“تم دبئی جارہے ہو؟” سنان نے حیرت سے اسے تکا تھا۔۔۔ بھلا دبئی میں اس کا کیا کام؟
“ہمم!” کافی کا سپ لیے اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
زرتاشہ سے سچ جان لینے کے بعد وہ سنان کی جانب ڈنر پر آیا تھا اور اب اسے اپنے دبئی جانے کے بارے میں اطلاع دی تھی۔تھی۔
“کیوں جاریے ہو؟”
“چند سوالات ہیں جن کے جواب چاہیے”
“اور وہ کون سے سوالات ہیں؟ کیا جان سکتا ہوں میں” سنان اب اس کی جانب گھوما تھا۔
“نہیں” معتصیم کے جواب پر اس نے مسکرا کر کندھے اچکائے تھے۔
“مرضی تمہاری” کافی کا گھونٹ بھرے وہ دوبارہ سے ٹی۔وی پر چلتے میچ کی جانب متوجہ ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
“کافی” لب چبائے اس نے مگ کریم کی جانب کیا تھا۔
وہ جو گارڈن میں کسی کال پر مصروف تھا ایک میٹھی آواز سن کر چونک کر پلٹا تھا۔
“کال یو بیک” کال کاٹے اسنے ابرو اچکائے زویا کو دیکھا تھا۔
“وہ۔۔۔وہ آج ہیلپ کے لیے” نظریں جھکائے اس نے جواب دیا تھا۔
چھوٹی آنکھیں کیے اسے گھورے,کریم نے کافی کا مگ اس کے ہاتھ سے اچک لیا تھا۔
“ہممم۔۔کافی میٹھی ہے” سپ لیے اس نے داد دی
“کیا؟” چونک کر سوال ہوا
“کافی” وہ دھیما سا مسکرایا
“مگر میں نے تو چینی اور کریم ڈالی ہی نہیں” وہ حیرت سے بولی تھی۔
“رئیلی؟؟؟۔۔۔۔تو پھر اتنی میٹھی کیسے؟” انداز پرسوچ تھا۔
“لگتا ہے بنانے والی بہت میٹھی ہے۔۔۔ اسی لیے تو اس کا ذائقہ اتنا اچھا ہے۔۔۔ کیوں ٹھیک کہاں نا؟” دو قدم اس کی جانب بڑھائے, قد اس کے قد کے برابر لائے کریم نے مسکراہٹ دبائے پوچھا تھا۔
“پپپ۔۔۔پتا نہیں” اس کی نزدیکی پر وہ ہڑبڑا کر دو قدم پیچھے ہوئی تھی۔
“کیا نہیں پتا؟” پھر سے سوال ہوا
“کک۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔ شب بخیر” جواب دیتی وہ تیزی سے وہاں سے بھاگی تھی۔
مسکراتی نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔۔۔ اس کے جاتے ہی وہ مسکراتی نگاہیں فوراً سپاٹ ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“حماد!” لبوں پر مچلتی مسکراہٹ کو دبائے اس نے حماد کو گھورا تھا۔
اس وقت پورا زبیری خاندان رات کے کھانے پر موجود تھا جب حماد کوئی نا کوئی چھوٹی موٹی شرارتیں کرتا اسے پریشان کیے جارہا تھا۔
مگر کسی کی بھی نظر سے یہ سب پوشیدہ نہ تھا۔۔۔۔ عالیہ اور مسز شبیر زبیری دونوں تو ویسے ہی شزا کو گھورے جارہیں تھی۔
“ایکسکیوز می!” موبائل پر آتی کال کو دیکھ شبیر زبیری اجازت لیتے وہاں سے اٹھ چکے تھے۔
“کیا مسئلہ ہے کال کیوں کی ہے؟” سٹڈی میں داخل ہوتے ہی وہ فون پر گرجے تھے بدلے میں صرف ڈیوڈ کا قہقہ بلند ہوا تھا۔
“اب کچھ بولو گے بھی؟” وہ چڑ چکے تھے۔
“بس یہ بتانے کے لیے کال کی تھی کہ ارحام شاہ کی بیٹی زندہ ہے اور میں اس کے متعلق بہت جلد وائے۔زی کو بتانے والا ہوں” ڈیوڈ کی بات سنتے ان کے ماتھے پر پسنے کی ننھی بوندیں نمودار ہونا شروع ہوگئی تھی۔
“تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ورنہ میں جان نکال دوں گا تمہاری” شبیر زبیری دھاڑے تھے۔
“اور اس سے پہلے ارحام شاہ تمہاری جان نکال دے گا” جواب دیتے ہی کال کٹ گئی تھی۔
“ڈیوڈ۔۔۔۔ ڈیوڈ” شبیر زبیری کی دھاڑ پورے کمرے میں گونجی تھی۔۔۔ موبائل غصے سے زمین پر مارے انہوں نے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑے تھے۔
“آہ!!” وہ چلا اٹھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دبئی آئے اسے دو دن ہوچکے تھے مگر ابھی تک کوئی سرا ہاتھ نہیں آیا تھا۔
زرتاشہ کے مطابق حسان نے “کسی کو” کو فہام جونیجو کے پاس دبئی بیچ دیا تھا اور اگر وہ کوئی واقعی میں ماورا تھی تو خدا گواہ معتصیم آفندی فہام جونیجو کو عبرت ناک موت دینے والا تھا۔
مگر ابھی تک اسے کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔۔۔۔۔
“کیا کروں؟” کچھ سوچتے ہوئے اس نے لیپ ٹاپ اٹھائے نیٹ سے فہام جونیجو کے بارے میں انفارمیشن نکالی تھی۔ مگر یہ کیا؟ وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ ماسوائے فہام جونیجو کے بڑھتے بزنس اور اس کی فیکٹری میں لگنے والی آگ کے علاوہ وہاں کوئی اور نیوز نہ تھی
غصے سے وہ پاگل ہویا جارہا تھا۔
اچانک موبائل پر آتی کال نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
“بولو خاور کیا خبر ہے؟” معتصیم نے کال اٹھائے فوراً سوال کیا تھا۔
“سر خبر تو ہے مگر کال پر نہیں بتاسکتا۔۔۔ کہی ملے؟” خاور کا لہجے پر وہ کچھ الجھا تھا۔
“ہمم ٹھیک!”
۔۔۔۔۔۔۔
کیفے میں بیٹھا وہ بار بار گھڑی کی جانب دیکھے جارہا تھا جب اسے سامنے سے خاور آتا دکھائی دیا تھا
“خاور”
“سوری سر گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا تھا!” اس کی وضاحت پر معتصیم نے سر ہلایا تھا۔
“کہو کیا ملا؟” معتصیم نے بےچینی سے سوال کیا۔ خاور نے فائل اس کے سامنے رکھی تھی جسے کھول کر وہ پڑھ رہا تھا۔
“یہ کیا ہے خاور” فائل پڑھ کر وہ چڑا تھا
“سر آج سے آٹھ سال پہلے فہام جونیجو کی ایک فیکٹری میں آگ لگی تھی۔۔۔۔”
“وہ سب میں جانتا ہوں خاور۔۔۔۔ مجھے لگا تھا کہ تم مجھے کوئی اہم انفارمیشن دو گے مگر تم یہ اٹھا لائے” وہ جھنجھلا کر بولا تھا۔
“سر میری بات تو پوری سن لے۔۔۔۔ یہ کیس اتنا سیدھا بھی نہیں تھا جتنا لگ رہا تھا۔۔۔ بات صرف فیکٹری میں آگ لگنے کی نہیں تھی۔۔۔ اس سے زیادہ تھی”
“کیا مطلب اس بات کا؟”
“بتاتا ہوں” خاور اسے تمام انفارمیشن دینے لگا تھا جو معتصیم نہایت دھیان سے سن رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا تمہیں یقین ہے یہی ایڈریس ہے؟” آنکھوں سے چشمہ اتارے اس نے سامنے بنے گھر کو دیکھا تھا۔
“جی سر سو فیصد” خاور کے سر ہلانے پر وہ بھی سر ہلاتا گھر کی جانب بڑھا تھا۔
“تم باہر رکو میں آیا” خاور کو وہی رکنے کا کہتا وہ آگے چل دیا تھا۔
“کون؟” بیل بجانے پر ایک عمر رسیدہ شخص باہر نکلا تھا۔
“عبدالوہاب؟” معتصیم کے پوچھنے پر انہوں نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“فہام جونیجو؟” انہوں نے پرسوچ انداز میں نام دوہرایا تھا۔
“یہ آٹھ سال پہلے کا واقع ہے۔۔۔ فہام جونیجو کی فیکٹری میں آگ لگی تھی۔۔۔۔”
“ہوں یاد آگیا۔۔۔ مگر تمہیں اس کے بارے میں کیا جاننا ہے؟”
“دیکھیے میں جانتا ہوں کہ وہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔اور یہ بھی کہ اصل ماجرہ کیا ہے۔۔۔ مگر ایک سوال ہے جس کا جواب چاہیے۔۔۔۔ اسے جانتے ہے؟” کہتے ہی اس نے ماورا کی تصویر ان کے نظروں کے سامنے کی تھی۔
“یہ۔۔۔۔یہ لڑکی؟” ان کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“کون ہو تم؟” اب کی بار ان کا لہجہ سخت ہوا تھا۔
“معتصیم آفندی”
“معتصیم؟” نام ادا کرتے ان کی آنکھیں مزید بڑی ہوئی تھی۔
“تم معتصیم ہو؟ ماورا کے معتصیم” ان کے سوال پر اس کا سر اثبات میں ہلا تھا۔
“پوچھو کیا جاننا چاہتے ہو؟”
“تعلق فہام جونیجو اور ماورا کے مابین” وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تمام لڑکیاں آگئیں؟” سنجیدہ چال چلتے اس نے ساتھ موجود اپنے پی۔اے سے سوال کیا تھا
“جی سر آگئیں مگر۔۔۔۔۔” وہ جھجھکا تھا۔
“مگر کیا؟” فہام جونیجو کے قدم ٹھٹھکے تھے۔
“مگر ان میں سے ایک لڑکی نے ہمارے ایک آدمی کو بہت برے طریقے سے زخمی کردیا ہے” اس کی بات پر فہام جونیجو کے ماتھے کے بل مزید گہرے ہوئے تھے۔
“وہ لڑکی کہاں ہے؟”
“دوسرے روم میں شفٹ کردیا ہے اسے سر” سر ہلاتا فہام جونیجو اسے اشارہ کرتا اس کمرے کی جانب بڑھا تھا۔
دروازے کھلنے کی آواز پر ماورا نے خوف سے سر اٹھائے دروازے کو تکا تھا۔
ہرنی جیسی وہ خوفزدہ آنکھیں۔۔۔۔ فہام جونیجو کو ایک انجانے احساس سے دوچار کرگئی تھی۔
“ہو از دس ایشین بیوٹی؟” اس نے اپنے پی۔اے سے سوال کیا تھا۔
“سر وہ یہ۔۔۔۔ اسے حسان نے بھیجا ہے” حسان کے زکر پر جہاں ماورا کی آنکھیں نم ہوئی تھی وہی فہام جونیجو کے لبوں پر مسکراہٹ مچل اٹھی تھی۔
“تو تم ہو وہ۔۔۔” اسکے سامنے بیٹھتا فہام جونیجو ان آنکھوں کو تکتا بولا تھا۔
ماورا نفرت سے منہ موڑ گئی تھی۔
“واللہ اتنا غصہ؟” وہ مسکرایا تھا۔۔۔ ٹھوڑی نیچے انگلی رکھے اس نے ماورا کا چہرہ اپنی جانب موڑا تھا۔
“مائی ایشین بیوٹی۔۔۔۔ تم جانتی ہو تمہیں یہاں کیوں بھیجا گیا ہے؟۔۔۔۔ مجھے خوش کرنے کے لیے۔۔۔ میری راتوں کو۔۔۔۔۔” اس سے پہلے وہ اپنا جملہ مکمل کر پاتا ماورا کی جانب سے پڑنے والا تھپڑ اس کی بولتی بند کروا گیا تھا۔
“امید ہے یہ تھپڑ تمہیں خوش کرنے کو کافی ہوگا؟” ماورا دانت پیس کر بولی تھی۔
لب بھینچے فہام جونیجو اپنے اندر ابلتے غصے کو دبایا تھا۔
“بہت اتھڑی گھوڑی نکلی تم تو۔۔۔۔ بتایا تھا مجھے کہ کیسے تم نے میرے آدمی کو زخمی کو کردیا مگر فکر مت کرو تم جیسی بہت سی کو سیدھا کیا ہے۔۔۔ تمہیں بھی کردوں گا!”
“جزلاب!” وہ دھاڑا تھا۔۔۔ اس کی دھاڑ پر جہاں ماورا سہمی تھی وہی اس کا پی۔اے بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔۔۔ فہام نے ماورا کو دیکھتے جزلاب کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا جس نے فوراً ایک انجیکشن فہام کی جانب بڑھایا تھا۔
انجیکشن کو دیکھ ماورا مچلی تھی مگر فہام جونیجو اسے قابو کرتا نشہ آور انجیکشن لگا چکا تھا۔ کچھ سیکنڈز کے اندر اندر انجیکشن اپنا کام کرچکا تھا۔
“جزلاب!”
“یس سر”
“اس لڑکی کے ہاتھ اور منہ باندھے یہی پڑے رہنے دینا اور ہاں دن میں دو بار اسے نشہ آور انجیکشن لگانا مت بھولنا۔۔۔۔اس کا کیا کرنا ہے اس کا فیصلہ باقی تمام کام نپٹا کر کروں گا۔۔۔۔ اور سنو روزانہ ڈوز ہائی کردیا کرنا, اتنی کہ وہ اس کی عادی ہوجائے اس کے بعد اوقات یاد دلاؤں گا میں اس کو اس کی” اسے کے ساتھ چلتا وہ اسے بتارہا تھا جس پر جزلاب نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتے بعد:
آنکھوں میں آنسو اور نفرت لیے اس نے سامنے موجود اس فیکٹری کو دیکھا تھا اور پھر اپنے ہاتھ میں موجود چاقو اور پیروں میں گرے وہ گارڈز جن کی گردن سے خون رس رہا تھا۔
“میں تمہیں بچالوں گا انمتا فکر مت کرنا!” خود سے عہد کیے وہ سب کیمروں سے بچتا فیکٹری میں داخل ہوا تھا۔
سورج اور انمتا دونوں کا تعلق انڈیا سے تھا اور وہ دونوں منگیتر تھے اور بہت جلد ان کی شادی ہونے والی تھی جب انمتا کو بیچ راہ میں اغواہ کرکے اسے فہام جونیجو کے پاس سمگل کی جانے والی لڑکیوں میں سمگل کردیا گیا تھا۔
سورج اپنے سورسز استعمال کرتا اس شخص تک پہنچ چکا تھا جس نے انمتا کو فہام جونیجو کو بیچا تھا اور اب وہ یہاں اسے بچانے آیا تھا۔
خود کو کیمرہ کی آنکھ سے بچاتا وہ تہہ خانے میں داخل ہوا تھا جہاں تین چار کمرے موجود تھے۔ وہاں موجود گارڈ کا گلا کاٹے, اپنے خدا کو یاد کرتا وہ سب سے پہلے کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں گھپ اندھیرا تھا۔۔۔ سر نفی میں ہلائے وہ باہر نکلنے والا تھا جب اسے کسی کی گھٹی سسکیاں سنائی دی تھی۔ سورج کے قدم یکدم رکے تھے۔ دروازہ بند کیے اس نے ٹارچ کی روشنی پورے کمرے پر ڈالی تھی جب اسے فرش پر ایک جانب ماورا نظر آئی تھی۔۔۔ وہ دوڑ کر ان کے پاس پہنچا تھا۔
“ہے۔۔ہے یو۔۔۔ کون ہو تم؟۔۔۔” اس کا چہرہ تھپتھپائے آکاش نے سوال کیا تھا۔ ماورا کے منہ پر بندھی پٹی فوراً کھولی تھی اس نے۔۔۔ کپڑا منہ سے ہٹتے ہی اس نے لمبے لمبے سانس لیے تھے۔
“ہیلپ۔۔۔ہیلپ می پلیز۔۔۔۔ وہ, وہ مار دے گا” وہ سسکی تھی۔
“مگر تم۔۔۔۔۔ ایک منٹ میں اس پر وقت کیوں ضائع کررہا ہوں۔۔۔ مجھے انمتا کو ڈھونڈنا ہے۔” اس سے پوچھتا وہ ایک دم رکا تھا اور دماغ میں سوچ ابھری تھی۔
ماورا کو وہی چھوڑے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
“نننن۔۔۔۔نہیں پلیز۔۔۔۔مدد کرو” وہ روئی تھی۔ سورج کے بڑھتے قدم رکے تھے۔۔۔ ایک نئی سوچ دماغ میں آئی تھی۔
“ٹھیک ہے میں تمہاری مدد کروں گا۔۔۔ تمہیں بچاؤں گا بھی۔۔مگر تمہیں اس سے پہلے میری ایک مدد کرنا ہوگی” سورج کی بات سنتے ماورا نے جھٹ سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“اس لڑکی کو جانتی ہو؟” موبائل سے انمتا کی تصویر نکالے اس نے ماورا کو دکھائی تھی
“غور سے دیکھو یہ انہی لڑکیوں میں کہی موجود تھی جن کے ساتھ تمہیں لایا گیا تھا” وہ بولا تھا۔۔۔ ماورا کی حالت ڈوز کی وجہ سے ٹھیک نہیں تھی مگر پھر بھی دماغ پر زور ڈالے اس نے سوچنا شروع کیا تھا۔
دماغ کے پردے پر اس لڑکی کا عکس لہرایا تھا جو بار بار روتی بس سورج کا نام پکارے جارہی تھی۔
“تم۔۔تم سورج ہو؟” ماورا کے پوچھنے پر اس نے جھٹ سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“وہ بار باد تمہارا نام پکارے جارہی تھی” ماورا کی بات سن اس کی آنکھیں نم ہوئی تھی۔
“اب وہ کہاں ہے؟” سورج نے بیتابی سے سوال تھا۔
“معلوم نہیں۔۔۔ مگر جب دیکھا تھا تب وہ آخری کمرے میں تھی” ماورا کی پہلی بات پر اس کا چہرہ بجھا تھا مگر بعد میں خود ہی چمک اٹھا تھا۔
“اٹھو” سورج نے اسے سہارا دیا تھا۔
“کہاں؟” ماورا نے چونک کر سوال کیا تھا۔
“تمہیں نکالنا ہوگا یہاں سے” اس کی بات پر ماورا نے سر ہلایا تھا۔۔۔
ماورا کو سہارا دیے وہ نہایت ہوشیاری سے اسے لیے باہر نکل آیا تھا جب اچانک چاروں اور سائرن کی آواز گونجی تھی۔
“ڈیم اٹ۔۔۔ سنو میری بات بھاگ جاؤ یہاں سے۔۔۔ بھاگو اور بچالو خود کو” اس نے ماورا کو سخت ہدایت کی تھی۔
“مم۔۔۔مگر تم؟” ماورا نے خوف سے سوال کیا تھا۔
“اپنی انمتا کو لیے بنا نہیں جاؤں گا یہاں سے۔۔۔ تم جاؤ” اسے ہلکا سا دھکا دیے وہ بولا تھا۔
“وہ رہے وہ دونوں” دور سے آتی گارڈ کی آواز پر وہ چونکے تھے۔
“شش۔۔شکریہ” نم آنکھوں سے اسے دیکھ ماورا نے بھاگنے کو قدم اٹھائے تھے۔
پیچھے سے سورج نے اپنی پاکٹ گن نکالے ان گارڈز کا نشانہ لیا تھا۔
گولیوں کی آواز سن بھی نہ وہ رکی اور نہ ہی مڑک تھی۔۔۔ آنکھیں سختی سے بھینچے وہ اندھا دھن بھاگتی رہی تھی۔
ان گارڈز کو ختم کیے وہ دوبارہ سے اندر کو بڑھا تھا۔۔۔ ماورا کے بتائے گئے کمرے کے باہر کھڑے اس نے ڈھیرو دعائیں کیے وہ روم نہایت مہارت سے کھولا تھا۔۔۔۔ اندر تقریباً بیس کے قریب لڑکیاں موجود تھی جو اس وقت سخت سہمی ہوئی تھی۔۔۔ ان پر ایک نگاہِ غلط ڈالے بنا وہ اپنی انمتا کی تلاش میں تھا جب اسے ایک کونے میں سکڑی سمٹی نظر آئی تھی۔
“انمتا” لڑکھڑاتا وہ اس کی جانب بڑھا تھا۔
جانی پہچانی آواز اور مانوس لب,انمتا نے حیرت سے سر اٹھائے اسے دیکھا تھا۔
“سورج؟” پنکھڑی مانند لب مسکرائے تھے
“میرا سورج” ایک ہی جست میں اس تک پہنچتی وہ اسے زور سے گلے لگاتی رونا شروع ہوگئی تھی۔
“ششش میری جان میں آگیا ہوں نا بچالوں گا تمہیں۔” وہ اس کے کان میں بولا تھا۔
“پہلے خود کو تو بچالو” فہام جونیجو کی سرسراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔۔۔ چونک کر وہ دونوں اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
انمتا کا خوف سے بدن کانپ اٹھا تھا جبکہ سورج نے نفرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
“گڈ بائے ڈئیر لوو برڈز” بنا کوئی موقع دیے اس نے سورج کے سینے کا نشانہ لیے گولی چلائی تھی جو اس کے آر پار ہوگئی تھی۔۔۔اس کا خون سے رنگا جسم زمین پر جا گرا تھا۔۔۔۔۔۔خوف سے وہاں موجود تمام لڑکیاں چلا اٹھی تھی۔
“سورج” انمتا چلائی تھی۔
“تمہیں بھی بھیج دیتے ہے” مسکراتے ہوئے دوسری گولی چلائی گئی تھی جو انمتا کے سر کے آر پار ہوگئی تھی۔
ان دونوں کو ختم کیے اس نے سکون سے گن نیچے کی تھی جب ہانپتا کانپتا جزلاب اس کے پاس آیا تھا۔
“سر۔۔۔۔سر وہ لڑکی۔۔۔ وہ لڑکی بھاگ گئی سر” جزلاب کے انکشاف پر اس کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔
“جزلاب تمام آدمیوں کو اکٹھا کرو۔۔۔۔مجھے وہ لڑکی چاہیے ہر صورت۔۔۔ اگر وہ پولیس کے ہاتھ لگ گئی تو بہت مشکل ہوجائے گی سمجھے؟ بلکہ ایسا کرو پولیس سٹیشن جاؤ وہ لڑکی کسی نہ کسی کی مدد سے پولیس کے پاس جائے گی۔۔۔ اس سے پہلے ہمیں پہنچنا ہے۔” اس کی بات پر جزلاب نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیگا چہرہ اور لڑکھڑاتے قدم۔۔۔۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جارہی ہے۔ نجانے اسے بھاگتے کتنی دیر ہوگئی تھی۔
“یااللہ کیا کروں؟” اس کے دل سے ہوک اٹھی تھی۔
اچانک اس کے قدم رکے تھے۔۔۔ آس پاس سے آتی سائرن کی آواز پر وہ اس آواز کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ اس آواز تک پہنچ چکی تھی۔۔۔ سامنے موجود پولیس سٹیشن کو دیکھ اس کی آنکھیں چمکی تھی۔ دماغ میں ایک خیال آیا تھا مگر اس سے پہلے وہ آگے بڑھتی فہا جونیجو کو وہاں دیکھ خوف سے اس کے رونگتے کھڑے ہوگئے تھے۔
ادھر ادھر دیکھتی وہ چھپتی چھپاتی اسٹیشن کی پچھلی جانب جا چھپی تھی۔۔۔ دیوار کی اوٹ سے سر نکالے وہ فہام جونیجو اور اس کے ساتھ محو گفگتو پولیس آفیسر کو دیکھ رہی تھی جب کسی کے پیچھے سے ہاتھ رکھنے پر اس کی چیخ نکلتے نکلتے رکی تھی۔
ڈر کے مارے چہرہ موڑے اس نے اپنے سامنے موجود اس پولیس آفیسر کا دیکھا تھا جو کافی عمر رسیدہ تھا۔
“لڑکی کون ہو تم؟”
“مم۔۔۔مجھے بچا لے پلیز۔۔۔ وہ, وہ مجھے مار دے گا” وہ گڑگڑائی تھی۔
“کون؟” آفیسر نے چونک کر سوال کیا تھا۔
“وہ” فہام جونیجو کی جانب اشارہ کیے وہ خوف زدہ ہوئی تھی
“فہام جونیجو” عبدالوہاب کے ماتھے پر کئی بل پڑے تھے۔
“لڑکی تم جانتی ہو نا تم کیا کہہ رہی ہو؟” انکا لہجہ زرا سخت ہوا تھا
“جھوٹ نہیں بول رہی۔۔۔وہ اچھا,اچھا انسان نہیں ہے۔۔۔ غغ۔۔۔غلط ہے” ایک تو نشہ اور اوپر سے اتنی دیر کی دوڑ اس کی آنکھیں بند ہونے لگی تھی اور ساتھ ہی وہ چکرا کر عبدالوہاب کے سامنے زمین پر گرگئی تھی۔
“یاخدایا” عبدالوہاب نے اس کا گال تھپتھپایا تھا۔ مگر بےسود۔
اسے باہوں میں اٹھائے انہوں نے اسے اپنی گاڑی کی بیک سیٹ پر لٹا دیا تھا اور اب اسٹیشن کی جانب رخ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جی تو جونیجو صاحب کیا شکایت در پیش آئی ہے آپ کو؟” عبدالوہاب کے سوال کے بدلے اس نے ماورا کی تصویر سامنے رکھ دی تھی۔
“یہ لڑکی میری فیکٹری میں ایک عام سی ورکر ہے اور تقریباً دو کڑوڑ کا فراڈ کیا ہے اس نے۔۔۔۔ اس کے خلاف رپورٹ درج کروانی ہے” انداز خاصہ لیا دیا ہے۔۔۔۔
عبدالوہاب کے ذہن میں فوراً ڈری سہمی سی ماورا آئی تھی اور ساتھ ہی انہوں نے فہام جونیجو کو دیکھا تھا جو دو کڑوڑ کے فراڈ کے باوجود بھی خاصہ پرسکون تھا۔ مگر نظروں میں موجود ایک عجیب قسم کی بےچینی نظر آئی تھی انہیں۔
“ہمم ٹھیک ہے چلے” اپنی جگہ سے اٹھتے وہ بولے تھے۔
“کہاں؟” فہام جونیجو چونکا تھا۔
“آپ کی فیکٹری۔۔۔ آپ کے نقصان کا جائزہ لینے” عبدالوہاب کی بات پر وہ پل بھر کو گڑبڑایا تھا۔ اور بعد میں سر ہلایا تھا۔
ایک میسج بھیجے وہ عبدالوہاب کے پیچھے نکلا تھا۔۔ پچیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ لاگ فیکٹری ایریا میں پہنچ چکے تھے مگر سامنے کا منظر ہوش اڑا دینے والا تھا پوری فیکٹری آگ کے دہکتے شعلوں میں جل رہی تھی۔
“یہ۔۔۔۔یہ کیسے ہوا میری فیکٹری۔۔۔ میرے ورکرز” فہام جونیجو کی افسردہ آواز ان کے کانوں سے ٹکڑائی تھی۔
عبدالوہاب نے غور سے اسے دیکھا تھا جس کے صرف الفاظ افسردہ تھے, تاثرات نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں اس لڑکی ماورا پر کیس کرنا چاہتا ہوں” فہام جونیجو ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتے بولا تھا۔
“ریلیکس مسٹر فہام۔۔۔ آپ کا کیس ہم ضرور ہینڈل کرے گے” عبدالوہاب نے اسے تسلی دی تھی۔
“پہلے اس نے چوری کی اور اب یہ آگ۔۔۔ اسی کا کام ہوگا۔۔۔مجھ سے بدلا لینے کے لیے۔” وہ بڑبڑایا۔
“کیسا بدلا؟”
“وہ ایک گھٹیا کردار کی لڑکی ہے۔۔۔۔ میں نے اسے غرہب سمجھ کر ترس کھا کر نوکری دی مگر وہ۔۔۔۔۔ اس نے مجھ پر۔۔۔ وہ میرے ساتھ تعلق بنانا چاہتی تھی مگر جب میں نے اسے منع کیا تو اس نے ناصرف یہ چوری کی بلکہ میری برسوں کی محنت کو بھی جلا کر راکھ کردیا۔” اس کی بات پر عبدالوہاب نے صرف ہنکارہ بھرا تھا۔
“ٹھیک ہے سر آپ کی کمپلین لکھ دی گئی ہے۔۔۔ ہماری ٹیم ان شاءاللہ آج سے ہی اس پر کام شروع کردے گی” عبدالوہاب کے تسلی بخش جواب پر وہ کچھ پرسکون ہوا تھا۔
“اپنی تلاش جاری رکھو جزلاب,پولیس سے پہلے وہ ہمیں ملنی چاہیے۔۔۔ اس کا منہ کھلنے سے پہلے ہی بند کرنا ضروری ہوگا” گاڑی میں بیٹھے اس نے جزلاب کو ہدایت کی تھی۔ دور کھڑے عبدالوہاب نے گہری سانس بھری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہممم۔۔۔۔تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے کہ جو تم کہہ رہی ہو وہ سچ ہے؟” اپنے سامنے سر جھکائے بیٹھی ماورا سے انہوں نے سوال کیا تھا۔
“نہیں” نم آنکھوں سے اس نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
“جب تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے ہی نہیں تو میں کیسے یقین کرلوں کہ تم جو کہہ رہی ہو وہ سچ ہے؟” عبدالوہاب نے ماتھے پر بل سجائے سوال کیا تھا۔
“مجھے نہیں معلوم” دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے وہ رونا شروع ہوگئی تھی۔
“تم فکر مت کرو۔۔اگر تم سچی نکلی تو میں تمہیں ضرور اس سے بچاؤ گا ۔۔۔لیکن, اگر یہ جھوٹ ہوا تو تمہاری موت میرے ہاتھوں ہوگی” ان کی سنجیدہ آواز پر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا خبر لائے ہو صمد؟” عبدالوہاب نے اپنے جونئیر اہلکار سے سوال کیا تھا۔
“سر۔۔۔ فہام جونیجو کا پی۔اے جزلاب اور تین چار اور آدمی اس لڑکی کے بارے میں اپنے تئی پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔۔۔۔ وہ بہت تیزی میں ہیں۔۔۔ یوں جیسے وہ ہم سے پہلے اسے ڈھونڈ لینا چاہتے ہو” صمد کی بات پر انہوں نے ہنکارہ بھرا تھا۔
“ٹھیک تم جاؤ” اسے جانے کا اشارہ کیے وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو ابھی گھر داخل ہوئے تھے کسی کے چیخنے چلانے پر انہوں نے فوراً اپنی گن نکالی تھی۔۔۔ آہستہ سے قدم آگے بڑھاتے وہ ماورا کے کمرے کی جانب بڑھے تھے جو ایک ہفتے سے ان کے گھر رہ رہی تھی۔
اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ حیران ہوئے تھے جو خود کو نوچ رہی تھی۔
وہ دوڑ کر اس کی جانب بڑھے اور اسے سنبھالنا چاہا تھا مگر بےسود۔۔۔ نظریں اچانک اس کے بازوؤں سے جاٹکڑائی جہاں انجیکشن کے نشان تھے۔
“تم۔۔۔ تم ڈرگز لیتی ہو؟” وہ بڑبڑائے جب اچانک دماغ میں ماورا کے الفاظ گونجے تھے۔
“وہ دن میں دو بار مجھے بےہوشی کے انجیکشن لگاتے تھے” نہیں وہ ڈرگز تھی جس سے ماورا انجان تھی اور اب وہ اس کی ایڈیکٹ ہورہی تھی۔
کچھ ہی پل میں مزاحمت کرتی وہ بےہوش ہوچکی تھی۔
بیڈ پر لیٹے اس کے وجود کو دیکھے عبدالوہاب کا دماغ تیزی سے کام کررہا تھا۔ انہیں کسی بھی صورت اب ماورا کو واپس بھیجنا تھا۔۔۔ اس کا اب یہاں رہنا ان کے لیے خطرہ تھا۔۔ مگر سیدھے طریقے سے وہ اسے پاکستان نہیں بھیجوا سکتا تھے۔۔۔ اب ایک ہی راستہ تھا۔۔۔ انہیں اسے غیر قانونی طریقے سے بھیجوانا تھا۔۔ یہ خطرناک تھا مگر کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اس کے بعد میں نے اسے بائے ائیر غیر قانونی طریقے سے پاکستان بھیجوا دیا مگر ایک غلطی, ایک بہت بڑی غلطی ہوگئی مجھ سے۔۔۔۔۔ جو سامان پاکستان کورئیر ہونا تھا میں نے انہیں میں سے ایک ڈبے میں اسے چھپا دیا تھا مگر وہ کورئیر پاکستان کی جگہ لندن چلا گیا تھا جس کا علم مجھے بہت دیر سے ہوا۔۔۔۔ وہ ایک ہفتہ میرے پاس رہی اور اس ایک ہفتے میں تمہارا ہی ذکر رہتا۔۔۔ کیسے وہ تم سے ملے گی,تم سے معافی مانگے, تمہیں انصاف دلوائے گی۔۔۔۔ ہر وقت معتصیم کا ذکر رہتا اور اب آٹھ سال بعد تمہارا اس کے بابت پوچھنا مجھے تکلیف میں مبتلا کررہا ہے وہ ٹھیک تو ہے نا؟” ان کی بات پر اس کا دل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائے۔۔۔۔ یہ کیا کیا اس نے۔۔۔
“جی وہ ٹھیک ہے۔۔۔۔ خدا حافظ” زبردستی مسکراتا وہ اجازت لیے وہاں سے نکل چکا تھا۔
عبدالوہاب نے غور سے اس کی پشت کو تکا تھا۔۔۔ وہ ریٹائیرڈ ہوگئے تھے مگر جانتے تھے کہ کوئی مسئلہ ضرور تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“وائے۔زی معتصیم بول رہا ہوں”
“معلوم ہے ۔۔۔ کہو کیسے کال کی؟” وہ جو ڈیوڈ کا قصہ ختم کرنے کو نکلا تھا معتصیم کی کال پر رک سا گیا تھا۔
“ایک کام ہے تم سے” معتصیم کا انداز بےلچک تھا۔
“کیا؟”
“ماورا!…………معلوم کرو وہ کہاں ہے؟۔۔۔۔ لندن میں یا فہام جونیجو کے ساتھ۔۔۔ جہاں بھی ہے ایک دن کے اندر اندر پتا لگاؤ۔۔۔۔میں کل ہی لندن آرہا ہوں” اسے حکم سناتا وہ کوئی وضاحت دیے بنا کال کاٹ چکا تھا۔
“یہ تو ہونا ہی تھا” کال کے ختم ہوتے ہی وہ بڑبڑایا تھا۔۔۔۔ ڈیوڈ کو پھر کبھی دیکھ لیتا مگر اس وقت معتصیم زیادہ اہم تھا۔
اب اسے ماورا کو تلاش کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن ائیرپورٹ پر اترتے ہی وہ چیک ان کرتا تیزی سے ایگزیٹ کی جانب بڑھا تھا جہاں وائے۔زی پہلے سے ہی اس کے انتظار میں تھا۔
“پتا چلا؟” اس نے بیتابی سے سوال کیا تھا جس پر وائے۔زی نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“چلو”
“ابھی؟ پہلے تھوڑا آرام۔۔۔۔”
“آرام کا وقت نہیں ہے وائے۔زی” وہ دانت پیس کر بولتا گاڑی میں جابیٹھا تھا۔۔۔ اس کے پیچھے ہی کندھے اچکائے وہ بھی ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا تھا۔
بیس منٹ کی مسافت کے بعد وہ منزل تک آپہنچے تھے۔
“یہ ہم مینٹل ہوسپیٹل کیوں آئے ہیں؟” سامنے لگے بورڈ کو دیکھ اس نے ماتھے پر تیوریاں سجائے سوال کیا تھا۔
“کیا تمہیں نہیں معلوم؟” وائے۔زی کا لہجہ کاٹ دار تھا۔
“نہیں۔۔۔۔” جو سوچ دماغ میں آئی تھی اس پر سر نفی میں ہلا تھا۔
“یہ لو” بیک سیٹ سے اٹھائی ہڈ اس کی جانب بڑھائی تھی۔
“اس میں ٹیپ, ایک چابی, ایک ٹارچ اور انجیکشن بھی ہے۔۔۔۔ تمہیں ان سب کی ضرورت ہوگی۔۔۔ اور کمیرہ کی فکر نہ کرنا وہ سارا سسٹم ہیک ہوچکا ہے۔۔۔تمہارے پاس بس پندرہ منٹ ہیں” وائے۔زی کی بار سنتا وہ تیزی سے ہڈ پہنے کار سے باہر نکلتا پچھلی طرف کی جانب بڑھا تھا۔ ماورا کے بارے میں سوچ سوچ کر اس کا سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔
چہرے کو ہڈ سے ڈھکے,سرد آنکھیں لیے وہ دبے پاؤں ہسپتال کی پچھلی جانب سے اندر داخل ہوا تھا۔
اس وقت ہسپتال میں ہو کا عالم تھا۔۔۔۔ چارسو خاموشی چھائی تھی۔۔۔۔ اس کے لب مسکرائے تھے۔۔۔۔ خاموش پر مگر لمبے ڈگ بھرتا وہ اس کمرے کے باہر آپہنچا تھا۔۔۔۔ گہری سانس خارج کیے وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔ اندر سے لاک کیے,لائٹ اون کیے وہ اس وجود کی جانب بڑھا تھا۔
یکلخت سرد آنکھیں نرم ہوئی تھی اور جلد ہی ان میں نمی جھلک گئی تھی۔
گہری سانس خارج کیے خود کو پرسکون کرتا وہ اس کی جانب بڑھا تھا۔
جیکٹ کی پاکٹ سے ٹیپ نکالے وہ بہت آرام سے اس کے منہ پر لگاچکا تھا۔
“سوری” اس کا گال تھپتھپائے معافی مانگی تھی۔
گال سے ہوتی انگلیاں اب اس کی پلکوں کو چھورہی تھی۔
نگاہیں چہرے سے ہوتی اس کے ہاتوں سے جاٹکڑائی تھی۔
ہتھکڑیوں میں جکڑی دونوں ہاتھوں کی کلائیاں۔۔۔۔۔ جو سخت گرفت کے باعث نیلی ہوچکی تھی۔۔۔۔ معتصیم کی آنکھیں پھل بھر میں لال ہوئی تھی۔
جیکٹ کی پاکٹ سے چابی نکالے اس نے پہلے دائیں ہاتھ کی کلائی کو آزاد کو کروایا تھا اور اب وہ بائیں ہاتھ کلائی آزاد کررہا تھا۔
کسی کی موجودگی کو محسوس کرتے اس نے بھاری ہوتے سر سمیت آنکھیں کھولی تھی۔
اپنے اوپر جھکے ہیولے کو دیکھ ماورا کی آنکھیں پل بھر میں پھیلی تھی۔
ہاتھوں کو جھٹکتے اس نے چلانے کی کوشش کی تھی مگر منہ پر لگی ٹیپ کی وجہ سے یہ ناممکن ہوگیا تھا۔
بائیں ہاتھ کی کلائی بھی آزاد کیے وہ اب اس کی جانب متوجہ ہوتا دھیما سا مسکرایا تھا۔
معتصیم کو سامنے پاکر اس کی آنکھیں خوف سے مزید پھیلی تھی۔ چیخنے چلانے کی کوشش کرتے اس نے آزاد ہاتھ سے منہ سے ٹیپ اتارنا چاہی تھی جب اس کا ہاتھ تھامے اسے جھٹکا دیے وہ دونوں ہاتھوں کو پیچھے کرتا ہتھکڑی لگا چکا تھا۔
ماورا کا سر تیزی سے نفی میں ہلا تھا
“ششششش۔۔۔۔۔۔ ریلیکس۔۔۔ بس ہوگیا۔۔۔” اس کے کان میں بولتا وہ اسے اپنے ساتھ لگائے جیکٹ سے انجیکشن نکالے بڑی مہارت سے اس کے بازو میں پیوست کرچکا تھا۔
چند سیکینڈ میں ماورا کی مزحمت مدھم ہوگئی تھی اور آنکھیں موندے اس کا سر معتصیم کے سینے سے جاٹکڑایا تھا۔
اسے باہوں میں اٹھائے وہ اتنی ہی خاموشی سے لاکر گاڑی کی بیک سیٹ پر لٹا چکا تھا۔
“چلو۔۔۔” اس نے ماورا کو دیکھ وائے۔زی کو حکم جاری کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...