ہم نے تاری ماموں کو باگڑ جی کے جنگل میں جڑی بوٹیاں تلاش کرتے پایا۔ ان کے بائیں کندھے سے ایک بڑا سا تھیلا جھول رہا تھا۔ انواع واقسام کے پھول، پھلیاں، بوٹیاں اور پتیاں اس تھیلے سے جھانک رہی تھیں۔
سندھ ساگرکے سیلابی ریلوں نے جنگل کی ترائی میں ایک وسیع و عریض جھیل تشکیل دی تھی۔ موسم سرما کا آغاز ہوتا تو سائبیریا سے ہزاروں لاکھوں پرندے سندھ دھرتی کی جانب ہجرت کرتے۔ منچھر، کلری، ہالیجی، حمل اور ڈرگ جیسی بڑی جھیلوں سمیت ان گنت چھوٹی جھیلیں، تالاب اور ٹوبے ان کا مسکن بنتے۔ باگڑ جی کی جھیل میں بھی بے انت پرندے آ بسیرا کرتے۔ مرغابیاں، کونجیں، قازیں، سارس، سرخاب، راج ہنس، بگلے، نیل کنٹھ، جل ککڑیاں، جل کوے، ماہی خور، کاکروٹ، شارکیں، تلیر۔۔۔۔ شکاری حضرات جی بھر کر ان کا شکار کرتے۔
سرور بھائی اور میں بھی اس روز شکار کھیلنے نکلے تھے اور اب واپس آ رہے تھے۔
دن بھر کا تھکا ماندہ سورج اپنی بوجھل آنکھ سے جھیل اور جنگل پر الوداعی نگاہ ڈال رہا تھا۔ سیاہی مائل سبزدرختوں کی چوٹیوں پرشفق کی سرخی یوں چمک رہی تھیں جیسے سہاگنوں نے مانگ میں سیندھور بھرا ہو۔۔ جھیل کے پانی میں گھل کر یہی لالی ایسا سماں باندھ رہی تھی جیسے قدرت نے اپنی کھٹالی سے ڈھیر سارا پگھلا ہوا سونا اس ذخیرۂ آب میں انڈیل دیا ہو۔
اس روزسرور بھائی نے پہلی بار اپنی شکاری جیپ باہر نکالی تھی، اس لئے بڑی لہر میں تھے۔ انہوں نے جنگ عظیم دوم کی یادگار یہ پرانی جیپ جب نیلامی میں خریدی تو نہایت خستہ حالت میں تھی۔ میانی روڈ کے ایک ماہر مستری نے نیا انجن ڈال کر اور ضروری مرمت اور رنگ روغن کر کے اسے قابل رشک شکاری جیپ میں بدل ڈالا۔ گہرے نیلے رنگ، خوش نما پیلی بتیوں، ریڈیل ٹائروں اور عمدہ پوشش سے مزین اس کھلی جیپ کی پچھلی نشستوں کے نیچے دو عدد لمبوترے چوبی بکس فٹ تھے۔ ایک میں ویبلے اینڈ اسکاٹ کی دو نالی بندوقیں، کارتوسوں کے ڈبے اور شکاری چاقو رکھنے کی جگہ تھی۔ دوسرے میں لوہے کی سیخیں، ماچسیں، کیتلی، تھرمس، مگ، پلیٹیں، مرچ مصالحے، چینی پتی اور خشک دودھ۔ الغرض اسے شکار کے تمام تر لوازمات سے مزین ایک مکمل جیپ کہا جا سکتا تھا۔
سرور بھائی نے تاری ماموں کے عین عقب میں بریک لگائی تو وہ بری طرح چونکے۔ مگر ہمیں دیکھا تو کھل اٹھے:
’’ارے بھانجو، یہ تم ہو؟ واہ! بڑی شاندر جیپ ہے۔ نئی خریدی ہے؟‘‘
’’نئی ہی سمجھیں ماموں۔ ذرا معائنہ کریں، کیسی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر سرور بھائی انہیں جیپ کی ایک ایک چیز دکھانے لگے۔
’’زبردست ہے! مبارک ہو بھئی۔ میں اسے’’پرنسس آف ولڈرنیس‘‘ کا خطاب عطا کرتا ہوں۔ مگر پہلے میں اس کی مٹھائی کھاؤں گا۔۔‘‘
’’شکاری جیپ کی مٹھائی نہیں کھلائی جاتی ماموں۔ آپ ہمارے ساتھ بیٹھیں اور اس پر کئے ہوئے شکار کی دعوت اڑائیں۔۔‘‘
سرور بھائی چہکے۔
ان کی کھٹارا موٹرسائیکل جیپ میں لاد کر اور انہیں ساتھ بٹھا کر جب ہم باگڑ جی کی حدود سے باہر نکلے تو سورج ڈوب چکا تھا۔
جنگل کے اختتام پر جہاں چھوٹی سڑک مرکزی شاہراہ سے بغل گیر ہوتی، ایک کھلا میدان تھا۔ وہاں جنگل سے کاٹی گئی سوختہ اور عمارتی لکڑی کے ڈھیر لگے رہتے۔ میدان کے ایک طرف لکڑیوں کی حفاظت پر مامور چوکیداروں کی گھانس پھونس سے بنی جھونپڑیاں تھیں اور دوسری جانب ایک ڈھابہ جہاں ٹرک ڈرائیور اور بیوپاری کھانا کھاتے اور چائے پیتے۔ ڈھابے کا مالک کھانڈو اور اس کا بارہ تیرہ سالہ لڑکا ساجن ہمارے واقف کار تھے۔ شکار پر جاتے ہوئے ہم ان سے چائے کا تھرمس بھرواتے اور واپسی پر اکثر شکار کئے ہوئے پرندوں کا گوشت پکواتے۔ کھانڈو بڑا ماہر باورچی تھا۔ شکار کا گوشت بھوننے اور پکانے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
کھانڈو اور ساجن نے ہمیں دیکھا تو سب کام چھوڑ کر ہماری طرف لپکے۔ ہم نے شکار شدہ مرغابیاں، تلیر اور جل ککڑیاں ان کے حوالے کیں اور خود ڈھابے کے باہر بچھی چار پائیوں پر بیٹھ گئے۔
میں نے تاری ماموں کا تعارف تو کروایا ہی نہیں۔ وہ ہماری امی کی سگی خالہ کے بیٹے تھے۔ کبھی مرچنٹ نیوی میں سیلر تھے۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو حکمت سیکھی اور پھر اسی کے ہو کر رہ گئے۔ پہلے پہل روہڑی ریلوے اسٹیشن کے باہر مجمع لگا کر دیسی دوائیاں بیچتے تھے۔ ان کے سامنے زمین پربیس پچیس کھلی تھیلیاں کینوس کے بچھونے پر ترتیب سے دھری ہوتیں۔ کسی میں املتاس کی پھلیاں ہوتیں، کسی میں سمندری گھاس، بعض میں تونبے بھرے ہوتے اور کئی میں چہار مغز، ہلیلہ، ہرمل، مصطگی، تباشیر، دارچینی، پھٹکڑی، سچے موتی اور سیپ۔ قریب ہی کانسی کے ایک بڑے لگن میں مکڑی کے سائز سے لے کر کیکڑے کے حجم برابر زندہ پہاڑی بچھو ہوتے۔ دوسرا لگن تیل میں تر بتر سانڈوں سے بھرا ہوتا۔ کانچ کی چند بڑی شیشیاں اور مرتبان بھی ایک قطار میں سجے ہوتے۔ ان میں سپرٹ کے اندر محفوظ کئے ہوئے رنگ برنگے مردہ سانپ ہوتے۔ ماموں کا پالتواژدہا زمین پر آہستہ آہستہ رینگ رہا ہوتا۔ وہ پہلے اپنی پاٹ دار آواز میں سانپوں کے بادشاہ گگاپیر کی داستاں سناتے۔ جب تماشائیوں کا مجمع لگ جاتا تو نہایت چالاکی سے بات کا رخ پوشیدہ اور پیچیدہ بیماریوں کی طرف موڑ دیتے اور وہ دوائیں فروخت کرنے لگتے جو ان کے استاد ستر سالہ سنیاسی باوا اجمیری نے تیار کی ہوتیں۔
سنیاسی باوا اجمیری کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی۔ ان کی وفات کے بعد تاری ماموں نے میانی روڈ پر واقع ان کا مطب سنبھال لیا۔ وہ زنانہ و مردانہ پوشیدہ امراض کے ماہر حکیم مانے جاتے۔ روہڑی اور سکھر کے عیاش وڈیروں اور رئیسوں میں وہ اپنے تیر بہ ہدف شاہی نسخوں کی بدولت خاصے مقبول تھے۔ تاہم اہل محلہ اور خاندان کے لوگ انہیں اچھی نظر سے نہ دیکھتے۔ وجہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی عاشق مزاجی تھی۔ پتہ نہیں ان کے پاس کیا گیدڑ سنگھی تھی کہ عورتیں ان پر ریجھ جاتیں۔ وہ جھٹ انہیں پیام عقد دے ڈالتے۔ چار سے کم بیویاں رکھنا خلاف مردانگی سمجھتے۔ ہاؤس فل کا بورڈ لگا ہونے کے با وصف کوئی نہ کوئی ویکنسی یوں نکلتی رہتی کہ چاروں کو واجبی نان و نفقہ دے کر ایک ہی چھت تلے رہنے پر مجبور کرتے۔ جب یہ سعی باہم سر پھٹول اور فساد کا باعث بنتی تو زیادہ فسادی عورت کو شرعی حق مہر ادا کر کے چلتا کرتے۔ بعض تنگ آ کر خود خلع لے لیتیں۔ بیمار بیوی کو ایلوپیتھک ڈاکٹروں کے پاس بغرض علاج لے جانا کسر شان اور باعث عار سمجھتے تھے۔ مہلک امراض کا خود علاج کرنے کی کوشش میں دو بیویاں اگلے جہان روانہ کر چکے تھے۔
خود کو گھریلو کشیدگی سے بچانے کا نسخہ انہوں نے یہ ڈھونڈا کہ مطب کے عقبی حصے میں پارٹیشن کروا کر ایک کمرہ بنا لیا۔ اس میں ایک نواری پلنگ پر آرام کیا کرتے۔ سرہانے کی طرف دیوار گیر الماری طبی، نفسیاتی، جنسی، ادبی، تاریخی اور دینی کتب و رسائل سے اٹی پڑی تھی۔ پائنتی کی جانب ایک پرانا چھ سیٹر صوفہ بچھا تھا۔ فارغ وقت میں اس پر بیٹھ کر دوستوں یاروں کے ساتھ بیت بازی، لطیفہ گوئی اور گپ شپ میں مشغول رہتے یا تاش اور شطرنج کی بازی لگاتے۔ ہارنے والی پارٹی پر لازم ہوتا کہ سب کے لئے مرغ کڑاہی، تکے کباب اور نان رائتے پر مشتمل کھانا منگوائے۔ گاہے وہسکی کا دور بھی چلتا۔ پچاس سالہ آزاد منش، بذلہ سنج تاری ماموں اچھی خوراک، شاہی نسخہ جات اور احتیاط سے لگائے ہوئے عمدہ خضاب کے بل بوتے پر اصل عمر سے دس برس چھوٹے لگتے۔ سماجی دباؤ اور طبعی بزدلی کے سبب فقط ایک شادی پر اکتفا کرنے والے شرفاء کو ایسا آدمی بھلا کیسے پسند آ سکتا تھا؟
ہم نے جب سے شعور کی منزل پر قدم رکھا تھا، ابا جان کو ان سے برگشتہ ہی پایا۔۔ وہ ان کو اس قدر ناپسند کرتے کہ ان سے ملنا تو درکنار ان کی کسی خوشی غمی میں بھی شریک نہ ہوتے۔ اپنے کسی فنکشن میں انہیں کبھی مدعو نہ کرتے۔ وہ ڈھیٹ ہو کر کبھی خود ملنے گھر چلے آتے تو غیروں کی طرح انہیں بیرونی بیٹھک میں بٹھاتے۔ امی اور پھپھو کو ان سے باقاعدہ پردہ کرنے کا حکم تھا۔ تاہم میں اور سرور بھائی ابا جان سے چوری ان سے مل لیا کرتے۔
گرمیوں کے دنوں میں کالج سے لوٹتے ہوئے میں اور سرور بھائی اکثر ان کے مطب پر تھوڑی دیر سستانے کی غرض سے رک جاتے۔ تاری ماموں ’ بسم اللہ میرے بھانجے آئے۔۔‘ کا نعرہ بلند کر کے ہمیں آگے بڑھ کر سینے سے لگاتے۔ کمرے میں بٹھا کر شربت صندل پلاتے۔ گھر بار کی خیریت پوچھتے اور امی جان اور خاص طور پر ابا جان کو سلام پہچانے کی تاکید کرتے (جو ہم کبھی نہ پہنچاتے)۔ ماموں کو ’’شمع‘‘ لاہور اور ’’نقاد‘‘ کراچی میں چھپنے والے معمے حل کرنے کا بہت شوق تھا۔ ان رسائل کا تازہ شمارہ آیا ہوتا تو ہمیں معمے حل کرنے کے لئے بٹھا لیتے۔ معموں کے کمپائلر بڑے کایاں لوگ ہوتے ہیں۔ ہماری مشترکہ ذہانت نے البتہ متعدد مواقع پر ان کی چالاکی کو مات دی تھی۔ ماموں کو کئی بار انعامات ملے۔ اس میں سے ہمارا حصہ انہوں نے خوش دلی سے دیا۔ ہم دونوں نے شطرنج اور تاش انہی سے سیکھی۔ فنکاری سے پتے بانٹتے کا گر بھی سیکھا تاکہ چاروں یکے اور بادشاہ اپنے یا پارٹنر کے حصے میں آ جائیں۔۔ ہم ان کی الماری میں دھری کتابوں سے بھی خوب استفادہ کرتے۔ ایک دفعہ ہم دونوں ان کی آنکھ بچا کر ایک جنسی کتاب پڑھ رہے تھے کہ انہوں نے دیکھ لیا۔ ہم نے جھینپ کر کتاب واپس رکھی تو یہ تبصرہ کرتے ہوئے مطب میں چلے گئے:
’’بھانجو! کچھ کام صرف کرنے کے ہوتے ہیں، پڑھنے کے نہیں۔۔‘‘
کھانڈو اور ساجن نے ڈھابے کے عقبی حصے میں مخصوص جگہ پر خشک لکڑیاں اور ٹہنیاں جلا کر الاؤ روشن کر دیا تھا۔ وہ شکار کو صاف کر کے، انہیں آئل اور مصالحہ لگا کر اور سیخوں میں پرو کر الاؤ کے قریب زمین میں گاڑ چکے تھے۔ جب بھنے ہوئے گوشت کی اشتہا انگیز خوشبو فضا میں پھیلی تو ہم اٹھ کر الاؤ کے پاس آ گئے۔ ساجن نے جھٹ تین چار کرسیاں اور ایک میز وہاں لگا دی اور کھانے کے برتن سجانے لگا۔ کھانڈو نے تیار سیخوں کو جانچا اور بھنے ہوئے پرندے سیخوں سے اتار اتار کر ٹرے بھرنے لگا۔ ساتھ گرما گرم تندوری نان، دہی رائتہ اور سلاد تھا۔ سرور بھائی نے ایک تھیلے سے وہسکی کی بوتل نکال کر کھولی تو تاری ماموں کی باچھیں کھل گئیں:
’’واہ بھانجے! آج تو تم نے عید کروا دی۔۔‘‘
’’آپ کی دعوت کریں اور وہسکی نہ ہو۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے تاری ماموں!‘‘
سرور بھائی مسکرائے اور دو گلاسوں میں ایک ایک پیگ وہسکی انڈیل کر پانی ملانے لگے۔ میں بوجوہ شراب سے اجتناب کرتا ہوں۔ اس لئے میں نے سیون اپ منگوا لی۔
کھانا بہت مزے دار اور وافر تھا۔ سب نے سیر ہو کر کھایا۔ ساجن اور کھانڈو نے بھی۔
درختوں کے عقب سے پورا چاند ہمیں جھانک رہا تھا۔ چاندنی اور وہسکی بادہ کشوں پر ایک خاص طرح کا موڈ طاری کر دیتی ہے۔ ان کے پرانے دکھ درد جاگ اٹھتے ہیں۔ وہ اپنے ناکام معاشقوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے اور آنسو بہاتے ہیں۔ کامیاب معرکوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بے تحاشا ہنستے ہیں۔ بسا اوقات وہ اپنے سینوں میں دفن ایسے راز بھی اگل دیتے ہیں جو بقائمی ہوش و حواس کسی کے سامنے کبھی ظاہر نہ کریں۔
سرور بھائی اور تاری ماموں اسی ترنگ میں تھے۔
’’ ماموں! آپ نے شادیاں تو بہت کیں۔ کیا کبھی کوئی سچا عشق وشق بھی کیا؟‘‘ سرور بھائی نے سوال کیا۔
’’ہاں! ایک لڑکی سے واقعی سچی محبت ہوئی تھی مجھے۔۔‘‘
’’کون تھی، کیا نام تھا اس کا؟‘‘
’’ ایک ملاح کی بیٹی تھی۔ حلیمہ نام تھا، مگر میں اسے پیار سے انڈس ڈالفن کہا کرتا۔۔‘‘
کھانڈو بجھتے ہوئے الاؤ میں جھونکنے کے لئے سرسوں کے سوکھے ہوئے جھاڑ اور خاردار درختوں کی کچھ خشک ٹہنیاں اٹھائے ہماری طرف آ رہا تھا۔ انڈس ڈالفن کا لفظ کان میں پڑا تو کہنے لگا:
’’سائیں! انڈس ڈالفن بڑے کام کی چیز ہوتی ہے۔۔‘‘
’’ تم انڈس ڈالفن کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’سائیں! سندھو دریا کی جل پری ہے۔۔‘‘
’’جل پری نہیں ہے گھامڑ، ایک قسم کی مچھلی ہے۔‘‘ میں نے تصحیح کی۔
’’ سائیں ہم نے تو یہی سنا ہے کہ جل پری ہے۔ اکیلا دکیلا ماچھی بیڑی میں کہیں دور نکل جائے تو یہ اسے پانی میں سے آواز دیتی ہے۔ ایسا جادو ہے اس کی آواز میں کہ سننے والا آواز کے پیچھے دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ پھر یہ اسے اپنی دنیا میں لے جاتی ہے۔ سندھو دریا کے نیچے جل پریوں کی سلطنت ہے۔۔‘‘
’’اچھا! تم بھی تو پہلے بیراج پر چوکیداری کرتے تھے۔ تمہیں کوئی جل پری نہیں ملی؟‘‘ میں نے مذاق کیا۔
’’سائیں، ہمارا ایسا نصیب کہاں!‘‘ اس نے آہ بھری۔۔ ’’جل پری کی جگہ اللہ سائیں نے ایک جلی ہوئی پری ضرور پلے باندھی ہے۔ یہ کالا کلوٹا چھوکرا اسی سے تو ہے!‘‘ اس نے ساجن کی طرف اشارہ کیا۔
میری ہنسی چھوٹ گئی۔
’’ یہ بھی پورا بھانڈ ہے۔‘‘ میں نے سرور بھائی اور تاری ماموں کو مخاطب کیا۔
کھانڈو پھول گیا۔ کہنے لگا:
’’ سائیں، جل پری میرے ایک ماچھی دوست کو ساتھ لے گئی تھی۔ آپ سنیں تو پورا قصہ سناؤں۔‘‘
’’مختصر کر کے سنا دو۔۔‘‘ سرور بھائی نے جواب دیا۔
’’سائیں۔ میرا دوست سادھ بیلا کے نزدیک جال پھینک رہا تھا کہ جل پری نے اسے آواز دی۔ وہ بیڑی اور جال وہیں چھوڑ کر دریا میں کود گیا۔ گھر والوں نے سمجھا پانی میں ڈوب کر مر کھپ گیا ہو گا مگر چھ مہینے بعد لوٹ آیا۔ سائیں وہ بتاتا تھا کہ ایک بہت حسین جل پری اسے اپنے ساتھ اپنی سلطنت میں لے گئی اور اس سے شادی کر لی۔ کسی کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ لوگ اسے دیوانہ سمجھتے۔ وہ ہر وقت جل پری کی باتیں کرتا رہتا اور اس سے جدائی کے غم میں روتا رہتا تھا۔ اسی دکھ میں گھل گھل کر جلدی ہی فوت ہو گیا بے چارہ۔ اسی نے راز کی یہ بات بتائی تھی کہ جل پری سے ملاپ بوڑھے مرد کے لئے اکسیر ہے۔ وہ پھر سے جوان ہو جاتا ہے۔ میرے ایک دو ماچھی دوستوں کا تو کام ہی یہی ہے۔ زندہ جل پری پکڑو اور منہ مانگے داموں بوڑھے رئیسوں اور وڈیروں کو بیچ دو۔۔ سائیں بڑی مانگ ہے اس کی۔۔‘‘
’’ دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔۔۔‘‘
سرور بھائی نے کھانڈو کی بات سن کر لہک لہک کر یہ شعر پڑھنا شروع کیا تو ہم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔
’’ اب میں سمجھا کہ دریائے سندھ سے اندھی ڈالفن کی نسل اس قدر تیزی سے ناپید کیوں ہو رہی ہے۔‘‘ انہوں نے دیدے گھمائے۔۔
ماموں بولے:
’’ڈالفن کی چربی اور تیل تو طلاء اور مردانہ طاقت کی دوائیں بنانے میں کام آتا ہے مگر اس غریب سے جفتی کر کے بوڑھا مرد جوان ہو جاتا ہے یہ سفید جھوٹ ہے۔ مگر بعض لوگ اسے سچ مانتے ہیں۔ مجھے خود ایک بوڑھے وڈیرے کو دیکھنے کا موقع ملا جو اسی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر خطرناک انفیکشن کروا بیٹھا تھا۔۔۔‘‘
’’ماموں، آپ اپنے عشق کی داستان سنانے لگے تھے۔۔‘‘
میں نے انہیں یاد دلایا تو وہ جیسے کہیں کھو گئے۔
ہوا کے جھونکے الاؤ کی آگ کو بھڑکا رہے تھے۔ سرسوں کے سوکھے جھاڑ تڑتڑ کی آوازیں پیدا کرتے ہوئے تیزی سے جل رہے تھے۔ ان سے اٹھنے والی چنگاریاں جگنو بن کر فضا میں اڑ رہی تھیں۔
ماموں نے کہانی شروع کی جو میں اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں:
انیس بیس سال پہلے میں گرمیوں میں صبح سویرے جھلی بند پر سیر کیا کرتا تھا۔ ایک روز کافی دور نکل گیا۔ سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ افق کے کنارے پرمگر ہلکی سی لالی نمودار ہو چکی تھی۔ کچے میں دریا کے متوازی گارے اور گھاس پھونس کے درجنوں جھونپڑا نما مکانات تھے۔ ان کے مکین ابھی خال خال ہی بیدار ہوئے تھے۔ گھاٹ پر کئی طرح کی کشتیاں بہتے پانی میں کھڑی ہولے ہولے ڈول رہی تھیں۔ بجرے، کونتل، پتیلو، کٹار۔۔۔ صبح کی مدھم روشنی میں ان کے مستول، پتوار، رسیاں اور بادبان بڑے خستہ اور بوسیدہ دکھائی دے رہے تھے۔
میں آخری بجرے کے پاس پہنچا تو دریا میں کچھ ہی دور مجھے انڈس ڈالفن کی موجودگی کا احساس ہوا۔ اس نے ابھی ابھی پانی میں غوطہ لگایا تھا۔ یہ مچھلی عام طور پر کنارے کے قریب آنے سے اجتناب کرتی ہے۔ گہرا پانی ہی اس کے لئے محفوظ اور اسے مرغوب بھی ہے۔ کبھی کوئی بھولی بھٹکی ڈالفن کم گہرے پانی یا کسی نہر میں جا نکلے تو جلد ہی شکار ہو جاتی ہے۔ میں ٹھٹک کر رک گیا تاکہ دیکھ سکوں کہ وہ دوبارہ سطحِ آب پر آتی ہے یا نہیں۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے سر تھوڑا باہر نکالا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پانی کی سطح پر سنہری بالوں کا ایک گچھا سا تیر رہا ہے۔ پھر ایک حسین نسوانی وجود نے اپنے بھرپور جوبن سمیت پانی سے ظہور کیا۔ لمحہ بھر کے لیے مجھے یہ گمان ہوا کہ میں کوئی جل پری دیکھ رہا ہوں۔ وہ دلکش نقوش اور متناسب بدن کی مالکہ ایک نہایت خوبصورت اور پر کشش لڑکی تھی جو صبح سویرے دریا میں مزے سے نہا رہی تھی۔ اس کی عمر بمشکل اٹھارہ، انیس سال ہو گی۔ اس نے پانی میں ڈبکی لگائی اور کسی ماہر تیراک کی مانند پہلو کے بل تیرنے لگی۔ ایک دو منٹ بعد سیدھی ہوئی اورکسی مچھلی کی طرح سہولت سے تیرتی ہوئی کچھ دور تک گئی۔ پھر الٹی ہو کر اپنے پتلے اور لمبے بازوؤں کے چپو چلاتی کنارے کی سمت آنے لگی۔ قریب پہنچ کر وہ سیدھی ہوئی اور میری جانب رخ کر لیا۔ تعجب خیز بات یہ تھی کہ وہ اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں پوری طرح کھول کر مجھے دیکھ رہی تھی مگر ذرا لجا شرما نہیں رہی تھی۔۔۔ میں اپنی جگہ ساکت اور مبہوت کھڑا اسے دیکھے جا رہا تھا۔ میرا دل نامعلوم مسرت سے کانپ رہا تھا۔
دفعتاً مجھے اپنے عقب میں کھٹکا محسوس ہوا اور ایک غصیلی مردانہ آواز سنائی دی:
’’او بے شرم انسان! ہٹ یہاں سے۔ کیا گھر میں تمہاری کوئی ماں بہن نہیں۔ اندھی معصوم چھوکری پر بری نظر ڈالتے ہو۔۔۔‘‘
’’یہ اندھی ہے؟‘‘ میں نے صدمے کی کیفیت میں اس ادھیڑ عمر اور ناتواں ملاح سے پوچھا جو میلی بنیان اور چار خانے کی لنگی پہنے میرے پیچھے کھڑا تھا۔ اس کی گدلی آنکھوں میں غصہ بھرا ہوا تھا۔
’’بولا تو ہے۔۔‘‘
’’مم، میں۔۔ معافی چاہتا ہوں۔ میں نے ڈالفن مچھلی کے دھوکے میں اسے دیکھا تھا۔ کوئی بری نیت نہیں تھی میری۔۔‘‘ میں نے جلدی سے صفائی پیش کی۔ ’’آپ کی بیٹی ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
ہماری باتیں سن کر لڑکی نے پانی میں غوطہ لگایا اور زیر آب تیرتی ہوئی بجرے کے عقب میں چلی گئی تھی۔ میں نے ملاح سے دوبارہ معافی مانگی تو وہ نرم پڑ گیا۔
’’میں حکیم ہوں۔ اگر تمہاری بیٹی پیدائشی اندھی نہیں ہے تو میں اس کا علاج کر سکتا ہوں۔ بینائی واپس آ جائے گی۔ فکر نہ کرو میں علاج کے پیسے نہیں لوں گا۔۔‘‘ میں نے پر خلوص پیش کش کی۔
’’پیسے کیوں نہیں لو گے، کیا مجھ سے تمہاری کوئی رشتے داری ہے؟‘‘ ملاح تنک کر بولا۔
’’ دو وجہوں سے پیسے نہیں لوں گا۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ میں غریبوں کا علاج مفت کرتا ہوں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ انجانے میں مجھ سے جو گناہ سر زد ہوا ہے اس کا ازالہ ایک نیکی سے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
الغرض میں نے ایسی ہی چند چکنی چپڑی باتوں سے سادہ لوح ملاح کو شیشے میں اتار لیا اور روزانہ اس کی جھونپڑی کا چکر لگانے لگا۔ مقصد اس حسینہ کا دیدار تھا جسے دیکھے بغیر اب مجھے چین نہیں پڑتا تھا۔ لڑکی جس کا نام حلیمہ تھا تیراکی کی حد درجہ شوقین تھی۔۔ اس کی بینائی سلب ہونے کا سبب دریائے سندھ کے پانی میں پائی جانے والی آلودگی تھی، جس کے باعث اب تو انڈس ڈالفن کی پوری نسل اندھی ہو چکی ہے۔ مقام شکر تھا کہ اس کی آنکھیں ابھی ضائع نہیں ہوئی تھیں۔ پرہیز اور علاج سے بینائی لوٹنے کے روشن امکانات موجود تھے۔ میں نے لڑکی اور اس کے باپ کو یہ بات سمجھائی تو حلیمہ بینائی واپس آنے کی امید میں تیراکی سے اجتناب کرنے لگی۔ میں نے جم کر اس کا علاج کیا۔ صبح و شام آنکھیں دھونے کے لئے خالص عرق گلاب دیا اور انفیکشن ختم کرنے کے لئے آزمودہ انگریزی گولیاں پڑیوں کی شکل میں پیس کر کھلائیں۔ لیبل اتار کر اچھے آئی ڈراپس بھی دئیے اور بینائی تیز کرنے کا سرمہ بھی دیا۔ بہت جلد اس کی بینائی کافی حد تک بحال ہو گئی۔
حلیمہ جسے میں پیار سے انڈس ڈالفن کہتا، مجھے اتنی اچھی لگتی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ لیکن میں نے ابھی تک کھل کر اس سے اظہار محبت نہیں کیا تھا۔ اس کا باپ در اصل، سائے کی طرح اس کے ساتھ لگا رہتا۔ میں نے حلیمہ کی آنکھوں میں بھی اپنے لئے محبت کے چراغ جلتے دیکھے۔ یہ حقیقت میرا حوصلہ بڑھاتی کہ یہ آگ یک طرفہ نہیں ہے۔ ایک روز میں نے فیصلہ کیا کہ حلیمہ کے باپ سے بات کر کے عاشقی کو قید شریعت میں لے آؤں۔ میری عمر تیس سال سے اوپر ہو چکی تھی مگر ہنوز میں کنوارا تھا۔
میں نے موقع پا کر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ادھیڑ عمر ملاح نے تحمل سے میری بات سنی اور سنجیدہ لہجے میں کہا:
’’ سائیں۔ آپ اچھے آدمی ہو۔ آپ نے ہم پر احسان بھی کیا ہے مگر ہماری مجبوری ہے۔ حلیمہ وڈیرے علی نواز کی امانت ہے۔ اس نے ہمیں بہت پیسہ دیا۔ کشتی لے کر دی۔ کچے میں جس زمین پر ہم بیٹھے ہیں یہ بھی اسی کی ملکیت ہے۔۔ جلد ہی یہ اس کی دلہن بننے والی ہے۔۔‘‘
وڈیرے علی نواز کا نام سن کر میں چونک گیا۔ اروڑ کا وہ بوڑھا وڈیرا میرے استاد حکیم سنیاسی باوا اجمیری مرحوم کے وقت سے ہمارے شاہی نسخوں کا شیدائی تھا۔
میں جانتا تھا کہ طاقتور وڈیرے کے سامنے میری کوئی حیثیت نہیں۔ مایوس اور دل برداشتہ ہو کر چلا آیا، مگر مجھے ایک پل کے لئے قرار نہیں تھا۔ ہر وقت اپنی محبوبہ کا سراپا اور من موہنی صورت نگاہوں میں پھرتی رہتی۔ تنہائی میں اسے یاد کر کے آہیں بھرتا اور آنسو بہاتا۔ میرے ذہن نے اس دوران کئی بار یہ شیطانی منصوبہ بنایا کہ آئندہ وہ کوئی معجون یا کیپسول منگوائے تو ان میں زہر ملا دوں۔۔ مگر یہ شیخ چلی کا منصوبہ ہی رہا۔ اگر پکڑا جاتا تو مجھ میں سولی چڑھنے کی ہمت نہیں تھی۔
ایک دن صبح سویرے میں نے مطب کھولا ہی تھا کہ ایک پجیرو جیپ دروازے کے سامنے رکی اور ایک رائفل بردار نوجوان نیچے اترا۔ میں اسے جانتا تھا۔ وہ وڈیرے علی نواز کا آدمی تھا۔ اس نے بتایا کہ وڈیرا شدید بیمار ہے۔ اس نے مجھے بلا بھیجا ہے۔
اروڑ میں نارو نہر کے کنارے وڈیرے کی بڑی سی حویلی تھی۔ میں ایک مرتبہ پہلے بھی وہاں جا چکا تھا۔ ہم حویلی پہنچے تو اس نے مجھے اپنے کمرے میں طلب کیا۔ وہ بستر پرنیم دراز بری طرح کراہ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ زیر ناف ایک پھوڑا نکل آیا تھا جو پک گیا ہے اور اس میں پیپ بھری ہے۔ اس کی وجہ سے بخار چڑھ گیا ہے اور پیشاب کی نالی میں بھی شدید جلن ہے۔ پیشاب کرتے ہوئے جلن ناقابل برداشت ٹیسوں میں بدل جاتی ہے۔ میں نے معائنہ کیا تو مجھ پر منکشف ہوا کہ وہ ایک خطرناک جنسی بیماری میں مبتلا ہے۔ میں نے سبب جاننے کے لئے تھوڑا کریدا تو اس نے اعتراف کیا کہ اس نے کھوئی ہوئی جوانی دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ایک تالاب میں زندہ ڈالفن مچھلی پال رکھی تھی۔۔۔!
اس کی حالت نہایت خراب تھی۔ انفیکشن پورے جسم میں پھیلنے کا خطرہ تھا۔ ضروری تھا کہ اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کیا جائے اور کسی ماہر ڈاکٹر سے انگریزی علاج کروایا جائے۔۔ مگر میں نے اسے یہ مشورہ دینے کی بجائے جھوٹی تسلی دی کہ اس بیماری کا تیر بہدف نسخہ ہمارے پاس موجود ہے۔ اللہ نے چاہا تو پہلی خوراک ہی سے افاقہ ہو گا۔۔
میں نے واپس پہنچ کر اسے جان بوجھ کر غلط دوائی بھیج دی۔ یہ درد کش دوا تھی۔ اس کے استعمال سے سوزش میں کمی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ میں نے دو وجوہات سے ایسا کیا تھا۔ پہلی یہ کہ وہ میرا رقیب تھا۔ میں اپنی راہ کا کا نٹا صاف کرنا چاہتا تھا۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ میں بے زبان مخلوق کے ساتھ بد فعلی کرنے والے بڈھے غنڈے کا علاج کر کے اسے مزید بد فعلیوں کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
چوتھے پانچویں دن مجھے اطلاع ملی کہ وڈیرا علی نواز مر گیا ہے۔ اسے ایک روز پہلے اسپتال منتقل کیا گیا تھا مگر تب بہت دیر ہو چکی تھی۔
’’راہ کا کانٹا صاف ہونے کے بعد کیا آپ نے انڈس ڈالفن۔۔ میرا مطلب ہے حلیمہ سے بیاہ رچایا؟‘‘
سرور بھائی نے بے تابانہ سوال کیا۔
’’ کہاں یار۔ باپ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا وڈیرا حق نواز اس کا دعوے دار بن بیٹھا اور چند دن بعد وہ حویلی منتقل ہو گئی۔۔‘‘
تاری ماموں نے سرد آہ بھری اور یاس بھری نظروں سے بجھتے ہوئے الاؤ کو دیکھتے ہوئے بولے:
’’ایک جرعہ اور پلا بھانجے۔۔!‘‘
٭٭٭