اگلے ایک ماہ بعد۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوند بوند گرتے بارش کے قطرے بھوجل وجود کو گیلا کر رہے تھے۔۔۔۔
مُعیز ہاں وہ مُعیز تھا
مُحبت سے ہارا ہوا سب کُچھ پا کر ہار گیا
ایک غلط فہمی تھی بس اور کُچھ نھی
ایک بار کاش وہ سچ سن لیتا زندگی کتنی بدل گئی تھی
انجان تھا وہ زندگی سے یا زندگی اُس سے
وہ اب سب بھول گیا تھا۔۔۔۔
جینا بھول گیا تو زندگی نے منہ پھیڑ لیا
انسان کتنا عجیب ہوتا ہے نا
لمحہ لمحہ بدلتا ہے اُس کا دل باہری وجود بدل دیتا ہے
لیکین وہ اُسی طرح سب کے سامنے آتا ہے جیسے وہ لوگ چاہیں
لوگ کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں یہ ہماری زندگی کو تنگ کر دیتی ہے۔۔
ہماری زندگیاں اور قسمت بہت حسین ہوتی ہے
اگر ہم نا شکری نہ کریں اور راضی رہنا شروع ہو جائیں
یہ بات یہاں کسی تعلق سے نھی لیکین کاش ہم انسانوں سے بدلہ لینا اللہ کے حوالے کر دیں تو زیادہ بہتر ہے۔۔۔
لاریب لمحہ لمحہ کمزور ہوتی چلی جا رہی تھی
ہسپتال کے بیڈ پر کینسر سے لڑتی ہوئی وہ لاریب کب سے مر چُکی تھی اب تو بس وہ کوششوں پر تھی
مُعیز ہسپتال کے پارک سے سیدھا گھر چلا گیا
اور کپڑے بدلے۔۔۔کمرے میں اُسے سب یاد آرہا تھا
لاریب کا بیڈ کے ایک کونے پر لیٹنا اور اُلٹا رُخ کیے سونا
لاریب کے کپڑے جو پورے دو ہفتے سے کسی نے استمعال نھی کیے تھے۔۔۔۔
وہ اُداس آنکھیں جو ہر بار مُعیز کی آمد پر پُر امید ہوتی تھی۔۔۔۔
لیکین اب کُچھ نھی تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
مُعیز آفس سے گھر واپس آیا تو اپنی امی سے ملنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آیا تو لاریب بے ہوش زمین پر پڑی تھی
مُعیز کی محبت کی آزمائش تو ہونی تھی لیکین ایسے
اِتنی ظالم
اِتنی مُشکل
مُعیز اُس کو افراتفری میں ہسپتال لے کر پہنچا تھا
جب لاریب میں ہمت ختم ہو گئ تھی
کینسر جسم کے زرے زرے میں پھیل چُکا تھا
مُعیز کو اِس سارے معاملے کا پتا چلا تو وہ اِس قدر مایوس ہو چُکا تھا کہ کُچھ نھی تھا اُس کے پاس
سب کو اب خبر تھی کہ لاریب کو کینسر ہے حبیب خان کو جیسے معلوم پڑا تو وہ پہنچ گۓ تھے ۔۔۔
نسرین اپنے دماغ کی سمجھ بھوجھ اب کمُہی استمعال کر پاتی تھی
حبیب خان اُنکے ساتھ ہی باہر رہتے تھی
لیکین لاریب کا سُن کر پہنچ گۓ تھے
مُعیز اور لاریب میں سلام دعا سے زیادہ کوئ بات نہ ہوتی تھی مُعیز اُسکے انتظار میں تھا تو لاریب مُعیز کے
مگر دلوں کی زُبان کی سمجھ بھی آزمائش محبت کے بعد علم میں آتی ہے
لاریب آنکھیں کھولے ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی تھی
معیز کی امی سورۃ پڑھ رہی تھی
دروازہ کلک ہو کر کھُلا لاریب کی نظریں چھت پڑ ٹکی رہی۔۔۔
حبیب خان داخل ہوۓ
لاریب بیٹی میں تمہارے لیے جوس لایا ہوں
بیٹی تھوڑا سا پی لو۔۔۔وہ اُس کو شاپر سے نکال کر دے رہے تھے
لیکین لاریب کو اب چِڑ سی ہو رہی تھی
بابا جانی پلیز بس کریں
میں تھک گئ ہوں یہ ہمدردیاں دیکھ دیکھ کر
میں ۲۰ سال آپ کے گھر میں رہی اپنی ساری بیماریوں کا اکیلے ہی سامنا کیا تب کہاں تھے آپ
کیا آپ کا باپ والا دل دھڑکا نھی تھا؟
کیا آپ کے وجود کر کپکپی محسوس نھی ہوئ تھی ؟
آپکو زرا محسوس نہ ہوا آپ کا خون پگھل رہا ہے۔۔؟
اب میرے سامنے آپ میرے جنازے پر آئیے گا
میں آنکھیں کھُلی رکھوں گی آپ آؤ گے میری آنکھیں بند ہو گی ۔۔۔
ورنہ وہ نظارہ کرتی ہوئ قبر میں دفن ہو گی۔۔۔۔
حبیب خان نے آنکھوں پر نمی محسوس کی
لیکین لاریب کی آنکھیں خُشک تھی۔۔۔
حبیب خان بولے؛)اللہ کی امان میں ۔۔۔ تمہے کُچھ نھی ہو گا۔۔اللہ کی امان میں۔۔۔
اور باہر کی جانب مُڑے۔۔مُعیز کھڑا سب دیکھ سُن رہا تھا
وہ اُس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر نکل گۓ۔۔۔
مُعیز اندر آیا تو مُعیز کی امی بولی؛ نمازکاُوقت ہے بیٹا میں نماز والی جگہ پے ہوں۔۔۔وہ باہر چلی گئ۔۔
لریب نے نظریں دُبارہ چھت پڑ رکھ لی۔۔۔
لاریب مُعیز نے پُکارہ۔۔۔
لاریب نے اُس کی طرف دیکھا اور بولی حُکم۔۔۔
مُعیز دیکھتا رہ گیا۔۔۔
مُعیز پاس آیا۔۔۔
لاریب ۔۔مُعاف کر دو۔۔۔مُجھے سب معلوم ہو گیا ہے۔۔۔
وہ حرکت تمہارے بھائ کی وجہ سے۔۔۔
بس مُعیز چُپ۔۔۔مرے ہوۓ کو یاد نہ کریں نہ میرا بھائ کہیں۔۔۔۔پلیز اور ہمدردی نھی مُحبت کریں۔۔۔۔
اور دوبارہ نظریں چھت پر ٹکا لی۔۔۔
مُعیز آگے آتا ہے۔۔اُس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے۔۔اجازت دو۔۔۔
کس چیز کی۔۔۔وہ اُسی طرح چھت پر نظریں ٹکاۓ بولتی ہے۔۔۔
محبت کی۔۔۔مُعیز بولتا ہے
محبت کی اجازت چاہیے وہ حیرانی سے پوچھتی ہے۔۔
محبت کی نھی چاہیے تمہاری چاہیے ۔۔وہ اُس کے ماتھے کے بال ہٹا کر بولتا ہے۔۔
ارے محبت کرو۔۔چھونا نہ مجھے۔۔۔
لاریب بولتی ہے۔۔
کیوں معیز مدھم سا بولتا ہے۔۔
میں لمس سہہ نھی پاؤ گی۔۔شائد جلدی مر جاؤ۔۔
مر نہ پاؤ گی۔۔چھونا نہ۔۔۔۔۔لاریب آنکھوں کو ادا دے کر کہتی ہے۔۔۔
لو نھی چھوتا۔۔ہاتھ تھامے رکھو گا۔۔۔مُعیز ہاتھ اور مضبوطی سے تھام لیتا ہے۔۔۔
ارےا رے ۔۔۔بس مُعیز بس۔۔۔
قبر میں کوئ اپنا ساتھ نھی دیتا۔۔۔سواۓ اُن زاتوں اُن پاک زاتوں کے جو واقع محبت کرتے ہیں ۔۔۔لاریب درود پاک پڑھ کر مُعیز پڑ پھوک کر بولتی ہے
تو کیا میں اُن سے رابطہ کرو۔۔۔تمہے میرے سے نہ چھینے۔۔۔مُعیز بولتا ہے۔۔
لاریب چُپ رہتی ہے۔۔پھر مُعیز اُس کے ماتھے پر لب مسلط کرتا ہے۔۔۔اور باہر چلا جاتا ہے۔۔۔
لاریب رونے لگ جاتی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آریانہ جہاں کو جیسے خلیل کی حرکت کی خبر ملتی ہے وہ مُعیز سے رابطہ کرتی ہے اور ساتی بات بتاتی ہے۔۔معافی کے ساتھ وعدہ کرتی ہے آئندہ دونوں کے درمیان کوئ آنچ نھی آۓ گی۔۔۔
خلیل کے منہ پڑ رکھ کر تھپڑ مارتی ہے ۔۔اور کہتی ہے۔۔
خلیل اگر تیری بیوی ہو اُس کی جگہ تو کیا برداشت کر پاۓ گا تو۔۔۔
نھی نہ تو جا جا کر برداشت لا۔۔۔پھر دنیا میں لوگوں کی خوشیاں نوچنا۔۔۔
لیکین اِس بات کو بہت وقت گزر گیا تھا۔۔۔مُعیز لاریب کی چُپ توڑنا چاہتا تھا لیکین وہ اتنی صابر تھی کہ کوئ گلا شکواہ نہی تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت گزرتا گیا اور چُپ نے اور شدت اختیار کر لی ۔۔۔
مُعیز بس اباُدکی زندگی چاہتا تھا لیکین ایسا شائد ہی ممکن تھا
لیکین پہلی محبت
پہلا لمس،پہلا پیار
بھولا تو نھی جاتا نہ ہی کوئ ادل بدل ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔
لاریب کا مسلسل علاج چل رہا تھا۔۔۔
مُعیز نے دن کو دن اور رات کو بھی دن بنایا تھا۔۔
لیکین محبت کی آزمائش میں آجتک کوئ ۱۰۰ میں
سے ۵۰ % لوگ ہی کامیاب پاۓ ہیں تو مُعیز کن میں تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
کل کی فلائیٹ ہے میری امی۔۔۔لاریب کو اکیلا نہ چھوڑیے گا۔۔میری زندگی ہے وہ۔۔اور میں آپکی میں جانتا ہوں۔۔مُعیز مسکرا کر ماں کے ماتھے پر بوسا دیتے ہوۓ بولا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
وہ رات کی گہری نیند میں ہوتی ہے۔۔۔
وہ کمرے میں آتا ہے۔۔۔اُس کے چہرے پر بکھڑے بال دیکھتا ہے۔۔۔سائیڈ پر کرتا ہے۔۔
دوائیوں کی ایک عجیب سی خوشبو اُس کے پاس سے محسوس ہوتی ہے۔۔اب وہ جانتا تھا بلکل ٹھیک نھی تو کُچھ وقت تو وہ اُسکی قربت میں گزار سکتا تھا۔۔۔
وہ وہی گزارنا چاہتا تھا۔۔۔اُسے دوبارہ دلہن بنا کر اپنے کمرے میں لے کر جانا چاہتا تھا۔۔۔
گھوگھنٹ اُٹھانا چاہتا تھا۔۔۔اور اپنا پیار نچھاور کرنا چاہتا تھا۔۔۔وہ سب کُچھ دینا چاہتا تھا۔۔جو اُس نے سوچا تھا۔۔۔وہ نہایت پیار سے جھُکا اور ماتھے پر دوبارہ لب مسلط کیے۔۔۔
گالوں کو چوما اور پیچھے ہو گیا۔۔۔
چھونا نہ مجھے مر جاؤ یا مر نہ پاؤ۔۔۔مُعیز زیر لب بربرایا۔۔۔
کیوں نہ چھوؤ تمہے کون سا تمہے ہیرا لگا ہوا ہے میں چومو گا تو مر جاؤ گا۔۔۔میری زندگی ہو تم اور میرا سکون۔۔۔
تم انمول تحفہ ہو۔۔تم انمول ہو بس۔۔جانِ مُعیز ہو تم ۔۔۔
وہ دوبارہ اُس کا ہاتھ پکرتا ہے اور چومتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...