“وائز میرا ہاتھ چھوڑو۔”
وہ بولتی ہوئی اس کے ہمراہ چلتی جا رہی تھی۔
وہ بنا جواب دئیے یونی سے باہر نکل آیا۔
گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
“یہ سب کیا ہے؟”
وہ ششدر سی اسے دیکھنے لگی۔
“گاڑی میں بیٹھو ورنہ میں خود بٹھا لوں گا۔”
وہ خونخوار نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
وہ دانت پیستی بیٹھ گئی۔
“کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟”
وہ گھر میں قدم رکھتے ہی چلا اٹھی۔
“شرم نہیں آتی میری بیوی ہوتے ہوۓ اس کے ساتھ خوش گپیوں میں محو تھی؟”
وہ چبا چبا کر بولا۔
“یہ الفاظ تمہارے منہ سے نکلتے بلکل اچھے نہیں لگ رہے۔”
وہ ضبط کرتی ہوئی بولی۔
“میں جو مرضی کروں یہ تمہارا مسئلہ نہیں۔ تم میری مرضی کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاؤں گی۔”
وہ انگلی اٹھا کر دھاڑا۔
“مجھ پر حق کیوں جتا رہے ہو تم؟ تمہارا حکم ماننا تو درکنار میں تمہاری شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں۔”
وہ پیشانی پر بل ڈالتی اسے دیکھ رہی تھی۔
“اپنی بکواس بند رکھو۔۔۔ بیوی ہو تم میری اور میری مرضی کے بغیر تم کچھ نہیں کر سکتی۔”
وہ تلملا کر بولا۔
عورتوں پر حکمرانی شاید اسے وراثت میں ملی تھی۔ خون آخر رنگ تو دکھاتا ہی ہے۔
وہ جتنا حیران ہوتی اتنا کم تھا۔
“مجھے تم جیسے انسان سے کوئی بات ہی نہیں کرنی۔”
وہ کہتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
اس کے اندر جاتے ہی وائز نے ٹیبل سے گلدان اٹھایا اور زمین پر پٹخ دیا۔
وہ کرچی کرچی ہو چکا تھا۔
زرش بآسانی آواز سن سکی تھی۔
“آخر یہ خود کو سمجھتی کیا ہے؟”
وہ آگ بگولہ ہوتا کمرے میں چلا گیا۔
“پتہ نہیں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟”
وہ کانوں پر ہاتھ رکھے بول رہی تھی۔
“اپنے گناہگار کو اپنا شوہر کیسے مان لوں میں؟ یہ کیسی ستم ظریفی ہے؟”
وہ بیڈ پر سر رکھے بلک رہی تھی۔
“اس انسان نے میری روح کو زخمی کیا ہے میں کیسے اس کے ساتھ رہ سکتی ہوں؟”
وہ ہچکیاں لیتی بول رہی تھی۔
~~~~~~~~
“اب کیا لینے آئی ہو یہاں؟”
وہ زینے اترتا ہوا بولا۔
“احسن یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا؟”
گل ناز بیگم خفگی سے بولیں۔
نور شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
“امی آپ جا کر کھانے کی تیاری کریں مجھے نور سے کچھ کام ہے۔”
وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھے نور کو دیکھ رہا تھا۔
“ایسا کون سا کام ہے؟”
وہ بولتی ہوئی کھڑی ہو گئیں۔
“ہر بات بتائی نہیں جا سکتی آپ کو۔”
وہ خفگی سے بولا۔
وہ خاموشی سے کچن کی جانب چل دیں۔
“اوپر آ جاؤ۔۔۔ ”
وہ زینے چڑھتا ہوا بولا۔
وہ بیگ اٹھاتی اس کے عقب میں چل دی۔
“کیوں آئی ہو؟”
وہ دونوں ٹیرس پر کھڑے تھے۔
“اب تم ایسے بات کرو گے مجھ سے؟”
وہ ہرٹ ہوئی۔
“تم اسی قابل ہو۔”
وہ حقارت سے بولا۔
آنکھوں سے غیض چھلک رہا تھا۔
“اس دن تائی امی۔۔۔ ”
“میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔۔۔ تائی امی کی بیٹی کہاں مر گئی تھی جو تم پیش خدمت تھی؟”
وہ اس کی بازو دبوچتا ہوا بولا۔
“مت بات کیا کرو مجھ سے ایسے۔۔۔ ”
وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دھکا دیتی ہوئی بولی۔
“پھر کیسے بات کیا کروں تم بتا دو؟”
وہ سینے پر بازو باندھتا اسے دیکھنے لگا۔
“جیسے پہلے کرتے تھے۔۔۔ ”
وہ چہرہ جھکا کر بولی تاکہ وہ اس کے آنسو نہ دیکھ سکے۔
“یہ جو فاصلے تم نے بٹھاےُ ہیں نہ مجھے نہیں لگتا کبھی سمٹ سکیں گے۔۔۔ ”
وہ تاسف سے بولا۔
“بس یہی باتیں آتی ہیں تمہیں؟”
وہ آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھنے لگی۔
“اور تمہیں بس تکلیف دینا آتی ہے۔”
وہ ترکی بہ ترکی بولا۔
وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔
“سر ہلانے سے کچھ نہیں ہوگا واپس چلی جاؤ۔”
وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھتا آسمان کو دیکھنے لگا۔
“کیوں سزا دے رہے ہو ہم دونوں کو؟”
وہ بےچینی سے بولی۔
“کیونکہ تمہیں فرق نہیں پڑتا۔ خود کو میں جو بھی سزا دوں یہ تمہارا مسئلہ نہیں۔”
سرد موسم میں سرد لہجے شاید زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔
“تم بلاوجہ مجھ پر شک کر رہے ہو۔”
وہ الٹے قدم اٹھاتی ہوئی بولی۔
“وجہ تم دے رہی ہو۔”
وہ سامنے دیکھ رہا تھا۔
نور اس کی پشت کو گھورتی زینے اترنے لگی۔
~~~~~~~~
“میں یہیں سو گئی؟”
وہ دکھتے سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
رات اپنے پر پھیلا چکی تھی۔
منہ دھو کر وہ باہر نکل آئی۔
لاؤنج بلکل صاف تھا۔
“کیا وہ میرا وہم تھا؟”
وہ کرچیاں تلاش کر رہی تھی۔
“لگتا ہے وہ گھر پر نہیں ہے۔”
وہ بولتی ہوئی چلنے لگی۔
اس نے فریج کھولا تو اندر ہر شے موجود تھے۔
سب کچھ فریز کیا ہوا تھا۔
اس نے پراٹھے نکال لیے۔
اب اس کی نگاہیں اچار کی تلاش میں تھیں۔
وہ ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی جب دروازے کھلا اور وائز اندر داخل ہوا۔
زرش نگاہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جو اکیلا نہیں تھا۔
اس کے ہمراہ ایک لڑکی تھی۔
“تم کمرے میں جاؤ میں ابھی آتا ہوں۔”
وہ کہتا ہوا زرش کے پاس آ گیا۔
وہ مکمل طور پر وائز کو نظر انداز کر رہی تھی۔
“دیکھ رہی ہو لڑکیاں خود آتی ہیں میرے پاس۔”
وہ کرسی کھینچ کر بیٹھتا ہوا بولا۔
“جتنے گھٹیا تم ہو یقیناً وہ تم سے زیادہ گھٹیا ہو گی۔”
وہ اپنی پلیٹ کو دیکھتی ہوئی بولی۔
“بندہ تھوڑا مثبت بھی سوچ لے۔ یہ صرف ایک ڈیٹ ہے۔”
وہ تنک کر کہتا کھڑا ہو گیا۔
وہ برتن اٹھا کر کچن میں آ گئی اور وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔
~~~~~~~~
“چاچی خیر ہے کس چیز کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟”
احسن اندر آتا ہوا بولا۔
“لو تمہیں پتہ ہی نہیں ہے۔ وائز کے ولیمے کی تیاری کر رہے ہیں بابا سائیں۔”
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
“اوہ اچھا۔۔۔”
وہ سر ہلاتا چلنے لگا۔
“تم کچھ نہیں بولو گے؟”
وہ اس کے پیچھے چلنے لگیں۔
“بابا سائیں کا فیصلہ ہے۔ وائز کے لئے ہے تو میں کیوں بولوں؟”
وہ رک کر انہیں دیکھنے لگا۔
“میں نے تو بھابھی کو بہت بار کہا تھا میری خالہ کی بیٹی سعدیہ سے کر دیں۔ دیکھے بھالے خاندان کی ہے اب یہ پتہ نہیں کون ہے؟”
وہ کلس کر بولی۔
“وٹ ایور۔۔۔ ”
وہ کہتا ہوا زینے چڑھنے لگا۔
“یہاں تو سب گونگے بنے ہوۓ ہیں۔۔۔ ”
وہ کہتی ہوئی واپس مڑ گئی۔
“وائز تم ابھی تک آےُ نہیں؟ کیا مہمانوں کے بعد آنا ہے؟”
گل ناز بیگم فون کان سے لگاےُ بول رہی تھیں۔
“امی آجائیں گے کس بات کی جلدی ہے۔”
وہ کروٹ بدلتا ہوا بولا۔
“یہ کیا بات ہوئی؟ تم دونوں کو چائیے تھا ایک دن پہلے آ جاتے اور۔۔۔”
“اچھا آتے ہیں ہم۔۔۔ اب آپ دیر کروا رہی ہیں۔”
وہ بیڈ سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
“ٹھیک ہے جلدی سے آ جاؤ۔۔۔ ”
وہ مسکرا کر کہتی فون بند کر گئیں۔
وہ سلیپر پہن کر باہر نکل آیا۔
“زرش؟”
وہ کمرے کا دروازہ کھولتا ہوا بولا۔
جونہی نظر خالی کمرے پر پڑی اس کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
“یہ کہاں چلی گئی؟”
وہ بولتا ہوا کچن میں آ گیا۔
لیکن وہاں بھی زرش دکھائی نہ دی۔
“رات میں تو یہیں تھی اب کہاں گئی؟”
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
~~~~~~~~
“بیٹا پتہ نہیں یہ سوال پوچھنا چائیے یا نہیں۔۔۔ ”
وہ زرش کو دیکھتی ہوئی بولیں۔
“امی زندگی میں اتنے غیر متوقع واقعات پیش آ رہے ہیں کہ آپ کچھ بھی پوچھ لیں فرق نہیں پڑتا۔”
وہ سپاٹ انداز میں بول رہی تھی۔
“وائز تمہارے ساتھ ٹھیک ہے میرا مطلب؟”
وہ خود بھی الجھی ہوئی تھیں۔
“امی یہ رئیس لوگ ہیں۔ ان کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔”
وہ جیسے اس موضوع کو چھیڑنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
وہ اثبات میں سر ہلانے لگیں۔
“تمہیں بھوک لگی ہو گی میں ناشتہ بناتی ہوں۔”
وہ بہانہ بناتی اٹھ گئیں۔
وہ بھی شاید تنہائی کی طلب گار تھی سو خاموش رہی۔
کچھ پل خاموشی کی نذر ہوۓ کہ اس کا فون رنگ کرنے لگا۔
نمبر وہ پہچان چکی تھی۔
“بولو؟”
وہ فون کان سے لگاتی ہوئی بولی۔
“کہاں ہو تم؟”
“گھر آئی ہوں۔”
مختصر سا جواب آیا۔
“بتا کر نہیں جا سکتی تھی؟”
وہ گرجا۔
“میں نے ضروری نہیں سمجھا۔”
تنک کر جواب آیا۔
وہ مٹھیاں بھینچ کر ضبط کرنے لگا۔
“واپس آؤ ہمیں گاؤں جانا ہے۔ ولیمہ ہے آج ہمارا۔”
وہ ہچکچاتا ہوا بولا۔
“آ جاؤں گی۔”
اس کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔
“ابھی آؤ۔۔۔ دیر ہو رہی ہے۔”
وہ گھڑی دیکھتا ہوا بولا۔
“ابھی نہیں آ سکتی میں۔جب دل کرے گا آ جاؤں گی۔”
وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔
” تمہارے باپ کا فنکشن ہے نہ جب دل کیا آ جاؤں گی۔تیار رہنا میں آ رہا ہوں اور کوئی فضول بات نہیں سنوں گا میں۔”
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
یکدم اسے احساس ہوا کہ وہ اکیلی آےُ گی۔
زرش نے بنا کچھ کہے فون رکھ دیا۔
“امی آپ نے مجھے بتایا نہیں آج ولیمہ ہے؟”
وہ باورچی خانے کے دروازے سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی۔
“تمہیں علم نہیں تھا؟”
وہ متحیر سی اس کی جانب دیکھنے لگیں۔
“آپ نے ذکر نہیں کیا؟”
وہ جانچتی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
“رات میں جانا ہے تو بس ایسے ہی۔”
وہ نظریں چراتی ہوئی بولیں۔
“رہنے دیں وائز آ رہا ہے مجھے لینے۔”
وہ کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔
آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
وہ دونوں ہاتھوں سے آنکھیں مسلتی کمرے میں آ گئی۔
“امی میں چلتی ہوں۔”
وہ چادر اوڑھتی ہوئی بولی۔
“لیکن وہ تو آیا نہیں۔۔۔ ”
وہ دروازے کی سمت دیکھتی ہوئی بولیں۔
“کال کی ہے۔۔ باہر ہے وہ۔”
وہ گلے ملتی چلنے لگی۔
وائز نے ایک نظر زرش پر ڈالی اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔
سارا سفر خاموشی کی نذر ہوا۔
حویلی میں خوب گہما گہمی تھی۔
ملازم یہاں سے وہاں بھاگ رہے تھے۔
وہ وائز کے عقب میں چل رہی تھی۔
وائز کو دیکھتے ہی ملازم سلام کر رہے تھے۔
زرش کے لئے یہ سب نیا تھا۔
وہ نیلے رنگ شلوار قمیض پہنے ہوۓ تھا۔ اوپر گرے کلر کا سویٹر پہن رکھا تھا۔
چال ہمیشہ کی مانند مغرور تھی۔
گردن اکڑی ہوئی تھی۔
“ہمارا شیر؟”
رضی حیات اسے سینے سے لگاتے ہوۓ بولے۔
“السلام علیکم!”
وہ آگے بڑھتی ہوئی بولی۔
وعلیکم السلام!”
وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
“یہ ہے تمہاری بہو۔۔۔ ”
وہ زرش کو آگے آنے کا اشارہ کرتے ہوۓ گل ناز بیگم سے بولے۔
“السلام علیکم!”
وہ ہچکچاتی ہوئی ان کے پاس آئی۔
“وعلیکم السلام! ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے۔”
وہ اسے سینے سے لگاتی ہوئیں بولیں۔
ثوبیہ ناک چڑھاتی اسے دیکھ رہی تھی۔
“یہ تمہارا دیور ہے، یہ چاچی اور یہ چاچو۔۔”
رضی حیات باری باری ان کا تعارف کروانے لگے۔
وائز لاتعلق سا کھڑا تھا۔
احسن نے مسکراتے ہوۓ سر کو خم دیا۔
زرش معدوم سا مسکرائی۔
“تم دونوں کمرے میں جا کر آرام کرو۔۔۔”
گل ناز بیگم وائز کو دیکھتی ہوئی بولیں۔
وہ فون پر انگلیاں چلاتا زینے چڑھنے لگا۔
زرش کشمکش میں مبتلا تھی۔
“جاؤ بیٹا۔۔۔ ”
وہ شفقت سے بولیں۔
وہ سر جھکاےُ وائز کے پیچھے چل دی۔
وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھ کر گلاس میں پانی انڈیل رہی تھی جب اسے سیگرٹ کی بو محسوس ہوئی۔
وہ رخ موڑ کر وائز کو دیکھنے لگی جو ٹیبل پر پاؤں رکھے صوفے پر بیٹھا تھا،ہاتھ میں سیگرٹ تھی۔
اسے وائز سے کراہیت محسوس ہو رہی تھی۔
ناگواری سے دیکھتی وہ رخ موڑ گئی۔
البتہ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا لیکن زرش کی نظریں خود پر محسوس کر چکا تھا۔
“کبھی کسی کو سیگرٹ پیتے نہیں دیکھا؟”
وہ اسی پوزیشن میں بولا۔
وہ خاموش رہی۔
“تم میری باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتی؟”
وہ کلس کر بولا۔
“تم جیسے انسان کو میں جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی۔”
وہ کھڑی ہوتی ہوئی بولی۔
“واٹ یو مین؟ مجھ جیسا انسان؟”
وہ پاؤں نیچے کرتا تلملا اٹھا۔
وہ بنا جواب دئیے واش روم میں چلی گئی۔
~~~~~~~~
“سر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ محمد وائز رضی حیات کی اچانک شادی وہ بھی ایک معمولی گھرانے کی لڑکی سے؟”
رپورٹر رضی حیات کے سامنے مائیک کرتی ہوئی بولی۔
“مانا کہ ﷲ کا دیا سب کچھ ہے لیکن ہمیں غرور نہیں اس کا۔ ہمارے لئے یہ بچی بھی ویسے ہی ہے جیسے ہمارے خاندان کی بچیاں ہیں۔ ہم امیر غریب میں کوئی فرق نہیں رکھتے اس لئے دیکھیں آج یہ بچی ہمارے گھر کی بڑی بہو ہے۔”
وہ تفاخر سے بولے۔
“واہ بھائی آپ کی وجہ سے بابا سائیں کی عزت اور بڑھ گئی اور الیکشن تو اب بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔۔۔ایسے رحم دل انسان کو کون ووٹ نہیں دے گا۔”
احسن لب دباےُ مسکراتا ہوا وائز کو دیکھنے لگا۔
“میرا شکر ادا کرنا چائیے پھر تو بابا سائیں کو۔”
وہ آنکھیں سکیڑتا ہوا بولا۔
“بلکل شکریہ تو بنتا ہے حقیقت کو چھپا کر بہترین تصویر دکھائی جا رہی۔”
وہ تلخی سے بولا۔
“تم اتنے سنجیدہ کیوں ہو رہے ہو؟ کیا لگتی ہے وہ تمہاری؟”
وائز برہم ہوا۔
“بھائی ایک عزت دار لڑکی ہے وہ۔۔ اور میرا خیال ہے انسان بھی۔”
وہ طنز کر رہا تھا۔
“کیا کہنا چاہتے ہو تم؟”
وہ دو قدم الٹے اٹھاتا ہوا بولا۔
چہرے پر خفگی تھی۔
“آپ نے اچھا نہیں کیا۔ کیا آپ کو ان کے چہرے پر وہ کرب دکھائی نہیں دیتا؟ وہ سوگ کی تصویر بنی ہوئی ہیں کیا آپ کو یہ سب دکھائی نہیں دے رہا؟”
وہ سٹیج کیا جانب اشارہ کرتا ہوا بولا جہاں زرش سر جھکاےُ اپنی امی کے ساتھ بیٹھی تھی۔
“واٹ ایور۔۔۔ اب ہر لڑکی کا دکھ بانٹتا پھروں میں۔”
وہ لاپرواہی سے کہتا رضی حیات کو دیکھنے لگا۔
“میں نے ہر لڑکی کی بات نہیں کی۔۔ آپ کی بیوی کی بات کر رہا ہوں۔”
وہ جیسے اسے احساس دلانا چاہتا تھا۔
“تمہیں اتنی پرواہ ہے تو جا کر اس کی دلجوئی کر لو۔”
وہ ہنکار بھرتا چل دیا۔
احسن تاسف سے اسے دیکھتا نفی میں سر ہلانے لگا۔
وہ کسی مجسمے کی مانند بیٹھی تھی۔
کوئی کچھ پوچھتا تو جواب دے دیتی ورنہ سر جھکاےُ زمین کو گھور رہی تھی۔
“ایسا لگ رہا ہے میری موت کی خوشی منائی جا رہی ہے۔”
وہ زیور اتارتی ہوئی بڑبڑائی۔
واش روم سے نکلتا وائز اس کی سرگوشی سن چکا تھا۔
تولیہ صوفے پر پھینک کر وہ اس کے عقب میں آ کھڑا ہوا۔
بلاشبہ وہ بلا کی حسین تھی۔
اس عروسی لباس نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دئیے تھے۔
“تم نارمل کیوں نہیں ہو رہی؟”
وہ کرسی پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
وہ نظریں اٹھا کر آئینے میں اسے دیکھنے لگی۔
کیا نہ تھا اس کی آنکھوں میں شکوے، کرب، بےبسی۔
وہ مزید اس کی آنکھوں میں دیکھ نہ سکا تو چہرہ موڑ لیا۔
“مجھے کوئی بات نہیں کرنی تم سے؟”
وہ چوڑیاں اتارتی ہوئی بولی۔
“تم۔۔۔ ”
فون کی رنگ ٹون کی اس کی بات ادھوری چھوڑ دی۔
وہ سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر دیکھنے لگا۔
“ہاں جینی بولو۔۔۔ ”
وہ بولتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
وہ چہرہ اٹھا کر خود کو دیکھنے لگی۔
“عجیب فیصلے ہیں قسمت کے۔۔۔ کیا مجھ سے زیادہ کوئی بدنصیب ہو سکتا ہے؟ یہ کیسی شادی ہے؟ جس کے پس منظر میں میرا جنازہ اٹھایا گیا۔”
وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی بول رہی تھی۔
“انسان اتنا مجبور کیوں ہے؟ نہ قسمت سے بھاگ سکتا ہے نہ موت کی آغوش میں جا سکتا ہے۔”
چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔
یہ غم روز اس پر حاوی ہو جاتا۔ لاکھ کوشش کرتی لیکن زخم بھی ایسا تھا کہ جو بنا چھوےُ ہی رسنے لگتا۔
~~~~~~~~
“بابا سائیں میں کچھ نہیں جانتا بس میری بات مانیں۔”
وہ زینے اتر رہی تھی جب سماعت سے احسن کی آواز ٹکرائی۔
“کیسی بچوں والی بات کر رہا یہ۔۔۔ بھلا آج ہی آج کیسے اس کی منگنی کر دیں؟”
وہ فیض حیات(وائز کے چچا)کو دیکھتے ہوۓ بولے۔
“ضد کر رہا ہے تو کر دیں آخر شادی تو کرنی ہی یے۔”
وہ مسکراتے ہوۓ بولے۔
“بس اب میں کچھ نہیں جانتا۔”
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
زرش کی نظریں وائز کو تلاش کر رہی تھیں۔
“اب یہاں سے واپس کیسے جاؤں گی؟”
وہ سوچتی ہوئی چل رہی تھی۔
“اچھا میں پہلے بات کرتا ہوں رزاق سے۔ وہ رشتہ دے گا تبھی منگنی ہو گی۔”
وہ ہتھیار ڈالتے ہوۓ بولے۔
“زرش آ جاؤ ناشتہ کر لو۔”
گل ناز عقب سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بولی۔
وہ گھبرا کر انہیں دیکھنے لگی۔
“میں ہوں بیٹا۔”
وہ نرمی سے بولیں۔
وہ سر ہلاتی ان کے ساتھ چل دی۔