پانی کا بحران صرف فصلوں کی پیداوار اور صاف پانی کا ہی بحران نہیں۔ یہ انفارمیشن کی عدم دستیابی کا بھی ہے۔ کیونکہ پانی کی موثر مینجمنٹ کے لئے انفارمیشن کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ پانی مسلسل حرکت میں ہے لیکن ناقابلِ یقین لگنے والی بات یہ ہے کہ ہمیں اس کا کوئی خاص علم نہیں کہ کب، کہاں اور کتنا پانی کس جگہ پر ہے۔ زمین کی ہائیڈرولوجی کے علم کے بارے میں دستیاب ڈیٹا غیرمعمولی طور پر کم ہے۔ کچھ بڑے دریاوٗں میں اس کے بہاوٗ کی پیمائش ہوتی ہے لیکن چھوٹے دریا یا ندی نالوں میں بالکل بھی نہیں۔ امریکہ اور یورپ سے باہر بڑے آبی اجسام کی ہائیڈرولوجیکل مانیٹرنگ سرے سے ہی نہیں۔ چھوٹی جھیلوں، تالابوں، گیلی زمینوں اور دلدلی علاقوں کے بارے میں انفارمیشن صفر ہے۔ اور جن ڈیموں میں پانی کی سطح مانیٹر ہوتی ہے، ان میں بھی یہ ڈیٹا کم ہی پبلک کیا جاتا ہے۔
اور اس انفارمیشن گیپ کا مطلب یہ ہے کہ کروڑوں لوگوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اگلے ہفتے پانی کی کمی ہو گی یا سیلاب آئے گا۔ ایمرجنسی ورکر کو یہ علم نہیں ہوتا کہ سیلاب بلندترین سطح پر پہنچ گیا ہے یا نہیں۔ اور بہت سے دریاوٗں میں پانی کی سطح کا تعلق بارش سے زیادہ اس سے ہے کہ اوپر بنائے گئے ڈیم آپریٹر کتنا پانی خارج کریں گے۔ دریا کی قدرتی حالت کے برعکس کئی دریا آگے بڑھتے وقت چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔ کہیں پر کوئی نہر، کہیں کوئی آبی ذخیرہ، اس پانی کی چسکیاں لے رہے ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے اسوان ڈیم بنا ہے، دریائے نیل کے تقریباً تمام پانی کا رخ یا تو زراعت کے لئے موڑ لیا جاتا ہے یا آبی ذخیرے میں تبخیر کا شکار ہوتا ہے۔ افریقہ کے وولٹا دریائی نظام پر بنے ذخائر دریا کی کل کیپیسٹی کا چار گنا ہیں۔ دجلہ اور فرات، تھائی لینڈ کا مائی خلونگ، ارجنٹینا کا رائیو نیگرو، امریکہ کا کولاریڈو بھی اسی طرح کنٹرولڈ دریا ہیں۔ لیکن ہائیڈرولوجیکل ڈیٹا بہت کم دستیاب ہے۔ کئی ممالک میں یہ خفیہ رکھا جاتا ہے تا کہ دریا میں آگے آنے والے ہمسائے کو پتا نہ لگ سکے کہ پانی شئیر کرنے والے معاہدے کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی۔
لیکن اس کا ایک حل ہے جو آسمان سے کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارنو راڈ ریگز نے ریڈار ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے جو کارین کہلاتی ہے۔ اس کو SWOT نامی سیٹلائیٹ میں نومبر 2022 میں خلا میں بھیجا جائے گا۔
یہ سیٹلائیٹ دو ریڈاروں کی مدد سے زمین کو گھورے گا۔ لاکھوں دریاوٗں، جھیلوں، ساحلوں اور گیلے مقامات کو زمین کے گھومتے چہرے پر سکین کرے گا۔ دن رات یہ سیٹلائیٹ ڈیٹا حاصل کر کے زمین کی پلمبنگ کی نبض پر ہاتھ رکھے رہے گا۔ پہلی بار اتنا پیچیدہ ڈیٹا اتنی تفصیل سے ملے گا اور پھر یہ ڈیٹا آن لائن مفت استعمال کے لئے پوسٹ کر دیا جائے گا۔
اربوں لوگ پانی کی دستیابی اور قسمت کی پرواہ کرتے ہیں۔ اس پر زندگی کا انحصار ہے۔ سیاسی گنجلکوں سے گزر کر ایسے پراجیکٹ کا لانچ ہونا آسان نہیں ہے۔ امید ہے کہ آئندہ آنے والی دہائیوں میں انفارمیشن کا بحران ختم ہو جائے گا۔ پانی کے راز اور سوالیہ نشان باقی نہیں رہیں گے۔ اور یہ انفارمیشن سب سے ضروری قدرتی ریسوس کی تحقیق اور مینجمنٹ کو بالکل بدل دے گی۔