انسان ہی انسانیت کا قاتل ہے اکثر اپنے اندر انسانیت کی قتل گاہ بنا لیتا ہے اور مزید اگر کوئی کسر رہ جائے تو اُس کا سر عام قتل کرتا ہے۔
انسان بڑا عجیب ہے خود ہی اپنے رویوں سے انسانیت کی روح کو قتل کرتا ہے اور پھر انسانیت کی تلاش مذہب کی آڑ میں عبادت گاہوں کا رخ کرتا ہے پھر نام نہاد انصاف کی عدالتوں میں خود کو رسوا کرتا ہے پھر عقیدت پرستی والے اجتماعات میں گڑ گ ڑا کر دعاؤں کی توفیق سے خدا سے اپنی رضاؤں کی تشفی چاہتا ہے مگر انسانیت کی حفاظت کے لئے انسانیت کے راستے پر چلنے کی جرات اور ہمت نہیں رکھتا۔
معاشرہ کے ہر شعبہ میں انسانیت کی قتل گاہ کا وجود ہے۔ زندگی کے کسی شعبہ سے آپ کا واسطہ پڑے وہیں پر آپ کو انسانیت کا خون ملے گا جس کو اِس کی حفاظت پر مامور کیا گیا ہے اُن کے اپنے اندر انسانیت چیخ چیخ کر انسان کو بیدار کر رہی ہے وہ مذہب والی عدالت ہو یا انصاف والی مگر انسان کی بے حِسی نے اِس کی مظلومیت والی آواز کو بے اثر سمجھ لیا ہے۔
مفاد گاہوں میں انسانیت کی لاش کی بے حرمتی کرنا انسان نے جرم ہی نہیں سمجھا جہاں انسانیت کی حفاظت کے لئے قانون سازی ہوتی ہے وہاں انسانیت کے علاج کی بجائے اپنے نفسی مفاد کو پہلے نظر میں رکھا جاتا ہے۔ جہاں انسان کو انصاف دینا ہے وہاں موجود لوگوں میں انسانیت ہی نہیں ہوتی وہ کسی کے دُکھ سے آشنا نہیں ہوتے وہ کسی کے وقت کی پرواہ نہیں کرتے وہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق محسوس نہیں کرتے یہی لوگ انسانیت کو قتل کر کے سر راہ اُس کی لاش کو بے قبر کرتے ہیں … بے توقیر کرتے ہیں۔ قانون باز انسانیت سے شرارت بازی کرتا ہے انسان مر جائے تو انسان اُس کی جگہ پیدا ہو جائے گا مگر جب انسانیت مر جائے تو اُس کی جگہ حیوانیت لے لیتی ہے جگہ جگہ حیوانیت کی قتل گاہیں ہیں انسان کے ذہن میں یہ سوچ ہر گز نہیں کہ انسانیت کے قتل کے بعد باقی اُس کے پاس کیا رہ گیا ہے۔
عبادت گاہوں میں بھی انسانیت غیر محفوظ ہے وہاں بھی مطلب پرستوں اور مسلک پرستوں کی حکمرانی ہے وہاں نہ انسان کی قدر ہے اور نہ ہی انسانیت کی وہاں صرف اُس فکر کی قدر ہے جو اُن میں ہم آہنگی، ہم ذہنی، ہم زاویہ نگاہ ہے وہ بھی کسی برہان کی پرستش نہیں کرتے وہ بھی اپنے خیالوں سے مضبوطی کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں وہ بھی انسانیت کی میت پر ماتم کرنے کے لئے تیار نہیں شاید اُن کے عقیدہ میں ماتم منع ہے اور جن کے عقیدہ میں ہے بھی وہ بھی انسانیت کا احترام لازمی نہیں سمجھتے ایسے لوگ قصے، کہانیاں، داستانیں سنا کر لوگوں کی جیبوں سے زر نقد اور فوری نکالنے پر ایمان رکھتے ہیں۔
معاشرہ کی ہر سطح پر انسانیت کی قتل گاہیں ہیں گھر سے لے کر بازار تک، کچہری تھانہ سے لے کر دینی اور دنیاوی درس گاہوں تک انسان، انسان کی جامہ تلاشی میں مصروف ہے۔ کچھ زندوں کو قتل کر رہے ہیں اور کچھ قتل شدوں کو قتل کر کے اپنی بداعمالیوں اور افعالیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔
دنیا پرستی عروج پر ہے اور انسانیت پرستی زوال پذیر ہے۔ انسانیت اور دنیا ہمیشہ رہے گی مگر انسان آتے اور جاتے رہیں گے لہذا دنیا میں انسانیت کی زندگی نہایت اہم ہے اور یہ سارا نظام قدرت انسانیت کی بقاء کے لئے ہے۔
لوگو! یہ دنیا انسانیت کی قتل گاہ نہیں یہ اِس کی آرام گاہ ہے انسانیت کا احترام ہو گا تو سارے انسان آرام سکون اور امن و امان سے رہیں گے۔ جو لوگ سچ کی موجودگی میں جھوٹ بولتے ہیں وہ انسانیت کے مذبح خانہ کے متولی ہیں جو حلال کی موجودگی میں حرام کو ترجیح دیتے ہیں جو نیکی کے موقعہ پر بدی کا انتخاب کرتے ہیں جو اپنی روح کا گلا دبا کر رکھتے ہیں جو اپنے نفس کو گناہوں پر ابھارتے ہیں جو اپنے ضمیر کو مارتے ہیں اُن پر انسانیت کا احترام لازمی نہیں یہی وہ لوگ ہیں جو انسانیت کو بدنام کر کے اپنے نام کی شہرت میں اضافہ پر ایمان رکھتے ہیں جس زبان سے لا الہٰ الا اللہ پڑھتے ہیں اُسی زبان سے شیطان کے ساتھ مشورہ گیر ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے اندر انسانیت کی قتل گاہیں بنائے ہوئے ہیں جو حرام کمائی سے مسجدیں بنواتے ہیں حج کرتے اور کرواتے ہیں جب انسانیت کی اجتماعی بے حرمتی ہو گی تو خدا کی رحمت کی امید فریب نفسی ہے۔
اے لوگو! جہاں بھی انسانیت کا قتل دیکھو اُس پر رو اور پیٹ نہیں سکتے، انتقام نہیں لے سکتے تو کم از کم احتجاج تو کرو شاید ہمارے اِس فعل پر خدا ہم پر نظر کرم رکھے۔ انسانیت کی بے حرمتی پر منہ پھیر کر چلے جانے کا بھی تم سے حساب لیا جائے گا ہر لمحہ، ہر نگاہ میں انسانیت کا خیال رکھو گے تو عزت کی موت اور عزت کی زندگی کا تصور قائم رہے گا۔
جو انسان وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیں ہوتا وہ ہمیشہ زوال زدہ زندگی بسر کرے گا وہ روح پر بوجھ لے کر مرے گا وہ دست نگر میں ہمیشہ رہے گا وہ مردوں جیسی زندگی گزارے گا وہی انسانیت کی قتل گاہ کے باہر پہرہ دے گا اور اُس قتل گاہ کا بچا کھچا کوڑا کرکٹ اور آلائش کھائے گا …!
خدایا! تو نے تو ہدایت دے دی ہے اور عقل سے نوازا ہے مگر انسان مفاد اور لالچ و حرص کی دلدل میں غرق ہو رہا ہے بس اِسے اور کون سمجھائے۔ لوگ عجیب و غریب ہیں انسانیت کے جنازہ میں ثواب دارین کے لئے بھی شامل نہیں ہوتے اور انسانیت کے قاتل کے جنازہ میں ثواب دارین کے لئے جوق در جوق صفیں باندھ کر ہاتھ بلند کر کے اُس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور معاوضہ حاصل کرنے والا زور زور سے ہاتھ بلند کر کے اُس کی قبر کی کشادگی اور جنت کے باغات میں سے باغ الاٹ کرنے کی خدا کے حضور یادداشت پیش کرتا ہے جوار رحمت میں رکھنے کی خدا کے حضور گزارش ایسے کرتا ہے جیسے اُس کا استحقاق ہے انسانیت اِن سب کے لاشعور پر مسکراتی ہے۔ اِن کے مصنوعی کرب پر شرم سے منہ چھپاتی ہے لوگ ایک دوسرے کے جنازہ کی اہمیت اور تعداد پر تبصرہ کرتے ہیں۔
انسانیت کو جسم و روح سے نفرت ہے جب لوگ وقتی اور جھوٹی خوشی کے لئے انسانیت کو ذبح کرتے ہیں اور اِس موقع پر گولیاں چلوا کر کرتے ہیں دولت کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں جیسے انصاف کی کچہری میں ہوتا ہے، جہاں انصاف کے نام پر انسانیت کی قیمت لگائی جاتی ہے، لوگوں کے دماغوں میں خناس چیخ چیخ کر دوہائی دیتا ہے انسانیت کے ساتھ اتنا ظلم مت کرو کہ غریب کے پاس کھانے کے لئے ایک وقت کا نوالہ نہیں اور تم لوگ غذا لذیذہ کو نالیوں میں بہا رہے ہو۔ کتوں اور کوؤں کو کھلا رہے ہو اور انسان بھوکا مر رہا ہے تم لوگ ٹھنڈے اور گرم کمروں میں آرام فرما رہے ہو اور عوام الناس بے یار و مددگار کھلے آسمان کے نیچے تڑپ رہی ہے انسانیت اُن کی مدد کرنے سے معذوری ظاہر کر رہی ہے اور انسانیت کے جنازہ پہ ’ ’ منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے …”۔ جگہ جگہ انسانیت کا قتل عام ہو رہا ہے اور لوگ ہجوم کی صورت میں اِس کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
بتاؤ تم انسانیت کا ساتھ دو گے یا لوگوں کے ساتھ رہو گے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...