اس روز شیخ صاحب ساڑھے پانچ بجے گھر آ گئے- باتھ روم سے آ کے لباس تبدیل کر کے اور چائے پینے کت بعد تازہ دم ہو کے انہوں نے کہا ” کرمو اس الہیٰ بخش کو میرے پاس لے آؤ” انہوں نے کہا- “ہاں ۔۔۔۔ تم اسے یہاں چھوڑ کے چلے جانا”
“جی بہتر صاحب جی”
شیخ صاحب اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے- تھوڑی دیر بعد کرمو الہیٰ بخش کو وہاں لے آیا – شیخ صاحب نے اٹھ کر بڑے تپاک سے الہیٰ بخش سے مصافحہ کیا “آؤ بیٹے یہاں بیٹھو میرے پاس’ انہوں نے صوفے کی طرف اشارہ کیا-
کرم دین نے پوچھا “میں جاؤں صاحب”
“ہاں تم جاؤ” شیخ صاحب نے کہا اور پھر الہیٰ بخش کی طرف متوجہ ہوئے “تم بیٹھے نہیں ابھی تک”
الہیٰ بخش نے ججھکتے ہوئے کہا “میں یہیں ٹھیک ہوں صاحب” وہ کمرے کی آرائش سے مرعوب ہو گیا تھا- ایسی آرائش تو اس فلیٹ کی بھی نہیں تھی جہاں وہ اس دن مزدوروں کی ٹولی کے ساتھ گیا تھا، جبکہ وہ بھی مرعوب کر دینے والی تھی-
“نہیں بھئی بیٹھ جاؤ آرام سے” شیخ صاحب نے زور دے کر کہا “دیکھو، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر اللہ کسی کے وسیلے سے احسان کرتا ہے تو اس وسیلے کا احترام بھی ضروری ہے- اصل میں وہ احترام بھی اللہ ہی کے لئے ہے- تم بیٹھ جاؤ- مجھے تم سے ملکر خوشی ہو رہی ہے- اللہ نے تمہارے ذریعے میرے بیٹے اور کرمو کو نئی زندگی بخشی ہے- جواب میں، میں کچھ بھی نہیں کر سکتا- تمہیں تھوڑی دیر عزت تو دے سکتا ہوں-” انہوں نے تھوڑی دیر پر خاص زور دیا-
الہیٰ بخش کی ججھک دور ہو گئی- اسے شیخ صاحب اچھے لگے- وہ مختلف انداز میں بات کر رہے تھے- انہوں نے رسماٰ بھی اس کے احسان پر زور دے کر اسے شرمندہ نہیں کیا تھا- وہ ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا- بیٹھ کیا گیا، دھنس گیا کہئے اور جتنی تیزی سے وہ دھنسا تھا وہ ڈر گیا لیکن پھر اسے آرام کا احساس ہونے لگا-
“یہ بتاؤ، کیا پیو گے- چائے یا شربت” شیخ صاحب نے پوچھا-
“کچھ ۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں صاحب جی” الہیٰ بخش نے گڑبڑا کر کہا-
“دیکھو الہیٰ بخش، تم بات سمجھ نہیں رہے ہو” شیخ صاحب نے ناصحانہ انداز میں کہا “تم اس وقت میرے مہمان کی حیثیت سے یہاں بیٹھے ہو اور مہمان میزبان سے برتر ہوتا ہے- تم جہاں کے ہو وہاں تو مہمان نوازی ہمارے ہاں سے بڑھ کر کی جاتی ہے اور یہ اللہ کاحکم بھی ہے- یہ ذہن میں رکھو کہ تم میرے مہمان ہو ملازم نہیں ہو” اس بار انہوں نے ملازم پر بطور خاص زور دیا- “اب بولو، کیا پیو گے”
“چائے پی لوں گا صاحب جی”
شیخ صاحب نے جمیلہ کو آواز د کر چائے لانے کو کہا- پھر الہیٰ بخش سے بولے ” یہ ساحب جی کیا ہوتا ہے- میرا نام شیخ مظہر علی ہے- صاحب تو بس میرے گھر کے ملازم ہی کہتے ہیں مجھے”
الہیٰ بخش کے کانوں میں سادی کی آواز گونجی ۔۔۔۔ ‘میرا نام سعدیہ ہے- سب لوگ سادی کہتے ہیں مجھے’
جمیلہ چائے لے آئی- الہیٰ بخش جلدازجلد پیالی خالی کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا-
“اب تم کیسے ہو” شیخ صاحب نے پوچھا-
“جی۔۔۔’ سادی کے تصور میں الجھے ہوئے الہیٰ بخش کی سمجھ میں پہلے تو بات ہی نہیں آئی پھر اس نے کہا “اب مین بالکل ٹھیک ہوں اور اب میں جانا چاہتا ہوں”
“میں تو چاہتا تھا کہ تم ہمیں چند روز میزبانی کا موقع دو- لیکن ذبردستی اچھی چیز نہیں ہوتی- ہو سکتا ہے تمہارے کام کا حرج ہو رہا ہو- ٹھیک ہے، تم آج ہی چلے جانا لیکن پہلے کچھ دیر اپنے بارے میں مجھ سے باتیں کرو-”
الہیٰ بخش یک لخت پر سکون ہو گیا- شیخ صاحب عجیب آدمی تھے- رسمی باتوں کا سرسری تذکرہ کرتے تھے- ان کے ساتھ بیٹھ کر بندھے ہونے کا احساس نہیں ہو رہا تھا- شیخ صاحب اس سے اس کے بارے میں پوچھتے رہے- اس کے ماں باپ، گھر بار، تعلیم، کام ۔۔۔۔ انہوں نے سبھی کچھ پوچھ ڈالا-
تھوڑی دیر بعد الہیٰ بخش نے کہان “سر ۔۔۔۔ اب مجھے اجازت دیجیئے”
“ہاں ۔۔۔۔ ٹھیک ہے” شیخ صاحب نے اٹھ کر اس سے گرم جوشی سے مصافحہ کیا
‘دیکھو میاں، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے تو تمہیں فرشتہء رحمت بنا کر بھیجا ہے لیکن میں ہر وقت احسان کی رٹ لگائے رکھنے کا قائل نہیں- ہاں، ایک بات پوری سچائی سے کہہ رہا ہوں- اس گھر کو ہمیشہ اپنا ہی گھر سمجھنا- جب ملنے کو جی چاہے،چلے آنا- کبھی کسی وقت، کل یا اس سے بیس سال بعد، میں تمہارے کسی کام آ سکوں تو اپنا بزرگ سمجھ کر بلاتکلف میرے پاس چلے آنا- میں انشاللہ تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں گا-”
الہیٰ بخش کو اپنا دل پگھلتا ہوا محسوس ہوا- کیسے اچھے آدمی ہیں یہ شیخ صاحب احسان احسان کر کے اسے شرمندہ بھی نہیں کیا اور اتنا کچھ کہہ بھی دیا- انہیں عزت دینا اور عزت کرانا آتا ہے- “شکریہ سر، میں یاد رکھوں گا”
الہیٰ بخش دروازے پر پہنچا تھا کہ شیخ صاحب کی آواز پر اس کے قدم ٹھٹھک گئے “الہیٰ بخش، ذرا سنو تو”
اس نے پلٹ کر سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا “جی سر؟”
“یہاں آؤ، پانچ منٹ اور بیٹھو”
الہیٰ بخش جا کر صوفے پر بیٹھ گیا-
“بھئی ۔۔۔۔ معاف کرنا- میں نے تمہاری بات توجہ سے نہیں سنی- تم پینٹر ہو نا”
الہیٰ بخش نے اثبات میں سر ہلایا- “جی س”
‘جو کچھ میں نے تم سے کہا، وہ اپنی جگہ- میں اپنی بات مکمل کر چکا ہوں- مجھے اچانک ایک خیال آیا ہے کہ ایک کاروباری بات تم سے کر لی جائے”
“کاروباری بات اور مجھ سے” الہیٰ بخش نے حیرت سے سوچا-
“میں کچھ مہینے سے سوچ رہا ہوں کہ پورے گھر کو دوبارہ پینٹ کرانا ہے-” شیخ صاحب کہہ رہے تھے “اب تم نعمت کی طرح آ گئے ہو تو کیوں نہ تم سے کچھ فائدہ ہی اٹھا لوں” الہیٰ بخش، شیخ صاحب کے فہم و فراست کا قائل ہو گیا- اصولاٰ اسے کہنا چاہئے تھا کہ جو کچھ میں نے کیا، وہ خدا می مرضی کے تحت سرزد ہوا- انہیں احسان سمجھ کر اس کا صلہ دینے کی ضرورت نہیں- لیکن اس کے سامنے وہ شخص بیٹھا تھا جس نے ابتدا میں ہی کہہ دیا تھا کہ احسان اللہ کا ہے البتی وسیلے کے حیثیت سے اس کا احترام کیا جا رہا ہے اور ا وہ کہہ رہا تھا کہ وہ پینٹر ہے تو اس سے فائدہ ہی کیوں نہ اٹھا لے- ایسے شخص سے ایسی بات کیسے کی جا سکتی ہے!
ذرا اس ڈرائنگ روم کی دیواریں دیکھو اور انصاف سے کہو کہ موجود پینٹ کیا اس کے شایان شان ہے- رنگ و روغن ہونے کے بعد یہ کیسا لگے گا؟” شیخ صاحب نے جیسے اس کے خیالات پڑھ لئے- ایک بار پھر انہوں نے فہم و فراست کا ثبوت دیا تھا-
الہیٰ بخش نے ڈرائنگ روم کی دیواروں کا جائزہ لیا- شیخ صاحب کی شرط تھی کہ اسے جواب انصاف سے دینا ہے- وہ ٹال نہیں سکتا تھا، چنانچہ اس نے انصاف سے کہا “آپ درست فرماتے ہیں سر، دیواروں کو واقعی تازہ پینٹ کی ضرورت ہے-”
“تو چلو میں تمہیں پورا گھر دکھا دوں”
الہیٰ بخش نے گھر دیکھا- سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے سادی کا کمرہ بھی دیکھ لیا- کمرے کی سادگی اور خوبصورتی نے اسے بہت بہت متاثر کیا- اس نے بڑی چاہت سے کمرے کا چپہ چپہ دیکھا، جیسے وہ زیارت کے قابل کوئی متبرک مقام ہو-
شیخ صاحب اسے پھر نیچے لے آئے “اب اپنی اجرت بتاؤ” وہ بولے، الہیٰ بخش ہچکچایا تو انہوں نے کہا- “دیکھو یہ کاروباری بات ہے، ہمارے تعلقات الگ ہیں” انہوں نے تعلقات پہ زور دیتے ہوئے کہا “اس میں نہ شرماؤ، نہ میں تمہیں اجرت زیادہ دوں گا نہ کم- جو بنتی ہے وہ لو گے؟”
“آپ ٹھیکے پر دیں گے یا دہاڑی پہ کرائیں گے؟” الہی بخش، رنگ ساز الہیٰ بخش بن گیا-
“دہاڑی پر” شیخ صاحب نے بلاجھجک کہا-
دہاڑی پچیس روپے روز ہو گی- میٹریل آپ کاہو گا”
شیخ صاحب نے کچھ نوٹ نکال کر اسے دیئے “یہ ہزار روپے ہیں- پینٹ اور دوسری چیزیں تمہی لاؤ گے- آخر میں حساب دے دینا اور ضرورت پڑے تو بیگم صاحبہ سے لینا”
“کلر آپ پسند کر لیں سر، میں کارڈ لا کر دکھاتا ہوں آپ کو”
“اس کی ضرورت نہیں- مجھے رنگوں کی تمیز نہیں، تم خود رنگ پسند کر لینا میں اسے رنگ کرنے والے کی ذمہ داری سمجھتا ہوں- پچھلی بار بھی میں نے یہ کام پینٹر کے سپرد کیا تھا لیکن اس نے مجھے مایوس کیا- امید ہے تم مجھے خوش کر دو گے”
‘ذمےداری بہت بڑی ہے سر، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کو خوش کر دوں گا-” الہیٰ بخش نے اعتماد سے کہا-
“بس تو جاؤ اور کل سے کام شروع کرو”
الہیٰ بخش جانے لگا تو شیخ صاحب نے اسے آواز دی- “سنو اگر کوئی حرج نہ سمجھو تو مجھے اپنی پیشانی کے اس زخم کے بارے میں بتاؤ”
الہیٰ بخش سوچ میں پڑ گیا- کیا بتائے اس زخم کے بارے میں- اسے تمغہء دیانت کہے ہا نشان عشق- “آپ کا کام پورا کرنے کے بعد بتاؤں گا سر” کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا “بشرطیکہ آپ اس وقت بھ جاننا چاہیں”
“ٹھیک ہے الہیٰ بخش – میں انتظار کر لوں گا”
بارہ دن بعد پورا بنگلہ یوں جگمگا رہا تھا جیسے ابھی تعمیر ہوا ہو- الہیٰ بخش نے اپنے رنگوں کے انتخاب سے ثابت کر دیا تھا کہ رنگ ساز بھی فنکار ہوتے ہیں- شیخ صاحب بہت خوش تھے- الہیٰ بخش نے ان کی آزمائش پر پورا اترا تھا- اس نے ان کے اندازے کی تائید کر دی تھی-
شیخ صاحب میں انسان کو ایک نظر میں پہچان لینے کی قدرتی صلاحیت تھی- لیکن انہوں نے اس پہلی نظر کے فیصلے پر کبھی اعتبار نہیں کیا تھا- اعتبار وہ آزمائش کے بغیر کبھی نہیں کرتے تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ الہیٰ بخش آزمائش سے گزرنے کے دوران ہی قابل اعتبار ثابت ہو گیا تھا-
بظاہر شیخ صاحب نے کرم دین ی تجویز مسترد کر دی تھی کہ الہیٰ بخش کو ڈرائیور رکھ لیا جائے- لیکن درحقیقت انہوں نے اسے الہیٰ بخش کی آزمائش سے مشروط کر دیا تھا- بنگلے کا رنگ و روغن کا ٹھیکہ ہی اس کی آزمائش تھا-
الہیٰ بخش اپنا کام شروع کر چکا تھا- ایک دن شیخ صاحب نے اپنے ایک دوست سے جو قریب ہی رہتے تھے، اس سلسلے میں بات کی، “یار وکیل صاحب یہاں اچھا رنگ و روغن کرنے والے ہی نہیں ملتے” انہوں نے کہا-
یہ وہی وکیل صاحب تھے جن کے ہاں الہیٰ بخش دو بار کام کر چکا تھا “بات تو سچ ہے شیخ صاحب- لیکن مجھے قسمت سے بہت اچھا کاریگر مل گیا تھا- وہ کیفے لبرٹی کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھتا ہے- الہیٰ بخش نام ہے اس کا”
شیخ صاب نے اپنے تاثرات کو چھپانے کی برپور کوشش کی “بھائی قسمت سے اچھا کاریگر مل جائے تو ویسے کھال کھینچ لیتا ہے ۔۔۔۔۔ دہاڑی پہ کام کرواؤ تو کاملمبا کر دیتے ہیں- ٹھیکے پر دو تو حساب گھپلا کر دیتے ہیں”
“الہیٰ بخش کا یہی تو کمال ہے” وکیل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا “اتنا ایمان دار آدمی میں نے کہیں نہیں دیکھا- ٹھیکے پر کامکرنے والامزدور جتنا کام ڈیڈھ دن میں کرتا ہے، الہیٰ بخش ایک دن کی دہاڑی میں کرتا ہے”
“یقین نہیں آتا”
“میں خود دو بار اس سے کام کروا چکا ہوں”
اس کے بعد شیخ صاحب نے خود مشاہدہ کیا- الہیٰ بخش صبح نو بجے کام شروع کرتا تھا- چھ بجے وہ کام روک دیتا تھا- یہ معمول کے مطابق تھا لیکن اسے کے کام کی رفتار بہت تیز تھی اور اس کے کام میں غیر معمولی بلکہ فنکارانہ صفائی تھی-
بارہویں دن وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے- الہیٰ بخش، صاحب کو حساب دیے رہا تھا “پینٹ کے ڈبے کی یہ قیمت تو نہیں ” شیخ صاحب نے اعتراض کیا!
الہیٰ بخش کے چہرے کی رنگت متغیر ہو گئی- “اس سے کم قیمت میں مجھے تو نہیں مل سکتا سر”
شیخ صاحب اعتماد سے مسکرائے- انہوں نے اپنا وم ورک بہت اچھی طرح کیا تھا “میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں” انہوں نے کہا- “میری معلومات کے مطابق ڈبہ ایک سو دس روپے کا ملتا ہے- تم نے اٹھانوے روپے کا کیسے لے لیا”
اب کے الہیٰ بخش بھی مسکرایا- “دکان والے مجھے جانتے ہیں- میں ہمیشہ وہیں سے لیتا ہوں- وہ مجھے کنسیشن دیتے ہیں”
شیخ صاحب بہت خوش ہوئے- عام طور پر کاریگر زیادہ رقم کی رسید بناتے تھے اور پیسہ بچاتے تھے- انہوں نے حساب لگایا تو پتا چلا کہ الہیٰ بخش نے ان کو کم از کم ڈیڈھ سو روپے کی بچت کرائی ہے- انہوں نے اسے اس کی اجرت دی- سو روپے انعام کے طور پر دئیے پھر بولے “دیکھو الہیٰ بخش میں بزنس مین ہوں- نقصان کا سودا کبھی نہیں کرتا- ایماندار آدمی کو اپنا بنانے کی کوشش کرتا ہوں، اس لئے کہ اس میں بھی میرا ہی فائدہ ہے- میری بات غور سے سنو- میں چاہتا ہوں کہ تم میرے لئے کام کرو”
الہیٰ بخش ہنسنے لگا “رنگ و روغن کا کام کرنیوالے کو آپ ملازم رکھ کے آپ کو کیا فائدہ ہو گا سر”
“میں تمہیں اس حیثیت میں ملازمت کی پیشکش تو نہیں کر رہا ہوں-تمہین ڈرائیونگ آتی ہے ؟”
“جی سر”
“تو بس میں تمہیں ڈرائیور رکھنا چاہتا ہوں” شیخ صاحب نے کہا- سعدیہ کے لئے گاڑی انہوں دو دن پہلے ہی خرید لی تھی-
“مجھ پر تو یہ احسان ہو گا سر”
“مگر فائدہ زیادہ مجھے ہو گا- خیر ۔۔۔۔ میں تمہیں نو سو روپے تنخواہ دون گا- رہنے کے لئے کوارٹر، کھانا گھر سے ہی ملے گا- تم صرف سعدیہ کی گاڑی ڈرائیو کرو گے- بولو منظور ہے؟”
الہیٰ بخش کیا بولتا- وہ تو گنگ ہو کے رہ گیا تھا- وہ اور سادی کی گاڑی! وہ اسے ہر جگہ لے جایا اور لیا کرے گا! اتنی قربت ۔۔۔۔ اتنا بڑا اعزاز! یہ تو اس کے خواب و خیال مین بھی نہیں تھا- یہ قسمت میرے ساتھ کھیل رہی ہے- کہاں پہنچا دیا ہے مجھے- اور کہاں تک لے جایا جائے گا- مگر پھر اسے خیال آیا کہ وہ نا شکرا پن کر رہا ہے- اسے تو اس ک توقع سے بہت زیادہ مل رہا ہے ۔۔۔۔
اس کی خاموشی سے شیخ صاحب نے یہ نتیجہ لگایا کہ اسے تنخواہ پر اعتراض ہے “دیکھو میاں، پچیس روپے روز کے حساب سے تمہیں مہینہ بھر بھی کام ملے تو ساڑھے سات سو روپے ملیں گے- میں تمہیں نو سو روپے دے رہا ہوں- اس سے زیادہ نہین دے سکتا”
“آپ غلط سمجھ رہے ہیں سر، یہ تنخواہ تو میری سوچ سے بھی زیادہ ہے”
“بس تو پھر ٹھیک ہے- کل مجھے ٹرائی دے دو اور کام شروع کر دو”
“تھینک یو سر”
“جاؤ کرمو تمہیں تمہارا کوارٹر دکھا دے گا- وہاں ضرورت کی ہر چیز موجود ہے”
الہیٰ بخش اٹھنے لگا تو شیخ صاحب نے کہا “ذرا ٹھہرو، تمہیں یاد ہے تم نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا”
“سر ۔۔۔ مجھے یاد نہیں”
“میں یاد دلاتا ہوں- وہ وعدہ تمہاری پیشانی کے زخم کے متعلق تھا”
“آوہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔” الہیٰ بخش ہچکچایا-
“بتانا نہیں چاہتے تو میں زور نہیں دوں گا”
“نہیں سر ایسی بات نہیں- میں ایسا وعدہ کبھی نہیں کرتا جو پورا نہ کر سکوں- مگر آپ کا وقت ضائع ہو گا-
“تم سناؤ”
“یہ ایمانداری کا صلہ ہے یا عشق کا حاصل، آپ خود ہی سن کر فیصلہ کر لیجئے گا-” الہیٰ بخش نے کہا اور کچھ سوچنے لگا- اس کی آنکھیں کہیں دور دیکھتی محسوس ہو رہی تھیں- وہ برسوں پیچھے چلا گیا تھا- اس نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہنا شروع کیا ۔۔۔۔۔
————————-٭—————————
ان دنوں الہیٰ بخش فوجیوں کی بیرکس میں رنگ و روغن کا کام رہا تھا- اس کے علاوہ بھی کئی کاریگر تھے- وہ سبھی اس سے شاکی تھے- جبکہ فوجی خوش رہتے تھے- ان کے نزدیک وہ مثالی مزدور تھا- اس متصاد رویے کی وجہ مشترک تھی-
الہیٰ بخش کم سخن اور کم آمیز تھا- کام کے وقت میں وہ صرف کام کرتا تھا- یہ نہیں تھا کہ کبھی چائے پینے میں لگ گیا یا کبھی سگریٹ سلگا لی- وہ دوسرے مزدوروں کی طرح گپ شپ میں بھی نہیں لگتا تھا- پھر اس کے کام کی رفتار بھی اپنے ساتھیوں سے زیادہ تھی- اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ دوسروں سے دگنا کام کرتا تھا- اس بنا پر فوجی عزت کرتے تھے- وہ دوسرے مزدوروں کو لعن طعن کرتے تھے کہ وہ الہیٰ بخش کی طرح کیوں کام نہیں کرتے- کئی بار مزدوروں کو تنبیہہ کی جا چکی تھی کہ انہوں نے اپنی کارکردگی نہیں بڑھائی تو انہیں نکال دیا جائے گا- ظاہر ہے کہ اس پر ساتھ کاریگر اس سے خفا تھے-
ایک دن کھانے کے وقفے میں ساتھیوں نے اسے گھیر لیا- “او الہیٰ بخش تو اتنا کام کیوں کرتا ہے؟” ایک نے کہا-
یہ سوال ہی الہیٰ بخش کی سمجھ سے باہر تھا- اس نے کہا ” تو کیا کام نہ کیا کروں”
“کام کر لیکن ہماری طرح- ہم بھ تو کام کرتے ہیں”
“بھائی، تمہاری میری رفتار میں فرق ہے- بس اتنی سی بات ہے”
“تیرے لئے اتنی سی بات ہے” ایک کاریگر بولا “لیکن اس کی وجہ سے ہم پر تو مصیبت آئی رہتی ہے”
“تو میں کیا کروں” الہیٰ بخش نے بے بسی سے کہا-
‘اپنی رفتار کو ہمارے برابر لے آ” تیسرے نے مشورہ دیا-
“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” الہیٰ بخش نے حیرت سے پوچھا-
“او یار، اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی-” پہلے نے جھنجلا کر کہا- تھوڑی تھوڑی دیر میں گپ شپ کر لیا کر کسی سے”
“پیسے مجھے گپ شپ کرنے کے نہیں کام کرنے کے ملتے ہیں”
“ہمیں بھی معلوم ہے- پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا”
ان دنوں الہیٰ بخش فوجیوں کی بیرکس میں رنگ و روغن کا کام رہا تھا- اس کے علاوہ بھی کئی کاریگر تھے- وہ سبھی اس سے شاکی تھے- جبکہ فوجی خوش رہتے تھے- ان کے نزدیک وہ مثالی مزدور تھا- اس متصاد رویے کی وجہ مشترک تھی-
الہیٰ بخش کم سخن اور کم آمیز تھا- کام کے وقت میں وہ صرف کام کرتا تھا- یہ نہیں تھا کہ کبھی چائے پینے میں لگ گیا یا کبھی سگریٹ سلگا لی- وہ دوسرے مزدوروں کی طرح گپ شپ میں بھی نہیں لگتا تھا- پھر اس کے کام کی رفتار بھی اپنے ساتھیوں سے زیادہ تھی- اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ دوسروں سے دگنا کام کرتا تھا- اس بنا پر فوجی عزت کرتے تھے- وہ دوےسرے مزدوروں کو لعن طعن کرتے تھے کہ وہ الہیٰ بخش کی طرح کیوں کام نہیں کرتے- کئی بار مزدوروں کو تنبیہہ کی جا چکی تھی کہ انہوں نے اپنی کارکردگی نہیں بڑھائی تو انہیں نکال دیا جائے گا- ظاہر ہے کہ اس پر ساتھ کاریگر اس سے خفا تھے-
ایک دن کھانے کے وقفے میں ساتھیوں نے اسے گھیر لیا- “او الہیٰ بخش تو اتنا کام کیوں کرتا ہے؟” ایک نے کہا-
یہ سوال ہی الہیٰ بخش کی سمجھ سے باہر تھا- اس نے کہا ” تو کیا کام نہ کیا کروں”
“کام کر لیکن ہماری طرح- ہم بھ تو کام کرتے ہیں”
“بھائی، تمہاری میری رفتار میں فرق ہے- بس اتنی سی بات ہے”
“تیرے لئے اتنی سی بات ہے” ایک کاریگر بولا “لیکن اس کی وجہ سے ہم پر تو مصیبت آئی رہتی ہے”
“تو میں کیا کروں” الہیٰ بخش نے بے بسی سے کہا-
‘اپنی رفتار کو ہمارے برابر لے آ” تیسرے نے مشورہ دیا-
“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” الہیٰ بخش نے حیرت سے پوچھا-
“او یار، اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی-” پہلے نے جھنجلا کر کہا- تھوڑی تھوڑی دیر میں گپ شپ کر لیا کر کسی سے”
“پیسے مجھے گپ شپ کرنے کے نہیں کام کرنے کے ملتے ہیں”
“ہمیں بھی معلوم ہے- پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا”
“تمہیں نہیں پڑتا ہو گا” الہیٰ بخش نے درشت لہجے میں کہا “میں حلال کی کھانا چاہتا ہوں”
“تو ہم کیا حرام کی کھاتے ہیں” ایک کاریگر آپے سے باہر ہونے لگا
“یہ تو مجھے معلوم نہیں- نہ مجھے اس کی فکر ہے” الہیٰ بخش نے باپ کا سمجھایا ہوا دہرایا ” میں صرف اپنی فکر کرتا ہوں”
“دیکھ بھائی مان جا” ایک اور کاریگر نے تحمل سے کہا “تیری وجہ سے ہم ذلیل ہوتے ہیں- ہماری روزی کھوٹی بھی ہو سکتی ہے”
“کیا میں تمہاری وجہ سے اپنی عاقبت خراب کر لوں ؟” الہیٰ بخش نے کرخت لہجے میں کہا “نہیں- یہ نہیں ہو سکتا”
سب کاریگر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے “دیکھ الہیٰ بخش، دریا میں رہ کر مگر مچھ سے دشمنی نہیں لیتے” ایک جوشیلے مزدور نے تنبیہہ کی-
“بات سنو میں انچارج صاحب کو سمجھا دوں گا کہ تمہاری اور میری رفتار میں فرق ہے- اسے مسئلہ نہ بنائییں ورنہ میں کام چھوڑ دوں گا- اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کر سکتا مجھے میرے باپ نے ہمیشہ رزق حلال کمانے کی تاکید کی ہے”
اس پر سبھی کاریگر بوکھلا گئے- جانتے تھے کہ انچارج سمجھ جائے گا کہ وہ لوگ الہیٰ بخش کو تنگ کر رہے ہیں ۔۔۔۔ اور وہ الہیٰ بخش کو کام بھی نہیں چھوڑنے دے گا- چاہے باقی سب کی چھٹی کرا دے-
“نہیں بھئی۔۔۔۔۔ الہیٰ بخش تجھے بات کرنے کی ضرورت نہیں” پہلے نے کہا-
“اچھا ہوتا کہ تو ہماری بات مان لیتا” ایک اور بولا-
“چلو میں کام ہی چھوڑ دیتا ہوں” الہیٰ بخش نے بے بسی سے کہا- “اللہ رزق دینے والا ہے”
“یہ غلطی بھی نہ کرنا” تیسرا بولا- وہ سبھی جانتے تھے کہ انچارج کو پتا چل جائے گا کہ ان لوگوں نے الہیٰ بخش پر دباؤ ڈالا ہے- پھر ان کا روزگار بھی جائے گا اور وہ بلیک لسٹ بھی ہو جائییں گے- “ٹھیک ہے یار جو جی میں چاہے کر- ہم کچھ نہیں کہتے”
بات آئی گئی ہو گئی- تین چار دن بعد انچارج نے ایک کاریگر کی چھٹی کرا دی-
اسے شکائت تھی کہ وہ پورا کام نہیں کر رہا ہے ” تم سب لوگ سدھر جاؤ” اس نے باقی کاریگروں سے کہا۔۔”الٰہی بخش بھی تو کام کرتا ہے۔”
“سر جی آپ مجھے بیچ میں نہ لائیں۔”الٰہی بخش نے انچارج سے بڑی عاجزی سے کہا۔َ”مجھے اللہ نے زیادہ رفتار دی ہے تو اس میں ان لوگوں کا قصور نہیں۔۔یہ اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرتے ہیں اور میں اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرتا ہوں۔۔”
“بات اللہ کی دی ہوئی رفتار کی نہیں” انچارج نے کرخت لہجے یں کہا۔۔”یہ حرام خور ہیں۔۔ جان بوجھ کر کم کام کرتے ہیں۔۔”
“سر جی پھر میں کام چھوڑ دیتا ہوں”
“کام چھوڑ کر تو دیکھ۔۔۔گھر سے اٹھوا لوں گا تجھے”
اگلے روز کاریگر بہت پریشان تھے۔۔ان کا ایک ساتھی نکالا جا چکا تھا۔۔اوروں کی باری بھی آ سکتی تھی۔۔وہ تیز ہاتھ چلانے کی کوشش کر رہے تھے۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ انہیں اس کی عادت نہیں تھی۔۔انہوں نے الٰہی بخش سے بات کرنا چھوڑ دیا۔۔ ان کے خیال سے وہ بد رنگ تھا۔۔
ان میں ایک سید کاریگر بھی تھا۔۔ اس کا نام سلمان شاہ تھا۔۔وہ بھی کم آمیز تھا۔۔ کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔اس روز سب کھانے کو نکلے تو سب نے سلمان شاہ کو پکڑ لیا۔۔”دیکھا شاہ جی۔۔ یہ الٰہی بخش کیا کر رہا ہے ہمارے ساتھ۔۔”لال خان نے بات شروع کی۔۔
“کیا ہوا؟ خیر تو ہے؟” سلمان شاہ نے پوچھا۔۔
“کل اصغر کی چھٹی کرا دی اس نے”
“اچھا۔۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔۔”سلمان شاہ گزشتہ روز کام پر نہیں آیا تھا۔۔
“ہوا کیا؟؟”
“وہی شکائت شاہ جی کہ ہم لوگ کام چوری کرتے ہیں۔۔”
تو اس سے الٰہی بخش کا کیا تعلق؟؟”
“سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔۔”لال خان نے کہا۔۔اس وقت وہی سب کی نمائندگی کر رہا تھا۔۔۔”وہی اپنی ایمانداری کا چرچا کرتا رہتا ہے۔۔باقی سب حرام خور ہیں۔۔”
“سب ہوں گے۔میں نہیں ہوں” سلمان شاہ نے اکڑ کر کہا۔۔۔اور یہ سچ تھا۔۔ سلمان شاہ بھی رزقِ حلال کا قائل تھا۔۔
“گستاخی معاف شاہ جی۔۔” شکور بولا “الٰہی بخش کے سامنے تو سب ہی خرام خور ہیں۔۔ہم دن میں ایک دیوار کرتے ہیں۔آپ ڈیڑھ کرتے ہو الٰہی بخش دو دیواریں نمٹا دیتا ہے۔۔”
“تو کیا ہوا۔۔ میں حرام خوری تو نہیں کرتا۔۔ الٰہی بخش کا ہاتھ تیز چلتا ہے۔اس لیئے وہ زیادہ کام کر لیتا ہے۔۔”
“ہاتھ تیز نہیں چلتا شاہ جی۔ وہ ہمیں ذلیل کرانے کے لیئے تیز ہاتھ چلاتا ہے۔۔”لال خان بولا۔۔”ہمارا تو کچھ نہیں۔۔پر شاہ جی آپ تو عزت والے لوگ ہو۔۔الٰہی بخش کو سمجھاؤ نا۔۔”
الٰہی بخش تو صاف کہتا ہے کہ اس کے سوا سب بے ایمان اور حرام خور ہیں۔۔”شکور نے آگ لگانے کی کوشش کی۔۔
سلمان شاہ آگ بگولا ہو گیا۔۔”کس کی مجال ہے کہ میرے بارے میں ایسی بات کہے۔َ”
“زبان سے کہنا ضروری تو نہیں ہوتا با جی۔۔”یار محمد نے کہا۔۔” الٰہی بخش اپنے عمل سے یہی کہہ رہا ہے۔۔”
“اور کسی دن انچارج صاحب بھی کہہ دیں گے۔۔”لال خان بولا۔۔
“اچھا اب بس کر دو” سلمان شاہ غرایا۔۔لیکن اس سے کھانا نہیں کھایا گیا۔۔بے ایمانی اور حرام خوری کا طعنہ اس کے لیئے بہت بڑا تھا۔۔
الٰہی بخش کو ان سب باتوں کا کچھ علم نہیں تھا۔۔وہ اس شام کام سے فارغ ہو کر بازار چلا گیا۔۔بازار مٰں بھی زیادہ دیر نہیں لگی۔۔امید تھی کہ مغرب سے پہلے وہ گھر جائے گا۔۔وہ پھیکی دھوپ میں ناڑی کے کچے رستے پرتیز قدم بڑھاتا چل رہا تھاکہ دائیں جانب کے کھیتوں کی طرف سے اچانک ہی سلمان شاہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔اس کے چہرے پر گھمبیرتا تھی ور ہاتھ میں کلہاڑی۔۔
الٰہی بخش نے چونک کر اسے دیکھ اور احتراماً رک گیا۔۔سلمان شاہ کی وہ بہت عزت کرتا تھا۔۔اس لیئے کہ سلمان شاہ خود بھی بہت محنتی اور ایماندار آدمی تھا۔۔اس میں غرور بھی نہیں تھا۔۔
“سلام علیکم با جی۔۔” الٰہی بخش نے کہا۔۔
“سلمان شاہ نے روکھے لہجے سے سلام کا جواب دیا۔۔پھر بولا۔”تجھ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔۔اس لیئے یہاں تیرے انتظار میں کھڑا ہوں۔۔”
“مجھے گھر سے بلوا لیا ہوتا با جی۔۔” الٰہی بخش بولا۔۔”خیر حکم کریں کیا بات ہے؟”
“پہلے تو ایک بات پوچھنی ہے تجھ سے۔۔یہ بتا۔۔میں تیرے خیال میں بے ایمان،حرام خور ہوں؟کام چوری کرتا ہوں؟؟”
“توبہ با جی توبہ” الٰہی بخش نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔”آپ کی ایمان داری تو مثالی ہے”
سلمان شاہ کچھ نرم پڑ گیا۔۔”تُو چاہتا ہے کہ دوسرے مجھے بے ایمان اور حرام خور سمجھیں؟”
“کیسی بات کرتے ہیں شاہ صاحب۔۔ میں بہت بہت گنہگار ہوں۔۔لیکن ایسے گناہ کرنے والا آدمی نہیں”
“تو پھر تُ مجھ سے زیادہ کام کیوں کرتا ہے؟؟”سلمان شاہ نے کڑے لہجے میں کہا۔۔
“دیکھیں شاہ جی مقررہ وقت میں آپ بھی ایمانداری سے کام کرتے ہیں اور میں بھی۔۔ کم کی مقدار کا اس سے کیا تعلق۔۔”
“الٰہی بخش تُو بس میری بات سمجھنے کی کوشش کر”
“باء جی آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں” الٰہی بخش نے بے حد رسان سے کہا۔۔”دیکھیں دوسرے لوگ آپ سے بھی کم کام کرتے ہیں۔۔اگر وہ آپ سے مطالبہ کریں کہ آپ انہیں بے ایمانی کے الزام سے بچانے کے لیئے اپنی استعداد سے کم کام کریں تو آپ کیا کریں گے؟؟”
“کس کی مجال ہے جو مجھ سے یہ بات کرے۔۔؟”سلمان شاہ کو جلال آ گیا۔۔
“بات مجال کی نہیں ۔۔آپ صرف فرض کر لیں۔۔”
“دیکھ الٰہی بخش اب میں تجھے حکم دے رہا ہوں کہ تُو مجھ سے زیادہ کام نہیں کرے گا۔۔”
“با جی سرکار۔۔ یہ حکم مانوں گا تو میں بے ایمان نہیں ہو جاؤں گا؟؟میرے حلال رزق میں حرام نہیں مل جائے گا؟؟ با جی سرکار۔۔اللہ کا حکم تو سب سے بڑا ہے۔۔”
“میں کچھ سننا نہیں چاہتا۔۔”سلمان شہ نے گرج کر کہا۔۔”تجھے میری بات ماننا ہو گی ورنہ۔۔”اس نے کلہاڑی بلند کی۔۔
“دیکھیں شاہ جی ۔۔ آپ اپنی ذمہ داری کا بھی خیال کریں۔۔” الٰہی بخش نے عاجزی سے کہا۔۔”میں تو آپ کے سامنے اپنے بچاؤ کے لیئے بھی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔۔اس لیئے کہ میرے باپ نے مجھے یہی سکھایا ہے۔۔۔تو میرا بچاؤ بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔آپ تو آلِ رسول ﷺ ہیں۔۔آپ مجھے بے ایمانی اور حرام خوری کے لیئے کیسے کہہ سکتے ہیں۔”
لیکن مشتعل سلمان شاہ اب کچھ سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔۔۔”میں تیرا لیکچر نہیں سنوں گا الٰہی بخش۔ مجھے ہاں یا نہ میں جواب دے۔۔۔”
“مجھے موت کا خوف نہیں ہے شاہ جی۔۔” اب الٰہی بخش کا لہجہ بھی سخت ہو گیا۔۔”اللہ جانتا ہے میں آپ کو زیادتی سے روکنے کی طاقت بھی رکھتا ہوں،لیکن بزرگوں کی روایت اور لحاظ کا تقاضا ہے کہ میں کچھ نہ کروں۔۔”
“جواب دے ہاں یا نہ؟؟”
“جواب آپ کو معلوم ہے۔۔ میں آپ کی یہ بات نہیں مانوں گا۔۔”
سلمان شاہ کا کلہاڑی والا ہاتھ نیچے آ رہا تھا۔۔
الہیٰ بخش نے سر اٹھا کر اسے دیکھا- ایک لمحے کو اس کے جی میں آئی کہ ہاتھ بڑھا کر کلہاڑی کو پکڑ لے اور وہ ایسا کر بھی سکتا تھا- مگر اس کے اندر ایسی کوئی تحریک نہیں تھی- وہ سر جھکانے لگا- یہی وجہ تھی کہ کلہاڑی اس کے چہرے پہ نہیں لگی- البتہ اس کی پیشانی میں آگ اتر گئی-
سلامن نے فوارے کی شکل میں ابلتے خون کو دیکھا تو اس کا حوصلہ جواب دے گیا- غصہ سرد ہو گیا- اب اس کو صرف یہ خیال تھا کہ وہ بہت خطرناک حرکت کر بیٹھا ہے، اور اس کا انجام نہ جانے کیا ہو گا-
الہیٰ بخش چکراتا ہوا نیچے بیٹھتا گیا-اس کا ایک ہاتھ سختی سے اپنی پیشانی پر جما تھا جیسے خون روکنے کی کوشش کر رہا ہو- مگر خون کہاں رکتا ہے- گاڑھا گاڑھا خون اس کی بھینچی ہوئی انگلیوں کے درمیان سے بھی رس رہا تھا- سلمان شاہ نے جو خون کا فوارہ چوٹتے ہوئے دیکھا تو اس کے اوسان جواب دے گئے- اسے احساس ہوا کہ وہ تو بہت ہی سنگین حرکت کر بیٹھا ہے- اضطراری طور پہ وہ پلٹا اور بھاگ کھڑا ہوا-
جانے وہ چند لمحے تھے یا کئی گھنٹے، بہرحال الہیٰ بخش وہیں پڑا رہا- پھر اسے قدموں کی آہٹیں سنائی دیں- “ارے یہ تو بہت زخمی ہے” کسی نے کہا- الہیٰ بخش کو وہ آواز بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی- کسی نے اسے سہارا دے کر بٹھایا “خون رکنا تو مشکل ہے” اسی آواز نے کہا ” چادر کس کر باندھ دیتا ہوں آگے اللہ کی مرضی”
اس کے سر پہ چادر کس کر باندھ دی گئی “بخشے تو چل سکتا ہے؟” اس بار دوسری آواز نے پوچھا-
الہیٰ بخش اثبات میں سر ہلا رہا تھا کہ پہلی آواز نے دوسری کو ڈانٹ دیا- “کیسی باتیں کرتے ہو، اسے اٹھا کے لے جانا پڑے گا”
انہوں نے الہیٰ بخش کو اٹھایا- اسی دوران الہیٰ بخش کو ہوش و حواس اس کا ساتھ چھوڑ گئے- اسے نہیں معلوم کہ وہ اسے کس طرح لے کر گئے- ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھا- “یہ پولیس کیس ہے” ڈاکٹر کہہ رہا تھا- “پہلے تھانے لے جاؤ- رپورٹ درج کراؤ- پھر پٹی ہو گی”
“چاہے اس دوران یہ مر جائے؟” پہلی آواز نے تلخ لہجے میں کہا-
“ہاں چاہے یہ مر جائے- قانون تو قانون ہے”
“عجیب قانون ہے سزا مارنے والے کو ملنی چاہئے- یہاں سزا اسے مل رہی ہے جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے- آپ کے اس قانون سے ظالم کا کیا بگڑے گا- ہاں مظلوم بچ بھی سکتا ہو تو مر جاۓ گا-”
“قانون میں نے نہیں بنایا” ڈاکٹر نے نرم لہجے میں کہا “لیکن میں اس کے خلاف کروں گا تو پھنسوں گا”
“اور یہ مر گیا تو آپ کے ضمیر پر بوجھ نہیں ہو گا ”
ڈاکٹر سوچ میں پڑ گیا- اس نے الہیٰ بخش کی پیشانی پہ بندھا ہوا صافہ کھول کر زخم کا معائنہ کیا اور نرم پڑ گیا- خون پہلے ہی بہت ضائع ہو چکا تھا- اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا “ٹھیک ہے میں مریض کی پٹی کرتا ہوں- تم ایک کام کرو- تھانہ یہاں قریب ہی ہے- ایس ایچ او شاہ صاحب میرے دوست ہیں- اس سے جا کر کہو میں نے انہیں بلایا ہے- میرا نام ڈاکٹرجمیل ہے”-
فاضل تھانے چلا گیا- ڈاکٹر الہیٰ بخش کے لئے مصروف ہو گیا-
————————–٭———————–
چنز گھنٹے بعد الہیٰ بخش تھانے میں ایس ایچ او ابرار شاہ کے سامنے پیش تھا- ڈاکٹر نےکہہ دیا تھا کہ اسے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں- زخم گہرا ضرور ہے- لیکن خطرناک ہر گز نہیں ہے- اس نے بتایا کہ زخم مہلک بھی ثابت ہو سکتا تھا- دماغ پہ بھی اثر پڑ سکتا تھا- بینائی، سماعت یا قوت شامہ بھی ختم ہو سکتی تھی لیکن ایسا ہوا نہیں- البتہ زخم کے معاملے میں احتیاط کرنی ہو گی اور پٹی باقاعدگی سے کرانا ہو گی-
“اب کیسا محسوس کر رہے ہو” ایس ایچ او نے مشفقانہ لہجے میں الہیٰ بخش سے پوچھا-
“ٹھیک ہوں شاہ جی- بس ذرا کمزوری ہے- چکرآتے ہیں” الہیٰ بخش نے جواب دیا-
“ابھی تمہاری دوائیں آ جائیں گی- یہ بتاؤ، بات کر سکتے ہو مجھ سے؟”
“جی شاہ صاحب”
ابرار شاہ نے پیڈ سامنے گھسیٹا اور پینسل سنبھال لی- “تمہیں کس نے مارا ہے”
“سلیمان شاہ نے”
ابرار شاہ چونکا- سلیمان شاہ اس کا دور کا رشتے دار ہوتا تھا- سوال کر کے اس نے اس بات کی تصدیق بھی کر لی- “ہوا کیا تھا؟”
الہیٰ بخش نے پوری تفصیل بتا دی-
ابرار شاہ نے سر کو تفہیمی جنبش دی “تمہیں انساف ملے گا- بے فکر رہو” پھر اس نے آواز لگائی “بہرام خان ۔۔۔۔ تین کانسٹیبل ادھر بھیج دو”
چند لمحے بعد تین کانسٹیبل اس کے سامنے کھڑے تھے- “نوروز۔۔۔ تم تینوں جاؤ اور شاہ کو پکڑ لاؤ- ہتھکڑی لگا کر لانا ہے اسے- کوئی رعایت نہیں کرنی” یہ کہ کر وہ ان تینوں کو پتا سمجھانے لگا- الہیٰ بخش بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا- اسے یقین نہیں تھا کہ اسے انصاف مل سکے گا- سادات کی ویسے ہی اتنی عزت ہے کہ ان پہ کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا- پھر یہاں تو منصف خود بھی سادات ہی میں سے تھا- ایسے میں انصاف کی امید وہ کیا کرتا-
تینوں کانسٹیبل چلے گئے- “تم یہاں بیٹھ سکتے ہو” ابرار شاہ نے کہا- طبعیت زیادہ خراب ہو تو گھر چلے جاؤ”
“میرا رکنا ضروری ہے شاہ جی سرکار؟
“ضروری تو نہیں لیکن رک جاؤ تو میں تمہیں انصاف کا تماشا دکھاؤں گا-”
“میں رکوں گا باجی” الہیٰ بخش نے زخمی لہجے میں کہا- اس کا دل بہت دکھا ہوا تھا- اس نے سلیمان شاہ کو کتنی معقولیت سے بات سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن سلیمان شاہ کو نام و نسب کے گھمنڈ نے اندھا کر دیا تھا- اس نے یہ تک خیال نہیں کیا کہ اس کا حکم اللہ کے حکم سے متصادم ہے اور اللہ کے حکم سے بڑھ کر کوئی حکم نہیں- الہیٰ بخش جانتا تھا کہ اس کی کوئی غلطی نہیں- رائی برابر بھی نہیں- یہ تالی ایک ہاتھ سے بجی ہے- سلیمان شاہ نے زیادتی کی ہے اور اس کی سزا اس کو اس کے سامنے ملنی چاہئے۔۔۔۔۔
اسی لمحے اس کا باپ پیر بخش ہڑبڑایا ہوا ابرار شاہ کے کمرے میں داخل ہوا-“کیا ہوا میرے بیٹے کو؟” وہ الہیٰ بخش کی طرف لپکا ” یہ کیسے ہو گیا- مجھے فاضل نے بتایا آ کر-”
الہیٰ بخش پتھر کا بت بنا اسے دیکھتا رہا- اس نے کوئی جواب نہیں دیا-
“زخم گہرا ہے لیکن خطرناک نہیں- خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہارا بیٹا بچ گیا” ابرار شاہ نے کہا-
پیر بخش نے چونک کر اسے دیکھا- اسے سلام کیا- “معاف کرنا مائی باپ- اس کی پریشانی میں آپ کا خیال ہی نہیں رہا” وہ پھر الہیٰ بخش کی طرف مڑا “کس نے مارا ہے تجھے، مجھے بتا- میں خون پی جاؤں گا اس کا”
“نہیں پی سکو گے ابا” الہیٰ بخش نے سرد لہجے میں کہا- “سلیمان شاہ نے میرے سر پہ کلہاڑی ماری ہے”
پیر بخش کے چہرے پہ زلزلے کا تاثر ابھرا۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...