✓ اس ناول کی ہیروئن ہماری عزیز دوست Cora Zòne ہیں ۔۔۔ کورا سے مراد میرے سرَنیم یعنی کور کی بگڑی ہوئی شکل نہیں ہے۔
✓ یہ ناول خالصتاً فکشن ، فینٹسی پر مبنی ہے لہٰذا اس میں ‘لاجک’ تلاش کرنے کے بجائے اسے انجوائے کیجئیے ، جیسے ہم ‘ہیری پوٹر’ یا ‘گاڈز آف ایجپٹ’ میں یہ نہیں دیکھتے کہ ویزلی کی گاڑی ہوا میں کیسے اڑتی ہے یا ہورث ، دیوتا ہونے کے باوجود اندھا کیوں ہو جاتا ہے۔}
” تو اب کیسی طبعیت ہے تمہاری ۔۔۔” ستی نے کورا کے بازو کے بالائی حصے پر ٹورنیکیٹ باندھ کر اسے ٹائیٹ کرتے ہوئے کہا ۔
” موسمی بخار تھا بس اور تھوڑا ڈائجسچن کا مسئلہ۔۔۔ چند دن رہ کر ٹھیک ہوگیا ، لیکن تمہیں ماما کا تو پتا ہی ہے میری صحت کے معاملے میں کتنی حساس ہیں ، تو انہوں نے مجھے مجبور ہی کردیا کہ میں احتیاطاً اپنے ضروری ٹیسٹس کروالوں ، کالج ٹور پر جانے سے قبل ۔۔۔” کورا نے جواب دیا ۔
” اوہ ۔ تم کالج ٹور پے جارہی ہو ؟ کب اور کہاں۔۔۔؟” ستی نے سرنج تیار کرتے ہوئے کہا ۔
” دو دن بعد ہے ہمارا کالج ٹور ۔۔۔ دو روز کا ٹور ہے ، ہم آرچڈ آئی لینڈ جارہے ہیں۔۔۔ بذریعہ فیری ۔” کورا نے ایکسائیٹڈ لہجے میں کہا ۔
” آرچڈ آئی لینڈ ۔۔۔؟ پرفیکٹ ، بہت عمدہ ٹورسٹ سپاٹ ہے۔ ” ستی نے سرنج کو کورا کے بازو میں اتارتے کہا ۔
” تم بھی چلو ناں ہمارے ساتھ ۔۔۔ خوب انجوائے کریں گے ۔” کورا نے کہا۔
” نہیں یار میرا تو کوئی چانس نہیں ۔۔۔ اگلے دو ماہ تک ہاسپٹل سے چھٹی مل پانا محال ہے۔”
ستی نے بلڈ سیمپل لینے کے بعد سرنج نکالتے اور بازو پر روئی کا ٹکرا رکھ کر اسے دباتے ہوئے کہا ۔
” اوہ ۔ چلو کوئی بات نہیں۔۔۔ جب تمہیں چھٹیاں ہوں گی تو پھر کوئی پلان کر لیں گے۔” کورا نے بازو پر، آستین نیچے کرتے کہا ۔
” شیور ۔۔۔ بس خدا کرے تب تک کوویڈ کی نئی لہر نہ آجائے ۔ ورنہ چھٹیاں بھی منسوخ اور سارے پلان بھی چوپٹ ۔” ستی نے سرنج کو ٹیسٹ ٹیوب میں لگاتے کہا ۔
” ویسے ، رپورٹس کب تک آجائیں گی ۔۔۔؟” کورا نے پوچھا ۔
” چوبیس گھنٹے کے اندر رپورٹس آجائیں گی ۔۔۔ تمہارے ٹور پر جانے سے پہلے رپورٹس تمہیں مل جائیں گی ۔” ستی نے کہا ۔
” اوہ ۔ تھینک یو سو مچ۔۔۔ ورنہ تو میرا ٹور پر جانا بھی خطرے میں پڑ جاتا ۔ ” کورا نے سکون آمیز لہجے میں کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( 2 دن بعد )
طویل اور تھکاوٹ آمیز دن کے بعد ستی اپنے ہاسٹل روم میں ، ڈنر کے بعد کافی کا کپ تھامے صوفے پر دراز ، ایک ٹاک شو دیکھنے میں مگن تھی ۔
اسی وقت سکرین پر “بریکنگ نیوز” کے الفاظ ابھرے ۔۔۔۔ ” سینڈزبرگ سے آرچڈ آئی لینڈ جارہی سیاحوں کی فیری کو حادثہ ، فیری پر سوار 150 سے زائد مسافر لاپتہ ، امدادی ٹیموں کو فوراً جائے حادثہ کی طرف روانہ کردیا گیا ہے تاہم حادثے کی خبر پہلے ہی کئی گھنٹے دیر سے مل پائی ۔۔۔ بلیوکوئین نامی یہ فیری ایک کالج کے سٹوڈنٹس۔۔۔۔”
کمرے میں چھناکے کی آواز گونجی ۔ فرش پر ٹوٹے کپ کی کرچیاں اور کافی کے چھینٹے پھیلتے چلے گئے ۔
” کاش یہ فیری ، کسی اور کالج کا ٹور لے جارہی ہو۔۔۔” ستی نے موہوم سی امید اور کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کورا کے کالج کا کانٹیکٹ نمبر گوگل پے سرچ کرتے سوچا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امپیریل ہاسپٹل کے مالک ڈاکٹر ثاقب ، اپنی عمر کے پیشِ نظر خود کام سے سبکدوش ہوچکے تھے اور ہسپتال کو ان کا بیٹا مینیج کررہا تھا تاہم وہ بھی ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ ہسپتال کا چکر لگا کر وہاں کے معاملات دیکھ لیا کرتے تھے ۔۔۔ البتہ مریضوں کے چیک اپ کا کام وہ دو سال سے چھوڑ چکے تھے ۔ ان کا زیادہ وقت ان کی وسیع اور پر آسائش ، رہائش گاہ پر ہی گزرتا تھا ۔
اس وقت ڈاکٹر ثاقب اپنے بنگلے کے ڈرائنگ روم میں اپنی سابق سٹوڈنٹ اور اسسٹنٹ ستی کے ساتھ موجود تھے ۔
” مجھے بہت افسوس ہے تمہاری کزن کا ۔۔۔ کیا اس کی باڈی ریکور ہوچکی ہے ؟” ڈاکٹر نے کہا۔
” نہیں۔۔۔ طوفانی موسم کی وجہ سے ریسکیو ٹیمز نے اپنا آپریشن چوبیس گھنٹے کے لیے ملتوی کردیا ہے ۔۔۔ تاہم کسی کے زندہ بچنے کی کوئی امید نہیں۔۔۔ ایک تو یہ حادثہ زمین سے سو کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلہ پر پیش آیا ۔۔۔ اوپر سے حادثے کی اطلاع بھی ریسکیو اداروں کو کئی گھنٹے بعد ملی ۔۔۔” ستی نے کہا ۔
” افسوسناک ۔۔۔۔ اس کے گھر والوں کی کیا کیفیت ہے؟” ڈاکٹر کے پُرتاسف لہجے میں کہا۔
ستی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔۔۔۔
” اس کی ماما یہ خبر سننے کے بعد شاک میں چلی گئیں اور اب تک نیم بیہوشی کی کیفیت میں ہیں۔۔۔۔ اور ظاہر ہے باقی سب کا حال بھی کچھ بہتر نہیں۔” ستی نے کہا۔
” خدا کے کاموں میں کسی کو دخل نہیں۔۔۔ بہت دردناک سانحہ ہے۔” ڈاکٹر نے کہا۔
” ڈاکٹر صاحب۔۔۔ مجھے کچھ کہنا ہے آپ سے ۔۔۔ مجھے۔۔۔ آپکی مدد درکار ہے ۔ پلیز انکار مت کیجئے گا ۔ آپ اس وقت میری آخری امید ہیں۔” ستی نے جھجھکتے ہوئے ڈاکٹر سے کہا ۔
” ہاں کہو بیٹا کیا بات ہے ۔۔۔؟” ڈاکٹر نے کہا ۔
” حادثے سے دو دن قبل کورا ہاسپٹل آئی تھی ، اسے اپنے کچھ ٹیسٹس کروانے تھے۔۔۔ باقی ٹیسٹس تو ہوگئے ، لیکن ایچ-پائلری ٹیسٹ کا آپریٹس کچھ خرابی کا شکار تھا ۔۔۔ چنانچہ اس کے بلڈ سیمپل کو سٹور کردیا گیا تاکہ آپریٹس کی ری-پلیسمنٹ کے بعد اگلے روز یہ ٹیسٹ کیا جاسکے ۔۔۔” ستی نے کہا ۔
” اوہ اچھا۔۔۔ تو اب ؟” ڈاکٹر نے کہا ۔
” تو اب ۔۔۔ ہمارے پاس کورا کا بلڈ سیمپل موجود ہے .” مینا نے کہا۔
” میں تمہاری بات سمجھا نہیں۔۔۔مطلب۔۔۔ میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں بیٹا ؟” ڈاکٹر نے کہا ۔
” سر ۔۔۔۔ آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں ؟ ” ستی نے کہا ۔
جس پر ڈاکٹر چہرے پر الجھن کے تاثرات لیے کچھ دیر تک اس کے چہرے پر نظر جمائے اسے دیکھتے رہے ۔۔۔۔
” تو تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔ ستی بیٹا یہ کسی صورت ممکن نہیں اب۔” ڈاکٹر نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔
” ڈاکٹر صاحب پلیز ۔۔۔ مجھے میرا خاندان بہت عزیز ہے ۔۔۔ میں انہیں یوں اجڑتا نہیں دیکھ سکتی۔۔۔ اس وقت دنیا میں آپ کی وہ واحد شخص ہیں جو میری مدد کرسکتے ہیں۔” ستی نے التجا بھرے لہجے میں کہا ۔
” دیکھو بیٹا ۔۔۔ دنیا میں روز بیسیوں ہزار لوگ مرتے ہیں ، یہ قدرت کا قانون ہے ۔ ہم فطرت کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرسکتے ۔۔۔” ڈاکٹر نے کہا ۔
” ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ میں نے آپ کے خفیہ پراجیکٹ میں تین سال تک دن رات صبح شام آپ کا ساتھ دیا وہ بھی بغیر کسی صلے کی لالچ کے ، بس ایک شاگرد ہونے کے ناطے نہ صرف اپنی بساط سے بڑھ کے آپکی مدد کی بلکہ آپ کے اس پراجیکٹ کو اپنے سینے میں دفن رکھا تا عمر مخفی رہنے والے ایک راز کی طرح ۔۔۔۔ اور اب مجھے اسی سلسلے میں آپ کی مدد درکار ہے تو آپ مجھ ہی سے پیٹھ پھیر رہے ہیں ۔۔۔” ستی نے شکایت سے لبریز لہجے میں کہا۔
” تین سال۔۔۔ ہاں تین سال بعد جا کر مجھے سمجھ آیا کہ ہم انسانوں کے لیے فطرت کی حدود سے تجاوز کرنا کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے ۔۔۔ اور اسی لیے میں نے اپنے پراجیکٹ کو ہمیشہ کے لیے کلوز کردیا ۔۔۔ تمہیں بھی اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے ۔۔۔ اور قدرت کا فیصلہ سمجھ کر اس سانحہ کو قبول کرلینا چاہیے۔۔۔” ڈاکٹر نے ٹھوس لہجے میں کہا۔
” ٹھیک ہے سر ۔۔۔ اگر آپ خود کو میری مدد کرنے سے قاصر سمجھتے ہیں تو میں آپ کو مزید Insist نہیں کرسکتی۔۔۔۔ لیکن میرا آپ سے ایک سوال ہے ۔۔۔ اگر کورا کی جگہ۔۔۔ آپ کی اولاد کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہوتا۔۔۔ تو ؟” ستی نے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ کہا ۔
” دیکھو ، تم اس معاملے میں میرے خاندان کو نہ ہی لاؤ تو بہتر ہوگا ۔۔۔۔” ڈاکٹر نے اب کی بار غصے سے لبریز لہجے میں کہا۔
” اوکے سر۔۔۔اپ کا کہا سر آنکھوں پر ۔۔۔ میں اب اجازت چاہوں گی.” ستی نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔ اور ڈرائنگ روم کے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
” ستی ، رکو ۔۔۔” ابھی وہ دروازے تک پہنچی ہی تھی کہ اس کی سماعت سے ڈاکٹر کی آواز ٹکرائی ، اس کے قدم ساکت ہوگئے۔۔۔اور وہ پلٹی ۔
” کیا تم جان چکی ہو کہ میرا بیٹا شہیر ۔۔۔۔۔” ڈاکٹر نے اکھڑے ہوئے لہجے میں بات شروع کی لیکن جملہ مکمل نہ کر پائے ۔
” ہاں ۔۔۔ میں جان چکی ہوں۔ بھلے ہی آپ نے مجھے نہیں بتایا تھا اس بارے میں بھی۔۔۔ اور میں یہ بھی سمجھ چکی تھی کہ آخر آپ نے تین برس تک جان توڑ کوششوں اور بھاری سرمایہ لگانے کے بعد اچانک اپنا پراجیکٹ ختم کیوں کر دیا ۔۔۔ کیونکہ سر۔۔۔ آپ کا اصل مقصد پورا ہوچکا تھا ۔
اور ۔۔۔ میں پہلے دن سے ہی سمجھ گئی تھی کہ شہیر ، آپ کا بیٹا بیرونِ ملک نہیں گیا کہ جو بات آپ نے سب کے سامنے مشہور کر رکھی تھی۔۔۔
ڈاکٹر صاحب ، آپ نے مجھ سے بہت کچھ چھپایا ، مجھے اس بات پر کوئی شکوہ نہیں۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔ میں نے بھی آپ سے بہت کچھ چھپایا تھا ۔۔۔۔ آپ اب تک اس بات سے بےخبر تھے کہ شہیر چار سال قبل میرا قریبی دوست رہ چکا ہے ۔۔۔ ہمارا رشتہ بہت قریبی اور مخلص تھا ۔۔۔ لیکن۔۔۔ امریکہ میں اپنی تعلیم کے دوران تین سال تک شہیر نے مجھ سے ایک مرتبہ بھی رابطہ نہیں کیا ۔۔۔ اور جب وہ واپس آیا ، تو اس نے مجھے دیکھ کر قطعاً پہچانا بھی نہیں۔۔۔ جیسے زندگی کبھی ہماری ملاقات بھی نہ ہوئی ہو ، جیسے اس نے کبھی میرا نام تک نہ سنا ہو۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب ، میں تبھی سمجھ چکی تھی کہ آپ کے اس “انقلابی پراجیکٹ ” کا حقیقی مقصد کیا تھا ۔۔۔ تاہم جہاں میں نے پہلے ہی آپ کے ان گنت رازوں کو اپنے اندر دفن کر رکھا تھا ۔۔۔ وہاں ایک اور راز بھی سہی ۔۔۔۔” ستی نے ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہوئے اپنی بات ختم کی ۔
اور ڈاکٹر ثاقب پر جیسے سکتہ طاری تھا ۔۔۔ کئی منٹ تک وہ یونہی خاموش رہے ۔
” صبح 6 بجے ۔۔” کئی منٹ کی خاموشی کے بعد ڈاکٹر نے سکوت توڑا ۔
” سوری۔۔۔۔؟” ستی نے کہا۔
” صبح 6 بجے ۔۔۔ میری پرانی رہائش گاہ پر پہنچ جانا ۔۔۔ اور بلڈ سیمپل اپنے ساتھ لانا مت بھولنا ۔۔۔ میں تب تک سارے سیٹ اپ اور مشینری کو متحرک کرلوں گا۔ عرصے سے بند ہے وہ سب اسے چالو کرنے میں پورا دن لگ جائے گا۔” ڈاکٹر نے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا کے گھپ تاریک دماغ میں دور کہیں روشنی کی ایک کرن نمودار ہوئی ، اسے ہوش آرہا تھا۔
آنکھیں کھولنے پر کچھ دیر اسے دھندلاہٹ کے سوا کچھ بھی نظر نہ آسکا اور پھر آہستہ آہستہ یہ دھندلاہٹ کم ہوتی گئی ۔ نظر بحال ہونے پر اس نے خود کو ہسپتال کے بیڈ پر پایا ۔
بیڈ کے قریب ہی ستی ایک کرسی پر بیٹھی ، اخبار کا مطالعہ کررہی تھی ۔
” ستی ۔۔۔” کورا نے اسے آواز دی اور اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔ اور پھر اخبار رکھ کر اس کی جانب بڑھی ۔
” تمہیں ہوش آگیا ۔۔۔ خدا کا شکر ہے ۔” ستی نے پُر مسرت لہجے میں کہا۔
” میں یہاں کیسے پہنچ گئی۔۔۔ ؟ یہ تو وہ کمرہ نہیں جہاں تم میرا بلڈ سیمپل لے رہی تھی۔۔۔” کورا نے بستر سے اٹھنے کی کوشش کرتے کہا ۔
” لیٹی رہو ۔۔۔ کیا تمہیں یاد ہے کہ تم کیسے بیہوش ہوئی ؟” ستی نے کہا۔
جس پر کورا خاموش رہی ۔۔۔ جیسے بکھری ہوئی یادوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کررہی ہو۔
” مجھے یاد ہے کہ میں اپنے ٹیسٹس کے لیے تمہیں بلڈ سیمپلز دے رہی تھی ۔۔۔” کورا نے کہا ۔
” اوووہ۔۔۔ اچھا اب غور سے سنو ، تم اس روز مجھے بلڈ سیمپل دے کر واپس چلی گئی تھی ۔۔۔ دو دن بعد تمہارا کالج ٹور تھا ۔۔۔ لیکن سینڈزبرگ پہنچ کر اچانک تمہاری طبیعت خراب ہوگئی اور تم بیہوش ہوگئی ۔۔۔ جس پر تمہارے کالج سٹاف نے تمہیں ایک مقامی ہسپتال میں ایڈمٹ کروادیا لیکن اتفاق سے وہ تمہارے گھر رابطہ کرکے نہ بتا سکے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ معمولی سا مسئلہ ہے اور کچھ ہی دیر میں تمہاری طبیعت سنبھل جائے گی ۔۔۔ اس طرح تم ٹور کے لیے نہ جا پائی ۔۔۔ ہاں تمہارے باقی سب ساتھی اور ٹیچرز سینڈزبرگ سے آرچڈ آئی کے بحری سفر پر روانہ ہوگئے ۔۔۔ تاہم اس کے بعد کی کہانی کچھ خوشگوار نہیں۔۔۔۔ ہاں تم صحیح سلامت ہو فی الوقت یہی کافی ہے ۔” ستی نے تفصیلاً بولتے ہوئےکہا۔
” اوہ ۔۔۔ یعنی اتنے دن بھی گزر گئے۔۔۔ لیکن میں یہاں کیسے پہنچی تمہارے ہاسپٹل میں ؟؟ اور ایسا کیا ہوگیا میرے کالج فیلوز کے ساتھ کہ جسے تم ناخوشگوار کہہ رہی ہو ۔۔۔؟ اور باقی سب کہاں ہیں ؟؟ کیا میرے گھر میں اطلاع کی تم نے ۔۔.؟ کورا کے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے ۔
” اب تم بالکل ٹھیک ہو ۔۔۔ سفر کرسکتی ہو ۔
پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے ۔ میں تمہیں گھر ڈراپ کر دیتی ہوں ۔ اور راستے میں سب تفصیل سے بتا دوں گی کہ اس کالج ٹور کے ساتھ کیا کچھ بیت گیا ۔۔۔ بس تم خدا کا شکر ادا کرو کہ خود صحیح سلامت ہو ۔۔۔ ہم دس منٹ تک نکل رہے ہیں۔” ستی نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کار اوسط رفتار کے ساتھ اپنی منزل کی طرف محوِ سفر تھی ، ستی ڈرائیونگ سیٹ پر موجود تھی جبکہ کورا کو اس نے بیک سیٹ پر لٹا دیا تھا ۔
” میں اب بالکل فریش محسوس کررہی ہوں۔ فرنٹ سیٹ پے سفر کرسکتی ہوں ۔ خواہ مخواہ ہی تم نے مجھے بیک سیٹ پر لیٹ کے سفر کرنے کا کہہ دیا ۔” کورا نے ستی سے کہا ۔
” تم ایک ‘لمبی نیند’ کے بعد جاگی ہو ۔۔۔ تمہارے جسم کو مکمل بحالی کے لیے کچھ وقت درکار ہے ۔ اسی لیے میں نے یہ احتیاط برتی۔” ستی نے کہا ۔
” ویسے یہ کار کب لی تم نے ۔۔۔؟ کورا نے پوچھا
” نہ بھئی۔۔۔ میری نہیں ہے ایک کولیگ سے مانگی ہے دو گھنٹے کے لیے۔” ستی نے ڈرائیو کرتے کہا۔
” ویسے ستی ۔۔۔ میں ابھی تک دماغی طور پر خود کو Unfit محسوس کررہی ہوں۔۔۔ جیسے مجھے بہت کچھ یکسر بھول چکا ہو اور جیسے بہت سی یادیں دھندلی کیفیت میں ہوں۔۔۔پتا نہیں کیوں۔۔۔ معمولی سا بخار ہی تو تھا ۔” کورا نے کہا ۔
” ہو جاتا ہے ایسا کبھی کبھار ۔۔۔ میرا یہی مشورہ ہوگا جو باتیں تم یاد نہیں کر پارہی ہو انہیں نظر انداز کر دو اور اپنے ذہن پر غیر ضروری پریشر مت ڈالو ۔۔۔ ٹھیک ہے؟” ستی نے کہا۔
اور اسی وقت گاڑی رک گئی ۔۔۔۔
” کیا ہوا گاڑی کیوں روک لی ؟” کورا نے وہیں لیٹے لیٹے پوچھا ۔
” پتا نہیں۔۔۔۔ طویل ٹریفک جام ، لوگ یو-ٹرن لے کر واپس جارہے ہیں ۔” ستی نے کنفیوز لہجے میں کہا ۔
اس وقت وردی میں ملبوس ایک ٹریفک پولیس اہلکار وہاں پہنچا۔۔۔۔
” میم پرسوں آئے زلزلے کی وجہ سے پٗل کو نقصان پہنچا ہے اور اسے تا اطلاعِ ثانی، ڈرائیونگ کی لیے غیر موزوں قرار دے دیا گیا ہے ۔۔۔ آپکو گرین ہِل کی طرف سے متبادل راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔” پولیس اہلکار نے ستی سے کہا اور پھر پچھلی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔
” مائی گاڈ۔۔۔ اب بیس کلومیٹر کا فاصلہ 60 کلومیٹر میں طے کرنا ہوگا ۔” ستی نے کہا۔
کچھ ہی دیر میں کار متبادل راستے کی طرف محوِ سفر تھی۔
” ستی ۔۔۔ میرا بیگ اور موبائل کہاں ہے ؟” کورا نے بدستور پچھلی سیٹ پر لیٹے پوچھا ۔
” تمہاری طبیعت خراب ہونے کے بعد شاید تمہارے کلاس میٹس کی تحویل میں تھا ۔۔۔ ” ستی نے کہا۔
” تو ؟ اب وہ سب کدھر ہیں ۔۔۔ مطلب واپسی ہوگئی ان کی ؟” کورا نے پوچھا ۔
جس پر ستی خاموش ہوگئی ۔
بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد کار اس وقت گرین ہل نامی اس پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی کہ جو متبال راستہ تھا ۔۔۔۔
یہ ایک قدرے تنگ سڑک تھی ، جس کے ایک سمت پہاڑ اور دوسری سمت اچھی خاصی گہرائی میں ایک دریا بہتا تھا ۔
” ستی ، تم بار بار میرے اس سوال کو نظر انداز کیوں کررہی ہو۔۔۔ آخر کیا ماجرا ہے ؟” کورا نے تھکے لہجے میں کہا۔
” میں ۔۔۔ گھر پہنچ کر تمہیں سب بتادوں گی ۔ بس کچھ دیر کی بات ہے۔” ستی نے کہا ۔
” پرامس ۔۔۔؟” کورا نے کہا ۔
” پرامس ۔۔۔” ستی نے جواب دیا ۔
” ویسے ، آج چوتھا دن ہے ۔۔۔ ایک دن ٹور پر جانے کا اور دو دن ٹھہرنے کے تھے اور اصولاً ہمیں آج کے دن ہی واپس لوٹنا تھا ۔۔ یعنی میرے گھر میں سب تو یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ آج ٹور سے میری واپسی ہے۔۔۔انہیں اس بات کا علم ہی کہ ہوسکا کہ میں ٹور کے لیے جا ہی نہیں سکی اور میرے دو دن ہاسپٹل میں گزرے۔” کورا نے کہا۔
لیکن تبھی اسے ایک مرتبہ پھر کار روکنی پڑ گئی۔
” اب کیا ہوا پھر سے کار روک دی۔۔۔؟” کورا نے پوچھا۔
” ایک اور ٹریفک جام۔۔۔ تم یہیں ٹھہرو، میں نکل کر دیکھتی ہوں کہ کیا معاملہ ہے۔” ستی نے کہا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
وہ پہاڑی راستہ کچھ دور تک جاکر بائیں سمت کو مڑ جاتا تھا ۔۔۔ لیکن موڑ سے پہلے تک گاڑیوں کی پوری قطار کھڑی نظر آرہی تھی ۔
ستی آگے کی جانب بڑھی تاکہ حالات کا جائزہ لے سکے ۔۔۔۔
” ایکسکیوزمی ۔۔۔ کیا پرابلم ہے یہاں ؟ ٹریفک کیوں غیر متحرک ہے ؟” ستی نے تھوڑا آگے ایک کار کے ساتھ کھڑے ادھیڑ عمر شخص سے پوچھا۔
” لینڈ سلائیڈنگ ۔۔۔ پرسوں آئے زلزلے کی وجہ سے اس پورے روڈ پے کئی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ ہوچکی ہے اور متواتر ہورہی ہے ۔۔۔ اس لیے مزید آگے بڑھنے کا راستہ تو یوں بھی نہیں۔۔۔ لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے کے پیشِ نظر پولیس نے سب کو جلد از جلد یہ روڈ چھوڑ دینے کی تلقین کی ہے ۔۔۔ ” اس نے جواب دیا ۔
” مائی گاڈ ۔۔۔ 60 کلومیٹر والا راستہ بھی گیا ۔۔۔ اب تو شاید سو کلومیٹر مزید ڈرائیو کرنا پڑے ” ستی نے تشویش بھرے لہجے میں خودکلامی کی ۔
ابھی وہ وہیں کھڑی آگے کا لائحہ عمل سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک گڑگڑاہٹ کی سی بلند آواز گونجی اور پھر لوگوں میں شور سا مچ گیا ۔۔۔ کئی لوگ اپنی گاڑیاں چھوڑ کر ایک طرف کو بھاگنے لگے ۔۔۔۔ ستی تیزی سے اپنی گاڑی کے سمت مڑی۔۔۔ لیکن وقت ایک بھیانک منظر نے اسے وہیں ساکت کردیا ۔۔۔ ٹھیک وہ مقام کہ جہاں اس نے اپنی کار روکی تھی اس کے نزدیک پہاڑ اپنی جگہ سے سرکتا دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔ پہاڑ کی بالائی سطح ، یعنی لا تعداد پتھر تیزی سے پہاڑ سے گرنا شروع ہوچکے تھے ۔۔۔
” کورا۔۔۔۔” ستی بےاختیار چِلائی اور اپنی گاڑی کی سمت بھاگی ، لیکن اسی وقت ایک روح فرسا منظر نے اس کے پیر وہیں ساکت کر دیے ۔۔۔ لینڈ سلائیڈنگ کے دوران چٹان جتنا ایک پتھر پہاڑ سے گرتے ہوئے اس کی کار سے ٹکرایا اور کار کسی کھلونے کی طرح اچھل کر سڑک کے کنارے سے ، سینکڑوں فٹ کی گہرائی میں گرتی چلی گئی ۔۔۔۔
ستی کو یوں لگا کہ جیسے ایک پل میں اس کے جسم سے روح نچوڑ لی گئی ہو ۔۔۔ اسے اپنا دل و دماغ لرزتا محسوس ہوا اور اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا ۔۔۔۔
“ایکسکیوزمی میم۔۔۔ یہ جگہ اب محفوظ نہیں۔ یہاں سے فوراً نکل جائیں۔۔۔ ” قریب سے بھاگتے لوگوں میں سے کسی نے اسے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستی ، ایک مرتبہ پھر ڈاکٹر ثاقب کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر موجود تھی۔
” میری سمجھ سے باہر ہے کہ تمہاری لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا لیول کا کتنا بلند ہے۔۔۔۔ایک جیتا جاگتا انسان میں نے ‘تیار کرکے ‘ تمہارے حوالے کیا اور دس گھنٹے کے اندر اندر تم نے اسے ‘دوسری مرتبہ’ کھو دیا ۔” ڈاکٹر نے گویا شاک زدہ لہجے میں اس سے کہا ۔
” سر ، اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔۔۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ راستہ شدید لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں ہے۔” ستی نے کہا۔
” سارے کیے کرائے پر پانی پھِر گیا۔۔۔” ڈاکٹر نے مایوس لہجے میں کہا۔
” ابھی بھی ہمارے پاس ایک آپشن موجود ہے ڈاکٹر صاحب ۔۔۔” ستی نے کہا ۔
” کیا مطلب ۔ کیسا آپشن ۔۔۔؟ ” ڈاکٹر نے چونک کر پوچھا ۔
” میں نے کورا کی کلون کو ہوش میں لانے سے پہلے احتیاطاً اس کا ایک بلڈ سیمپل لے لیا تھا ۔۔۔ سر یہ لینڈ سلائیڈنگ ایک غیر متوقع اور اچانک حادثہ تھا جس پر کوئی کچھ نہ کرسکتا تھا ۔۔۔ لیکن۔۔۔ اگر آپ چاہیں تو ، جیسے ہم نے پہلی مرتبہ کورا کی کلوننگ کی ، دوسری مرتبہ بھی کرسکتے ہیں ۔۔۔” ستی نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
” ایک منٹ ۔۔۔ کیا میں نے ‘انسان سازی’ کی ورک شاپ کھول رکھی ہے ؟؟” ڈاکٹر نے زچ لہجے میں کہا ۔
” سر ۔۔۔ پوری دنیا میں اس وقت آپ ہی واحد سائنسدان ہیں کہ جو انسانی کلوننگ پر عبور رکھتے ہیں ۔۔۔ پلیز ۔ ” ستی نے التجا آمیز لہجے میں کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستی کے کار سے نکلنے کے چند لمحے بعد کورا اٹھی ، اس نے دروازہ کھولا اور کار سے نکلی۔ وہ خود باہر نکل کر حالات کا جائزہ لینا چاہتی تھی ۔
ابھی وہ کار سے نکلی ہی تھی کہ اسے گڑگڑاہٹ کی گونج دار آواز سنائی دی اور سڑک کے ساتھ پہاڑ سے گرد و غبار اٹھتا دکھائی دیا ۔
” لینڈ سلائیڈنگ۔۔۔” اس کے ذہن میں یہ لفظ گونجا اور اس نے تیزی پیچھے کی جانب دوڑ لگا دی ۔ یعنی جس سمت سے کار جہاں تک پہنچی تھی ۔
جب پتھروں اور چٹانوں کا وہ ریلہ سڑک تک پہنچا تو وہ لینڈ سلائیڈنگ کی حد سے باہر تھی ۔۔۔ لیکن اب سڑک کا وہ حصہ پتھروں سے بھر چکا تھا ۔۔۔۔ گویا اس کے اور ستی کے درمیان سڑک اب چٹانی ملبے کی وجہ سے بند ہوچکی تھی۔
” کیا مصیبت ہے ۔۔۔ آج تو لگتا ہے قدرت ‘یومِ حادثات’ منارہی ہے ۔” کورا نے تشویش آمیز لہجے میں خود کلامی کی ۔
اسی وقت سرکاری ریسکیو ٹیم کے کچھ اہلکار اپنے ساز وسامان کے ساتھ وہاں پہنچ گئے ۔۔۔۔
” ایکسکیوزمی مس۔۔۔ ہمیں ہدایات ہیں کہ یہاں موجود سبھی لوگوں کو فوری طور پر یہاں سے نکال کر قریب ترین قصبے میں پہنچادیا جائے ۔۔۔ جس کے بعد آپ جہاں بھی جانا چاہیں جاسکتی ہیں ۔” ایک باوردی ریسکیو اہلکار نے کورا کے نزدیک پہنچتے ہوئے اسے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا کے گھپ تاریک دماغ میں دور کہیں روشنی کی ایک کرن نمودار ہوئی ، اسے ہوش آرہا تھا۔
آنکھیں کھولنے پر کچھ دیر اسے دھندلاہٹ کے سوا کچھ بھی نظر نہ آسکا اور پھر آہستہ آہستہ یہ دھندلاہٹ کم ہوتی گئی ۔ نظر بحال ہونے پر اس نے خود کو ہسپتال کے بیڈ پر پایا ۔۔۔
بیڈ کے قریب ہی ستی ایک کرسی پر بیٹھی ، موبائل پر کچھ ٹائپ کررہی تھی۔
ستی ۔۔۔” کورا نے اسے آواز دی اور اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا ۔ اور پھر موبائل رکھ کر اس کی جانب بڑھی ۔
” تمہیں ہوش آگیا ۔۔۔ خدا کا شکر ہے ۔” ستی نے پُر مسرت لہجے میں کہا۔
” میں یہاں کیسے پہنچ گئی۔۔۔ ؟
میں تو تمہارے ساتھ واپس گھر جارہی تھی۔ اور پُل پر داخلہ عارضی طور پر بند ہونے کی وجہ سے ہم متبادل راستے کی طرف مڑ گئے تھے ۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوا ؟؟” کورا نے کہا ۔
” کئی دن وقفے وقفے سے بخار رہنے کی وجہ سے تمہیں نقاہٹ ہوگئی تھی ۔۔۔ دورانِ سفر تمہاری طبیعت خراب ہوئی تو میں نے گاڑی واپس موڑ لی اور ہم پھر سے ہاسپٹل پہنچ گئے۔۔۔۔ یہاں تمہیں طاقت کے انجیکشن اور ڈرپ لگائی گئی اور سب تم بالکل ٹھیک ہو۔۔۔۔” ستی نے کہا۔
” تو میں اب گھر کب جا سکتی ہوں۔۔۔؟؟ یوں لگ رہا ہے مجھے کہ نجانے کب سے گھر سے دور ہوں میں۔” کورا نے کہا۔
” ڈونٹ وری ۔۔۔ ہم ابھی نصف گھنٹے تک نکل رہے ہیں.” ستی نے تسلی آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریسکیو ٹیم نے اپنی ایک گاڑی میں کورا سمیت وہاں موجود کئی افراد کو پندرہ میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے قصبے میں موجود ریسکیو سینٹر میں پہنچا دیا ۔ جس کے بعد سبھی کو اجازت تھی کہ اپنے اپنے گھر واپس لوٹنے کا کوئی بندوبست کریں اور چلے جائیں۔
کچھ دیر وہیں ٹھہرنے کے بعد کورا ریسکیو سینٹر سے نکلی اور سڑک پر پہنچی اور ایک خالی ٹیکسی دیکھ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا ۔
” ملبری ٹاؤن ، سٹریٹ 20 ، ہاؤس 5۔۔۔۔” کورا نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر کیب میں بیٹھتے کہا۔
” ملبری ٹاؤن ؟ ۔۔۔ لمبا راستہ اختیار کرنا پڑے گا میم ۔۔ معمول کے دونوں راستے عارضی طور پر بند ہیں۔” ڈرائیور نے کہا۔
” نو پرابلم۔۔۔” کورا نے کہا اور سیٹ سے ٹیک لگا کر اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔۔ اور کیب چل پڑی۔
ڈیڑھ گھنٹے تک کیب مختلف سڑکوں اور ذیلی راستوں سے ہوتی ہوئی ملبری ٹاؤن میں داخل ہوگئی ۔۔۔ اور مزید دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ کار منزلِ مقصود یعنی کورا کے گھر کے قریب پہنچ کے رک گئی ،
” ٹھہرو ، کرایہ میں تمہیں گھر سے لاکر دیتی ہوں ۔۔۔” کورا نے فیئر میٹر پر کرایہ دیکھ کر کہا۔ اور ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
کورا کیب سے اتری اور اپنے گھر کے گیٹ کی طرف بڑھی ، اور اس نے ڈور بیل کا بٹن دبا دیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...