اویس اپنی امپورٹینٹ میٹینگ اٹینڈ کر کے میٹینگ روم سے نکلا اور اپنے آفس میں چلا گیا ۔۔۔ کوٹ اتار کر سیٹ کی پشت پر رکھا اور خود چئیر پر بیٹھ کر آنکھیں موند لیں ۔۔۔ اپنے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کو ماتھے پر لے جا کر دبانا شروع کر دیا جب اسکا آفس ڈور ناک ہوا
اویس کے کمنگ کہتے ہی خالد (انکا مینجر) آفس میں داخل ہوا
“کیا ہوا سر آپکی طبعیت تو ٹھیک ہے ؟؟” خالد ہاتھ میں فائل لیے اپنے سر کی طرف متفکر سا ہو کر پوچھنے لگا آج میٹینگ کے وقت بھی اس نے نوٹ کیا تھا کہ اویس کو سر میں درد تھی اور کچھ چہرے کی تپش بھی معلوم ہوئی تھی لیکن اب اسے پیشانی دباتے دیکھ کر اسے یقین ہو گیا تھا کہ اسکی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں
“ہاں بس ہلکا سا بخار اور سر میں درد ہے تم بتاؤ کیا کام تھا ؟؟” اویس سیدھا ہو کر بیٹھتا اسے دیکھ کر آنے کی وجہ پوچھنے لگا
“سر وہ اس فائل پر آپکے سائن چاہیے تھے ۔۔۔ یہ ساغر صاحب کے ساتھ ڈیل کرنے کے کچھ اصول و ضوابط ہیں جو کہ معقول ہیں میں پڑھ چکا ہوں اگر آپ جاننا چاہیں تو میں پڑھ کر بتا سکتا ہوں۔” خالد نے فائل کھول کر اسکے سامنے رکھی
“نہیں اسکی ضرورت نہیں ہمیں آپ پر پورا بھروسا ہے ۔۔۔” اویس نے اس فائل پر سائن کر دیے ۔۔۔ خالد کئی سالوں سے انکے ساتھ کام کر رہا تھا اچھی فیملی سے تھا اور ایماندار بھی تھا اس لیے اس پر خضر صاحب اور اویس کو یقین تھا
“شکریہ سر اتنے یقین اور اعتماد کا ۔” خالد کی آنکھوں میں نمی آئی جسے وہ صاف کرتا فائل لے کر باہر چلا گیا ۔۔۔ اس آفس میں اسے عزت دی جاتی تھی اس لیے وہ اویس اور خضر صاحب کی بہت عزت کرتا تھا ۔۔۔ اور پھر ایک عزت ہی تو ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے باندھتی ہے
اسکے جانے کے بعد اویس نے اپنا موبائل اٹھایا اور اپنے دوست کا نمبر ملا لیا ۔۔۔ بات کرنے کے بعد وہ اٹھنے لگا تھا جب خالد دوبارہ آفس میں داخل ہوا
“سر یہ سر درد کی میڈسن ہے لے لیں کچھ بہتر فیل کریں گے۔” خالد نے ٹیبلیٹ اسکی طرف بڑھائیں
“شکریہ ۔۔۔” اویس کو درد کافی محسوس ہو رہا تھا اس لیے ٹیبلیٹ لے کر پاس پڑے ٹیبل پر جگ سے گلاس میں پانی ڈال کر پی لیا
“میں سہیل کے پاس جا رہا ہوں انجیکشن لگاؤں گا تو بالکل ٹھیک ہو جاؤں گا تم آفس کے باقی کام دیکھ لینا۔” اویس نے اپنے دوست سہیل کا کہا جو ڈاکٹر تھا اور اسکا اپنا کلینک تھا
“اوکے سر ۔” اویس نے اپنا کوٹ اور موبائل اٹھایا اور آفس سے باہر نکل گیا
___________
عالیہ کے بے ہوش ہوتے نغمہ بھاگ کر اسکی طرف آئی تھی ۔۔۔ پانی کے چھینٹے مارنے سے اسے جب ہوش نہ آیا تو اس نے عالیہ بیگم کی نبض چیک کی جو کافی سست چل رہی تھی ۔۔۔ اچانک اسے ہاسپٹل کا خیال آیا تو باہر کی طرف بھاگیں
پڑوس میں گاڑی کسی کے پاس نہیں تھی اور بائیک پر وہ اسے لے جا نہیں سکتی تھی ۔۔۔
مین سڑک سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹی سی سوسائٹی تھی جہاں انکا گھر تھا لیکن اس وقت وہاں ایکا دیکا لوگ ہی نظر آ رہے تھے انہوں نے سامنے سے آتی دو تین گاڑیوں کو ہاتھ کے اشارے سے روکنے کی کوشش کی لیکن ساری گاڑیاں اسے نظر انداز کر کے گزر گئیں۔۔۔ ایک کے ساتھ ٹکراتی ٹکراتی بچیں
________________
اویس گاڑی ڈروئیو کر رہا تھا جب اسے سامنے ایک چالیس سال کے قریب عورت گاڑی کو روکتے دیکھی لیکن وہ گاڑی اتنی تیزی سے اسکے پاس گزر کر گئی کہ اگر بروقت وہ نہ ہٹتی تو وہ گاڑی اسے کچل دیتی ۔۔۔ اویس نے فوراً گاڑی کو بریک لگا کر سائیڈ پر کیا اور اس عورت کی طرف بھاگا
“آنٹی آپ ٹھیک تو ہیں؟؟ کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟؟” اویس اپنی طبعیت کو پسِ پشت ڈال کر فکر مندی سے گویا ہوا
“نہیں بیٹا میں ٹھیک ہوں۔” نغمہ نے تیز تیز سانس لیتے جواب دیا
“آپ کو کہاں جانا ہے مجھے بتائیں میں چھوڑ آتا ہوں۔” اویس کو یہی لگا کہ شاید وہ کہیں جانا چاہتی ہیں جو گاڑی کو روک رہی تھیں
“بیٹا میں آپکی بہت مشکور ہوں گی اگر آپ میری مدد کر دیں تو۔۔۔”
“جی کہیے۔”
نغمہ نے اسے مختصر سا عالیہ کی خراب طبیعت کا بتایا اور اسے لے کر گھر آئیں
اویس نے جلدی سے آگے بڑھ کر عالیہ بیگم کو چیک کیا جو بے ہوش تھیں اس نے انہیں اٹھایا اور نغمہ کو ساتھ آنے کا کہتا وہاں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ نغمہ جلدی سے گھر کو لاک کرتی اسکے پیچھے آئی جہاں اس نے گاڑی کی بیک سیٹ پر عالیہ بیگم کو لٹایا تھا اسکے پیچھے بیٹھتے ہی اویس نے گاڑی زن سے آگے بڑھا دی۔
اگلے پندرہ منٹ میں وہ سہیل کے کلینک میں تھے جہاں ڈاکٹر سہیل عالیہ بیگم کو چیک کر کے بلڈ کی بوتل لگا رہا تھا
“کیا تم پہلے سے عالیہ آنٹی کو جانتے ہو ؟؟” ڈاکٹر سہیل جیسے ہی روم سے باہر نکلا چھوٹتے اویس سے پوچھا ۔۔۔ اویس نے نفی میں سر ہلا کر سارا واقعہ اسے بتا دیا
“سہیل بیٹا کیا ہوا سب خیریت ہے ناں؟؟” نغمہ نے اس سے پوچھا
“جی آنٹی وہ ٹھیک ہیں۔۔۔ کسی بات کا زیادہ سٹریس لینے سے انکا بلڈ لیول کافی لو ہو گیا تھا کچھ دیر میں انہیں ہوش آ جائے ۔۔۔ خیر بسمہ کہاں ہے کیا اسے نہیں پتا؟؟” سہیل نے نغمہ کی فکر کم کرتے پوچھا
“نہیں وہ سکول گئی تھی ۔۔۔ اور جلدی میں اسے فون کرنا یاد نہیں رہا ۔۔۔” نغمہ نے کہا وہ بسمہ کو نہ بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن اگر نہ بتاتی تو اس نے بعد میں اس نے ناراض ہو جانا تھا
“میں اسے کال کرتا آپ نمبر بتائیں ۔” سہیل نے فون نکال کر کہا
نغمہ نے نمبر بتایا سہیل کے تیسری بار بیل دینے پر فون اٹھا لیا گیا ۔۔۔ بسمہ کو مختصر سا بتا کر وہ اویس کو ساتھ لے کر اپنی سیٹ کی طرف آ گیا
“کیا تم انہیں جانتے ہو؟؟” اویس نے پوچھا
“ہاں یہ بسمہ کی ماں ہیں ۔۔۔ انہیں شوگر ہے انکا ٹریٹمنٹ میرے پاس ہی چل رہا ہے ۔۔۔ اس لیے بس اتنا ہی جانتا ہوں ۔” سہیل نے گہرا سانس لے کر بتایا
“اور تم بتاؤ تمہارا فون آیا تھا کہ تمہیں بخار ہے ۔۔۔ ” سہیل کو جیسے ہی یاد آیا وہ اٹھ کر اسکی طرف بڑھا
“زیادہ نہیں ہے بس تھوڑا سا ہے۔” اویس نے نارمل انداز میں کہا
“ایک سو دو ڈگری ۔۔۔ خدا کا خوف کرو ابھی یہ کم ہے۔” سہیل نے بخار چیک کر کے اسے آنکھیں دیکھائیں اور پھر انجیکشن لگایا
_____________
بسمہ ابھی ابھی انگلش کی کلاس لے کر بچوں کو اپنی ہلکی سی مسکراہٹ سے خدا حافظ کہتی روم سے باہر نکلی تھی جب سامنے طُوبہ کو دیکھ کر رک گئی ۔۔۔ اسکے چہرے سے غصہ اور ناراضی جھلک رہی تھی ۔۔۔
“بسمہ کتنی بے مروت انسان ہو تم؟؟ میں ہر وقت تمہارے راگ لاپتی رہتی ہوں اور تم ہو کہ اتنا نہیں کر سکتی کہ آ کر بندہ ایک بار مل لے۔۔ چلو ملنا بھی چھوڑو سلام ہی کر دے۔” طُوبہ کافی تپی ہوئی لگ رہی تھی ۔۔۔ اسکے شکوے اور شکائیتیں سن کر بسمہ ہلکا سا مسکرائی لیکن خاموش رہ کر اسے دیکھتی رہی۔
“اب کچھ بولو گی بھی یا میں جاؤں؟؟” طُوبہ نے اسے ہنوز خاموش کھڑا دیکھ کر چڑ کر پوچھا
“طُوبہ آج میری انویجیلیشن تھی کلاس میں اس لیے لیٹ نہیں ہونا چاہتی تھی ابھی بریک میں تمہارے پاس ہی آنے والی تھی لیکن اچھا ہوا تم ہی آ گئی ہو چلو اسٹاف روم میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں ویسے بھی بریک کے بعد والا لیکچر فری ہے میرا دل کھول کر باتیں کرنا تم۔” بسمہ نے اپنی طرف سے اچھی وضاحت دی تھی لیکن طُوبہ بھی اسکی دوست تھی ہر بات کو سمجھتی تھی
“تمہیں یہ صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے میں جانتی ہوں تم کیوں ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو تمہیں ہمیشہ دوسروں کی ہی فکر لگی رہتی ہے ۔۔۔ لیکن تم مل تو سکتی تھی ناں آ کر دوسرے لیکچر میں اگر دو منٹ دیر ہو جاتی تو کونسی آفت آ جانی تھی۔” طُوبہ کی ناراضی ابھی بھی قائم تھی ۔۔۔ اس نے سر جھٹک کر کہا
“آئندہ اس بات کا خیال رکھوں گی میم اور آج کے لیے سوری ۔” بسمہ نے کانوں کو ہاتھ لگا کر سوری کی
“میم مائی فٹ ۔۔۔ تمہاری میں دوست ہوں اور ہمیشہ رہوں گی خبردار اگر آئندہ مجھے میم کہا تو ۔” طُوبہ نے اسے گھورا
“اوکے یار اب معافی بھی مانگ لی ہے اب غصہ چھوڑو اور چلو۔” بسمہ نے آگے قدم بڑھاتے کہا
“اسٹاف روم میں نہیں میرے آفس میں چلتے ہیں۔” طُوبہ نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اپنے آفس کی طرف بڑھ گئی۔
بسمہ اور طُوبہ سکول لائف کی فرینڈز تھیں کالج میں جا کر الگ ہو گئیں تھیں لیکن جب بسمہ سکول میں اپلائی کیا تو یہاں اسکی طُوبہ سے دوبارہ ملاقات ہو گئی ۔۔۔ طُوبہ ایم اے کر چکی تھی اس لیے گھر میں بور ہونے کی بجائے وہ خضر صاحب کے ساتھ ہی سکول آ جاتی اور کونسلر کا کام طُوبہ خود سنبھالتی تھی ۔۔۔ ان چند سالوں میں بسمہ اسکے بہت نزدیک ہو گئی تھی دوست تو پہلے ہی تھیں لیکن اب بیسٹیز بن گئی تھیں ۔۔۔ طُوبہ اکثر بسمہ کے گھر بھی چلی جایا کرتی تھی ۔۔۔ انکی سکول میں دوستی دیکھ کر کچھ ٹیچرز رشک سے انہیں دیکھتی لیکن کچھ حسد بھری نگاہوں سے ۔۔۔ اس لیے جب کبھی بسمہ اسٹاف روم میں ان ٹیچرز کے ساتھ بیٹھی ہوتی تو انکے ڈھکے چھپے انداز میں اپنے لیے حقارت دیکھ لیتی تھی اب اتنی سمجھ تو اسے بھی تھی ۔۔۔ کل یہاں سے جاتے ہوئے بھی ایک نے اسے غریبی پر طعنہ دیا تو دوسری ٹیچر نے طُوبہ کے ساتھ دوستی کو غلط مطلب سمجھا اسی لیے آج وہ طوبی سے فوراً ملنے نہیں گئی تھی ۔۔۔
ابھی وہ اس سے بیٹھی باتیں کر رہی تھی جب ان نون نمبر سے اسے کال آنے لگی ۔۔۔ اس نے فون اٹھایا اور سہیل کی بات سن کر فوراً کھڑی ہو گئی
کیا ہوا؟؟ طُوبہ نے اسے اچانک اٹھتے دیکھ کر پوچھا
بسمہ نے اسے عالیہ بیگم کی صحت کا بتا کر چھٹی لی اور وہاں سے باہر آ گئی ۔۔۔ طُوبہ نے ساتھ چلنے کا کہا تو اسے منع کر دیا وہ اپنی وجہ سے اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
__________
“سہیل بھائی امی کہاں ہیں؟؟” بسمہ کلینک میں داخل ہوتی پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ کر بولی
اویس طُوبہ کو کال کر کے اپنی طبعیت کا بتا رہا تھا جب اسے کسی لڑکی کی آواز سنائی دی
“ریلیکس بسمہ وہ روم میں ہیں اور اب ٹھیک ہیں۔” سہیل نے تحمل سے بتایا اور بسمہ کو لے کر اس کمرے کی طرف بڑھ گیا
اویس نے فون بند کر کے موبائل پاکٹ میں ڈالا اور سہیل اور اس لڑکی کے پیچھے اس کمرے میں چلا گیا کہ ایک بار دیکھ لے سب ٹھیک ہے یا نہیں ۔۔۔ وہ انہیں گھر چھوڑنے کا ارادہ بھی رکھتا تھا
“نغمہ آپا آپ مجھے پہلے کال کر دیتیں امی کی طبعیت دیکھیں کتنی خراب ہو گئی ہے۔” بسمہ کی آواز بھرائی ہوئی تھی ۔۔۔ وہ عالیہ بیگم کا ہاتھ تھامے انکے پاس بیٹھی تھی
اویس جو سہیل سے انکے ہوش میں آنے کا پوچھنے والا تھا رُخ موڈ کر اس لڑکی کو دیکھا اور کچھ لمحے کے لیے اسکے سحر میں کھو گیا ۔۔۔ وہ مبہوت سا اسے دیکھنے لگا ۔۔۔ گلابی اور سفید لباس میں صاف شفاف جلد پر فکر مندی کے آثار لیے وہ اپنی ماں کے سرہانے بیٹھی اسے دنیا کی سب سے پیاری لڑکی لگی تھی ۔۔۔ دل کی دھڑکن ایکدم تیز ہوئی اور اس نے شدت سے ایک انوکھی اور معصوم سی خواہش کی تھی کہ “کوئی ایسا ہی وجود اسکے لیے بھی یوں فکر مند ہو ۔۔۔ اس جیسا نہیں بلکہ وہی ۔۔۔” اسکی فکر کرنے والے تھے یہ تو نہیں تھا کہ شاید اسکی پرواہ کوئی نہیں کرتا تھا لیکن جس طرح اسکا دل اسکی خواہش کر رہا تھا اس سے یہی تھا کہ ایک نظر میں وہ دل کی دنیا میں بن اجازت داخل ہو گئی ہو ۔۔۔ شدید بخار سے اسے جو دنیا بری لگ رہی تھی وہی دنیا اب اسے بہار لگ رہی تھی ۔۔۔ سہیل کی آواز پر فسوں ٹوٹا تھا اور اویس ہوش کی دنیا میں آیا تھا
“بسمہ فکر مت کرو وہ بالکل ٹھیک ہیں اب آپ خود زیادہ سٹریس نہ لیں ۔۔۔ کچھ دیر تک انہیں ہوش آ جائے گا میں کچھ میڈیسن لکھ دیتا ہوں وہ وقت پر دیتے رہنا اور جب تک یہ میڈیسن ختم نہ ہو آنٹی کو پہلے والی میڈیسن مت دیجیے گا۔” سہیل بسمہ کو ریلیکس کرتا اسے ہدایت دے رہا تھا اویس نے گہرا سانس لیا
“میں دل پھینک تو نہیں ہوں تو یہ کچھ لمحوں کی بے اختیاری کو میں کیا نام دوں۔” اویس نے ایک بار پھر بسمہ کو دیکھا تبھی بسمہ کی نظر سہیل سے ہوتی اسکے پیچھے گئی۔۔۔ اویس نے فوراً نظریں چرائیں تھیں۔
چھے فٹ سے نکلتا قد ۔۔۔ سفید رنگت پر ہلکی ہلکی بئیرڈ ۔۔۔ نیوی بلیو پینٹ اور کوٹ میں ملبوس وہ اپنی وجیہہ پرسنیلٹی کے ساتھ کھڑا تھا۔
“یہ اویس خان ہے یہی آپکی مدر اور نغمہ آنٹی کو یہاں لے کر آیا تھا۔” سہیل نے بسمہ کی نظروں کے تعاقب میں دیکھ کر اسے مطلع کیا جس پر بسمہ نے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔سہیل روم سے باہر چلا گیا ۔۔۔ اویس کو آج دل کی دھڑکن الگ انداز میں دھڑکتی محسوس ہوئی تنگ آ کر وہ بھی سہیل کے پیچھے باہر نکل گیا۔
“آنٹی کو کب تک ہوش آئے گا۔” اویس نے سہیل سے پوچھا
“کچھ دیر تک آ جائے گا پھر یہ جا سکتے ہیں۔ ” سہیل نے اپنے دوسرے مریضوں کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے خود اپنی سیٹ پر بیٹھتے جواب دیا
“اوکے میں انہیں انکے گھر چھوڑ کر ہی چلا جاؤں گا۔” اویس سائیڈ بینچ پر جا بیٹھا
کچھ دیر بعد جب عالیہ بیگم کو ہوش آ گیا تو سہیل نے جا کر ڈریپ اسکے ہاتھ سے نکال دی ۔۔۔ نغمہ اور بسمہ انہیں سہارا دے کر باہر لائیں
“میں گھر ہی جا رہا ہوں آئے آپ کو چھوڑ آتا ہوں ۔” اویس انکے ساتھ چلتا باہر آیا اور گاڑی کا ڈور کھول کر انہیں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا
گاڑی راستے میں رواں دواں تھی جب عالیہ بیگم کی آواز گاڑی میں گونجی
بیٹا نغمہ بتا رہی تھی آپ نے ہماری بہت مدد کی ہے ۔۔۔ آج کل کی دنیا میں جہاں اپنے چھوڑ دیتے ہیں وہاں غیر سے اتنی توقع کرنا میرے خیال میں ایک نامناسب سی بات تھی لیکن آپ نے اتنا کچھ کر کے میرے خیالات کو بدل دیا ہے ۔۔۔ آپکا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے ۔” عالیہ نے شفقت بھرے لہجے میں کہا
“آنٹی بیٹا بھی کہہ رہی ہیں اور غیر بھی ۔۔۔ یہ تو مناسب بات نہ ہوئی ۔۔۔ اور یہاں اپنے اور غیر کا معاملہ نہیں انسانیت کا ہے ۔۔۔ جن کا ضمیر زندہ ہوتا ہے انہیں غیر بھی اپنے لگتے ہیں ۔۔۔ اور شکریہ کہہ کر آپ میری انسانیت کو احسان کا نام دے رہی ہیں۔ ” اویس کے لہجے میں انکے لیے عزت تھی جس پر عالیہ بیگم مسکرا اٹھیں ۔۔۔ جہاں اپنے عزت نہیں دیتے وہاں کسی غیر کے لہجے میں عزت انہیں اویس کا گرویدہ کر گئی تھی ۔۔۔ وہ اسے دعائیں دیتی خدا کا شکر ادا کر رہیں تھیں کہ انسانیت آج بھی زندہ ہے ۔ بسمہ پورے راستے خاموش رہی تھی۔
“بیٹا گھر آؤ کچھ کھا کر جانا۔” اویس نے گاڑی انکے گھر کے پاس روکی ۔۔۔ گاڑی سے اتر کر عالیہ بیگم نے اسے گھر آنے کی دعوت دی “وہ پھر کبھی آنے کا کہتا” ایک نظر بسمہ پر ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔
____________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...