(Last Updated On: )
” ویلکم مائے فرینڈ” وہ گرم جوشی سے اس کے گلے لگا
” تھینک یو” وہ بھی اس سے مل کے بہت خوش ہوا تھا
وہ لوگ گاڑی کی طرف بڑھے
” سفر کیسا رہا؟؟؟” راستے میں اس نے پوچھا
” بہت بہت اچھا احتشام میں تمہارا شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے پاکستان بلایا ورنہ خود تو میری ہمت ہی نہیں ہورہی تھی۔۔۔۔۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ پاکستان پھر واپس آؤں گا” احتشام مسکرایا پھر بولا
” بائے دا وے یہ بتاؤ کہ تم تو دو دن پہلے آنے والے تھے پھر۔۔۔۔۔”
” کچھ مسئلہ ہو گیا تھا” وہ سنجیدہ ہوگیا
” پوچھ سکتا ہوں کون سا مسئلہ” جبران نے ایک گہرا سانس لیا
” اس کے بارے میں پھر کبھی بتاؤں گا ابھی کسی ہوٹل چھوڑ دو”
” وااااٹ۔۔۔۔۔ ہوٹل۔۔۔۔۔ تمہارا دماغ خراب ہے کیا میں نے اتنی دور سے اتنے دن پہلےصرف تمہیں ہوٹل میں رہنے کو بلایا ہے” جبران اس کی طرف حرت سے دیکھا
” یار ہم گھومیں گے پھریں گے ناچیں گے گائیں گے” جبران ہنسا
” یہ کام تم ہی کرو میں باز آیا”
” کیوں دوست تم ہو میرے رونق بھی تم نے ہی لگانی ہے”
” پاگل ہو میں تو اپنی شادی میں بھی نہیں ناچا”
” تب تو تم خوش نہیں تھے” احتشام روانی میں بول گیا جبران ایک پل کو خاموش ہوا پھر بولا
” خوش تو میں اب بھی نہیں ہوں” احتشام اسے دیکھ کر رہ گیا
گھر آگیا تھا وہ لوگ گاڑی سے اترے اور اندر چلے گئے
—–
شام میں احتشام نے مرال کو فون کیا مرال کا بلکل دل نہیں تھا بات کرنے کا پر۔۔۔۔۔ اس نے فون رسیو کیا
” ہیلو”
” کیسی ہیں آپ؟؟؟”
” اللٰہ کا شکر”
” کیا ہو رہا ہے” اس نے پوچھا
” کچھ خاص نہیں” مرال کا وہی مختصر جواب
” مرال آپ کیا مجھ سے بات کرنے میں انٹرسٹڈ نہیں ہیں؟؟؟” ایک دل چاہا “کہہ دے ہاں نہیں ہوں” پھر بولی
” نہیں ایسی کوئی بات نہیں”
” تو پھر چپ کیوں ہیں”
” آپ نے کب مجھے زیادہ بولتے دیکھا ہے”
” ہاں نہیں دیکھا پر خاموش بھی تو نہیں رہتیں آپ”
” کیا آپ کو میرا فون کرنا اچھا نہیں لگا؟؟؟”
” دیکھیں احتشام میرا اور آپ کا ابھی کوئی رشتہ نہیں ہے تو مجھے فون کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔۔۔۔۔ مجھے نہیں پسند۔۔۔۔۔” وہ بیزاری سے بولی
” آل رائیٹ مرال۔۔۔۔۔آپ مجھے بتا دیں آپ کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں”
” مجھے نہیں پتا”
” میں نہیں پسند؟؟؟” اس نے پوچھا مرال خاموش ہو گئی احتشام مسکرایا دل میً چبھن سی فیل ہوئی
” اوکے کبھی نہ کبھی کیا پتا آ ہی جاؤں پسند۔۔۔۔۔ اوکے پھر اللٰہ حافظ” اور فون رکھ دیا مرال کو برا تو لگا بٹ وہ اس کو کسی خوشگمانیوں میں ڈالنا نہیں چاہتی تھی۔
—–
وہ لان میں بیٹھا مرال کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ جبران چلا آیا
” کیا ہوا؟؟؟” اس یوں کھوئے ہوئے دیکھ کر جبران نے پوچھا
” کچھ نہیں”
” پھر مجنوں جیسی شکل کیوں بنائی ہوئی ہے”
” ایسی تو بات نہیں ہے” وہ بولا
” تم بتا رہے ہو یا نہیں” اس نے زور دیا تب احتشام بولا
” یار کبھی کبھی انسان کتنا بے بس ہوتا ہے نا۔۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔ ہمارے پاس یہ اختیار ہوتا کہ ہم کسی کو اپنے آپ سے محبت کروا سکتے”
” ہمممم۔۔۔۔۔ سہی کہہ رہے ہو ایسا ہوتا تو کوئی کسی سے دور نہ ہوتا پر۔۔۔۔۔ یہ سب بس ہماری سوچ ہے۔۔۔۔۔ ویسے کیا ہوا ہے تمہیں” جبران بولا
” کچھ نہیں بس سوچ رہا تھا”احتشام بولا
” ایسے نہ سوچو۔۔۔۔۔ زندگی میں جو بھی ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے” وہ خاموش ہو گیا پھر اپنا ذہن بٹانے کو بولا
” میں بھی کیا لے کے بیٹھ گیا چلو کہیں باہر چلیں”
” نہیں یار میں سوچ رہا ہوں اپنے گھر جاؤں”
” دیٹس گریٹ چلو چلیں پھر” وہ خوشی سے بولا اور اٹھا
” میں اکیلا جانا چاہتا ہوں احتشام” وہ بولا تو احتشم نے سر ہلایا
” اوکے جاؤ بیسٹ آف لک” وہ اٹھ گیا
—–
” مرال بیٹا یہ چیزیں اٹھا کے کیبنٹ میں رکھ دو” بڑی ماما بولیں
” اس لڑکی کو بس شروع شروع کا شوق ہوتا ہے کھانا بنانے کا بعد میں چھوڑ چھاڑ کے چلی جاتی ہے سارے مرد بھی آفس سے آتے ہی ہوں گے جلدی جلدی سمیٹ لیتے ہیں” وہ کام کرتے کرتے نشاء کو سنا بھی رہی تھیں مرال ہنوز مسکرا رہی تھی سارا کام سمیٹ کے وہ باہر آئی
” ماما آپ آرام کریں صبح سے کام میں لگی ہوئی ہیں میں لاؤنج سمیٹ دیتی ہوں”
‘ تم اکیلی یہ سب کیسے کرو گی صبح سے تم بھی کام کررہی ہو۔۔۔۔۔ اس نشاء کو لگاؤ ساتھ “اس نے سر ہلایا اور رافعہ کو بھیجا اور لاؤنج سمیٹنے لگی جو نشاء ارسہ سارہ نمیر زیان اور عزیر نے پھیلایا تھا نمیر زیان اور عزیر تو دوستوں میں چلے گئے تھے ارسہ سارہ اپنی ٹیوشن نشاء اپنے روم میں
” اففففف۔۔۔۔۔ اتنا پھیلاوا۔۔۔۔۔ نشاء ادھر آؤ” وہ آوازیں دے رہی تھی اور لاؤنج سنبھال رہی تھی کہ وہ داخل ہوا اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہا پورے ساڑے تین سال بعد اسے دیکھ رہا تھا وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا وہ پہلے بھی اتنی ہی خوبصورت تھی یا اب ہو گئی تھی وہ بے بی پنک کلر کے سوٹ میں اسے بہت خوبصورت لگی
مرال اس کی آمد سے بے خبر اپنے کام میں لگی ہوئی تھی جبران کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی تھی کس کو کھو بیٹھا تھا وہ۔۔۔۔۔ اپنی زندگی کو۔۔۔۔۔
مرال نے کام کرتے کرتے کسی احساس کے تحت دروازے کی طرف دیکھا اور شاکڈ رہ گئی
وہ شاکڈ سی اسے دیکھ رہی تھی اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہو جیسے وہ آنکھیں بند کرے گی تو وہ غائب ہو جائے گا۔۔۔۔۔
وہ دو قدم آگے بڑھی وہ بھی آگے آیا مرال کی آنکھیں کب بھیگنا شروع ہوئیں معلوم نہ تھا
یہ وہ شخص تھا جس کا اس نے پل پل انتظار کیا تھا جس کی اتنی نفرت کے باوجود وہ اس اس سے محبت کرنے پر مجبور تھی جو پتا نہیں کب سے اس کے دل کا روح کا مکین رہا تھا۔۔۔۔۔ کیا وہ لوٹ آیا تھا جس کا اس نے ڈائیورس کے باوجود انتظار کیا تھا حالانکہ اب تو وہ نامحرم تھا۔۔۔۔۔ وہ شخص زندگی سے گیا تھا دل سے نہیں۔۔۔۔۔
وہ اس کے پاس آئی اور جبران کی آنکھیں بھی نم تھیں مرال نے ہاتھ اس کے گال پہ رکھا جیسے اس کی موجودگی کا یقین کرنا چاہ رہی ہو
کیا وہ اب بھی اس سے اتنی محبت کرتی تھی۔۔۔۔۔کیا اب بھی۔۔۔۔۔ اتنی زیادتیوں کے باوجود۔۔۔۔۔
اس نے اس کا لمس اپنے گال پہ محسوس کیا ایک ٹھنڈک سی دل میں اتری
” مرال” جبران نے پکارا مرال ہوش میں آئی اور ایک دم پیچھے ہوئی
” مرال میں۔۔۔۔۔ میں” وہ بول ہی رہا تھا کہ نشاء آگئی بھائی کو اتنے سال بعد دیکھ کے اس کی حالت بھی مرال سے جدا نہ تھی جبران نے اسے دیکھا
” گڑیا میں۔۔۔۔۔” وہ بولنے ہی لگا تھا کہ نشاء بھاگی اور رافعہ کے کمرے میں چلی گئی
” مرال” وہ بولنے ہی لگا تھا کہ مرال بھی وہاں سے چلی گئی
نشاء کے ساتھ رافعہ باہر آئیں
” ماما۔۔۔۔۔ ماما میں آگیا” وہ ان کی طرف بڑھا رافعہ نے کھینچ کے ایک تھپڑ اس کے منہ پہ مارا
” کاش یہ تھپڑ میں نے تمہیں بہت پہلے مارا ہوتا جبران تو آج یہ سب نہ ہوتا۔۔۔۔۔ کیوں اپنی منحوس شکل لے کر آئے ہو کیا دیکھنے آئے ہو تم”
” جہاں سے آئے ہو وہیں چلے جاؤ۔۔۔۔۔ ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔” وہ غصے سے بولیں
” نہیں ماما میں۔۔ میں جانے کے لیے نہیں آیا میں۔۔۔۔۔”
” دیکھ لیا تم نے ہمیں۔۔۔۔۔ ہم سب زندہ ہیں اور تمہارے بغیر خوش بھی اب چلے جاؤ” شور کی آواز سن کے اسمہ بھی آگئیں
” چاچی۔۔۔۔۔ چاچی پلیز معاف کردیں چاچی مجھے۔۔۔۔۔” وہ ان کے پاس چلا آیا انہوں نے بھی رخ پھیر لیا
” کیوں آئے ہو۔۔۔۔۔ میری بچی کی پوری زندگی تباہ کردی تم نے اب معافی مانگنے آئے ہو جاؤ چلے جاؤ یہاں سے”
” میں ٹھیک کردوں گا سب۔۔۔۔۔ میں”
” کیا کرو گے بتاؤ کیا کرو گے تم طلاق کے بعد اور اب کیا کرو گے”
” جاؤ چلے جاؤ” انہوں نے اسے دھکہ دیا پر وہ ایک مضبوط آدمی تھا وہ ایک انچ نہ ہلا
وہ خود بھی بہت رو رہا تھا حد سے زیادہ شرمندہ تھا
بہت بڑی غلطی کر چکا تھا وہ دل پی ایک بوجھ سا تھا جوئی اسے معاف نہ کررہا تھا وہ رو رہا تھا گڑگڑا رہا تھا
کیا اس کی غلطی ناقابلِ معافی تھی۔۔۔۔۔؟؟
ہاں تھی۔۔۔۔۔ وہ کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا اپنی غلطی کا۔۔۔۔۔ وہ پچھتا رہا تھا اپنے کیے پر
اتنے میں سب مرد حضرات بھی چلے آئے جبران کو یوں رافعہ اسمہ کے قدموں میں گرا روتا دیکھ کر سب شاکڈ تھے۔
“تم۔۔۔۔” ابتہاج صاحب آگے آئے اور اس کا گریبان پکڑا
” بابا۔۔۔” انہوں نے ایک تھپڑ اسے کھینچ مارا
” خبردار۔۔۔۔۔ خبردار جو تم نے اپنی گندی زبان سے میرا نام لیا۔۔۔۔۔ دفع ہو جاو وہیں جہاں سے آئے ہو۔۔۔۔۔”
” بابا میں شرمندہ ہوں میں نے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔۔۔۔”وہ ان کے قدموں میں بیٹھ گیا
” چاچو آپ۔۔۔۔۔” وہ وہاج کی طرف بڑھا” چاچو معاف کردیں مجھے میں آپ لوگوں کا گنہگار ہوں۔۔۔۔۔” وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا تھا ” چاچو بابا کو کہیں نا مجھ سے بات کرلیں”
” معاف کردیں۔۔۔۔۔” وہ بے تحاشا رو رہا تھا معافیاں مانگ رہا تھا گڑگڑا رہا تھا۔۔۔۔۔ پر اب اس کی کوئی سننے والا نہیں تھا بابا وہاج نے بھی منہ موڑ لیا تھا
” جبران چلے جاو۔۔۔۔۔ جاو خدارا چلے جاو۔۔۔۔۔ سمجھو ہم مر گئے تمہارے لیے” رافعہ روتے ہوئے بولیں
” نمیر زیان نشاء تم۔۔۔۔۔ تم بولو نا پلیز کہ مجھے معاف کردیں میں آئیندہ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔۔۔۔۔ ایک موقع پلیز۔۔۔۔۔ ایک موقع” وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا ہاتھ جوڑے معافیاں مانگ رہا تھا گڑگڑا رہا تھا
” بہت بول لیا تم نے اور بہت سن لی ہم نے اب دفع ہو جاو۔۔۔۔۔ ورنہ دھکے مار کے باہر نکال دوں گا” ابتہاج بولے
” چاچو معاف کردیں چاچو” وہ پھر اٹھ کے وہاج کے پاس آیا
” جبران چلے جاو۔۔۔۔۔ تمہاری اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے” وہاج بولے
” چاچو۔۔۔۔۔”
” یہ ایسے نہیں مانے گا” ابتہاج آگے بڑھے اور اس کو بازو سے زور سختی سے پکڑ کے اٹھایا اور کھینچتے ہوئے گیٹ تک لے کر گئے اور باہر دھکہ دے کے دروازہ بند کردیا
مرال نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے سب دیکھا وہ رو رہی تھی سب کو روکنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔ اسے روکنا چاہتی تھی پر وہ اب کچھ نہیں کرسکتی تھی سوائے رونے کے
—–
” جبران کہاں ہے بیٹا شام میں بھی نظر نہیں آیا اور اب ڈنر پہ بھی نہیں ہے” ببا نے پوچھا
” بابا میں بھی کب سے اس کے سیل پہ کال کررہا ہوں اٹھا ہی نہیں رہا ہے”
” بچہ نہیں ہے حیدر وہ جو آپ اتنی فکر کر رہے ہیں بہت سالوں بعد پاکستان آیا ہے دوستوں میں چلا گیا ہو گا” ماما بولی
” ہمممم ہو سکتا ہے” وہ پرسوچ انداز میں بولے
” احتشام تم بھی پریشان نہ ہو کھانا کھالو آجائے گا وہ” اس نے سر ہلایا اور کھانا کھانے لگا پر پتا نہیں کیوں سے کچھ گڑبڑ لگ رہی تھی اس نے ماما بابا کو نہیں بتایا تھا کہ وہ اپنے گھر گیا ہے اور وہ باہر کیوں رہ رہا تھا اتنے سال
—–
جبران وہیں کھڑا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا پر کسی نے نہیں کھولا وہ مایوس ہو کے پلٹ گیا بہت دیر تک سڑکوں پہ گاڑیاں دوڑاتا رہا
کیا اس کا گناہ اتنا ناقابلِ معافی ہو گیا تھا کہ لوٹ کر آنے کی ساری راہیں مسدود ہو گئی تھیں
ہاں اس نے کی تھی غلطی۔۔۔۔۔ پر انسان تو خطا کا پتلا ہے نا۔۔۔۔۔خطائیں تو سب سے ہوتی رہتی ہیں۔۔۔۔۔ جب اللٰہ معاف کردیتا ہے تو انسان کیوں نہیں معاف کرتے۔۔۔۔۔ وہ مانتا ہے اس سے گناہ ہوا تھا اس کو یقین تھا اللٰہ اسے معاف کردے گا اور اسے یہ بھی یقین تھا کہ اس کے گھر والے بھی اس سے راضی ہو جائیں گے
اس کے دل میں جو بوجھ تھا وہ دوگنا ہو گیا تھا اس نے سب کا دل دکھایا تھا
دیکھا جائے تو اپنی طرف سے اس کی سوچ غلط نہ تھی ہر ایک کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اور اپنا آئیڈیل بنانے کا حق ہے وہ بھی اسی آئیڈیلزم کے پیچھے بھاگ رہا تھا
ہاں اس کا طریقہ کار غلط تھا مرال کے ساتھ اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے ساتھ اس نے غلط کیا تھا مرال کے ساتھ تو اس نے بے حد غلط کیا اسے پل پل اذیت دی پل پل تکلیف دی لیکن وہ پھر بھی کچھ نہ بولی اس کی بیماری میں اس کی دیکھ بھال کی اس کا خیال رکھا اسے پیار دیا مان دیا عزت دی پر اس نے کیا کیا۔۔۔۔۔۔
لیکن اب وہ کچھ غلط نہیں کرنا چاہتا تھا وہ مرال سے بےحد و بے حساب محبت کرنے لگا تھا اتنی کہ کب مرال کی محبت اس کی رگوں میں خون بن دوڑنے لگی اسے پتا ہی نہ چلا اور جب پتا لگا تو بہت دیر ہو گئی تھی۔۔۔۔۔
آج بھی تو کتنی محبت تھی اس کی آنکھوں میں۔۔۔۔۔ اس کے ہاتھوں کا لمس۔۔۔۔۔ جبران نے اپنے گال کو ہاتھ سے چھوا
گاڑی ایک سائڈ پہ روک دی گھٹن بڑھتی جا رہی تھی وہ گاڑی سے نکلا اور کھلی ہوا میں سانس لینے لگا پر گھٹن تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی وہ بےبس تھا
—–
گیارہ بجے کے قریب جبران گھر میں داخل ہوا اپنے کمرے میں آیا ہی تھا کہ احتشام چلا آیا
” کہاں تھے تم جبران۔۔۔۔۔ گیارہ بج رہے ہیں میں تمہارا کب سے ویٹ کررہا تھا” احتشام پریشانی سے بولا وہ خاموشی سے بیڈ پہ بیٹھ گیا
” جبران کیا ہوا۔۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا؟؟؟”
” جبران” وہ بہت دیر تک کچھ نہ بولا تو اس نے اس کا کندھا ہلایا اور جبران اس کے گلے لگ کے بے تحاشا رونے لگا
” جبران۔۔۔۔۔ جبران کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ بی اسٹرونگ یار”
” بابا میری شکل دیکھنا نہیں چاہتے کوئی مجھے دیکھنا نہیں چاہتا احتشام۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں مر رہا ہوں احتشام۔۔۔۔۔ میں مجھے۔۔۔۔۔ مجھے جانا ہے اپنے گھر” وہ اٹھا
” جبران۔۔۔۔ جبران ہوش کرو۔۔۔۔۔ پاگل ہو گئے ہو ہمت کرو” اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کے روکا
” وہ میرے سامنے تھی احتشام۔۔۔۔۔ وہ اب بھی مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔۔ وہ اب بھی مجھے چاہتی ہے میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے وہ خوش تھی میرے آنے سے احتشام وہ۔۔۔۔۔”
وہ روتے روتے مسکرایا وہ کسی بچے کی طرح بی ہیو کررہا تھا
” اگر وہ تم سے پیار کرتی ہے تو ہمت کیوں ہار رہے ہو کیوں اس طرح رورہے ہو۔۔۔۔۔ بتاؤ” احتشام اسے سمجھانے لگا
” جب تمہیں یہ تسلی ہے کہ وہ تم سے محبت کرتی ہے تو پھر یہ مایوسی کیوں۔۔۔۔۔ شکر کرو اس پاک ذات کا جبران کہ تمہاری نفرت کے باوجود بھی وہ تم سے محبت کرتی تھی تم چلے گئے تب بھی تم سے محبت کی اس نے اور اب جب تم آگئے ہو تب بھی وہ تم سے ہی محبت کرتی ہے”
” جبران ہمت نہ ہارو ایک بار نہیں بار بار جاؤ انہیں مناؤ۔۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے صرف سچے دل سے کیا گیا کام ہی دل پہ جمی برف کو پگھلا سکتا ہے۔۔۔۔۔” جبران نے سر ہلایا
” ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے میرے اللٰہ پر جس نے مجھے واپسی کا رستہ دکھایا ہے وہ ہی دل کا رستہ بھی دکھائے گا”
” احتشام میں کل پھر جاؤ گا گھر۔۔۔۔۔”
” ہاں میرے بھائی تو جانا ضرور جانا۔۔۔۔۔ اب چلو آرام کرو تم” وہ کہہ کر اٹھ گیا وہ دل سے جبران کے لیے دعاگو تھا
—–
” حیدر ابھی بھی وقت ہے نا کردیں اس رشتے کو۔۔۔۔۔ مجھے نہیں پسند یہ رشتہ۔۔۔۔۔ میری اکلوتی اولاد سیکنڈ ہینڈ یوز نہیں کرے گی مجھے یہ گوارا نہیں اور۔۔۔۔۔ اور لوگ کیا کہیں گے” حیدر صاحب سونے کے لیے لیٹے تو ضوباریہ بولیں
” اوہ پلیز ضوباریہ تمہیں اپنی اولاد کی خوشی دیکھنی چاہیے زندگی اس نے گزارنی ہے ہم نے نہیں۔۔۔۔۔ اور لوگوں کی بات تو چھوڑ ہی دو لوگ دو چار دن بولیں گے اور خاموش ہو جائیں گے”
” آپ کے لیے کہنا آسان ہے آپ تو آفس چلے جائیں گے سب کو فیس تو مجھے ہی کرنا ہوگا۔۔۔۔۔ اچھا خاصا مسز بجوہ نے اپنی بیٹی کا پرپوزل دیا تھا”
” کیوں تم کیوں فیس کرو گی احتشام ہے نا سب کو فیس کرنے کے لیے۔۔۔۔۔ اور رہی آفس کی بات تو میں اگر آفس چلا جاتا ہوں تو تم بھی تو گھر میں نہیں ہوتیں تمہاری اپنی سوشل ایکٹیویٹیز ہیں۔۔۔۔۔ اور اگر انہوں نے رشتہ دیا تھا تو ایکسیپٹ اور ریجیکٹ کرنا ہمارا مسئلہ ہے نہیں کیا ریجیکٹ ہماری مرضی”
” چھوڑیں آپ باپ بیٹا تو پاگل ہو گئے ہیں” وہ کروٹ بدل کے لیٹ گئیں جو کرنا ہے انہوں نے ہی کرنا ہے۔
جبران دو تین دن سے لگاتار آتا رہا اور گھر سے نکالا جاتا رہا مرال کو بے حد تکلیف ہوتی اسے اس حالت میں دیکھ کر۔۔۔۔۔
آج بھی جب ابتہاج صاحب نے اسے بہت کچھ سنا کے دروازے سے واپس بھیجا تو مرال سے برداشت نہ ہوا اور اس نے بابا سے بات کرنے کا سوچا رات کے کھانے کے بعد وہ اسٹڈی روم میں آئی ابتہاج صاحب ایک کتاب کی ورق گردانی کررہی تھے
” بابا آپ بزی ہیں؟؟؟” بابا نے نظر اٹھا کے دیکھا
” ارے آؤ بیٹا کیا بات ہے” انہوں نے کتاب بند کر کے سائڈ پہ رکھی اور اس کی طرف متوجہ ہوئے
” بڑے بابا یہ بات میں نے بابا سے بھی کی ہے وہ بھی ایگری ہیں کہ۔۔۔۔۔” وہ رکی
” جی بیٹا آپ کہیں”
” بابا آپ۔۔۔۔۔ آپ جبران کو معاف کردیں” وہ بولی بابا نے ایک گہری سانس لی
” وجہ پوچھ سکتا ہوں؟؟؟”
” بابا وہ اس گھر کے بڑے بیٹے ہیں آپ۔۔۔۔۔” وہ بولنے لگی تو بابا بولے
” اس گھر کی بڑی بیٹی تم ہو میرو۔۔۔۔۔ میں کسی جبران کو نہیں جانتا۔۔۔۔۔ اگر تم نے وہاج سے بات کرلی ہے اور وہ ایگری ہے جبران کو واپس لانے کے لیے تو میں ایگری نہیں ہوں اس کی غلطی ناقابلِ معافی ہے”
” پلیز بابا ان کی غلطی معاف بھی تو ہو سکتی ہے”
” یہ آپ کہہ رہی ہو بیٹا۔۔۔۔۔ اس نے آپ کی زندگی برباد کردی اس سب معاملے میں سب سے زیادہ نقصان آپ کا ہوا اور تب بھی آپ اسے معاف کرنے کا کہہ رہی ہیں”
” اگر میں یہ کہوں کہ میں انہیں معاف کرچکی ہوں تو۔۔۔۔۔” بابا خاموش ہو گئے
” بابا پلیز۔۔۔۔۔ پلیز اب کے وہ آئیں تو واپس نہ بھیجیے گا”اس نے ہاتھ جوڑ دیے بابا نے اس کے ہاتھ تھامیں اور اس کا ماتھا چوما
” جیسا آپ کہیں بیٹے” بابا نے کہا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرائی
” تھینک یو بابا”
—–