نیلی عمارت کے نیلے شیشوں سے سورج کی تیز کرنیں ٹکرا ٹکرا کر سیدھ میں پھیل رہی تھیں۔
اس نے گاڑی سے نکلنے کے ساتھ ہی عادت سے مجبور سفید شکنوں سے پاک ڈریس شرٹ کے بازو فولڈ کئے تھے ۔چہرے پہ موجود سیاہ چشمہ ہر طرح کے تاثرات ڈھکنے میں کامیاب رہا تھا۔ ایک آخری نظر مضبوط کلائی پہ بندھی گھڑی پہ ڈالتے ہی اس کے قدم میکینکی انداز میں عمارت کی جانب بڑھے ۔سڑک کے پارریستوران کا درازہ بڑے ٹھہرے ہوئے انداز میں کھولا گیا۔
باہر اور اندر کا ماحول ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے۔باہر کا ماحول تندومزاج عورت کی طرح تھا۔تو اندر کا ماحول کسی الہڑ بالی کی طرح ‘جس کے مزاج کی ٹھندک نے سب کو تروتازہ کر رکھا تھا۔مگر آنے والا اس سب سے انجان وہاں موجود ہر شخص کو تولتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔وہاں موجود ہر ایک کی میز کا طواف کرتی اس کی نظریں ایک جگہ رک گئی تھیں۔قریب آتے مینیجر کو اہم احکامات دیتے میزوں کے قریب سے رستہ بناتے۔اس کا رخ میٹنگ ایریا کی طرف تھا۔ایک میز کے قریب سے گزرتے اس نے وہاں موجود لڑکیوں کو پہلے چونکتے اور پھر پرجوش ہوتے محسوس کیا تھا۔مگر پھر انجان بنتا آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔
تاشہ۔۔۔نوین کی آواز پہ نتاشا کا سکتہ ٹوٹا تھا۔وہ سیڑھیاں چڑھتا دوسرے فلور پہ جا رہا تھا۔شائد کسی میٹنگ کے سلسلے میں وہاں موجود تھا۔
کیا قسمت ہے تاشو۔۔۔بڑی لمبی عمر ہے محترم کی۔ابھی اسی کی بات کر رہے تھے۔اور دیکھو کیسے سامنے آیا۔زرناب بھی اس کے سحر میں مبتلا نظر آتی تھی۔ان تینوں نے مل کے اسے سوشل میڈیا پہ ڈھونڈا تھا۔چونکہ نتاشا نے اسے پارٹی میں دیکھارکھا تھا۔اسی لئے ڈھونڈنے میں پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ان دونوں نے و ہیں دیکھا تھا۔نتاشا صحیح کہتی ہے۔وہ سچ میں کسی سلطنت کا شہزادہ معلوم ہوتا ہے جیسے ہی الفاظ ہو سکتے تھے جو انہوں نے کہے تھے۔
میں اس سے ملنے جا رہی ہوں۔سیڑھیوں کی طرف دیکھتی ۔وہ لمحوں میں فیصلہ کر چکی تھی۔لیکن پھر ان دونوں کے واپس کھیچ کے بیٹھانے پہ انہیں گھورتی واپس بیٹھی تھی۔۔۔
کیا تکلیف ہے؟ ۔۔۔روکا کیوں؟
کیا بولو گی جاکے۔۔۔ہوسکتا ہے اسے تمہارا یادہی نہ ہو۔یا پھر پہچانتا نہ ہو۔خامخواہ بے عزت ہو گی۔
اسے اس کی بات میں دم لگا تھا۔لیکن دل اندر سے مچل رہا تھا۔دل چاہ رہاتھا۔اڑ کر پہنچ جاتی۔اس خوبصورت انسان کے پاس جو اس کے لئے رات کے اندھیرے میں روشنی کا ستارہ بن چکا تھا۔ جس نے اس کی راتوں کی نیندکو کہیں گہری نیند سلا دیا تھا۔جس کی وجہ سے وہ ایک سو دس دفعہ اسفند اکرام کو چھوڑنے کے بارے میں سوچ چکی تھی۔چاہے اس کے بعد اسے جو بھی خسارہ ہوتا۔۔۔اب ذریت حسن کے لئے وہ اتنی سی قربانی تو دے ہی سکتی تھی۔ویسے بھی یہ وہ پہلا شخص تھا۔جس سے وہ دل لگی نہیں کر رہی تھی۔اس شخص کا سحر ہی ایسا تھا۔جو لمحوں میں غرور کی اونچی عمارت کو ملیامیٹ کر گیا تھا۔۔۔
حقیقت تھی وہ ناک کے بل گری تھی۔اور اب اٹھنا بھی نہیں چاھتی تھی۔
کوئی بات نہیں میں اپنا تعارف خود دے دوں گی۔ویسے ممکن ہے اسے اپنے دوست کی وجہ سے یاد ہو۔اب میں بھی ایسی کوئی معمولی چیز نہیں ہوں۔جو ایسے بھول دی جاؤں۔انسان اپنی فطرت سے کب باز آیا ہے ۔اور غرور کرنا اس کی فطرت بن چکا تھا۔ وہ ایک ہفتے بعد نظر آیا تھا۔اور اس موقع کو وہ کیوں جانے دیتی۔
فرض کرو اسے نہ یاد ہوا تو۔۔۔؟
تو بھی میں اسے یاد دلا دوں گی۔وہ یکدم جھنجھلا گئی تھی۔اس سے صبر کرنا مشکل تھا۔اور یہ دونو تاویلیں گھڑنے میں مصروف تھیں۔
اوہو۔۔۔بخیر بخیر۔۔۔ویسے تاشو۔۔۔اس کا دوست سنگل ہے نا۔۔۔زرناب کی رگِ شرارت پھڑکی تھی۔مگر اس کا سارا دھیان اس وقت سیڑھیوں کیطرف تھا۔ڈر تھا کہ موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
اونچی ناک والی، کسی کو کچھ نہ سمجھنے والی نتاشا۔جس کو اس کی خوبصورتی نے آسمان پہ چڑھا رکھا تھا۔کیسے ماہی بے آب کی طرح مچل رہی تھی۔یہ ان دونو کہ لئے باعثِ حیرت تھا۔
اوہو۔۔۔محترمہ ایسا سحر ہے محترم کی وجاہت میں کہ ساری اکڑ،غرور لمحوں میں ڈھیر ہو گیا۔کبھی کبھی تو موقع ملتا تھا اس کا ریکاڈ لگانے کا۔اب وہ اس کی حالت کو انجوائے کر رہی تھیں۔ورنہ آج سے پہلے وہی کرتی آئی تھی۔ایسا کم ہی ہوا جب وہ کسی سے متاثر ہوئی ہو۔آج ہی تو صحیح موقع تھا۔
اس کی آواز کا سحر ایسا ہے۔کہ مقابل بات کرنا بھول جائے۔بولتا ایسے گویا۔۔۔گویا۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس چیز سے تشبیہہ دے۔۔۔
اہمم۔۔۔وہ دونو ایک دوسرے کو دیکھ کہ مسکرائیں تھیں۔۔۔مگر وہ بول رہی تھی۔
اس کی شخصیت کا کمال ایسا۔۔۔کہ اس پارٹی میں کوئی شخص اس سے میل کھاتا نظر نہیں آیا تھا۔اور اس کے بعد جب میری نظر پہلو میں پڑی۔۔۔آدھا جملہ وہ چھوڑ گئی تھی۔سوچ کر ہی اس کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔
اسفنداکرام جیسے کم شکل انسان سے بھلا میرا کیا جوڑ؟۔۔۔لیکن نہیں جی۔۔۔بابا کو تو اس کی صرف دھن دولت نظر آتی ہے۔بیٹی چاہے جائے بھاڑ میں۔۔۔دکھ سے چہرہ سرخ پڑچکا تھا۔کچھ دیر پہلے کی تازگی بھی مفقود تھی۔
چہرے کی خوبصورتی میں حقارت اور تکبر کی ملاوٹ نے اس کے اندر کی بدصورتی کو باہر ابھارنا شروع کر دیا تھا۔اور وہ اس سے نا واقف تھی۔
اب ایسی بھی بات نہیں نتاشااسفنداکرام کی شخصیت بھی بری نہیں ہے۔کیوں زرناب؟نوین نے معصومیت اوڑھتے ہوئے زرناب سے پوچھا تھا۔زرناب مسکراہٹ دباتی سر ہلا گئی تھی۔وہ دونواس کی حالت سے لطف اٹھا رہی تھیں۔
اچھا اگر اتنا ہی اچھا ہے۔تو تم کر لو نا اس سے شادی۔۔۔میری تو جان چھوٹے۔وہ جل کر بولی تھی۔
واہ کیا بات ہے۔میں اندھی نہیں ہوں۔نوین نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
ہاں لیکن میرے گھر والے ضرور ہیں۔وہ کہہ رہی تھی۔
شکل اور عقل کا خاصہ فقدان ہےمحترم کے پاس ۔بس دولت کی چمک ہی ہے۔زرناب کی بات کے اختتام پہ تینوں کا نیم قہقہہ ریستوران کی فضا میں اپنا عکس چھوڑ گیا تھا۔
غرور اور تکبر سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ان دونو چیزوں نے ان کی عقل پہ پردا ڈال دیا تھا۔جو یہ سوچ ہی نہیں پا رہی تھیں کہ بات کس کے بارے میں کر رہی ہیں۔اس انسان کے بارے میں جس کی کم شکلی میں اس کا اپنا اختیار تھا۔اور نہ ان کی اچھی شکل میں ان کا اپنا۔
ذریت نے دور سے ان تینوں کو ہنستے دیکھا۔اور ہاتھ میں پکڑے موبائل پہ کچھ لکھ کر اکمل کو سنڈ کر دیا۔وہ ایسی جگہ بیٹھا تھا۔جہاں سے وہ نیچے کا منظر واضع دیکھ سکتا تھا۔ اسے ابھی اس کو اپنا انتظار کروانا تھا۔بازی شروع ہو چکی تھی۔
………………
تیز دھوپ پشاور میں کب کی اتر چکی تھی۔اور دن کے اجالے میں زندگی پورے عروج کے ساتھ رواں دواں تھی۔
خان وِلا میں اس وقت ہو کا عالم تھا۔گھر کے مرد کام کاج کے لئے نکل چکے تھے۔اور اب رات سے پہلے واپس نہ آتے۔اور عورتوں میں چچی جان اور امی جی تھیں جو دوبارہ سونے کے لئے لیٹ چکی تھیں۔اب فرح اور پھوپو کیچن میں بیٹھی تھیں۔آج کھاناان دونوکو بنا نا تھا۔اس گھر میں چاہے جتنے بھی ملازم تھے۔مگر کھانا عورتیں خود بناتی تھیں۔
پھوپھو یار پلیز اچھے سے گولڈن کرنا فرائز کو۔۔۔میز کو ہلکے سے بجاتے ہوئے ایک بار پھر اس کی آواز باورچی خانے کی شلفوں سے ٹکرا کرچھت سے ٹکراتی باہر نکل گئی تھی۔
دو پلیٹں موٹی تم کھا چکی ہو۔اب بس۔۔۔یہ میری ہے۔۔۔زہرہ نے مڑے بغیر کہہ کر کام جاری رکھا تھا۔
توبہ ہے پھوپھو۔۔۔آپ کا خون تو سفید ہو تا جا رہا ہے۔نظر نہ آنے والے آنسوں کو اس نے انگلی کی پوروں سے صاف کیا تھا۔
بولتی رہو۔۔۔سدا کی ناشکری۔ایک ماہ سے اوپر ہو چکا تمہیں آئے۔اور کوئی ایک دن بتاؤ جس دن میں نے فرائز بنانے سے انکار کیا ہو۔لیکن اب تمہارا مٹاپا مجھے نظر آ رہا ہے۔اس سے پہلے کہ تمہاری ماں تمہاری وجہ سے میری شادی جلدی کر وائے۔تم کچھ شرم کر لو۔۔۔
جانے دیں پھوپھو۔۔۔میری ماں آپ سے بہت ڈرتی ہے۔سر ہلا کر کہہ گئی تھی۔اسے اپنی ناک لمبی ہوتی محسوس ہوئی تھی۔
ہائے میں صدقے جاؤں۔۔۔میں ڈائن ہوں۔جو خامخواہ بھابی کو ڈراؤں۔۔۔اور خاندان کی سیاست سے تمہارا، میرا کیا لینا دینا۔ہم نے کونسا ساری زندگی ادھر رہنا ہے۔فرائز بن چکے تھے۔اور اب وہ انکو نکال نکال کر پلیٹ میں رکھ رہی تھیں۔
میرا توپتا نہیں۔۔۔ہاں آپ ضرور کراچی چلی جائیں گی۔اس نے ان کی پلیٹ سے گرم گرم تلے آلو کے ٹکڑے کو منہ میں رکھا ۔اور جلد ہی نکال بھی دیا۔منہ جل اٹھا تھا۔
کیوں ساری زندگی ماں کے گھٹنے سے لگنے کا ارادہ ہے؟اس کے سامنے کی کرسی انہوں نے بیٹھنے کے لئے گھسیٹ لی تھی۔
ہاں۔۔۔میری ماں تو جیسے میرے پیار میں دیوانی ہے۔۔۔اس نے تاسف سے سر ہلا یا تھا۔
ناشکری ۔۔۔جتنا پیار بھابی تم سے کرتی ہیں۔اتنا چھوٹی بھابی بھی اپنے بچوں سے نہیں کرتی ہوں گی۔بس تم ہی ماں کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہو۔وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔ماضی ،ماضی تھا ۔جو گزر گیا۔
جانے دیں پھوپھو۔۔۔آپ یہ بات خود بھی جانتی ہیں کہ امی جی آج بھی رضا کے مرنے کی وجہ مجھے سمجھتی ہیں۔
نہیں میری جان۔۔۔تم تو خود تب محض چودہ سال کی تھی ۔۔۔اور حادثے تو زندگی کا حصہ ہیں۔اگر رضا تب اس حادثے میں نہ مارا جاتا ۔تو شائد کوئی اور وجہ بن جاتی۔
نہیں پھوپھو۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
رضا مجھے بچھاتے مرا۔تب بڑی میں تھی۔اس کا تحافظ میری ذمہ داری تھی۔لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی۔کیسے اس نے مجھے بچھانے کے لئے خود کو بس کے آگے دے دیا۔مجھے وہاں سے ہٹنا ہی نہیں چاہے تھا۔اسے میری ضرورت تھی۔وہ خود بھی تو محض تیرہ سال کا ہی تھا نا۔امی ،اور باقی سب کا سہارا تھا وہ۔میری تو پھر خیر تھی۔وہ میز کی سطح کو اپنے ناخن کی نوک سے کھرچ رہی تھی۔ایک بھی آنسو اس کی آنکھ سے باہر نہیں نکلا تھا۔آنسوں کے بغیر بھی تو رویا جاتا ہے نا۔
رضا فرح سے ایک سال چھوٹا تھا۔دونو کی خوب بنتی تھی۔ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔تب ابھی وہ سوات میں رہ رہے تھے۔اور دادی زندہ تھیں۔دادی ہی کی وجہ سے وہ لوگ پشاور نہیں آ رہے تھے۔وہ آخری دم تک اپنے شوہر کے گھر میں رہنا چاہتی تھیں۔جہاں رضا کی موت نے اس کی ماں کو اس سے چھیں لیا تھا۔وہیں دادی بھی لاڈلے پوتے کی موت کو سہار نہ پائیں تھیں۔اور رضا کے جانے کے تیسرے روز ہی وہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئیں۔اور اس کے بعد تو جیسے امی جی نے اس سے بات کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔اپنے تمام حقوق سے اسے آزادی دے دی ۔وہ سمجھ سکتی تھی۔بیٹے کی موت کی وجہ بننے والی لڑکی کے لئے ان کے دل میں جگہ بن بھی کیسے سکتی تھی۔اب تو ویسے ہی صبر آ گیا تھا۔
فری۔۔۔اپنے اندر کی اس گھٹن کو باہر نکال دو۔۔۔تم میری بیٹی ہو۔انہوں نے اپنے سامنے کی پلیٹ کو اس کے سامنے کر دیا تھا۔وہ ان کی اس حرکت پہ مسکرائی تھی۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک پیس اٹھایا تھا۔جب ان کی بات سن کے اس کا منہ کھل گیا تھا۔
اے ے ے۔۔۔کس کی اجازت سے لی۔یہ میری ہے۔انہوں نے دی پلیٹ واپس کھینچ لی تھی۔
لیکن ابھی تو دی آپ نے۔۔۔اس کا منہ لٹک گیا ۔چند لمحے پھوپھو اس کی جانب دیکھتی رہی تھیں۔جہاں صدیوں کی مسکینیت ٹپک رہی تھی۔
دفعہ ہو لو ۔۔۔چڑھ کر پلیٹ ہی پٹخ دی۔فرح کی ہنسی کا فوارہ یک دم پھوٹا تھا۔جس کا حصہ زہرہ خود بھی تھیں۔وہ اس کو ہنسانے میں کامیاب ٹھری تھیں۔
…………….
لان کے خوبصورت رنگ برنگے پھولوں نے ماحول پہ اچھا اثر چھوڑ تھا۔لاہور میں آج موسم خوب اٹھکیلیاں کرتا معلوم ہو رہا تھا۔خوش رنگ پھولوں نے اس کی تعبیت کو خاصی تازگی بخشی تھی۔۔۔
باجی۔۔۔کیاریوں میں کونسے پودے لگاؤں۔نئے مالی لڑکے سے اس نے آج ہی کیاریاں بنوائی تھیں۔اور اب وہ پودوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔
سارے صدا بہار کے پودے لگا دیں۔اور جو پیچھلی جانب کیاریاں ہیں ۔وہاں امرود۔۔۔ابھی بات اس کے منہ میں ہی تھی۔جب کسی انجانی گاڑی کا ہارن بجا تھا۔اور پھر گارڈ نے گیٹ چوپٹ کردیا ۔
گاڑی کی آواز پہ بابا اور بابر بھائی بھی باہر چلے آئے تھے۔اس نے تیزی سے ملازم کو احکامات دے کر اپنا رخ بھی مہمانوں کی جانب کر لیا۔دور سے آنے والی خاتون جانی پہچانی معلوم ہوئی تھیں۔اور جب پاس گئی ۔تو حیرت سے اس کا منہ کھلا رہ گیا۔
یہ تو وہی خوبصورت آواز والی آنٹی تھیں۔جن کی آواز کسی بھی ریڈیو میں بولنے والی سے کہیں خوبصورت تھی۔
وہ بھی جیسے اس کی حیرت بھامپ گئیں ۔آگے بڑھ کر اسے ایک کندھے سے ساتھ لگاتے گویاہوئی تھیں۔
ماہ نور بچے کیسے ہو؟وہی حلاوت بھرا انداز۔
میں ٹھیک آنٹی۔وہ شاک میں تھی۔
آپ تو مجھے بھول ہی گئی تھی۔میں آپ کو یاد ہوں بھی یا نہیں۔وہ اس سے پوچھ رہی تھیں۔
سوچنے والی بات ہے۔میں بھلا آپ سے رابطہ کیسے کرتی۔اس نے محض سوچا تھا۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے۔
دادی میں مفت میں تو نہیں آئی۔مریم آپی کی آواز پہ وہ مڑی تھی۔دادی نے مسکرا کر اس سے مریم اوراحمد کا تعارف کر وایا ۔تو اسے بے اختیار وہ سڑیل مزاج سا ان کا پوتا یاد آیا تھا۔جو کہیں سے بھی ان نرم اور خوش مزاج عورتوں کا بھائی اور پوتا نہیں لگتا تھا۔
باتوں کے دوران مہمانوں کو ڈرائینگ روم میں لایا گیا تھا۔
مہمانوں کے آتے ہی کیچن کے کاموں میں تیزی آ گئی تھی۔
ماہا بیٹا جاؤ۔بتول آنٹی سے بولو ریفریشمنٹ کا انتظام کریں۔وہ جو وہیں بیٹھنے لگی تھی۔بابا کے حکم پہ بابر بھائی کو اشارہ کرتی باہر نکل آئی ۔
ٓآنٹی سب ریڈی ہے؟اس نے ایک نظر ٹرالی پہ سجی چیزوں پہ ڈال کر پوچھا ۔چائے ابھی کپوں میں انڈھیلی جا رہی تھی۔
جی بچے بس ہو گیا۔۔۔وہ مطمئن سی ہو کر نمکو کھانے لگی تھی۔جب بابر بھائی کیچن میں داخل ہوئے اور اسے شلف پہ چڑھ کر نمکو کھاتادیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگایا۔پہلی لڑکی ہے جو اپنے سسرالیوں کے آنے پہ اتنی خوش ہے۔
ہیں۔۔۔کونسے سسرالی؟وہ جیسے سمجھی نہ ہو۔لیکن اندر سے حیرت کے سمندر میں ابال اٹھا تھا۔
وہی جو آئے ہیں۔منصوبے کے مطابق اسے بالکل وقت پہ بتانا تھا۔اور وہ اب بتا رہا تھا۔
نہیں ۔۔۔جائیں بھائی۔آپ کو نہیں پتا۔یہ تو لفٹ والی آنٹی ہیں۔اسے ان کی بات مزاق لگی تھی۔بھلا ایسے کیسے ہوسکتا تھا۔حقیقی زندگی اور اس طرح کی کہانیوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
نہیں گڑیا میں سچ بول رہا ہوں۔بابا نے منع کیا تھا۔کہ تمہیں ابھی نہ بتایا جائے۔اس کی شائد کوئی وجہ ہو۔وہ جو سوچ رہا تھا کہ اس کو چھیڑے گا۔اس کا اڑتا رنگ دیکھ کر ڈھیلا پڑ گیا تھا۔
بھائی صاحب میرے پوتے کو آپ جان ہی چکے ہوں گے۔میرا آپ سے رابطہ کرنے کا مقصد بھی یہی تھا۔کہ اس سے پہلے کے ہم آپ سے رشتہ لانے کی اجازت چاہیں۔آپ ایک دفعہ ذریت کے بارے میں جان لیں۔پھر ہی ہم بات کو آگے بڑھائیں۔دادی جان کا وہی اندازِ گفتگو تھا۔جو مقابل کو ڈھیر کر جاتاتھا۔
جی۔۔۔انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ وقت اور حالات کا پتا نہیں ہوتا۔کون جانے کتنی زندگی ہو۔میں جلدازجلد ماہ نور کو اس کے گھر کا کر دینا چاہتا ہوں۔آپ کا پوتا بہت اچھا ہے۔
میں مل چکا ہوں۔بزنس میں سب ایک دوسرے کو جانتے ہی ہوتے ہیں۔بس میں اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ ذرا مشورہ کر لینا چاہتا ہوں۔
چلیں آپ مشورہ کر لیجئے ۔ویسے اگر سچ پوچھیں تو۔مجھے آپ کی بچی اول روز سے اچھی لگتی ہے۔میں نے خاص طور پہ مریم کو فرانس سے بلایا تھا۔کہ آئے تو ہم آپ کی طرف آ سکیں۔
ویسے انکل ہمیں بھی ذرا جلدی ہی ہے۔کچھ عرصے کے لئے میں بھی آئی ہوں۔پھر نہ جانے کب آیا جائے۔اس لئے سوچا کہ لگے ہاتھ یہ بھی ہو جائے۔
ماہ نور بابر بھائی کے ساتھ ٹرالی دھکیلتی اندر لا رہی تھی۔جب اس نے آخری فقرہ سنا ۔دل چاہا وہیں سب چھوڑ کر بھاگ جائے۔لیکن بابا کی مسکراہٹ نے قدم روک لئے تھے۔
مریم جاؤ بچی کے ساتھ ۔۔۔وہ دادی کے حکم پہ مسکراتی اٹھ گئی تھیں۔
ہلو چیمپئین ۔۔۔بابر بھائی جو کافی دیر سے اس شرارتی بچے کو نوٹ کر رہاتھا۔آخر اس کی امی کے اٹھتے ہی متوجہ ہوا ۔
ہائے۔۔۔وہ شائد بور ہو رہا تھا۔اسی لئے ذرا اکتا کر جواب دیا۔
اگر مما نے سمجھایا نہ ہوتا۔وہ اب تک دھماچوکڑی ضرور مچا چکا ہوتا۔ایک ماں تھی جو اس طوفان کو روکے ہوئے تھی۔
کس کلاس میں ہو؟وہ اس کے برابر صوفے پہ بیٹھ کر پوچھ رہا تھا۔
میں نئ(نہیں) پڑھتا۔اس نے اٹک اٹک کر جواب دیا ۔اور پھر پاؤں جھلانے لگا۔
اچھا کیوں نہیں پڑھتے؟مسکراہٹ دبا کر پوچھا گیا۔
مما جی ۔۔۔بھائی پوچھ رے می۔۔۔پڑھتا کوں نئ۔اس نے ڈائریکٹ ہی ماں سے پوچھ لیا تھا۔
مریم جو مسکراتے ہوئے ماہ نور سے کچھ کہہ رہی تھیں رکی ۔دوسری طرف بابر شرمندہ ہوا۔
کیونکہ کہ آپ ابھی چھوٹے ہو۔سلجھے انداز میں جواب دے کر وہ واپس ماہ نور کی طرف متوجہ ہوچکی تھیں۔
مریم آپی کو ماہ نور بہت اچھی لگی تھی۔اس کا مسکرانا ،نظریں جھکانا،ان کی شرارتوں کے جواب میں گھبرانا۔۔۔ملتے ہی دونو کی اچھی دوستی ہو گئی تھی۔
رات کے کھانے تک۔۔۔وہ لوگ ادھر رکے تھے۔اس دوران باباکو ماہ نور ناراض ناراض سی لگی تھی۔وہ ان سے سچ میں ناراض تھی۔
مہمانوں کے جانے کے بعد ، وہ بابا سے بات کئے بغیر ہی سیڑھیاں چڑھتی ،اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔اسے اس وقت بابا سے سخت شکائت تھی۔اور وہ دونو بھی جیسے اس کی ناراضگی سمجھ گئے تھے۔اسی لئے بابا اور بابر بھائی دروازے پہ دستک دیتے اندر آئے۔تو ناراضگی کے اظہار کے طور پہ ،بیڈ پہ بیٹھی چہرے کا روخ موڑ گئی ۔ان دونو ں نے اس کی یہ حرکت نوٹ کی تھی۔
ماہا۔۔۔گڑیاناراض ہو؟بابااس کے قریب بیٹھتے دستِ شفقت رکھ کر پوچھ رہے تھے۔
وہ بھی جیسے بھری بیٹھی تھی۔آنسو اس کا چہرہ بھگونے لگے ۔وہ ان کے سینے سے لگی ۔بے اختیار روتی چلی گئی تھی۔ابتیسام صاحب کی پریشانی بڑھی۔
بابا میں آپ کو اور بھائی لوگوں کو نہیں چھوڑنا چاہتی۔میں آپ کے بغیر کیسے رہوں گی بابا۔وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔بابر بھی آ بیٹھا۔اس نے ماہ نور کو دائیں جانب سے پکڑ رکھا تھا۔
میری گڑیا۔بابا کی جان۔۔۔رو مت میں آپ کو ابھی تھوڑی بھیج رہا ہوں۔ابھی تو ابرا ربھی نہیں آیا۔
مانو۔دیکھو رومت ہم ہیں نا۔بابر بھائی کا دل بھی پگھلا تھا۔
لیکن میں آپ کو کبھی چھوڑ کرنہیں جاؤں گی۔وہ اب فرمائش کر رہی تھی۔ابتیسام صاحب مسکرائے ۔
اچھا میری جان۔ابھی تو وہ لوگ گئے ہی ہیں۔اب آپ رو گی تو مجھے ساری رات نیند نہیں آئے گی۔اور پھر کچھ دیر میں ابرار بھی آنے والا ہے۔اس چہرے کے ساتھ بھائی کا ویلکم کریں گی آپ؟
اسنے بھی ان کی نیند کا سن کے آنسو جھٹ سے صاف کئے تھے۔کہ اپنے عزیز از جان بابا کی بے آرامی وہ کیسے برداشت کر سکتی تھی۔
وہ لوگ ابھی انہیں باتوں میں مگن تھے۔جب گیٹ پہ گاڑی کا ہارن بجا ۔اور گویا تینوں افراد کے پاؤں کے نیچے ٹائیر لگ گئے ہوں۔گھر کا بڑا بیٹا آیا تھا۔ابرا رآیا تھا۔
…………
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...