فرحان یونیورسٹی سے گھر آگیا تھا اور کھانا کھانے کے بعد اپنے روم میں سارہ سے کال میں باتیں کرنے میں مصروف تھا۔
دروازہ بجنے کی آواز پر اسنے سارہ کو ہولڈ پر رکھا اور دروازے کھولا۔
“تمھارے بابا تم سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتے ہیں جاؤ دیکھو کیا کہہ رہے ہیں”فہمیدہ بیگم نے اسے بشیر صاحب کا پیغام پہنچایا۔
“اچھا میں آتا ہوں ابھی”اس نے کہتے ہوئے دروازہ بند کیا اور اپنا فون اٹھایا جہاں سارا اس کا ویٹ کر رہی تھی۔
“سارا میں تم سے تھوڑی دیر میں بات کرتا ہوں بابا مجھے بلا رہے ہیں انھیں شاید مجھ سے کوئی ضروری بات کرنی ہے “فرحان نے سارا سے کہا۔
“ٹھیک ہے آپ جاؤ جلدی آ جانا میں ویٹ کر رہی ہوں”سارا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
فرحان نے کال کٹ کی اور بشیر صاحب کے روم کی طرف چلا گیا اور دروازے پہ دستک دی۔
“آجاؤ فرحان “بشیر صاحب نے اخبار سے نظر اٹھا کر اسے کہا۔
“آپ نے مجھے بلایا تھا؟”اس نے بشیر ہمدانی سے پوچھا۔
“بیٹھو”انہوں نے اسے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
“جی آپ کو مجھ سے کوئی ضروری بات کرنی تھی؟”فرحان نے کرسی میں بیٹھتے ہوئے ان سے پوچھا۔
“ہاں اس لیے تمہیں بلایا ہے”انہوں نے اخبار کے سائڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔
“جی بولیں میں سن رہا ہوں”فرحان ہماتن گوش ہوا۔
تماری نزہت پھوپھو اور پھوپھا آئے تھے صبح کیا تم جانتے ہو؟”انہوں نے اس سے پوچھا۔
“نہیں تو کیوں خیریت ہے؟”اسنے حیران ہوکر پوچھا۔
“دراصل وہ تمارے لئے رشتہ لیکر آئ ہیں اپنی بیٹی ندا کا”انہونے کہتے ہوے اسکا چہرہ دیکھا۔
“پر بابا آپ لوگ تو سارة کے لئے کہہ رہے تھے”وہ حیران ہوکر بولا۔
“تماری ماں چاہتی تھی سارة بھی اچھی لڑکی ہے لیکن ندا کے بارے میں کیا خیال ہے تمارا”انہوں نے پوچھا۔
“بابا ندا اچھی لڑکی ہے لیکن۔۔۔”وہ بولتے ہوے چپ ہوگیا۔
“لیکن کیا”انہو نے چونک کر پوچھا۔
“بابا میں سارة سے شادی کرنا چاہتا ہوں مجھے وہ اچھی لگتی ہے “اسنے ساری شرم حیا ایک طرف رکھکر سیدھے طریقے سے بتایا۔
“میں نزہت کو کیا جواب دونگا اسنے بہت آس سے تمارے لئے کہا ہے “وہ پریشان ہوکر بولے۔
“آپکو بیٹے کی خوشی عزیز ہونی چاہیے زندگی اسے گزارنی ہے بشیر صاحب”فہمیدہ بیگم روم میں داخل ہوتے ہوے بولیں۔
“ٹھیک ہے میں نزہت کو منع کردونگا”انہوں نے فہمیدہ بیگم کی بات پر متفق ہوتے ہوے کہا۔
“ٹھیک ہے بابا میں چلتا ہوں “وہ کہتے ہوے اٹھا اور باہر چلا گیا۔
بشیر صاحب نے فہمیدہ بیگم کی طرف دیکھا وہ بھی انہی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
“نزہت کو فون کرکے منع کردو تم “انہوں نے آہستہ سے کہا۔
“میں نہیں کہہ سکتی آپ ہی یہ کام کریں”وہ انکی بات کا جواب دیتے ہوئی بولیں اور بیڈ شیٹ بدلنے میں مصروف ہوگئیں۔
بشیر صاحب نے انکی طرف دیکھا اور خاموشی سے نزہت کو کال ملایا۔
***
آج فرحان کی منگنی تھی نزہت بیگم نے بشیر صاحب سے ندا کے بارے میں پھر بات کی تھی اور تفصیل سے پوری بات بتائی ندا کی خواہش بھی لیکن فرحان نے ندا سے شادی کے لئے بلکل منع کردیا تھا۔
جس کی وجہ سے وہ لوگ ناراضگی سے اسکی منگنی کے فنکشن میں نہیں آئے۔
فہمیدہ بیگم نے اسے فون پر سارے معملات بتادئےتھے۔
ریحا بھی سب باتیں سننے کے بعد تھوڑی پریشان ہوگئی تھی لیکن بھائی کی منگنی ہونے کی خوشی میں پھر خوش ہوگئی۔
“آزر گفٹس تو اٹھالیں “وہ گاڑی سے نکلتے ہوئے بولی وہ ہال پہنچ چکے تھے۔
“تم کہو تو تمہیں بھی اٹھالوں”آزر نے گفٹس اٹھاتے ہوئے شرارت سے کہا۔
“آزر آپ بھی نا “وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولی۔
آزر کو وہ کسی حور سے کم نہیں لگ رہی تھی مہرون گاؤن میں اسکی بیوی ہیروئن سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
“اسلام علیکم ماما”وہ آزر کیساتھ سیدھا فہمیدہ بیگم کے پاس پہنچی اور انہیں سلام کیا۔
“وعلیکم اسلام بیٹا پہنچ گئے تم لوگ ہم کب سے آپ دونوں کا انتظار کررہے تھے ریحا تو شادی کے بعد اتنی مصروف ہوگئی ہے اسے ہمارا خیال بھی نہیں آتا “انہوں نے شکوا کرتے ہوئے کہا۔
“ایسی کوئی بات نہیں ہے ماما آپ سے روز بات تو کرتی ہوں نا”وہ لاڈ سے انکے گلے لگتی ہوئی بولی۔
آزر مسکراتے ہوئے دونوں ماں بیٹی کی محبت دیکھ رہا تھا۔
“آؤ آزر بیٹا فرحان سے مل لو وہ تمھارا ہی پوچھ رہا تھا”فہمیدہ بیگم نے اسے کہا اور اسٹیج پہ لے گئیں۔
جہاں سارہ فرحان اور دیگر رشتہ دار خوش گپوں میں مصروف تھے۔
“نزہت بیگم نظر نہیں آرہیں فریدہ “کسی خاتون نے انسے پوچھا تھا۔
“دراصل وہ بیمار ہیں اسلیئے نہیں آپائیں”ریحا نے جلدی سے بات سنبھالتے ہوئے کہا۔
“اچھا اچھا” وہ خاتون مسکرا کر بولیں۔
آزر فرحان سے ہاتھ ملانے لگا فوٹو سیشن ہورہا تھا۔
“اب انگوٹھی پہنانے کی رسم شروع کرتے ہیں”تھوڑی دیر بعد فہمیدہ بیگم نے فریدہ بیگم سے کہا۔
“ہاں آپا شروع کروائے”فریدہ بیگم مسکرا کر بولیں۔
دونوں نے اک دوسرے کو انگوٹھی پہنایا تو سب نے تالیاں بجائیں اور مبارک باد دینے لگے۔
ڈی جے نے میوزک لگادیا تھا فریحہ جلدی سے اسٹیج کے سامنے گئی اور ڈانس کرنے لگی اسکے ساتھ نورین بھی تھی۔
پیارا بھیا میرا دولہے راجہ بن کے آگیا۔۔۔
پیارا بھیامیرا۔۔۔
وہ نورین کے ساتھ زور شور سے ڈانس کررہی تھی۔
آزر نے حیرت سے اپنی بیوی کو دیکھا تھا جو ڈانس کرتے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھی۔
“آج کیسی دھوم ہے گارہی شہنائیاں۔۔۔
آنچلوں کی چھاؤں میں بیٹھا بھیا سائیاں۔۔۔
وہ ڈانس کرتے ہوئے فرحان کے پاس آئی اور شرارت سے لپسنگ کرنے لگی۔
سجھ کہ ڈولی آئیگی لوٹ کے جب ساتھ میں۔۔۔
پیاری سی بھابھی کا ہاتھ لونگی اپنے ہاتھ میں۔۔۔
وہ ہلکا ہلکا ڈانس کرتے ہوئے سارہ کے پاس آئی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر گانے لگی۔
ڈانس ختم ہونے پر سب لوگ اسے دیکھ رہے تھے اور تالیاں بجا رہے تھے۔
وہ شرماتے ہوئے آزر کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور اسکی طرف دیکھا۔
“بہت اچھا ڈانس کرلیتی ہو کبھی مجھے بھی دکھادینا اکیلے میں کسی ہاٹ سونگ میں”آزر نے شرارت سے اسکے کان میں سرگوشی کی۔
اسکی بات سن کر وہ شرم سے لال ہوگئی۔
“آؤ نیہا ہم بھی کرتے ہیں اپنی بہن کی منگنی ہے آخر”زوہا نے مسکراتے ہوئے نیہا سے کہا۔
“تم کہہ رہی ہو؟” نیہا نے حیران ہوکر پوچھا وہ اسکی سڑی ہوئی طبیعت سے اچھے سے واقف تھی اسلئے حیران ہوکر پوچھا۔
“ہاں نا چلو”وہ اسے کھینچتے ہوئے بولی۔
اسکی بات پر نیہا اسکے ساتھ چلی گئی۔
“بنو رے بنو میری چلی سسرال کو۔۔۔
انکھیوں میں پانی دے گئی۔۔۔
دعا میں میٹھی گڑ دھانی لے گئی۔۔۔
زوہا اور نیہا سلو انداز میں ڈانس کرنے لگی تھیں انکی آنکھوں میں آنسوں تھے۔
“زوہا آپی تو ایسے رورہی ہیں جیسے میں ابھی ہی سسرال جارہی ہوں”سارہ اپنے دانت کچکچاتے ہوئے بڑبڑائی۔
یہ شام خوبصورتی سے گزر رہا تھا ہر فرد خوش تھا۔
***
ان کی شادی کو دو مہینے ہو چکے تھے۔
ان کے شب و روز ایسے ہی خوبصورت بیت رہے تھے۔
ایک مہینے میں ہی آزر کی دیوانگی اور محبت جان چکی تھی۔
وہ اس کے لیے کس قدر پاگل تھا اس نے ریحہ کو اپنے ہر عمل سے بتا دیا تھا۔
ریحہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھنے لگی تھی۔
نیشا کبھی كبهار ان سے ملنے آجاتی تھی۔
شیلا بیگم اور شہزاد صاحب کو آنے میں ابھی دو مہینے باقی تھے دونوں کی ان سے اسکائپ میں باتیں ہو جاتی تھیں۔
وہ جلدی جلدی تیار ہورہی تھی کیونکہ آزر کے آفس سے آنے کا وقت ہو رہا تھا۔
اسنے آزر کے پسند کے کھانے بھی جیسے تیسے کر کے تیار کرلئے تھے۔
باہر سے گاڑی کی آواز آئی فریحہ نے دوڑ کر گیلری سے نیچے دیکھا۔
آزر گاڑی گیراج میں پارک کرنے کے بعد باہر نکلا اور اوپر کی طرف دیکھا۔
ریحہ نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا وہ بھی بدلے میں ہاتھ ہلا کر مسکرایا۔
اور اندر کی طرف بڑھ گیا تھوڑی دیر بعد وہ اپنے روم میں بہت چکا تھا۔
“السلام علیکم میری جان”اس نے بیگ بیڈ پر اچھالتے ہوئے اس کی طرف بڑھا اور اسے اپنے باہوں میں لیا۔
“وعلیکم اسلام جانو کی جان “ریحانے بھی خوش دلی سے اس کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
“کیسا دن گزرا میری جان کا بور تو نہیں ہوئی تم”ازر نے اس سے مسکرا کر پوچھا۔
“تھوڑی بہت بور ہوئی تھی پھر آپ کے آنے سے پہلے آپ کے لیے کھانا تیار کیا اور خود بھی تیار ہوئی کیسی لگ رہی ہوں میں”اس نے تفصیل سے بتاتے ہوئے مسکرا کر اس سے پوچھا۔
“میری جان ہمیشہ ہی خوبصورت لگتی ہے سب سے بڑھ کر تمہارے گال میں پڑتے ہوئے یہ ڈمپل میری جان لے جاتے ہیں”آزر نے کہتے ہوئے اس کے ڈمپل کے اوپر کس کی۔
“اچھا آپ فریش ہو جائیں میں آپ کے لیے کھانا لگاتی ہوں”وہ اس سے الگ ہوکرمسکراکر بولی۔
“اچھا ٹھیک ہے “وہ بولتے ہوے اپنا کوٹ اتارنے لگا اور واشروم میں فریش ہونے چھلا گیا۔
کھانا لگانے کے بعد وہ اپنے روم میں واپس گئی۔
آذر کو بلانے وہ ابھی تک واشروم میں ہی تھا۔
آذر جلدی آجاۓ بھی میں نے کھانا لگا دیا ہے آپ ابھی تک واش روم سے نہیں نکلے کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا”اس نے آذر کو آواز دیتے ہوئے کہا۔
“آرہا ہوں صبر تو کرو”آزر نے اندر سے آواز دے کر کہا۔
اتنے میں آزر کا موبائل فون بجنے لگا تھا فریحہ نے موبائل اٹھا کر دیکھا کسی کی مسڈ کال تھی۔
“فریحہ کس کی کال آئی ہے”آزر نے آواز دے کر کہا۔
“پتا نہیں مس کال بھیجا ہے کسی نے “اس نے جواب دیا۔
“تم کال کرکے پوچھو کیوں کال کر رہا ہے “آزر نے پھر سے آواز دے کر کہا۔
“موبائل میں لاک لگا ہے میں کانٹیکٹ پر نہیں جا سکتی”ریحہ نے اسکرین پر دیکھا جہاں لوک تھا۔
“اچھا میں پاسورڈ بتاتا ہوں تم ٹرائے کرو”اسنے اسے کہا اور پاسورڈ بتانے لگا۔
فریحہ نے پاس ورڈ انٹر کیا اور مس کال میں جاکر نمبر دیکھا نیشا کی مسڈ کال تھی۔
اس نے نیشا کو کال کی تھوڑی دیر بعد اس نے کال اٹھالیا۔
“ہیلو بھائی”نیشا نے کال اٹھاکر کہا۔
“میں فریحا ہوں تمہارے بھائی واشروم میں ہیں”اس نے جواب دیا۔
“اچھا بھابھی میں مارکیٹ آئی ہوئی ہو تھوڑی دیر بعد آپ کے وہاں پہنچ رہی ہوں میرے لیے کھانا تیار رکھیے گا میں کھانا وہی کھاؤنگی”نیشا نے جلدی سے کہا۔
“ٹھیک ہے جلدی آ جاؤ ابھی ہم نے بھی کھانا نہیں کھایا”ریحا نے مسکرا کر کہا۔
“ٹھیک ہے پھر خدا حافظ”نیشا نے بولتے ہوئے کال کٹ کی۔
“جان کس کی کال تھی”آزر نے واشروم سے آواز دے کر پوچھا۔
“نیشا کی کال تھی کہہ رہی تھی وہ کھانا یہاں کھائے گی ابھی آ رہی ہے”فریحا نے جواب دے کر کہا۔
اور آزر کے موبائل میں ایپس دیکھنے لگی وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آزر کون کون سا ایپلیکیشن استعمال کرتا ہے۔
فیس بک پہ نظر پڑتے ہی اس نے کلک دبائی فیس بک اوپن ہو گیا۔
اس نے مسکرا کر اس کی پروفائل پر کلک کی احمد شاہ کے نام پر وہ چونک اٹھی۔
اس نے اپنی آنکھیں جھپکائیں اور پھر سے اسکرین پر نظر ڈالی۔
“ن۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔یہ وہ احمد نہیں ہوسکتے”اس نے اپنے ڈر پر قابو کرتے ہوئے پروفائل فوٹوز میں گئی۔
اور اس کی ڈی پی پوسٹس میں گئ اس کی آنکھیں پھٹنے کو تیار تھی۔
“ی۔۔۔یہ ن۔۔۔نہیں ہو سکتا آذر احمد نہیں ہوسکتے”اس نے گھبرا کر موبائل بیڈ پر پھینکا۔
“ایسا نہیں ہو سکتا آزر احمد نہیں ہو سکتےاحمد اور آزر میں زمین آسمان کا فرق ہے آزر ایک بہت اچھے انسان ہیں جس نے میری ہر خواہش کا خیال رکھا اور احمد ایک گھٹیا اور بے وفا انسان ہے آزر احمد کیسے ہو سکتے ہیں”اسکی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہنے لگے۔
“آ۔۔۔آزر ی۔۔۔یہ احمد شاہ کی آئی ڈی آپکی ہے کیا”اسنے اک آس سے آزر سے پوچھا۔
“ہاں میری ہے لیکن اب میں یہ آئی ڈی یوز نہیں کرتا میری ریئل آئی ڈی تو آزر احمد شاہ کے نام سے ہے”اس نے اندر سے جواب دیا تھا۔
ریحا کے اوپر آسمان ٹوٹ پڑا تھا وہ شاک کی کیفیت میں تھی۔
وہ سوچتے سوچتے روم سے باہر نکل کر بے خیالی میں نیشا کے روم میں گھس گئی۔
“مطلب آزر ہی احمد ہے”وہ پہلے تو شاکڈ تھی پھر بری طرح رونے لگی تھی۔
اسے احمد کی کی گئی بے وفائی یاد آنے لگی۔
اپنا ہاتھ کاٹنا راتوں کو اٹھ اٹھ کر درد سے رونا تکلیف دہ یادیں اسے پھر سے توڑرہی تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
“کیوں۔۔۔مالک۔۔۔کیوں کیا ایسا میرے ساتھ میں جس انسان کو اتنے وقت سے ایک اچھا انسان سمجھ رہی تھی وہی میرے درد کی وجہ تھا جس سے میں نفرت کرتی ہوں “وہ بری طرح ٹوٹ کررورہی تھی اسکا زخم پھر تازہ ہوچکا تھا۔
“پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتی”اسے احمد کے آگے روتے ہوئے محبت کی بھیک مانگتے ہوئے دردناک لمحہ یاد آیا۔
“میری بلا سے تم جہنم میں جاؤ آئیندہ مجھے میسج کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر تم نے مجھے پھر سے میسج کیا تو تمھارے لئے اچھا نہیں ہوگا”اسے احمد کے الفاظ یاد آئے وہ یاد کر بری طرح رونے لگی تھی۔
“پلیز میری حالت پہ رحم کرو مجھے یوں چھوڑ کر مت جاؤ تم جو بھی کہو گے میں سب مانونگی بس مجھے اپنی زندگی میں شامل کرلو ”
“میرا ٹائم پاس تھی تم میں تم جیسی لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرنا بھی پسند نہیں کرتا ارے تم جیسی لڑکیاں نجانے کتنوں سے باتیں کرتی ہیں اور لڑکوں کو پھنساتی ہیں”
“تمھے کبھی معاف نہیں کرونگی مجھے چھوڑ کر جارہے ہو بڑا پچتاؤگے میری بددعا ہے اللہ تمھییں سب کچھ دیگا لیکن سچی محبت کبھی نہیں ملے گی اور تم پوری زند۔۔۔۔”اسے اپنی بددعا دینا یاد آیا کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔
“بس بس بی بی میں یہ باتیں تم جیسی بہت سی لڑکیوں کے منہ سے سن چکا ہوں اور ابھی تک خوش ہوں مجھے کچھ نہیں ہوا اور میں بلوک کررہا ہوں تمہں آئندہ کہیں سے بھی مجھسے کانٹیکٹ کرنے کی کوشش نا کرنا”اسے احمد کے آخری الفاظ یاد آئے وہ پوری طرح ٹوٹ چکی تھی۔
“کیوں۔۔۔مالک اسنے اتنی لڑکیوں کے ساتھ برا کیا۔۔۔پھر بھی اسے سچی محبت مل گئی کیوں۔۔۔خوش ہے وہ بہت “وہ اللہ سے شکوا کرتے ہوئے بولی۔
“م۔۔م۔۔۔میں نے اتنی مشکلوں سے خود کو سنبھالا تھا اور سب بھول کر۔۔۔آ۔۔۔آگے بڑھ گئی تو م۔۔۔مجھے پھر۔۔۔وہی۔لاکر کھڑا کردیا کیوں۔۔۔”وہ تڑپ تڑپ کر رورہی تھی۔
اسکی حالت دیوانوں سی ہورہی تھی۔
دل ٹوٹا لیکر مسکراکر چلنا سکھا دیا۔۔۔
دھوکے نے تیری ہمیں سنبھلنا سکھادیا۔۔۔
ل۔۔۔لیکن اب ن۔۔۔نہیں خوش رہیگا اسے بھی اسی تڑپ کا مزا چکھاؤگی جو اسنے مجھے اور دوسروں کو دیا”وہ روتے روتے نفرت سے بولی۔
ہنسنے نا دینگے تمہیں رونے نا دینگے۔۔۔
پل پل یاد آئینگے سونے نا دینگے۔۔۔
نا یقین کسی پہ بھی تم کبھی کرپاؤگے۔۔۔
کچھ اس طرح سے تم کو۔۔۔
دل ہی دل میں توڑ دینگے۔۔۔
اسے اب سمجھ آگیا تھا اللہ نے اسکے ہاتھ میں دیدیا تھا وہ اپنا بدلا کیسے لے۔
“جیسے میں نے تم سے محبت کی بھینک مانگی تھی تم بھی اب ویسے ہی بھینک مانگو گے تمھارے ہر درد کا جواب اب سود سمیت واپس دونگی کہا تھا نا “بڑا پچتاؤگے”اب تمہیں پچتاوا کرواکر ہی چھوڑونگی”وہ روتے ہوئے نفرت آمیز لہجے میں بولی۔
نا چھپاپاؤگے تم آنسوں اتنے دینگے۔۔۔
درد بن کے ہم تمھارے زہن میں اتریں گے۔۔۔
موت سے ملاکے تم کو زندہ ہی چھوڑ دینگے۔۔۔
حشر پہ لاکے قصے کو حسیں موڑ دینگے۔۔۔
“بھابھی۔۔۔آپ یہاں ک۔۔۔”نیشا نے کسی کی آواز سن کر لائیٹس اون کی اور فریحا کو روتے ہوئے دیکھا تو حیران رہ گئی۔
ریحا نے جلدی سے اپنے آنسوں صاف کئے اور کھڑی ہوگئی۔
اور اپنی چاروں طرف دیکھا وہ حیران ہوئی نیشا کے کمرے میں کب آگئی تھی اسے معلوم ہی نہیں تھا۔
“کیا ہوا ہے بھابھی آپ کیوں رورہی ہیں”نیشا نےجلدی سے اسکے پاس آکر پریشانی سے پوچھا۔
“ک۔۔۔کچھ۔۔۔نہیں”وہ بولتے ہوئے جانے لگی تھی نیشا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
“میں آدھی بات سن چکی ہوں آپکی لیکن نہیں جانتی کس کے بارے میں بات کررہی تھیں آپ مجھے بتا سکتی ہیں کیوں رورہی ہیں”نیشا نے سیریس ہوکر پوچھا۔
“تو سنو نیشا میں آج اک انسان کی سچائی تمھارے سامنے کھولنے جارہی ہوں جو اک منافق انسان ہے جس سے میں پیار کرتی تھی۔۔۔”فریحہ پہلے ہی ٹوٹی ہوئی تھی نیشا کے پوچھنے پر سب بات شروع سے لیکر آخر تک بتانے لگی۔
اسکی باتیں جیسے جیسے نیشا سن رہی تھی شاک میں آتی جارہی تھی۔
“ک۔۔۔کیا۔۔۔ب۔۔۔بھائی نےایسا۔۔۔ک۔۔۔کیا”وہ پوری بات سن نے کے بعد شاک سے بولی نیشا کے آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔
وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی اسکا بھائی اتنا گرسکتا ہے جو محض ٹائم پاس کےلئے نجانے کتنے لڑکیوں کے دلوں کیساتھ کھیلا۔
“نیشا میری یہ باتیں تم آزر سے نہیں کہو گی وعدہ کرو!
اور میں تمھارے بھائی کے ساتھ جو کرنا چاہوں تم مجھے کچھ نہیں کہوگی میں بس انہیں اسی تڑپ اور تکلیف کا مزا چکھانا چاہتی ہوں جس تکلیف سے میں گزری ہوں”وہ مضبوط لہجے میں بولی۔
آنے نا دینگے آنکھوں میں اپنی ہم نمی۔۔۔
ارے بننے نا دینگے تمکو ہم اپنی کمی۔۔۔
نا کوئی سوال کرنا نا کوئی جواب دینگے۔۔۔
گنتے گنتے تھک جاؤگے زخم بے حساب دینگے۔۔
“بھابھی میں آپکا راز بھائی کو نہیں بتاؤنگی جب تک آپ نا چاہو آپ مجھ پر بھروسہ کرسکتی ہیں”نیشا نے فریحہ کے آنسوں صاف کرتے ہوئے بھیگے لہجے میں کہا۔
“شکریہ آؤ کھانا کھالو تمہیں بھوک لگ رہی ہوگی”وہ خود پہ زبردستی کنٹرول کرتے ہوئے بولی اور ہمت سے اٹھی اسکا سر چکرارہا تھا۔
“آپ کھانا کھاکر ریسٹ کرلیں اور زہن میں زور نا ڈالیں اگر بدلہ لینا ہے تو اپنی صحت پہ دیہان بھی دینا ہوگا”نیشا نے زبردستی مسکراتے ہوئے اسے کہا۔
ریحا نے اسکی بات پر نیشا کو دیکھا اور خاموشی سے باہر چلی گئی۔
“آہ۔۔۔یہ۔۔۔کیا کیا بھائی آپ نے میں تو آپ کو نجانے کیا سمجھ رہی تھیں آپ بھی دوسرے مردوں جیسے نکلے”وہ آہ بھر کر بولی۔
اسے اپنا دو سال پہلے کا رلیشن یاد آرہا تھا وہ بھی اس قرب سے گزر چکی تھی جس قرب سے فریحہ گزررہی تھی۔
اسے بھی کسی مرد نے بیچ راستے میں چھوڑ دیا تھا اسلیئے وہ ریحا کی تکلیف سمجھ رہی تھی۔
“صحیح کہتے ہیں مکافات عمل اپنے گھر سے ہی شروع ہوتا ہے”نیشا نے آہستہ سے خود سے کہا۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...