بچے میں تمہیں ابھی میلان شہر میں پہنچا دیتا ہوں۔ جولیا وہاں ایک تھیٹر میں روزانہ آتی ہے تم بھی وہیں داخلہ لے لینا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی رہنا۔ پندرہ دن بعد پورے چاند کی رات ہے۔ تم نے اسی دن جولیا کو یہ سرخ پھول سونگھانا ہے۔ وہ جیسے ہی اسے سونگھے گی اس کی یاداشت واپس آجائے گی۔ بزرگ نے اسے ایک سرخ رنگ کا پھول دیا جسے علی چرواہے نے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ بیٹا چودہویں رات سے پہلے کبھی بھی جولیا کو یہ نہیں بتانا کہ تم اسے جانتے ہو یا تم ایک بھیڑیے ہو۔ اگر تم نے اس رات سے پہلے یہ راز اس پر آشکار کیا تو تم دونوں کی جان کو خطرہ ہوگا۔ انسان تمہارے خون کے پیاسے ہوں گے۔ جو بھی تم دونوں کو مار کر تمہارا خون پئے گا وہ دوبارہ جوان ہو جائے گا اور ایک لمبی زندگی جئے گا۔ اگر کسی کو پتہ چلا تو اس دنیا میں سارے ہی انسان تمہارے خون کے پیاسے ہو جائیں گے۔ اس لیے کبھی بھی اپنا راز کسی پر مت کھولنا۔ شہزادی جولیا کو بھی مت بتانا اس کی یاداشت واپس آئے گی تو وہ خود ہی تمہیں پہچان لے گی۔ بزرگ نے علی کو تمام باتیں سمجھائیں اور اسے آنکھ بند کرنے کا کہا۔ علی نے آنکھیں بند کر لیں تو اسے ایسا لگا جیسے وہ اڑ رہا ہو۔ آنکھیں کھول دو بیٹے تم میلان پہنچ چکے ہو۔ اسے بزرگ کی آواز آئی تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ علی نے اپنے آپکو میلان کے سنٹرل اسٹیشن کے باہر موجود پایا۔ کالاش میں اردو زبان بولی جاتی تھی۔ جلد ہی علی کو کچھ پاکستانی لڑکے مل گئے جو اردو میں بات کرتے تھے۔ وہ لڑکے علی کو لے کر ایک کیمپ میں آگئے۔ یہ مہاجرین کا ایک بہت بڑا کیمپ تھا۔ یہاں کیمپ میں اور بھی مزید پاکستانی لڑکے رہتے تھے۔ علی نے ان کو بھی پاکستان کا ہی بتایا۔ پاکستان میں کالاش نام کے خفیہ ملک کے علاوہ ایک شہر بھی تھا اس کا نام بھی کالاش تھا۔ کالاش شہر پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔ لڑکے علی کو کالاش شہر کا رہنے والا ہی سمجھنے لگے۔ دوسرے دن علی نے جادوگرنی مونیکا کے تھیٹر میں داخلہ لے لیا۔ تھیٹر رات کو آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک ہوتا تھا۔ علی نے جاتے ہی شہزادی جولیا کو پہچان لیا لیکن شہزادی چونکہ اپنی یاداشت کھو چکی تھی۔ اس لیے اس نے علی کو نہ پہچانا۔ علی بھی کالاش کی حدود سے باہر آ گیا تھا۔ لیکن بزرگ کی وجہ سے اس کی یاداشت بھی قائم تھی اور وہ ہر رات کو بارہ بجے بھیڑیا بھی بن جاتا تھا۔ جیسے ہی رات کے بارہ بجتے علی کی شکل تبدیل ہو جاتی اور وہ کچھ پل کے لیے بھیڑیا جاتا تھا۔ یہ اسکی فطرت تھی جو کبھی بھی نہیں بدل سکتی تھی۔ اسے گوشت کی طلب ہوتی تھی۔ کچے گوشت کی خوشبو اسے پاگل کردیتی تھی۔ لیکن وہ پھر بھی اپنے آپ پر کنٹرول کرتا تھا۔ علی کے کیمپ میں بہت سے لڑکے رہتے تھے۔ علی کا دل خون پینے کو کرتا تھا۔ لیکن ان کو بچپن سے ہی سکھایا جاتا تھا کہ انسان بظاہر بہت کمزور سی مخلوق ہوتی ہے۔ دس دس انسان مل کر بھی ایک بھیڑیے کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ان کی عمر بھی صرف ساٹھ ستر سال ہوتی ہے۔ لیکن یہی انسان دنیا کی سب سے خطرناک ترین مخلوق ہوتی ہے۔ وہ سارے انہیں انسانوں کے خوف سے چھپ کر رہ رہے تھے۔ علی انہی انسانوں کے درمیان رہ رہا تھا۔ اسے ان کمزور سے انسانوں سے ڈر تو لگتا تھا لیکن وہ پھر بھی انہی کے درمیان اپنی شناخت چھپا کر رہ رہا تھا۔ رات کے بارہ بجے وہ کیمپ کے ایک تاریک گوشے میں چلا جاتا تھا۔ اور کچھ پل وہیں گذار کر جب اپنی اصل حالت میں آ جاتا تو پھر واپس آ جاتا تھا۔ نیا جدید کمپیوٹر والا زمانہ تھا۔ لوگ جنوں بھوتوں اور بھیڑیوں کی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے کسی کو بھی شک نہیں ہوتا تھا۔ علی روزانہ تھیٹر جانے لگا۔ مونیکا جادوگرنی نے بھیڑیے والا ڈرامہ تیار کر لیا تھا۔ اس نے ہسپانوی زبان میں بولنے کے لیے فیلیکس لیا تھا۔ جبکہ افریقی زبان کے لیے سیلا کو۔ دونوں لڑکے ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ فیلیکس بالکل چھوٹا سا نوجوان لڑکا تھا۔ اس کا وزن بمشکل پچاس کلو بھی نہیں تھا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں افریقی سیلا ایک دیوہیکل نوجوان تھا۔ وہ سات فٹ کے قریب تھا اور اس کا وزن بھی سو کلو سے اوپر تھا۔ سیلا افریقی جان سینا لگتا تھا۔ ان دونوں کے علاوہ ایک اور نوجوان بھی تھا۔ فرانچسکو پچیس سال کا ایک نوجوان تھا اور وہ انگلش اور اٹالین دونوں زبانیں انتہائی روانی سے بولتا تھا۔ فرانچسکو کے لمبے سنہری بال تھے۔ وہ بلکل ہالی وڈ کے کسی فلمی ہیرو کی طرح لگتا تھا۔ تھیٹر کی ساری لڑکیاں فرانچسکو کے آگے پیچھے پھرتی تھیں۔ لیکن فرانچسکو شہزادی جولیا سے دوستی کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ تھیٹر میں اور بھی کافی لڑکیاں تھیں لیکن میں صرف دو کاہی تعارف کرواؤں گا۔ سب سے پہلی لڑکی مارگریٹا تھی۔ یہ اٹالین تھی۔ گورا رنگ دبلی پتلی سی بیلے ڈانسر تھی یا پھر بیلے ڈانسر لگتی تھی۔ مارگریٹا کی ایک ایک ادا سے ڈانس چھلکتا تھا۔ دوسری لڑکی کارمن ہے۔ یہ فرانسیسی تھی۔ سنہری بال نیلی آنکھیں گول چہرہ کارمن کے لئے لفظ خوبصورت کہنا کافی نہیں تھا۔ رضوان علی گھمن
کہانی اگر پسند آتی ہے تو پلیز آگے شیئر ضرور کریں اور دوستوں کو بھی ضرور مینشن کیجیے۔ یہ لکھاری کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
وہ اس سے کہیں بڑھ کر حسین تھی۔ چلو چلو جلدی سے تیار ہو کر آ جاؤ ہمیں ریہرسل کرنی ہے۔ مونیکا جادوگرنی نے تالی بجائی اور سب کو اکٹھا ہونے کا کہا۔ وہ سارے اکٹھے ہوگئے تو مونیکا ان کو ریہرسل کروانے لگی۔ اچھا سب سے پہلے جولیا آگے آئے گی اور بھیڑیے کی کہانی سنائے گی۔ جب وہ چلائے گی کہ بھیڑیا آگیا بھیڑیا گیا تو آپ نے اس کی مدد کے لیے بھاگ کر آنا ہے۔ لیکن وہ جھوٹ ہوگا۔ دوسری بار سیلا آگے آئے گا اور ایسے ہی چلائے گا۔ آپ نے پھر مدد کے لیے بھاگ کر آگے آنا ہے۔ تیسری بار فیلکس ہوگا آپ سب نے تینوں بار ہی اس کی مدد کے لیے آنا ہے لیکن تینوں بار ہی یہ جھوٹ ہوگا۔ چوتھی بار آپ سب نے منہ دوسری طرف کر لینا ہے۔ ایک بار پھر جولیا آگے آئے گی اور بھیڑیا آگیا بھیڑیا آگیا چلائے گی۔ اس بار اصل میں بھیڑیا آجائے گا اور جولیا کو اٹھا کر لے جائے گا۔ آپ سب نے چوتھی بار اس کی کوئی مدد نہیں کرنی ہے۔ بس یہی ٹوٹل ڈرامہ ہوگا جس میں یہ سبق ہوگا کہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ کسی نے کوئی سوال کرنا ہو تو بولو مونیکا نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ افریقن اور ہسپانوی کے ساتھ کیا انگلش زبان بھی چلے گی۔ ہم چار زبانیں کرلیتے ہیں۔ فرانچسکو نے مشورہ دیا۔ ایسے تو پھر اردو زبان بھی شامل کر لو۔ ڈیڑھ بلین لوگ اردو کو سمجھتے ہیں۔ علی نے فرانچسکو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اس کو فرانچسکو کا جولیا کے قریب جانا اچھا نہیں لگتا تھا۔ نہیں زبانیں صرف تین ہی رہیں گی زیادہ زبانیں ہونے سے ڈرامے میں دلچسپی ختم ہوجائیگی۔ ویسے بھی وہاں صرف اٹالین بچے ہی ہوں گے۔ انہیں ڈیڑھ بلین والی زبان سمجھ نہیں آئے گی۔ مونیکا جادوگرنی نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور وہ سارے دوبارہ ڈرامے کی ریہرسل کرنے لگے۔ اگلے پندرہ دن تک وہ لوگ بلکل تیار ہو چکے تھے۔ جولیا علی اور فرانچسکو دونوں کے درمیان جھول رہی تھی۔ وہ دونوں ہی اچھے لڑکے تھے اور دونوں ہی جولیا کی محبت کے طلبگار تھے۔ لیکن جولیا کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس کے حق میں فیصلہ کرے۔ اس لیے اس نے یہ فیصلہ وقت پر چھوڑ دیا۔ پورے چاند کی رات آئی تو مونیکا ان سب کو لے کر میلان کیڈٹ سکول آگئی۔ یہاں چودھویں رات کا چاند رات کے دس بجے بلکل عین سر پر آ جاتا تھا۔ مونیکا جادوگرنی ساڑھے نو بجے سٹیج پر آگئی۔ یہ سٹیج سکول کے گراؤنڈ میں بنایا گیا تھا۔ سامنے میلان کیڈٹ سکول کے بچے اور ان کے والدین بیٹھے ہوئے تھے جو ڈرامہ دیکھنے آئے تھے۔ مونیکا جادوگرنی نے تمام کرداروں کا ایک مختصر سا تعارف کروایا اور ڈرامہ شروع ہوگیا۔ وہ ڈائریکٹر کی سیٹ پر جا کر بیٹھ گئی جو سٹیج پر ہی ایک کونے میں رکھی ہوئی تھی۔ سب سے آگے شہزادی جو لیا تھی جبکہ باقی سارے لڑکے اور لڑکیاں پیچھے گروپ کی صورت میں کھڑے تھے۔ جولیا اٹالین زبان میں چلائی بھیڑیا آ گیا بھیڑیا آگیا۔ پیچھے کھڑے تمام لڑکے اس کی مدد کو آئے لیکن وہ جھوٹ بول رہی تھی۔ جولیا کے بعد باری باری فیلیکس اور سیلا بھی آئے اور وہ بھی جھوٹ موٹ چلائے۔ بھیڑیا آگیا بھیڑیا آگیا۔ پیچھے کھڑے سارے لڑکے اس کی مدد کو بھاگ کر آئے اور پھر مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اب ڈرامے کا کلائمکس چلنے لگا۔ شہزادی جولیا ایک بار پھر آگے آگئی اور تمام گروپ کے لڑکے اور لڑکیاں دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہوگئے۔ علی بھی باقی گروپ کے ساتھ منہ دوسری طرف کئے کھڑا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے سرخ پھول نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ پورا چاند سر کے اوپر آ گیا تھا اگلے کچھ ہی سیکنڈوں میں چاند شہزادی جولیا کے بلکل سرکی سیدھ میں آجاتا۔ اسی وقت علی نے اسے پھول سونگھانا تھا۔ جولیا سامنے آکر کھڑی ہوگئی مونیکا جادوگرنی بھی تیار تھی۔ وہ بھی اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ جیسے ہی شہزادی جولیا اپنی شکل تبدیل کر کے بھیڑیا بنتی وہ فورا اسے پکڑ کر اوپر آسمان کی طرف لے جاتی۔ فرانچسکو نے بھی پیچھے کی طرف آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کردیا۔ علی نے ایک چور نظر سے فرانچسکو کو دیکھا۔ بھیڑیا آگیا بھیڑیا آگیا۔ اچانک شہزادی جولیا چلائی تو علی کو اپنے اندر ایک عجیب سا احساس ہوا۔ بھیڑیا آگیا بھیڑیا آگیا وہ دوسری بار چللای۔ اور اس کے ساتھ ہی شہزادی جولیا نے بھیڑیے کی شکل اختیار کرلی۔ علی پیچھے پلٹنے لگا لیکن چاند رات کا اثر اس پر بھی ہو چکا تھا۔ وہ خود بھی اپنی اصل شکل میں آ گیا تھا۔ علی بھی بھیڑیا بن گیا تھا۔ اس کے ہاتھ سے سرخ پھول نیچے گر گیا جسے فرانچسکو نے جلدی سے اٹھایا اور شہزادی کی طرف جانے لگا۔ علی کو خطرے کا احساس ہوا تو اس نے چھلانگ لگائی اور فرانچسکو کی ٹانگ پر اپنے دانت گاڑھ دیئے۔ فرانچیسکو زمین پر گھرا تو علی جو اس وقت بھیڑیا بنا ہوا تھا وہ اسے بھمبوڑنے لگا۔ انسانی خون کی خوشبو نے اسے وحشی بنا دیا تھا۔ دوسری طرف شہزادی جولیا بھی بھیڑیا بن گئی۔ اسے بھی انسانی خون کی خوشبو آئی تو وہ بھی خون پینے کے لیے فرانچسکو کی طرف لپکی۔ لیکن وہ فرنچسکو تک نہ پہنچ سکی۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...