انسانی پنجردیکھنے کے بعد ونود کا دماغ بالکل معطل ہو گیا۔
انتہائی ڈر اور خوف کے عالم میں اس نے آگے بڑھ کر پنجرکا جائزہ لینا چاہا لیکن جیسے اس کی ہمت جواب دے گئی۔ تہہ خانے کا ماحول اتنا پر اسرار تھا اورفضاء میں اتنی بدبو پھیلی ہوئی تھی کہ کسی ذی روح کیلئے وہاں ایک لمحہ بھی ٹھہرنا ناممکن تھا لیکن ونود چونکہ حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا اس لئے وہ وہاں رکا رہا۔
وہ لمبی لمبی سانسیں لیتا رہا اور اندھیرے میں چمکنے والی سفید ہڈیوں کو دیکھتا لیکن کوشش کے باوجود اس میں آگے بڑھنے کی ہمت پیدا نہیں ہوئی۔
اچانک تہہ خانے میں رہنے والی چند چمگاڈریں چیخنے لگیں اور ایک بڑی سی چمگاڈر نے اس کے چاروں طرف منڈلانا شروع کر دیا۔ چمگاڈریں اتنی بے چینی نظر آ رہی تھی جیسے انہیں ونود کی موجودگی ناگوار گزر رہی ہو۔ جیسے وہ تہہ خانے کے چوکیدار ہوں ۔ جیسے ہی کسی کے حکم پر ان ہڈیوں کی حفاظت کر رہی ہوں ۔
چمگادڑوں کی چیخوں اور اڑنے والی چمگادڑ کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نے ماحول کو اور بھی زیادہ بھیانک بنادیا۔ اب ونود کیلئے وہاں رکنا بالکل ناممکن ہو چکا تھا۔ دوسرے ہی لمحہ وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
تہہ خانے میں لاش کا انکشاف اتنا سنسنی خیز تھا کہ ونود نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ شانتا کو بھی اپنا ہم راز بنالے ۔ وہ اس ارادے سے شانتا کے کمرے میں بھی داخل ہوا لیکن جب اس نے شانتا کے معصوم اور پرسکون چہرے پر نظر ڈالی تو جیسے اس کی زبان پر تالا لگ گیا۔ اس نے سوچا کہ شانتا حالات کی نئی کروٹ کی داستان سن کر پریشان ہی نہیں انتہائی خوف زدہ بھی ہو جائے گی۔ اور پھر جیسے اس کو شانتا پر رچم آ گیا۔
شانتا نے اس سے پوچھا “کیا بات ہے ؟ صبح ہی صبح آپ کا چہرہ پریشان کیوں نظر آ رہا ہے “۔
ونود نے جواب دیا “کوئی بات نہیں ہے ۔ میں رات کو دیر تک جاگتا رہا تھا”۔
شانتا ونود کا جواب سن کر مسکرائی اس نے کہا “کیوں جاگتے رہے تھے “۔ “بت کے جاگنے کے انتظار میں “۔ ونود نے ہنس کر کہا۔ “تو کیا فوارہ کا بت جاگ جاتا ہے ۔ شانتا نے گھبرا کر پوچھا۔ کیا وہ عورت…”
لیکن ونود نے شانتا کی بات کاٹ دی اس نے کہا “میں تو مذاق کر رہا تھا شانتا تم تو ذرا ذرا سی بات پر عورتوں کی طرح پریشان ہو جاتی ہو”۔
شانتا نے اس کے بعد بت کے مسئلہ پر کوئی بات نہیں کی۔ وہ ونود سے ادھر ادھر کی باتیں کر رہی لیکن ونود نے اتنا ضرور محسوس کر لیا کہ شانتا کا دماغ بھی اس کی طرح کسی شدید الجھن سے دوچار ہے ۔ خود شانتا بھی اس سے کوئی بات چھپا رہی ہے ۔
ونود شانتا کو اس کے کمرے میں چھوڑکر باہر آیا تو اس کی نگاہ غیر ارادی طورپر فوارے کے بت پر پڑی۔ حسب معمول عورت کے لبوں پر ایک نہ نظر آنے والی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ دیر تک بت کی شفاف آنکھوں کی طرف دیکھتا رہا اور پھر جیسے اس نے گھبرا کر اپنی نگاہیں جھکالیں ۔
اس نے ایسا محسوس کیا جیسے وہ بت سے نظریں ملانے کی ہمت کھوچکا ہے ۔
اب ونود اس طرح پر اٹل تھا کہ یہ بت جس عورت کا بھی ہو اس کی بے چین روح اس حویلی میں موجودہے ۔ تہہ خانے میں جس انسان کی ہڈیاں پڑی ہیں اس کا بھی اس روح سے تعلق ہے اور اس روح نے ہی ارادتاً اس کو تہہ خانہ تک پہنچنے کا راستہ دکھایا ہے ۔
لیکن سوال یہ تھا کہ یہ روح چاہتی کیا ہے ؟
وہ شانتا کے کمرے میں کیوں داخل ہوئی؟
وہ روزانہ رات کو 12بجے ہی کیوں نظر آتی ہے ؟
اس کا بت زندہ کیوں ہو جاتا ہے ؟
اپنے کمرے میں بیٹھ کر ونود نے ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے حالات کا جائزہ لیا لیکن پہلے کی طرح اس نے خود کو اندھیرے میں ہی محسوس کیا۔ سوال یہ تھا کہ وہ خود کیا کرے ؟ کیا یہ حویلی چھوڑدے ؟ کیا یہاں سے شہر واپس ہو جائے اور یا حالات کا مقابلہ کرے ۔
ایک لمحے کیلئے ونود کے ذہن میں یہ بھی خیال آیا کہ کیوں نہ بت کو اکھاڑکر دوبارہ کنویں میں پھینک دے لیکن اس نے خود میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں پائی۔ وہ ڈر سا گیا۔ اس نے سوچا کہیں اس کے اس اقدام سے روح ناراض نہ ہو جائے ۔ روح اس کی دشمن نہ ہو جائے
اور سوچتے سوچتے اچانک اس کومیری یاد آئی۔ اس نے جلدی جلدی میرے نام ایک خط لکھا اور فوری طورپر مجھے اگات پور طلب کر لیا۔
لیکن مجھے اس کا یہ خط دو دن بعد ملا تھا۔ ان دودن میں ونود اور شانتا پر جو کچھ گزری تھی اس نے ان دونوں کو برسوں کا بیمار بنادیا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان دو دنوں کی داستان سننے کے بعد خود میرے بدن کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے تھے ۔
ونود نے مجھے خط لکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ اس تہہ خانے میں داخل ہو گا۔ اور کسی کو بتائے بغیر تنہا داحل ہو گا۔ اپنے اس فیصلے پر عمل کرنے کیلئے اس نے ایک بڑی بیٹری لی، ایک پستول لیا اور شانتا کوبتائے بغیر دوبارہ تہہ خانے کی طرف روانہ ہو گیا۔ تہہ خانے کی طرف جانے سے قبل اس نے بت کی طرف دیکھا۔ بت بدستور مسکرا رہا تھا۔ پتہ نہیں کیوں … اس مرتبہ بت کی یہ مسکراہٹ اس کے دل میں ایک تیر کی طرح پیوست ہو گئی۔ بت کی اس مسکراہٹ نے جو کو وہ سینکڑوں مرتبہ دیکھ چکا تھا اس مرتبہ اس پر ایک سحرطاری کر دیا۔ وہ مبہوت ہو کر اس بت کی طرف دیکھنے لگا۔
ونود پر یہ کیفیت صرف چند لمحات ہی طاری رہی۔ وہ فوراً ہوش میں آ گیا۔ اُس نے بت کی طرف سے اپنی نظریں پھیر لیں ۔ اور ایک نئے عزم کے ساتھ تہہ خانے کی طرف روانہ ہو گیا۔ ونود پر کیفیت صرف چندلمحات ہی طاری رہی۔ وہ فوراً ہوش میں آ گیا۔ اُس نے بت کی طرف سے اپنی نظریں پھیر لیں اور ایک نئے عزم کے ساتھ تہہ خانے کی طرف روانہ ہو گیا۔
ونود اب کسی قیمت پر اپنا فیصلہ بدلنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ تہہ خانے میں داخل ہوتے ہی چمکاڈریں دوبارہ چیخنے لگیں ۔ لیکن اس مرتبہ ونود ان سے بالکل نہیں ڈرا۔ اس نے اڑنے والی چمکاڈر پر فائرکر دیا۔ چمکاڈر نے ایک بھیانک چیخ ماری اور اس کے جسم کے پرخچے اڑگئے ۔ دوسری چمکاڈر اس کے سر پر منڈلانے لگی تو اس نے اس کو بھی خاموش کر دیا۔ ونود بالکل مطمئن تھا کیونکہ ابھی اس کے پستول میں چار گولیاں باقی تھیں ۔ لیکن ونود کو تیسرا فائر کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ تمام چمگادڑیں چیختی چلاتی تہہ خانے سے باہر نکل گئیں اور یوں خاموشی چھا گئی ۔
انتہائی مضبوط اور بے خوف قدموں کے ساتھ ونود لاش کے پنجر کے پاس پہنچ گیا۔ اب اس نے اپنی طاقت اور بیڑی بھی جلالی تھی روشنی کا دائرہ جیسے ہی لاش پر پڑا ونود کی نظروں نے پنجر کی چھاتی کے گھڑے میں ایک خنجر دیکھ لیا اور پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر خنجر اٹھالیا۔
خنجر کی موجودگی یہ ثابت کر رہی تھی کہ یہ پنجر کسی عورت یا مرد کا تھا جس کو اس خنجر سے قتل کیا گیا تھا۔ خنجر پرانی ساخت کا تھا اور خم دار تھا۔ اس کا دستہ منقش تھا اور اس پر کچھ لکھا بھی ہوا تھا۔ اس نے اس تحریر پر بھی روشنی ڈالی۔ خنجر کے دستے پر ہندی رسم الخط میں لکھا تھا “راجہ بلونت سنگھ” اور جیسے یہ نام پڑھتے ہی ونود کو ایک سہارا مل گیا۔ اسی جگہ کھڑے کھڑے اسے پروفیسر تارک ناتھ یادآ گئے ۔ اس نے سوچا کہ خنجر پر کندہ کیا ہوا یہ نام پروفیسر کی تحقیق کو یقینا آگے بڑھادے گا۔ اور پھر جیسے ونود کے لبوں پر از خود ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔
لاش ایک سنگی چبوترے پر رکھی تھی۔ چبوترے پر پنجر کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ ونود نے چبوترے کے چاروں طرف ایک چکر لگایا۔ اور پھر اسی جگہ سے تہہ خانے کی چھت اور دیواروں پر روشنی پھینکی۔ اچانک اس نے تہہ خانے کے ایک گوشے میں ایک چھوٹا سا صندوق رکھے دیکھا۔
اچانک اس نے تہہ خانے کے ایک گوشے میں ایک چھوٹا سا صندوق رکھے دیکھا۔ اور دوسرے ہی لمحہ وہ اس صندوق کے نزدیک پہنچ گیا۔ صندوق مضبوط لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس کی ساخت بھی قدیم طرزکی تھی۔ صندوق پر نقش و نگار بنے تھے کنڈے میں ایک بڑا سا تالا پڑا تھا۔
یہ بالکل ناممکن تھا کہ صندوق دیکھ کر ونود کو حیرت نہ ہوتی۔ وہ دیر تک اس صندوق کو دیکھتا رہا۔ اب اس کا دماغ یہ سوچ رہا تھا کہ اس صندوق میں کیا ہو سکتا ہے ؟ یقیناً اس صندوق پر جمی ہوئی گرد یہ ثابت کر رہی تھی کہ یہ زمانے کی دست بردے محفوظ رہا ہے ۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ صندوق اٹھا کر باہر لے جائے گا۔
یہ ونود پہلے ہی دیکھ چکا تھا کہ صندوق زیادہ وزنی نہیں ہے ۔
تہہ خانے میں اس صندوق کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ اس لئے ونود نے یہ صندوق اٹھالیا اور صندوق اٹھاتے ہی اس نے ایسا محسوس کیا جیسے اس نے ایک بہت بڑی مہم سر کر لی۔ لیکن… یہ ونود کی خوش فہمی تھی۔ اور اس خوش فہمی کی وجہہ یہ تھی کہ ونود کو آنے والے واقعات کا کوئی علم نہیں تھا۔
یہ بالکل اتفاق تھا کہ جس وقت ونود صندوق لے کر اپنی حویلی میں داخل ہوا اس وقت کسی نوکر نے اس کو نہیں دیکھا ورنہ اسی وقت حویلی کے ملازم ایک نئی کہانی کو جنم دے دیتے اور یہ مشہور ہو جاتا کہ ونود کو قدیم خزانہ ملا ہے ۔
ونود جب اپنے کمرے میں پہنچا تو وہ پسینہ میں نہایا ہوا تھا۔ اُس نے سب سے پہلے اپنی جیب سے خنجر نکال کر اس کو میز کی دراز میں رکھا اور پھر صندوق کا تالا توڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ تالا زنگ آلود تھا اور کمزور ہو چکا تھا اس لئے ہتھوڑے کی ایک ہی ضرب سے کھل گیا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے صندوق کا ڈھکنا اٹھایا تو جیسے اس کی آنکھیں فرط حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
اندر صندوق میں زیورات بھرے تھے ۔ ایک عروسی لباس تھا اور ایک کتاب رکھی تھی۔ عروسی لباس بلاکل خستہ ہو چکا تھا۔ زیورات مرجھاے مرجھائے سے نظر آ رہے تھے لیکن کتاب بالکل اچھی حالت میں تھی۔ ونود نے سب سے پہلے کتاب ہی اٹھائی۔ اور پھر جیسے ہی اس نے اس کا ورق الٹا اس کا ہاتھ جیسے کانپ گیا۔
کانپنے کی بات ہی تھی کیونکہ کتاب کے پہلے ہی صفحہ پر ایک قلمی تصویر بنی تھی اور یہ تصویراسی عورت کی تھی جس کا بت اس کی حویلی کے فوارے میں نصب تھا۔ دونوں کے خدوخال اور لباس میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اس تصویر کے لبوں پر بھی وہی مسکراہٹ تھی جو فوراہ کے بت کے لبوں پر جم کر رہ گئی تھی۔
بت کی مسکراہٹ کی طرح اس تصویر نے بھی ونود پر چند لمحات کیلئے ایک سحر سا کر دیا۔ یقیناً اس نے اپنی زندگی میں آج تک اتنی خوبصورت عورت کی تصویر نہیں دیکھی تھی۔ تصویر کے خدوخال میں اتنی ہم آہنگی تھی کہ ونود تصویر کی گہرائیوں میں جیسے ڈوب کر رہ گیا۔ اور پھر اچانک بالکل ایک نئی کہانی شروع ہو گئی۔
اچانک ونود نے محسوس کیا کہ جیسے اس کے کمرے کا دروازہ آواز کئے بغیر آہستہ آہستہ خود بخود بن دہو گیا۔ ونود نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے کتاب کو اسی جگہ رکھ کر دوڑکر دوازہ کھولنا چاہا لیکن دروازے میں جنبش تک نہیں ہوئی۔ اور اس نے آوازیں دیں ۔
“دروازہ کھولو۔ یہ دروازہ کس نے بند کیا ہے ۔ میں کہتا ہوں دروازہ کھولو، ارے کوئی ہے … کالکا، کالکا“
لیکن اس کی آواز کمرے میں گونج گونج کر رہ گئی۔ کیونکہ اس اس کمرے کی تمام کھڑکیاں اور روشن دان بھی خود بخود بند ہو گئے تھے ۔ یہ کمرہ اب اس کیلئے قید خانے کی کوٹھری بن گیا تھا۔
صورتحال اتنی بھیانک ہو گئی تھی کہ ونود کی پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں ۔ اب اس کی آواز نے بھی اس کا ساتھ چھوڑدیا تھا۔ آواز اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی تھی۔
ونود اب خود ایک زندہ بت میں تبدیل ہو چکا تھا۔
چند منٹ تک اس کی یہی کیفیت رہی لیکن پھر وہ چونک سا گیا کیونکہ اب کمرے میں ایک خوشبو سی پھیلی ہوئی تھی۔
ہر خوشبو کا ایک نام ہوتا ہے لیکن اس کمرے میں جس قسم کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی اس کا کوئی نام نہیں تھا۔ یقیناً یہ خوشبو کسی عورت کے جسم کی تھی کیونکہ دنیا کی کوئی خوشبو اتنی لطیف اور اتنی حیات افزاء نہیں ہوتی جتنی عورت کے جسم سے نکلنے والی مہک ہوتی ہے ۔ یہ وہ عطر ہوتا ہے جو قدرت عورت کے جسم میں سمو دیتی ہے ۔ یہ خوشبو وہ خوشبو نہیں ہوتی تو پھولوں کے رس سے آتی ہے یا مٹی کے سوندھے پن سے یہ مہک مشک وغیرہ سے بھی نہیں آتی۔ یہ خوشبو صرف مسرت ہوتی ہے ۔ یہ مہک ہر خوشبو سے الگ ہوتی ہے ۔
کمرے میں یہ مہک بھی پھیلی اور ونود نے ایسا محسوس کیا جیسے اب اس کمرے میں اس کے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے ۔ ونود نے ٹھیک ہی محسوس کیا تھا کیونکہ آہستہ آہستہ اس کے بالکل قریب ایک دھواں سا پھیلا اور پھر یہ دھواں ایک انسانی وجود میں ڈھل گیا۔
اب ونود کے سامنے زندہ بت کھڑا تھا۔
وہی آنکھیں ، وہی مسکراہٹ، وہی خدوخال، وہی بالوں کی بل کھائی ہوئی لٹ، وہی تر و تازہ رخسار، وہی قد، وہی لباس، لبوں فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ اس وقت اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ سوتے سوتے اچانک اٹھ کر یہاں آ گئی ہو۔ وہ کسی مصورکی بنائی ہوئی کی رنگین لیکن خوابیدہ تصویر کی طرح نظر آ رہی تھی۔
چند لمحات تک یہ زندہ بنت ونود کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اب بت سے ایک آوازنکلی، آواز میں اتنی لپک تھی جیسے ایک مکمل جوانی آوازکے روپ میں ڈھل گئی ہو۔
بت نے کہا”مجھے دیکھ کر بالکل خوف زدہ نہ ہو ونود۔ میں کبھی بھی بری نہیں تھی۔ نہ اس زمانے میں جب کہ میں زندہ تھی اور نہ اس وقت جب کہ میں مرچکی ہوں “۔
ایک لمحہ کے توقف کے بعد بت نے مزید کہا “میرا نام شاتو ہے ، اور تہہ خانے یس لے کر یہاں تک جو کچھ ہوا ہے وہ میں نے ہی کیا ہے ۔ میں چاہتی تھی کہ تم تہہ خاین میں جاؤ اور وہاں سے یہ صندوق بھی اٹھا لاؤ اور وہ خنجر بھی ہے کیونکہ مجھے تمہارا ہی انتظار تھا۔ کیونکہ صرف تم ہی مجھے ایک قید سے نجات دلاسکتے تھے “۔
ونود بالکل بت بنا اس بت کی باتیں سنتا رہا۔
بت نے مزید کہا “تم میری یہ کتاب بالکل تنہائی میں پڑھنا تم کو میرے بارے میں سب کچھ معلوم ہو جائے گا لیکن یہ کتاب تمہیں یہ نہیں بتائے کہ میرے بت کا خالق کون تھا؟ میرا بت اندھیرے کنویں میں کیوں پڑا رہا؟ میرا بت روزانہ رات کے بارہ بجے زندہ کیوں ہو جاتا ہے ؟”
بت نے مزید کہا “میں جانتی ہوں کہ میرے بت کی لمحاتی زندگی نے تمہیں پریشان کر دیا تھا تم دیوانگی کی حد تک حیران ہو گئے تھے کہ میرا بت زندہ کیوں ہو جاتا ہے ۔ میں نے اسی لئے تم کو تہہ خانہ پہنچادیا۔ کیونکہ اب تم کو زیادہ پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی۔ میں ابھی اور اسی جگہ تمہیں اپنی داستان سنادینا چاہتی ہوں ۔ میں تمہاری یہ الجھن دور کر دینا چاہتی ہوں کہ ایک زندہ عورت پتھر کے ایک خوبصورت بت میں کیسے تبدیل ہو گئی؟ اور یہ بت زندہ کیسے ہو گیا؟
اور پھر شاتو اپنی کہانی سنانے لگی۔
ونود شاتو کو دیکھ رہا تھا اور مسلسل سوچ رہا تھا کہ کیا یہ وہی عورت ہو سکتی ہے جس کا بت اس کے فوارے میں نصب ہے ، ڈر اور خوف نے اس کے تمام احساسات ختم کر دئیے تھے ۔ ونود اب خود ایک زندہ بت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ شاتو پوری طرح اس کے اعصاب پر سوار ہو چکی تھی۔ چند لمحوں تک شاتو اس کی طرف سحر خیز نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر اس نے کہا “میں اس حویلی میں رہتی تھی لیکن اس زمانے میں یہ حویلی نہیں تھی ایک محل تھا۔ ایسا محل جس میں سینکڑوں ملازم تھے اور جہاں عیش و عشرت کا سارا سامان مہیا تھا۔ “ہم بالکل آزاد تھے ہماری ریاست مغلوں کی پروردہ ریاستوں میں سے نہیں تھی۔ ہمارے راجہ کے دہلی کے تخت سے باعزت تعلقات تھے ۔ ہماری ریاست کے عوام بڑے سکون اور اطمینان کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن اچانک اس محل میں ایک طوفان سا آ گیا۔ راجہ بلونت سنگھ نے اپنے چھوٹے بھائی کو محل سے نکال دیا اور …… شاتو اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی جیسے کچھ سوچنے لگی یا جیسے کچھ غم زدہ ہو گئی پھر اس نے کہا “تم نے تہ خانے میں جو لاش دیکھی ہے جانتے ہو وہ کس کی ہے ؟ وہ راجہ بلونت سنگھ کے بھائی راج کمار شونت سنگھ کی ہے ۔ اور جانتے ہو میں کون ہوں ؟ میں اسی راج کی بیٹی کی ہوں “۔ شاتو نے اس کے بعد کچھ نہیں کہا، وہ خاموش ہو گئی اور خاموش ہی رہی۔ کمرے کی پراسرار خاموشی نے اس کی اس خاموش کو اور بھی زیادہ بھیانک بنادیا اور پھر…اچانک شاتو چیخنے لگی”مارڈالو…مارڈالو….مارڈالو” وہ بالکل دیوانوں کی طرح چیخ رہی تھی، اس کا چہرہ بھی اب بھیانک ہو گیا تھا خوبصورت بال چہرے اور بازو پر بکھر گئے تھے آنکھیں لال ہو گئی تھیں منہ سے کف جاری ہو گیا تھا۔ وہ چیخے جا رہی تھی۔ “مارڈالو…مارڈالو…! ونود کو دیکھتے ہی دیکھتے شاتو کا وجود فضا میں تحلیل ہو گیا۔ اور صرف کی چیخیں باقی رہ گئیں ۔ کمرے میں اب بھی اس کی چیخیں گونج رہی تھیں ۔ ونود پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ لیکن یہ سکتہ نہیں تھا اب وہ بے ہوش ہو چکا ھا۔ ونود کی آنکھ کھلی تو شانتا اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے ڈال رہی تھی اور بے حد پریشان نظر آ رہی تھی۔ پاس ہی کالکا اور دوسرے نوکر بھی کھڑے تھے ۔ “آپ کیسے بے ہوش ہو گئے تھے ؟ آپ اس کمرے میں کیوں آئے تھے ؟ شانتا نے ونود کو ہوش میں دیکھ کر بڑے محبت بھرے لہجے میں پوچھا۔ “مجھے نہیں معلوم… بس اتنا یاد ہے کہ چکر سا آ گیا تھا”۔ ونود نے جھوٹ بولا۔ “آپ مجھ سے کوئی بات چھپا رہے ہیں “۔ شانتا نے کہا “نہیں شانتا… ونود نے بڑے کمزور لہجے میں جواب دیا” میں تم سے کوئی بات نہیں چھپا رہا ہوں “۔ “آپ مجھ سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں ، یہ میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی”۔ شانتا نے کہا “آپ مجھے یہ بتائے کہ اس کمرے میں یہ صندوق کہاں سے آیا؟ آپ کے پاس یہ خنجر کیوں پڑا تھا؟” ونود نے اب سپر ڈال دی، وہ شانتا کو سب کچھ بتانے پر مجبور ہو گیا۔ لیکن اُس وقت اُس نے صرف اتنا کہا “میں تمہیں سب کچھ بتادوں گا”۔ دراصل وہ نوکروں کے سامنے کوئی بات نہیں بتانا چاہتا تھا۔ ایک گھنٹے کے اندر اس کی طبعیت بحال ہو گئی۔ پھر اس نے تنہائی میں شانتا کو اب تک کی کل داستان بتادی۔ داستان اتنی ہولناک اور لرزہ خیز تھی کہ شانتا لرز کر رہ گئی۔ اس کے چہرے کا رنگ سفید پڑگیا۔ ونود نے اپنی داستان ختم کرنے کے بعد کہا “میں نے تمہیں پریشانیوں سے بچانے کیلئے ہر بات چھپائی تھی۔ میں تمہیں یہ نہیں بتانا چاہتا تھا کہ اس حویلی میں ہم زندہ انسانوں کے علاوہ ایک بھوت بھی رہتا ہے اور خود ہم نے اس بھوت کو اس حویلی میں رہنے کی دعوت دی ہے ۔ کیونکہ ہمارے آنے سے پہلے تک یہ بھوت کنویں میں قید تھا”۔ ونود نے مزید کہا “لیکن تم اطمینان رکھو یہ بھوت ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ شاتو کی روح بُری روح نہیں ہے “۔ “وہ یقیناً بُری ہے “۔ شانتا نے کچھ سوچ کرکہا “وہ بری نہ ہوتی تو چینخے کیوں لگتی؟ مجھے سمجھاؤ کہ وہ کس کو مارڈالنے کے ئلے چینخ رہی تھی”۔ “شائد اس پر کوئی دورہ پڑا تھا”۔ ونود نے کہا۔ “میں نہیں مانتی”شانتا نے کہا” اور پھر وہ اپنی داستان مکمل کئے بغیر چلی کیوں گئی؟ میں سچ کہتی ہوں ونود…. ہم کسی بڑی زبردست مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں ، بہتر یہی ہے کہ ہم یہ حویلی خالی کر دیں “۔ “نہیں شانتا….” ونود نے کہا “میں بزدل نہیں ہوں میں حویلی سے نہیں جاؤں گا میں یہیں رہوں گا۔ میں بت کے اسرار کو حل کر کے رہوں گا”۔ “تمہارا یہ فیصلہ غلط ہے ونود…” شانتا نے ایک لمبی سانس لینے کے بعد کہا”اور اس لئے غلط ہے جس طرح تم مجھ سے بت کی زندگی کی بات چھپار رہے تھے اسی طرح میں نے بھی تم سے ایک بات چھپائی تھی۔ “تم نے مجھ سے کیا چھپایا؟” ونود نے بے چین ہو کر پوچھا۔ “ایک بڑی اہم بات ونود…” شانتا نے بڑی مردہ آواز میں کہا “تم یہ شائد سن کر چیخ پڑو گے کہ اس حویلی میں صرف شاتو کا ہی بھوت نہیں ہے ایک آدمی کا بھی بھوت ہے ۔ ایک ایسے آدمی کا بھوت جو مجھے اپنی بیوی سمجھتا ہے !” “بیوی…!!!، ونود تقریباً چیخا۔ “ہاں بیوی…” شانتا نے کہا “میں نے ابھی تک اسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے ، لیکن میں نے اس کی آواز سنی ہے ۔ وہ رات میرے بالکل قریب موجود رہتا ہے اور مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے ۔ ابھی کل رات وہ مجھ سے کہہ رہا تھا “مجھے میری بیوی مل گئی شانتا… تم ونود کی بیوی نہیں ہو، تم میری بیوی ہو، میں تمہیں لینے آیا ہوں ۔ میں تمہیں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گا، اب دنیا کی کوئی طاقت مجھے تم سے جدا نہیں کر سکتی”۔ شانتاکے یہ جملے سن کر ونود کانپ گیا۔ شانتا کے انکشاف نے اس کی رگوں کا دوڑتا ہوا خون سرد کر دیا اس نے پوچھا “یہ بھوت تم سے اور کیا کہتا ہے ؟” ’اور کچھ نہیں کہتا .بس یہ کہتا رہتا ہے “مجھے میری بیوی مل گئی”۔ شانتا نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ “تم نے اسے بالکل نہیں دیکھا؟” “نہیں … میں نے صرف اس کی آواز سنی…”شانتا نے جواب دیا۔ “یہ آواز تمہیں عموماً کس وقت سنائی دیتی ہے …؟”ونود نے پوچھا۔ “رات کو”۔ لیکن میں تمہارے قریب ہوتا ہوں میں نے یہ آواز کیوں نہیں سنی ونود نے سوال کیا۔ “ہو سکتا ہے وہ صرف مجھ کو ہی اپنا آواز سنانا چاہتا ہو” شانتا نے کہا “اور ونود… میں نے تم کو یہ بھی نہیں بتایا ہے کہ میں شاتو کو بھی دیکھ چکی ہوں “۔ “تم نے شاتو کو کب دیکھا؟” “میں اسے بھی روز دیکھتی ہوں کیوں کہ وہ تمہیں دیکھتی رہتی ہے ۔ جب بھی تم گہری نیند سوجاتے ہو، وہ تمہارے قریب آ کر کھڑی ہو جاتی ہے “۔ شانتا نے اس کے بعد اور کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ ونود نے کہا “میں آج تمام رات جاگتا رہوں گا، شانتا میں اپنے دوست کو بھی یہاں بلالوں گا۔ میں اس اسرار کا حل کر کے رہوں گا”۔ ونود نے شانتا کو تسکین دینے کیلئے یہ جملہ کہہ تو دیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شانتا کی داستان سننے کے بعد وہ خود دل ہی دل میں لرز کر رہ گیا تھا، اس کی قوت فیصلہ جواب دے چکی تھی۔ چند منٹ تک وہ خاموش کھڑا کچھ سوچتا رہا پھر اُس نے شانتا سے کہا “اب تم ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے کمرے میں تنہا نہ رہنا، میں نہ ہوں تو تم کالکا کو اپنے ساتھ رکھنا۔ اور اس وقت شہر جا رہا ہوں ۔ میں صندوق والی کتاب پروفیسر کو دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ پڑھ کر مجھے بتائے کہ سنسکرت میں لکھی ہوئی اس کتاب میں کیا لکھا ہے ۔ تم اطمینان رکھنا میں شام سے پہلے ہی واپس آ جاؤں گا”۔ اتنا کہہ کر ونود نے صندوق کھول کر کتاب نکالی اور کمرے کے باہر نکل گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک مرتبہ پھراس کے حوصلے جوان ہو گئے تھے ۔
ونود کو دیکھتے ہی پروفیسر تارک ناتھ مسکرانے لگے ۔ انہوں نے کہا “میں نے اب تک آپ کی حویلی کے سلسلے میں کوئی نئی بات نہیں معلوم کی ہے “۔
“لیکن میں نے اک نئی بات معلوم کر لی ہے “۔ ونود نے کہا اور پروفیسر کے سامنے کتاب رکھ دی۔ اس کے بعد اس نے پروفیسر کو بھی پوری داستان سنادی۔
پروفیسر نے اس کی حیرت ناک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان سن کر پوچھا” آپ کو پورا یقین ہے کہ اس کتاب میں شاتو ہی کی تصویر ہے ؟
“جی ہاں ….” ونود نے کہا “آپ نے صرف بت کو دیکھا ہے اور میں تو شاتو کو ایک زندہ وجود کے روپ میں دیکھ چکا ہوں ۔ میری نظریں دھوکہ نہیں کھا سکتیں “۔
ونود نے مزید کہا “آپ یہ پوری کتاب پڑھ لیں اور مجھے مشورہ دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ۔ میں فوری طورپر آپ کا مشورہ چاہتا ہوں “۔
“میں کوئی مشورہ نہیں دے سکتا مسٹر ونود…” پروفیسر تارک ناتھ نے بڑی ہمدردی سے کہا “میں تاریخ کا پروفیسر ہوں اور بھوتوں کو بھگانے کا کوئی منتر نہیں جانتا، میرا اپنا خیال ہے کہ شانتا نے آپ کو بالکل صحیح مشورہ دیا ہے ۔ آپ فوراً یہ حویلی خالی کر دیں “۔
“لیکن پروفیسر صاحب…” ونود نے کہا “میرے حویلی خالی کر دینے سے کیا وہ بھوت جو شانتا کو اپنی بیوی کہتا ہے اس کا تعاقب نہیں کرے گا؟”
پروفیسر تارک ناتھ کے پاس ونود کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ چند منٹ کیلئے خاموش ہو گئے ، جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ہوں ، انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ چند منٹ کے بعد انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا “میرا خیال ہے کہ راجہ بلونت سنگھ نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا ہو گا، اور بھائی کی بیٹی شاتو کی روح کی بے چینی کا سبب یہی ہے “۔
“میں آپ کی یہ بات مان لیتا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ شاتو کا بت ٹھیک بارہ بجے زندہ کیوں ہو جاتا ہے ؟ شانتا کو کسی مرد کی آواز کیوں سنائی دیتی ہے ؟”
“یہ شاتو ہی بتاسکے گی”۔ پروفیسر تارک ناتھ نے کہا “وہ یقیناً آج رات بھی آپ سے ملنے آئے گی۔ ابھی تو اس نے اپنی نامکمل داستان ہی سنائی ہے اور وہ یہ داستان ضرور پوری کرے گی، بہرحال …”
تارک ناتھ نے مزید کہا “میں شام سے قبل آپ کے پاس پہنچ جاؤں گا، اور آج رات آپ کے ساتھ ہی رہوں گا، شام تک میں اس کتاب کا مطالعہ بھی ختم کر دوں گا۔ ہو سکتا ہے یہ کتاب آپ کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہو۔
اب ونود نے پروفیسر سے ایک بالکل انوکھا سوال کیا” کیا آپ بھی بھوتوں کے قائل ہیں پروفیسر صاحب؟”
“ہاں۔۔۔۔” پروفیسر نے جواب دیا “لیکن اس کے ساتھ میرا یہ بھی یقین ہے کہ بھوت پریت انسان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ، کیونکہ انسان ان سے زیادہ طاقت ور ہیں انسان ان سے افضل ہیں”۔
ونود نے اس کے بعد کوئی سوال نہیں کیا۔۔۔ وہ جانے کے لئے اٹھ گیا چلتے چلتے اس نے کہا “میں آپ کا انتظار کروں گا پروفیسر صاحب”۔
ونود جانے لگا تو پروفیسرنے اس سے کہا “آپ کے تمام مسائل کا ایک حل یہ بھی ہے کہ آپ ابھی اور اسی وقت اس بت کو دوبارہ کنویں میں پھینک دیں”۔
“نہیں پروفیسر صاحب” ونود نے کہا “میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ میں شاتو کی روح کو مزید بے چین کرنا نہیں چاہتا۔ میں اس کو قرار پہنچانا چاہتاہوں۔ میں اس کو ابدی سکون دلادینا چاہتا ہوں میں حویلی کے اسرار کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردینا چاہتا ہوں۔۔۔
ونود اتنا کہہ کر پروفیسر کے کمرے سے باہر نکل آیا۔
یہ کتاب تعمیر نیوز ویب سائٹ کے اس صفحہ سے لی گئ ہے۔