صاف کروادیں ۔۔
اس لیۓ صبح سے زور اور شور سے تیاریان چل رہیں تھیں ۔۔
“انشاء بیٹی تم کو پتا ہے کون ارہا ہے ۔۔۔۔ عیان کی اتنی انسٹریکشن کی وجہ سے پوچھا انہوں نے فکر سے ۔۔۔
“نہیں زینب بی مجھے نہیں پتا۔۔۔
جھوٹ بولنے سے بہتر سچ بولنا تھا اس لیۓ انشاء نے لاعلمی ظاہر کی ۔۔۔
“بیٹی ۔۔ میان بیوی کی اتنی طویل ناراضگی ٹھیک نہیں اور عیان کا تم سے اتنا لاپرواہ ہونا بھی ٹھیک نہیں ۔۔۔ وہ نہیں کوشش کررہا ۔۔۔ تم دور کردو اس کی ناراضگی ۔۔۔
زینب بی نے سمجھایا وہ تھک گئیں تھیں دونوں کی اس انکھ مچولی سے ۔۔۔ پہلے انشاء بچپنا کر رہی تھی اور اب عیان ۔۔۔
“میں کیا کروں زینب بی ۔۔۔ پتا نہیں کیوں مجھ سے اتنے خفا ہوگۓ ہیں ۔۔۔ میں نے تو بس اتنا کہا تھا ان کے پوچھنے پر ۔۔۔
وہ ان کو ساری بات بتا گئی سواۓ ان جملوں کے جو ان کی ازدواجی تعلق کے متعلق انشاء نے عیان سے کہے ۔۔۔
“یہ تم نے بہت غلط کہا ۔۔۔ میان بیوی کا تعلق محبت عزت احترام کا ہوتا ہے اس میں انسانیت لا کر تم نے تو غیر کردیا اسے کیونکہ انسانیت تو ہم غیروں سے کرتے ہیں اپنوں کے لئے تو جو کرتے وہ محبت سے کرتے ہیں خلوص سے کرتے ہیں ۔۔۔ اور تم نے عیان بیٹے سے ایسا کہا کہ تم انسانیت کے ناطے یہ سب کچھ کر رہی ہو شاباش ہے تمہاری عقل گھاس چرنے گئی تھی جو شوہر کو اس طرح دکھی کردیا تم نے ۔۔۔ تم جتنی بے وقوف سہی پر اتنی بے وقوف ہوگی میں نے سوچا نہیں تھا ۔۔۔
وہ افسوس کرتیں رہ گئیں ۔۔۔ انشاء کو سمجھ نہ ایا اب کیا کہے ۔۔۔
“جاؤ تیار ہوجاؤ مہمان آنے والے ہونگے ۔۔۔ اپنا حلیہ درست کرو ۔۔۔ اپنی زبان سے تو تم نے شوہر کے دل کا راستہ کاٹ دیا ہے اب کم از کم اپنے حسن سے ہی اس کے دل کا راستہ بناؤ ۔۔۔
زینب بی نے تاسف سے کہا ۔۔ وہ کم ہی کچھ کہتی ہیں کسی سے ۔۔۔ پر ان کو وہ مقام حاصل تھا کہ کبھی کبھار وہ ان کو بری طرح ٹوکتی بھی تھیں انشاء ایمان اور عیان کو۔۔۔
ان میں سے کوئی برا نہیں مانتا تھا ان کی بات کو ۔۔۔ کیونکہ وہ ان کو پالنے والی مان بھی تھیں ۔۔۔
” پر زینب بی ۔۔۔ انشاء نے کچھ کہنا چاہا ۔۔
“اس پر پھر کبھی بات کریں گے فی الحال تیار ہوکر آؤ عیان پہچنے والا ہوگا ۔۔۔
زینب بی نے کہا ۔۔۔ وہ جلدی اٹھی تیار ہونے کے لیۓ ۔۔۔
@@@@@@
وہ سیڑھیوں سے اترتی آرہی تھی گولڈن کلر کے ڈریس میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس کے رنگ کے ساتھ میچ کررہا تھا ۔۔ اج اس کا انداز ہی الگ تھا ۔۔۔
عیان صوفے پر بیٹھا ایک بازو سیدھا رکھے ہوۓ تھا ۔ اس کی نظر بےساختہ انشاء پر گئی وہ ٹھٹھکا ۔۔۔ لمحہ ہی گزرا لاؤنج کا دروازہ کھلا دونوں نے بیک وقت ادھر دیکھا ۔۔ جو جادو لمحے کے لیۓ دونوں کے بیچ ہوا تھا وہ دروازے کی آواز نے ختم کردیا ۔۔۔
فرقان کے ساتھ آئی ہوئی لڑکی ہاۓ ہیل پہنے ارہی تھی ۔ عیان نے کہا ۔۔۔
“علیزے ۔۔۔ وہ کھڑا ہوا اور اسی وقت علیزے نے کمر پر ہاتھ ٹکا کر کہا ۔۔۔
“جی ، لگتا ہے اپ بھول گۓ مسٹر عیان سڑو۔۔۔ علیزے نے مزے سے کہا ۔۔۔
“امپاسیبل تم بھولنے والی چیز نہیں ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔ فرقان بھی مسکرایا ۔۔۔ جبکہ انشاء کے قدم تھمے اس کانفیڈنٹ لڑکی کو دیکھ کر ۔۔۔
“ہممممم ، تو مجھے لگتا تھا اب کے ملو گے تو میری منتیں کروگے ، گڑگڑاؤگے میرے اگے ، گھٹنوں کے بل جھکوگے میرے اگے ، کیا پتا اس بار میں تمہیں ٹھکرا دوں مسٹر سڑو ۔۔۔۔
انشاء نے حیرت سے اس اکڑو لڑکی کو دیکھا جو جینس پر بلیک کُرتی پہنے گلے میں مفلر نما اسکارف پہنے کھڑی تھی آنکھوں میں شرارت ، چنچل سی مسکراہٹ ہونٹوں پر اسے منفرد دکھا رہی تھی ۔۔۔ اس کی ہیزل گرین آنکھیں ، بالوں میں گولڈن اور فیڈ کلر ڈاۓ اسٹالئیش سا ہیئر کٹ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کررہا تھا ۔۔۔
اس کے انداز پر عیان مسکرایا اور ہنستا ہی چلا گیا ۔۔۔۔ وہ ایسی ہی تھی ہمیشہ سے ۔۔۔
پر انشاء کو اپنی دل کی دھڑکن تھمتی ہوئی محسوس ہوئی اس حسین پری کو دیکھ کر ۔۔۔ ایک تو حسن اور اس پر نزاکت اور ادائیں اور بولنے کا انداز وہ چلتی پھرتی قیامت لڑکی لگی انشاء کو ۔۔۔۔
انشاء کبھی عیان کے لبوں کی ہنسی دیکھتی تو کبھی وہ اس لڑکی کے انداز ۔۔۔ اب اسے نازیہ بھابھی کے لفظ یاد آۓ ۔۔۔ اور اپنے کہے لفظ اس کا منہ چڑانے لگے ۔۔۔
وہ دونوں کچھ کہے رہے تھے پر انشاء کے کان سائیں سائیں کرنے لگے اس لمحے ۔۔۔
جانے کیوں انشاء کی انکھ میں مرچیں سی بھرنے لگیں اس منظر کو دیکھ کر ۔۔ عیان کا ہسنہ اور علیزے کا کھلکھلانا ۔ یہ احساس یا اس طرح کا کوئی احساس کبھی اس کے اندر نہ جاگا تھا ۔۔۔ شاید وہ دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے نہ انشاء نہ زینب بی اور نہ فرقان تھا ان کے بیچ ۔۔۔ وہ دونوں ان کی باتیں اور ان کے اپس کے گلے شکوے بس ۔۔۔
“دوسال سے آۓ نہیں لندن ، جب دیکھو عمر کو بھیج دیتے کسی بھی بزنس کے کام کے سلسلے میں ، اسی بہانے بندہ دوستوں سے مل لیتا ہے ۔۔۔ شرم کرو تم ۔۔۔ ویسے ہو بڑے بےمروت بندے ۔۔۔۔
علیزے نے ایک اور شکوہ کیا عیان سے ۔۔۔
“ارے ، حالات کچھ ایسے ہوگۓ کہ آء ہی نہ سکا کیونکہ ۔۔۔ عیان نے وضاحت دینا چاہی علیزے نے بات کاٹ کر کہا ۔۔
“رہنے دو ، بس بہانے بن والو تم سے ۔۔۔دیکھ لو تم نہیں آۓ میں چلی آئی ۔۔۔
خود کو سنبھالتی انشاء سیڑھیوں سے اتر کر ان کے روبرو ہوئی ۔۔۔
اب کے علیزے چونکی اور کہا ۔۔۔
“یہ کون ہے عیان ۔۔۔
انشاء عیان کا چہرہ دیکھنے لگی کہ وہ اپنی دوست کو کیا جواب دیتا ہے اس کے مطلق ۔۔۔
پر عیان کے عجیب تاثرات دیکھ کر انشاء کو شدید مایوسی ہوئی کہ وہ اب اس کا انٹروڈکشن بھی کروانے کا روادار نہیں کیا اتنا بدظن ہوچکا ہے مجھ سے ۔۔ انشاء نے سوچا ۔۔۔
“علیزے یہ انشاء بھابھی ہیں عیان کی بیٹر ہاف ۔۔۔ آخر فرقان نے کہا ۔۔
“واٹ انبلیوو ایبل عیان آۓ ڈونٹ ایکسپیٹ دس فرام یو ۔۔۔ علیزے نے انکھیں دکھائیں ۔۔۔
“علیزے بس کرو ۔۔۔ فرقان نے کہا ۔۔۔
“اچھا اچھا سوری ۔۔۔ وہ جلدی سے انشاء کی طرف مڑی اور کہا ۔۔۔
“میں علیزے گِل ، اپ کے شوہر کی بیسٹ فرینڈ سے بھی اوپر کی اوپر ۔۔۔۔ کیوں عیان ۔۔۔ اس نے انشاء سے کہا ۔۔۔ وہ شوخ ہوئی پر انشاء بیچاری سی مسکراہٹ بھی نہ دے سکی ۔۔۔
“ہاں کیوں نہیں ۔۔۔ عیان نے کہا ۔۔۔
انشاء گم صم ہوکر دیکھنے لگی ۔۔۔
اسی وقت زینب بی نے جوس سروو کیا ۔۔۔ سب بیٹھ گۓ ۔۔۔
@@@@@@