” کیا بات ہے بیلہ یہاں اس طرح کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کیا سوچ رہی ہو ؟” نجانے کتنے پل بیتے کتنے ہی لمحے چپ چاپ بنا آہٹ کے گزر چکے تھے لیکن بیلہ لاکھانی وہیں اسی بنیچ پر بیٹھی انہی دل خراش لمحوں کے حصار میں تھی کہ خدیجہ شاہد اس کو ڈھونڈتی وہاں تک پہنچی تھیں۔
” بیلہ۔۔۔۔۔۔” خدیجہ اس کے قریب آکر اس کے کندھے کو چھوتے ہوئے پھر اس کو پکارنے لگی تو وہ یوں چونکی جیسے گہری نیند سے بیدار ہوئی ہو۔
” جج۔۔۔۔۔۔۔جی ابو۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ ایک دم سے اٹھ کھڑی ہوئی اور لڑکھڑاتی آواز میں بولی تو خدیجہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی تو وہ نظریں چرا گئی۔
” کیا بات ہے بیٹی سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔۔اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو؟” اس کے پریشان حال چہرے کو دیکھتے خدیجہ کو فکر لاحق ہوئی۔
” کچھ نہیں بوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے ہی ادھر آکے بیٹھی تو وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چل سکا۔” وہ مسکرا کر بولتی ان کو مطمئن کرنے لگی۔
” آپ یہاں کیسے آئیں؟” وہ زمین پر پڑے پائپ کو اٹھا کر سائیڈ پر رکھنے لگی اور خدیجہ کی وہاں آمد کا سبب جاننے کے لیے ان سے پوچھنے لگی جو گم صم کھڑی اس کے کتراتے ہوئے انداز کو دیکھ رہی تھیں۔
” ہاں میں آپ کو ڈھونڈ رہی تھی ۔” وہ اس کے مصروف انداز کو دیکھتے پر سوچ انداز میں کہنے لگیں۔
” مجھے ڈھونڈ رہی تھیں! کیوں سب حیریت ہے ؟” وہ ان کی طرف دیکھے بغیر پوچھنے لگی ۔
” آپ کو علی الحسن بھائی نے بلایا ہے ۔”
” او ہاں وہ بابا نے بولا تھا جیولری والا آئے گا تو میں سلیکٹ کر لوں جو جو چاہیے پھر آرڈر بھی تو دینا ہو گا ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی دن کتنے رہ گئے ہیں شادی میں۔ اف اتنے کام ہیں ابھی کرنے والے ۔ اچھا بوا پلیز آپ یہ پائپ فولڈ کرکے رکھ دیں گی میں بابا کی بات سن کر آؤں۔” وہ پائپ ادھر ہی رکھتے دوپٹہ سر پر جمائے عجلت میں بولتی ان کی طرف دیکھنے لگی اور اس کی بات پر خدیجہ سناٹوں کی زد میں خاموش نظروں سے اس کی طرف دیکھے جا رہی تھیں۔
بیلہ نے اس کے خاموش انداز کو نوٹ کیا۔
” کیا بات ہے بوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس سوچ میں پڑ گئیں آپ؟” بیلہ ان کے پاس آ کھڑی ہوئی۔
” نن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں بیٹا نہیں آپ علی الحسن بھائی کی بات سن آئیں میں یہ کر دیتی ہوں ۔” انہوں نے جھک کر پائپ اٹھایا اور وہ ان کی طرف دیکھتی وہاں سے ہٹ گئی تو خدیجہ کی نظروں نے دور تک اس کا تعاقب کیا۔
” بوا مہندی کا رنگ گہرا آئے تو کیا ہوتا ہے ؟” کچھ دن پہلے رنگ برنگی چوڑیوں ‘ کپڑوں اور مہندی کے سجے تھال کو سیٹ کرتے ہوئے اس نے پوچھا تھا۔
” کچھ نہیں ہوتا کیا ہو گا ؟” خدیجہ بہیت سے کپڑوں کو اٹیچی کیس میں رکھتے ہوئے اس کی طرف دیکھتے مسکرا کر بولیں۔
” نہیں ناں بوا” سب کہتے ہیں ناں کہ اگر مہندی کا رنگ گہرا آئے تو جس سے شادی ہوتی ہے وہ اس سے بہیت پیار کرتا ہے۔” وہ مہندی کی کون اٹھاتے ہوئے شرمائے لجائے بولی تو خدیجہ اس کے بھولے پن پر اس کی طرف دیکھتی اس کی ڈھیروں لیں ڈالیں اور اس کی خوشیوں کی دعائیں مانگنے لگیں۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید قسمت اسی کو کہتے ہیں۔خدیجہ اپنی بڑی سی چادر سے اپنی گیلی پلکیں صاف کرتی سرد آہ بھر کر رہ گئیں۔
” یا اللہ اس حویلی کی بیٹیوں کی ہی قسمت میں اتنے آنسوکیوں ؟ یا اللہ لاکھانی لاج کی بیٹیوں کی خوشیاں ان کی جھولی میں ڈال دے ۔ اب کسی کا سر نہ جھکنے دینا یا اللہ میں التجا کرتی ہوں تیرے سامنے جھولی پھیلائے ان کی سب کی خوشیوں کی بھیگ مانگتی ہوں۔”
خدیجہ کا ” لاکھانی لاج” سے خون کا نہیں اعتبار کا اور انسانیت کا رشتہ تھا جو سالوں سے اسی طرح سے برقرار تھا خدیجہ ایک بے سہارا عورت تھی جس کو علی الحسن لاکھانی نے برسوں پہلے اپنے گھر میں پناہ دی اور دھیرے دھیرے وہ اس حویلی کا حصہ بنتی چلی گئی ۔ منتوں اور مرادوں کے بعد علی الحسن کے گھر بیلہ کا جنم ہوا لیکن کاتب تقدیر نے نسرین لاکھانی کی قسمت میں ماں کا ساتھ نہ تھا کچھ پچیدگیوں کے باعث اس کی پیدائش کے چند گھنٹوں بعد ہی وہ ہمیشہ کی نیند سو چکی تھیں تو علی الحسن نے اس ننھی منی پری کو خدیجہ کی جھولی میں ڈالا لیکن فاطمہ لاکھانی جو مجیدالحسن کی شریک حیات تھیں کو خدیجہ سے خدا واسطے کا بیر تھا تو انہوں نے کمال مہارت سے بیلہ کی دیکھ بھال کی ذمے داری اپنے سر لے لی لیکن نیت میں کھوٹ ہو تو کوئی کام سیدھا نہیں ہوتا دیر یا سویر وہ بگڑ ہی جاتا ہے بیلہ فاطمہ سے سنبھالی نہ گئی یا شاید نسرین کے گزر جانے کے بعد جو پہلا لمس اس نے محسوس کیا تھا وہ خدیجہ کا ہی تھا اس لیے وہ انہی کے لیے مچلنے لگی تھی۔تو مجبورا فاطمہ کو اس ان چاہی ذمہ داری سے بھی دستبردار ہونا پڑا ۔ اپنی ضدی اور بدلہ لینے کی طبیعت کے باعث فاطمہ نے بیلہ کو خدیجہ کے لیے ” ماں ” کا لفظ نہ بولنے دیا تو یوں ساریہ اور زرغم کی طرح وہ بھی خدیجہ کو ” بوا ” ہی کہنے لگی تھی۔ وہ علی الحسن کی اکلوتی اولاد اور ماں نہ ہونے کی وجہ سے سب کی لاڈلی تھی ۔ سادہ مزاجی اور اکھڑ پن کی وجہ سے ہر دل میں اتر جاتی دوسروں سے ہمدردیاں مدد کرنا شاید اس کی وراثت میں ملا تھا لیکن اس کے مقابلے میں ساریہ الگ فطرت کی مالک تھی حساس تھی لیکن بے پروا بھی تھی اور کچھ جیلسی شاید اس کو فاطمہ کی تربیت کے باعث اس میں آ گئی تھی ۔ بیلہ سے دوستی تھی لیکن فاطمہ کے وقتا فوقتا لیکچرز کی بدولت کبھی کبھی وہ دوستی ایک سرد جنگ میں ڈھل جاتی تھی۔کہیں نہ کہیں ان دونوں میں فرق کیا جاتا تھا جس کی وجہ فاطمہ کا رویہ تھا لیکن ساریہ کے سامنے یہ بات الگ نظریے سے پیش کی جاتی تھی اور کچے ذہن کی ساریہ ماں کی بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر چھوٹی چھوٹی بات پر کڑھتی ضد کرتی مجیدالحسن سے لڑتی تو فاطمہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ اتراتی پھرتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زرغم عباسی کون ہے ؟ اس بات سے ” لاکھانی لاج” کے چند لوگ ہی واقف تھے باقی شاید بے جاضداور جھوٹی انا کے زعم میں زرغم کے وجود سے انکاری تھے۔چونکہ زرغم علی الحسن اور خدیجہ کے بے حد قریب اور ان کا لاڈلہ تھا تو زرغم کی یہ سبقت بیلہ سے برداشت نہ ہوتی تھی اس لیے وہ اس سے چڑتی تھی اور جیسے ہی موقع ملتا اس سے الجھ پڑتی۔
” بابا صرف میرے ہیں خدیجہ بوا بے شک لے لو لیکن اگر میرے بابا پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ناں تو اچھا نہیں ہوگا۔” اس کی ان دھمکیوں اور اکھڑ انداز نے نجانے کب زرغم کے اس کے لیے احساسات بدل دئیے وہ جان نہ پایا دونوں میں کوئی بے تکلفی یا دوستی نہ تھی زرغم چپ چاپ رہنے والا سنجیدہ اور بردبار قسم کا لڑکا تھا۔ہر وقت انجاتی سوچوں میں گھرا رہنے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھیما لہجہ گہری آنکھیں اپنے ان رشتوں کو ٹوٹ کر چاہنے والا زرغم عباسی کسی کا بھی آئیڈیل ہو سکتا تھا لیکن بیلہ نے کبھی ایسا سوچا نہیں ہاں ساریہ نے ایسا ضرور سوچا تھا۔ساریہ اور زرغم میں چھوٹی موٹی نوک جھونک بھی چلتی تھی اور ساریہ کے کچھ بہتر رویے کی وجہ زرغم بھی تھا جو اس کو جب بھی موقع ملتا سمجھا دیتا ۔ ساریہ بیلہ میں رابطے بڑھنے لگے تو ساریہ بیلہ سے اس کی باتیں شیئر کرنے لگی اور پھر زرغم کے دل میں بیلہ کے لیے خاص جگہ تھی ہی اس کی باتیں سنتے سنتے اس کو دھمکیاں دیتے دیتے کب بیلہ کا دل اس کے ذکر پر دھڑکنے لگا کب وہ اس کی راہ تکنے لگی وہ جان نہ پائی نجانے کہاں سے ایک نرم گوشہ ابھرتا تھا کچھ انجانے میٹھے ہلچل مچا دینے والے احساسات جنم لینے لگے تھے اور اس بات کا سب سے پہلے احساس ساریہ کو ہی ہوا۔اور وہ محبت جو ابھی اقرار کے مرحلے میں بھی داخل نہ ہوئی تھی ساریہ کی کوششوں سے بد گمانی کی لپیٹ میں آنے لگی۔
” بابا آپ نے مجھے بلایا ؟” دھیمی رفتار وہ چلتی وہ علی الحسن کے کمرے میں داخل ہوئی اور مدھم آواز میں پوچھنے لگی اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا علی الحسن اپنے مخصوص صوفے پر بیٹھے تھے ان کے ساتھ ہی مجیدالحسن اور سیعدہ براجمان تھے۔
بیلہ کو ان کے چہروں پر پھیلی سنجیدگی اور ان کے خاموش ہو کر پہلو بدلنے سے پل بھر میں اندازہ ہو گیا کہ وہ تینوں کسی گھمبیر مسئلے پر غوروفکر کی غرض سے ایک ساتھ سر جوڑ ے بیٹھے ہیں۔
” ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں بیٹا آؤ۔” علی الحسن نے ہاتھ اونچا کرکے اس کو اپنے پاس بلایا تو آہستہ روی سے چلتی وہ اس کے پاس آکھڑی ہوئی۔مجید الحسن اور سیعدہ لاکھانی چپ چاپ بیٹھے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
” بابا آپ نے دوا لی ؟” وہ ہچکچانے ہوئے ان کے پاس بیٹھی تو فکر مندی سے گویا ہوئی ۔ علی الحسن خاموشی سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
” نہیں لی ناں؟” وہ ٹٹولتی نظروں سے ان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی تو مدھم مسکان کے ساتھ وہ سر جھکا گئے۔
” بری بات ہے ناں بابا ” آپ کو پتہ ہے آپ کو صحیح ٹائم پر کھانا کھا کر دوا لینی ہوتی ہے۔ اب یقینا آپ نے کچھ کھایا بھی نہیں ہوگا۔” وہ ان کی طرف دیکھتی نروٹھے لہجے میں بولی تو وہ ہنسنے لگے۔
” آپ لوگ باتیں کرو میں کچھ بھجواتی ہوں کھانے کے لیے اور آپ کی دوا بھی ۔” سعیدہ لاکھانی متانت سے ان کی طرف دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئی تو علی الحسن نے سر اثبات میں ہلادیا۔
” پھپو آپ بیٹھیں ناں میں لاتی ہوں ۔ ”
” نہیں تم بیٹھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” بیلہ اٹھنے لگی تو سعیدہ اس کو روکتے مختصرا جواب کے ساتھ ہی باہر نکل گئیں۔
” بھائی صاحب آپ آرام کریں مجھے کچھ کام ہے۔”
مجیدالحسن کی آواز پر بیلہ نے ان کو دیکھا۔
” بابا سب حیریت ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟” وہ فکر مندی سے ان کے ماتھے کو چومتے ہوئے بولی۔علی الحسن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں رکھا۔ڈبڈبائی آنکھوں سے وہ اس کی طرف دیکھتے کچھ سوچے جا رہے تھے اور بیلہ کا دل کسی انہونی کے ڈر سے کانپ رہا تھا۔
” بیٹا آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی کینسل ہو گئی ہے۔”
بالآخر انہوں نے انہونی کو الفاظ کا روپ دے دیا تو اسے لگا کسی نے پگھلا ہوا سیسہ اس کے کانوں میں انڈیل دیا ہو۔ وہ بت بنی دم بخود نگاہوں میں لا تعداد سوال لیے ان کو دیکھے جا رہی تھی۔
” زرغم کو کسی ضروری کام سے دبئی جانا پڑ گیا۔ اس نے اجازت مانگی ہم نے یہی بہتر سمجھا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جو پروگرام ہے وہ انشاءاللہ زرغم کی واپسی پر ہوگا۔” اپنے لہجے کو ریلیکس رکھتے ہوئے علی الحسن ڈھیلے ڈھالے انداز میں بول رہے تھے ۔
” میں لاکھانی لاج چھوڑ کر جا رہا ہوں۔” بیلہ کے کانوں میں ایک بار پھر اس کی آواز گونجی۔
” تو یہ سچ تھا۔” وہ بڑبڑائی۔
” کیوں زرغم اعتبار کیوں نہیں کیا؟ محبتوں کے دعوے اور اتنا بڑا فیصلہ اکیلے؟” وہ جو اس کی بات کو محض مزاق سمجھ رہی تھی حقیقت جان کر شاید کڈ رہ گئی۔
وہ محبت جو خدشوں اور وسوسوں میں پروان چڑھ رہی تھی ایک بار پھر بد گمانیوں اور بے اعتباریوں کی زد میں آنے لگی۔
” بابا میں دیکھتی ہوں پھپو ابھی تک نہیں آئی ہیں آپ کی دوائی کا ٹائم ہو رہا ہے ۔” سپاٹ چہرے کے ساتھ بولتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس سے پہلے علی الحسن کچھ کچھ کہتے وہ وہاں سے نکلتی چلی گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...