نو بجے کا وقت تھا، ساریہ نائک شزا کے ساتھ لاونج میں بیٹھی نیوز سن رہی تھی، نائک پیلس میں خاموشی کا راج تھا، لاونج میں ایل ای ڈی بوفرز کی آواز فونج رہی تھی۔
” ساریہ نائک کی بیٹی وفا ملک پر قاتلانہ حملہ، اس سب کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔”
اینکر بول رہی تھی، کل سے ایک ہی نیوز ہر چینل پر چلائی جا رہی تھی، ساریہ نے لب بھینچ لیے۔
” مام یہ سب کون کر سکتا ہے۔”
شزا نائک حیرانگی کے تاثرات لیے رخ ساریہ نائک کی طرف کر گئی۔
” وفا کی کسی سے دشمنی نہیں ہے، یہ ضرور شہروز کا کام ہے۔”
ساریہ نائک پریشانی سے بولی، ممتا کی محبت نے سر اٹھایا تھا، اسکا دل بے چین ہونے لگا تھا، پچیس سال سے دبی ممتا کا احساس شدت سے ہونے لگا۔
” آپ اس وفا ملک کو ایکسیپٹ کر لیں گی۔؟”
شزا ساریہ نائک کو پریشان دیکھ کر بولی، ساریہ نے چونک کر سر اٹھایا۔
” وہ بھی میری بیٹی ہے، میں اس حقیقت کو تسلیم کروں یا نہ کروں۔”
ساریہ نائک سنجیدگی سے بولی تھی اور سر ہاتھوں میں گرا لیا۔
” ڈیڈ کے لیے بالاج اہم ہے، آپکے لیے وہ وفا۔”
شزا ناراضگی سے بولی۔
” تم میرے لیے نئی پریشانی مت بناو شزا، یہ کام تمہارا باپ بخوبی سر انجام دے رہا ہے۔”
ساریہ نائک تیز لہجے میں بولتی ہوئی اٹھ کے نکل گئی۔
” مام میری بات سنیں۔”
شزا بھاگتی ہوئی ساریہ کے پیچھے آئی، بھورے بال جھولتے ہوئے سامنے آ گرے تھے، اسکی مخروطی انگلیوں نے دلکشی سے بال چہرے سے ہٹائے اور مسکرا کر ساریہ کو دیکھا۔
” ایم سوری۔”
شزا نے منہ بنا کر کان پکڑ لیے، ساریہ نے سر اثبات میں ہلایا اور اسکا رخسار تھتھپا دیا۔
” ہم وفا کے زریعے ایان ملک کو ٹریپ کر سکتے ہیں، وہ وفا سے بہت محبت کرتا ہے۔”
شزا نے مشورہ دیا۔
ساریہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔
” میں وفا کو بزنس کی چالوں میں استعمال نہیں کروں گی۔”
ساریہ نے دو ٹوک لہجے میں صاف انکار کر دیا۔
” بٹ مام، ہمارا فائدہ ہے اس میں۔”
شزا نے اکسانا چاہا، اس کے سہید چہرے پر چمک مانند پڑ رہی تھی۔
” شزا فوکس آن یور سٹڈیز، بزنس کی تب سوچنا، جب بزنس میں قدم رکھنا۔”
ساریہ نے اسکے بے داغ حسین مکھڑے پر سنجیدہ نظر ڈالی اور کمرے میں چلی گئی، چند ساعتوں بعد وہ بیگ لیے برآمد ہوئی اور تیز قدم اٹھاتی پیلس کے پورچ میں آ گئی، ڈرائیور نے ادب سے گاڑی کا گیٹ کھولا اور ساریہ کے بیٹھتے ہی گارڈ سمیت دو گاڑیاں گیٹ کی طرف بڑھا دیں۔
شزا نائک یونی کے لیے نکل گئی۔
گاڑیاں گیٹ سے نکل رہی تھی جب میڈیا کے جم غفیر نے راستہ روک لیا۔
ساریہ نے گاگلز اتارتے ہوئے شیشہ نیچے کر دیا۔
” میم آپ کی بیٹی پر حملہ کس نے کروایا ہے۔؟”
اینکرز کی زبانیں ایک ہی سوال جپ رہیں تھیں۔
” یہ گھٹیا حرکت جس نے بھی کی ہے، میں اسے اس کے انجام تک پہنچا کے رہوں گی۔”
ساریہ نے کرختگی سے جواب دیا، اسکے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی، سنجیدگی کے پیچھے ممتا کے تاثرات چھپائے اس نے چند سوالوں کے جواب دیے اور شیشہ چڑھا لیا۔
گاڑی رش کو چیرتے ہوئی نکل گئی۔
” ملک ہاوس چلو۔”
ساریہ نے تحکم سے کہا اور بے چین ہوتی دھڑکنوں پر قابو پایا، جب تک وفا سے بے خبر تھی، دل کبھی اسکے لیے مچلا ہی نہیں تھا۔
ساریہ نے گاگلز ہٹا کر آنکھوں کی منڈیر پر آئی نمی کو چنا۔
خیام سعید کی موت کی خبر ساریہ نائک کو کمزور کر گئی تھی، کتنے ہی پل وہ سنبھل نہیں پائی تھی، بے شک وہ اسکی پہلی محبت تھا، پہلی محبت نہ بھلائے بھولتی ہے، نا دبائے دبتی ہے۔
پچیس سال کے طویل عرصے کے بعد پہلی محبت اپنی شدتوں سمیت کئی پچھتاوے لیے پلٹ آئی تھی۔
گاڑی ملک ہاوس کے سامنے رکی تو ساریہ نے گہری سانس لے کر خود کو کمپوز کیا اور شیشے سے باہر دیکھا، پولیس کی بھاری نفری گھر کے اطراف میں تعینات تھی۔
ساریہ نے پولیس آفیسر کو بڑھتے دیکھ شیشہ نیچے کیا تو پولیس آفیسر نے اندر جانے کی اجازت دے دی۔
گاڑی ملک ہاوس کے پورچ میں رک گئی، ساریہ باہر نکلی اور سبک روی سے چلتی اندر آ گئی، لاونج میں ملک فیملی بیٹھی ہوئی تھی۔
ایان کے وحیہہ چہرے پر پریشانی واضح جھلک رہی تھی۔
ساریہ نائک سلام کرتی بیٹھ گئی۔
” وفا کیسی ہے۔؟”
ساریہ نرمی سے ممتا سے چور لہجے میں بولی تھی، بزنس وومین کا رعب و دبدبہ مفقود تھا۔
ایان نے سنجیدگی سے اسکا جائزہ لیا اور اسے کمرے میں آنے کے کہا۔
ساریہ ایان کی تقلید میں اندر آگئی۔
وفا بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے پریشانی کی مورت بنی بیٹھی تھی۔
” وفا۔”
ایان اسے گہری سوچ میں گم پا کر بولا تو وفا نے چونک کر سر اٹھایا، ایان کے ساتھ ساریہ کو دیکھ کر اسکی آنکھیں بھیگ گئیں۔
ماں کے آغوش میں چھپ جانے کی خواہش نے شدت سے سر اٹھایا۔
ایان باہر چلا گیا۔
ساریہ اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی، دونوں بات کے آغاز کے لیے لفظوں کی تلاش میں گم ہو گئیں۔
” مجھے اپنا نہیں سکیں، تو قتل کروانے کاسوچ لیا۔”
وفا دکھ سے بولی، بھوری آنکھوں سے آنسو لڑھکنے لگے، وہ بری طرح ڈسٹرب ہو گئی تھی۔
ساریہ تڑپ گئی تھی۔
” میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی وفا۔”
ساریہ نائک بزنس وومین ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر صفائی دے رہی تھی۔
” آپ چلی جائیں پلیز، مجھے آپ کو دیکھ کر یاد آتا ہے میں محض ایک غلطی ہوں۔”
وفا کرب سے بولتی رخ موڑ گئی تھی، آنسو بھوری آنکھوں سے قطار بن کر بہنے لگے تھے۔
ساریہ نائک بہت کچھ کہنا چاہتی تھی، لیکن زبان اپنے ہی کہے کی لپیٹ میں آکر گنگ ہو گئی۔
بوجھل قدموں سے گاگلز لگاتی ساریہ آنکھوں سے نظر آتا دکھ چھپائے ملک ہاوس سے نکل گئی۔
ایان ساریہ نائک کو نکلتے دیکھ کر کمرے کی طرف بڑھا، وفا سر گھٹنوں میں دیے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
“وفا۔۔۔!!!!”
ایان اسکے پاس بیٹھتے ہوئے افسردگی سے بولا۔
وفا نے روئی روئی آنکھوں سے اسے دیکھا، اور اسکے کندھے پر سر رکھ کر بلک بلک کر رو دی۔
” ایان وہ اب کیوں جلے پر نمک کا چھڑکاو کرنے آئیں تھیں۔”
وفا روتے ہوئے سراٹھا کر شکوہ کناں لہجے میں بولی۔
” وفا اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے، تمہیں انہیں ایک موقع دینا چاہیے، سوئے جذبات میں ہلچل مچنے کو وقت تو لگتا ہے، ساریہ نائک کا وقت پورا ہوا تو وہ دوڑتی ہوئی آئی یے۔”
ایان اسکا بھیگا چہرہ ہاتھوں کے ہیالے میں لے کر بولا۔
وفا سسکیاں لے رہی تھی، ایان ملک نے ہتھیلی سے اسکے آنسو صاف کیے اور اسکے بکھرے بال کانوں کے پیچھے اڑسے۔
” فریش ہو جاو، کھانا مل کر کھاتے ہیں۔”
ایان محبت سے مخمور گھمبیر لہجے میں بولا، وفا نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔
وفا واش روم کی طرف بڑھ گئی، ایان باہر چلا آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عینا باس کے کمرے میں موجود ہاتھ سینے پر باندھے نئے حکم کی منتظر تھی، وفا پر ہوئے حملے کو دو دن بیت چکے تھے۔
” وفا ملک پر حملہ شہروز نائک اور بالاج نے کروایا ہے، میڈیا میں یہ خبر پھیلا دو۔”
باس نے چیس پیس کی جگہ بدلی تھی، اسکے بھورے بال پونی میں قید تھے، بھوری آنکھوں میں سرد مہری اور چہرے پر سنجیدگی تھی۔
عینا نے اثبات میں سر ہلایا اور باس کے حکم کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے نکل گئی۔
دو گھنٹے بعد باس نے ایل ای ڈی کا بٹن پریس کیا اور ریموڈ لیے صوفے پر آ بیٹھی۔
” وفا ملک پر حملہ، ایک مسٹری بن کر رہ گیا۔”
اینکرز سسپینس کرئیٹ کر رہے تھے۔
” اکاش ملک کا کہنا ہے، ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔”
” مسٹر ایان ملک نے اپنے بیوی کےمتعلق بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سات ماہ قبل پاکستان سے شفٹ ہوئی ہیں، ان کی کسی سے دشمنی نہیں ہے، یہ حملہ ساریہ نائک اور وفا ملک کہ رشتہ منظر عام پر آنے کے بعد ہوا ہے۔”
اینکر سانس لینے کو رکی۔
باس کی نظریں اینکر کے چہرے پر اور سماعت اسکی آواز پر ٹکی تھی۔
” ایان ملک کا کہنا ہے کہ، وفا ملک پر حملہ یا بالاج نائک نے کروایا ہے تاکہ وفا ملک بزنس میں اپنا حصہ نا مانگ لے، یا ساریہ نائک کے دشمنوں نے، ان کا مزید کہنا ہے کہ وفا ملک پر ہوئے اس حملے کی جانچ پڑتال سختی سے کروائی جائے گی اور حملہ آور کو ہر ممکن سزا دلوائی جائے گی۔”
” مسٹر ایان ملک اپنی وائف کو لے کر ملک ہاوس شفٹ ہو گیے ہیں، مزید اپ ڈیٹ سے آگاہ کرتے ہوئے ملک ہاوس کے باہر سیکورٹی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔”
اینکرز کا آیکون چھوٹا ہوا اور ملک ہاوس کی ویڈیو سکرین پرپلے ہونے لگی۔
باس نے بغور اس گھر کو دیکھا اور اپنے پلان کو عملی جامہ پہنانے کی سوچ پوسٹ پون کر دی، اتنی ٹائٹ سیکورٹی میں وفا ملک تک پہنچنا آسان کام نہیں تھا۔
باس نے چینل بدل دیا۔
” اپ ڈیٹ سے آگاہ کرتی چلوں، نائک کمپنی کی اونر ساریہ اپنی بیٹی سے ملنے ملک ہاوس چلی گئیں، بیٹی کی محبت ایک ماں کو اسکے بزنس حریف کی دہلیض تک لے آئی۔
اینکر کے بولتے ہی باس نے لب بھینچ لیے،
“ملکہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔”
باس نے سیاہ چیس پیس کی رانی پر مارک کیا اور سفید پیس رانی پر وار کیا۔
” ساریہ نائک کا کہنا پے، انکی پہلی بیٹی وفا ملک کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہیں، یہ حملہ جس نے بھی کروایا ہے اسے کڑی سے کڑی سزا دینے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔”
باس نے ریموڈ سے آف کا بٹن پریس کیا اور ریموڈ دوسرے صوفے پر اچھال دیا۔
” اب باری ہے بالاج نائک اور شہروز نائک کے بانڈ کو توڑنے کی۔”
باس ہاتھ پیچھے باندھے آہستگی سے ٹہلنے لگی اور موبائل سے عینا کو کال کر کے ایک ارجنٹ میل بھیجنح کا کہا، اور کال ڈسکنکٹ کر کے لیپ ٹاپ کی طرف بڑھی۔
” مسٹر بالاج نائک،
دا اونر آف بالاج ہوٹل چینز۔
کیا آپ جانتے ہیں، آپ کی مام صبیحہ نائک کی موت کیسے ہوئی۔”
” ایک ویل ایجوکیٹد عورت نے پراپرٹی اپنے شوہر کے نام کرتے ہوئے تھمب پرنٹ کا استعمال کیوں کیا۔؟”
میل ٹائپ کی اور کمپوز کر کے عینا کو بھیج دی۔
” یہ میل سیکور آئی ڈی سے بالاج نائک کو بھیج دو۔”
عینا کو میسیج بھیجا اور اگلی چال کی پلاننگ کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیارہ بجے کا وقت تھا، شہروز نائک اور بالاج آفس میں بیٹھے نیوز سن رہے تھے۔
” ڈیڈ میڈیا کو کس نے بتایا وفا ملک کے بارے میں۔”
بالاج کچھ سوچتے ہوئے بولا اور اگلا چینل بدلا۔
” ایک اہم ذرائع سے خبر ملی ہے کہ وفا ملک پر ہوئے حملے کے پیچھے شہروز نائک اور بالاج نائک نے کروایا ہے، مزید یہ کہ عہ نائک کمپنی میں مزید شراکت داری برداشت نہیں کر پائے۔”
بالاج نائک کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
شہروز بائک نے سختی سے لب بھینچ لیے۔
” یہ خبر ضرور ساریہ نے دی ہو گی۔”
بالاج نائک ریموڈ دیوار میں مارتے ہوئے چیخا۔
” ایان ملک پر بھی شک کیا جا سکتا ہے۔”
شہروز نائک سگھار ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے پریشانی سے گویا ہوا۔
” اب اس کلر کووت کے گھارٹ اتارو، اسکا موبائل نمبر سب ختم کرو، قبل اسکے پولیس استک پہنچے۔”
شہروز نائک سنجیدگی سے پرسوچ لہجے نیں بول رہا تھا۔
بالاج نائک سنائیپر سے ملنے چلا گیا۔
شہروز نائک گہری سوچ میں گم ہو گیا۔
” اس لڑکی کو مرنا تو پڑے گا۔”
شہروز نائک ملک ہاوس کے گرد ٹائٹ سیکورٹی دیکھ لب بھینچ کر رہ گیا۔
” ساری چالیں الٹی پڑ رہیں ہیں، ضرور کوئی پیٹھ پیچھے وار کر رہا ہے۔”
دوسرا سگھار ٹیبل پر پٹختے ہوئے کوٹ پیچھے کیے کمر پر ہاتھ رکھے کھڑکی میں آگیا، چہرے پر سخت تاثرات تھے۔
دولت کا لالچ انسانیت کا قتل کر رہا تھا، جس دل میں لالچ بس جائے وہ دل انسانیت سے خالی اور ناکارہ ہو جاتا ہے، ایسے بے ضمیر انسان انسانیت کی حدود سے نکل کر حیوانیت میں داخل ہو جاتے ہیں۔
لالچ بری بلا ہے، اور بلائیں کبھی بخشتی نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...