قصیدہ اور مثنوی کی روایت رکھنے والی اردو نظم کے دور میں ہی نظیر اکبر آبادی پابند نظموں میں عوامی شاعری کاآغاز کر چکے تھے۔پھرجب محمد حسین آزاد نے”رنگِ زمانہ“بدلنے کی طرف توجہ دلائی تو اس زمانہ کے شعراءنے نئے رنگ کو اختیار کرنے کے لیے اپنے اپنے روایتی ڈھب سے ”جدید نظمیں“کہنے کی کاوش کی۔انہی شعراءمیں سے مولانا الطاف حسین حالی نے ایک رنگ اپنایااور پابند اردو نظم کو ایک خاص نہج پر لے آئے۔علامہ محمد اقبال نے اسی پابند نظم کو اس کے کمال تک پہنچا دیا۔یہ حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی پابند نظموں نے پابند نظم کو اس کے کمال تک پہنچا دیا۔ان کے بعد ترقی پسندشاعروںکادور آیا تو انہوں نے بھی عمومی طور پر اقبال والے انداز میں ہی اپنے نظریات کا پرچار شروع کیا۔عین اس وقت جب ایک طرف علامہ اقبال کی سربلند پابند نظم کھڑی تھی دوسری طرف ترقی پسندوں کی بلند آہنگ پابند نظم نے گویا صورِ قیامت پھونک رکھا تھا۔ایسے ماحول میں چند سرپھرے شاعروں نے اردو میں آزاد نظم کا آغاز کیا۔میرا جی،تصدق حسین خالد،ن۔م۔راشداور بعض دوسرے شعرائے کرام نے بڑے دھیمے لہجے میں آزاد نظمیں کہنا شروع کیں۔
شروع میں ان کی شدید مخالفت ہوئی لیکن یہ لوگ علمی طور پر اپنا موقف تو بیان کرتے رہے لیکن انہوں نے مار دھاڑ والی کسی بحث سے گریز کیے رکھا۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ہئیتی طور پر اقبال کی تقلید کرنے والے ترقی پسند شاعر بھی تدریجاََآزاد نظم کی طرف آنے لگے۔اور نئی نسل بھی اپنے شعری اظہار کے لیے پابند نظم کے مقابلہ میں آزاد نظم کو زیادہ بہتر محسوس کرنے لگی۔علامہ اقبال کی مقبولیت میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی لیکن ان کی نظموں کے دلدادہ ہونے کے باوجود نئی نسل کے شعراءنے نظم کی ہیئت کے معاملہ میں علامہ اقبال کی تقلید کرنے کی بجائے میرا جی جیسے شاعروں کی تقلید کی۔اقبال کے رنگ میں اور ان کی ہئیت کو اپنانے والوں میں آج ایک بھی صفِ اول کا شاعر دکھائی نہیں دے گا۔ان کے بر عکس اردو نظم کے جدید ناموں میں جتنے بھی اہم اور بڑے نام ہیں وہ سب کے سب میرا جی کی ہئیت کے عمومی انداز میں ہی نظمیں کہنے والے ہیں۔چھوٹے بڑے ناموں سے قطع نظرآج جتنے بھی آزاد نظم نگار ہیں وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر نظم کی اس ہئیت کو اپنائے ہوئے ہیں،یا اس کی تقلید کر رہے ہیں جنہیں میرا جی جیسے شاعروں نے متعارف کرایا اور اس کے فروغ کے لیے نام و نمود کی خواہش کیے بغیرتخلیقی لگن کے ساتھ خاموشی سے کام کرتے چلے گئے۔
انڈیا سے باہر کی اردو دنیا میں پاکستان کے نظم نگاروں کے ساتھ میں بیرونِ برِ صغیر کے اردو نظم نگاروں کا بھی ذکر کروں گا۔جرمنی میں رہتے ہوئے جن شاعروں اور نظموں تک میری رسائی ہو سکی ہے وہی میرے مضمون کا حصہ رہیں گے۔جدید اردو نظم کن مرحلوں سے گزرتے ہوئے آج کے عہد تک پہنچی،اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے،سومجھے اس کی تفصیل میں بھی نہیں جانا ۔زمانی طور پر بھی میں صرف اکیسویں صدی کی نظم تک توجہ مرکوز رکھنا چاہوں گا۔
اکیسویں صدی کی نظم اپنے انہیں نظم نگاروں کے جلو میں سامنے آئی جو بیسویں صدی کی آخری ایک دو دہائیوں سے نظمیں کہہ رہے تھے۔اس کارواں میں مزید نئے لکھنے والے بھی شامل ہوتے چلے گئے۔ان کے انفرادی میلانات کے مطابق جدید نظم کے رنگ ڈھنگ بھی وہی ہیں جو گزشتہ صدی کی آخری دہائی کی نظم کے تھے۔تاہم نئی صدی کے آغاز سے ہی دو بڑے واقعات نے کسی نہ کسی طور پوری دنیا پر اپنا گہرا اثر ڈالا۔ایک سانحہ تو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ ٹاورزسنٹرپر دہشت گرد حملہ کی صورت میں ظاہر ہوا جس نے دنیا بھر کو عمومی طور پر اور پاکستانیوں اور پاکستان کو خصوصی طور پر متاثر کیا۔دوسرا بڑا واقعہ سائبر کی دنیا میں انقلاب آجانے اورپوری دنیا کے سمارٹ فون میں سمٹ آنے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ اس مضمون میں یہ دیکھنے کی کوشش کروں گا کہ آزاد نظم کے داخلی و نفسی مضامین کی روایت کس حد تک مزید آگے بڑھی ہے اور اس کے دوش بدوش ان نئے اہم ترین واقعات نے ہمارے نظم نگاروں کو کس حد تک اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور وہ اس حوالے سے کیا سوچ رہے ہیں۔
غزل اور نظم میں بیک وقت اظہار کرنے والے سینئر شعرائے کرام کے ہاںروایتی مضامین ان کی داخلی کیفیات سے مل کرایک نئے انداز سے سامنے آتے ہیں۔چند شعراءکی نظمیں مثال کے طور پر پیش ہیں۔
٭”دریا میں رہنا بھی ہیبہنا بھی ہے پل پل کچھ کرنا بھی ہیبھرنا بھی ہیفصلِ غم بونا بھی ہیڈھونا بھی ہیمرنے سے ڈرنا بھی ہیمرنا بھی ہے“
تہمت ہے مختاری کی۔عبداللہ جاوید(کینڈا)
٭”عشق نے بے قراریاں بخشیںعشق نے، کب کسیقرار دیاعشق نے پہلے چھین لی دستاربعدمیںپیرہن اتار دیاعشق نیلمحہ لمحہ زخم دیئیعشق نے لحظہ لحظہ مار دیا“۔
عشق نے ۔عبداللہ جاوید
٭”آکاش کی سرحد سے پرے تیرا نگر تھاصدیوں کا سفر تھامیں ذرہءآوارہ تھا اور محوِ سفر تھاصدیوں کا سفر تھاوہ ساعتِ گم گشتہ کہ میں خو د سے نہاں تھاکیا جانے کہاں تھاتو میری نگاہوں میں تھا میں جسم بدر تھاصدیوں کا سفر تھاپڑتا تھا تری راہ میں ہر گام سرِ دار لمحے تھے کہ تلوارکہنے کو تو دو چار قدم پر ترا گھر تھاصدیوں کا سفر تھااُس تِیرہ مسافت پہ کمر بستہ تھے ساریسب چاند ستارینکلا تو مرے ساتھ بس اک نجمِ سحر تھاصدیوں کا سفر تھاکہتا تھا چلیں شہرِ شفق چل کے بسائیںسورج کو منائیںاور میرے بدن میں کوئی شعلہ نہ شرر تھاصدیوں کا سفر تھالگتا تھا مرا حاصلِ جاں تھا جو کہیں تھامعلوم نہیں تھاوہ وہم تھا، پرچھائیں تھا جو بھی تھا جدھر تھاصدیوں کاسفر تھاکرنوں نے فلک پر جو بدن اُ س کا تراشاتھا طرفہ تماشہسب لوگ یہ کہتے تھے نہیں تھا، وہ مگر تھاصدیوں کا سفر تھا“ صدیوں کا سفر۔رشید قیصرانی
عبداللہ جاویداور رشید قیصرانی کی ان نظموں میںزندگی اورعشق کے روایتی مضمون کو داخلی و نفسی کیفیات میں گوندھ کر نفاست کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔دونوں شعراءکے تغزل کی ہلکی آنچ نے نظموں کے نغماتی آہنگ میںایک انوکھا سا بہاؤپیدا کردیا ہے۔برصغیر سے باہر بس جانے والے شاعروںاور ادیبوں کے ہاں وطن کی یاد کے مختلف پہلو ملتے ہیں۔یادِ وطن کا ایک انداز دیکھیں۔
٭”ایک کنیز کی ہے یہ کہانیآسائش کے قلعے کے اندربجلی،پانی اور غذا کینادیدہ دیوار میں جس کودھیرے دھیرے چُنا گیا ہیپیارے وطن کے چھوٹے سے گھرتیرا پیار سلامت ،لیکن اب میں تجھ تک کیسے آؤں؟؟؟“ انارکلی۔نیّر جہاں(امریکہ)
وطن کی یاد کی اس کیفیت کے بر عکس بعض شعراءکے ہاں نئے حالات اور نئے سماج میں اپنی ذمہ داری کا احساس ملتا ہے۔پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بجائے آگے بڑھنے اور کسی مخصوص قوم کے افراد کی بجائے پوری انسانیت کے لیے سوچنے کا رویہ مستحکم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔اس نوعیت کی نظموں میں سے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کی ایک نظم پیش کر رہا ہوں۔
٭”ہمیں اب تیز چلنا ہیبہت ہی تیز چلنا ہیہمیں قندیل کی لو تیز کرنی ہیاسی قندیل کی لو سے ہمیںدل کے کسی تاریک گوشے میںچھپی نیکی کی اک ننھی کرن کو ڈھونڈنا ہو گااسے رستہ دکھانا ہے جو صدیوں کے سفر میں بھول کر رستہکہیں سہمی ، کہیں سمٹیسجا کر خواب آنکھوں میںہمارے راستے میں آنکھ بن کر دیکھتی ہو گیقدم آگے بڑھاؤ تمکہ اب پیچھے پلٹ کر دیکھنے کیسارے لمحے کھو چکے ہیںسبھی امکان اب گم ہو چکے ہیں ہمارے خواب اب تحلیل ہو کروقت کی سولی پہ چڑھنے کے قرےں ہیںہمیں نیکی کی اس ننھی کرن سے ہیزمانے بھر کی تاریکی میں اب سورج اگانے ہیںہمیں بیتی ہوئی صدیوں کے سب احساں چکانے ہیںہمیں مرتے ہوئے انسان کو پھر سے بچانا ہیاسے ارفع….اسے اعلیٰ….اسے اشرف….بنانا ہے!“۔
ہمیں اب تیز چلنا ہے۔رضیہ اسماعیل
ساقی فاروقی برطانیہ میں اردو شاعری کی ایک نمائندہ مثال ہیں۔انہوں نے برطانیہ میں رہتے ہوئے اپنے پرانے ماحول سے ایک نئی کہانی نکالی ہے اور نظم”حمل سرا“میں اسے ایک چونکانے والا موڑ دے کرقاری کو انتظار اور سس پنس کی حالت میں لانے کی کوشش کی ہے کہ دادی اماں کے مطالبہ پر کیا نتیجہ نکلا؟ویسے دادی اماں کا مطالبہ فی ذاتہ اتنا دلچسپ ہے کہ قاری کومزید انتظار کی ضرورت نہیں رہتی۔فیصلہ کچھ بھی ہو یہی بڑی بات ہے کہ آج کے دور میں پرانی بستیوں میں مقیم دادیاں بھی طلاق مانگنے لگی ہیں۔،استحقاق،چقماق،تریاق،آفاق اور طلاق کے قوافی کے استعمال سے ساقی فاروقی نے اپنی نظم میں ردھم بھی پیدا کر دیا ہے ۔نظم ملاحظہ فرمائیں۔
٭”دادی اماں(بستی کے سب سے ممتازگھرانے کی بیٹیسب سے معززآنگن کی دلہنماشاءاللہستّر کے پیٹے میں ہوں گی)اپنا استحقاق مانگتی ہیںدادا جان کہدس کم ساٹھ برس تک ان سے اندھی گھپ کالی راتوں میںچھپ چھپ کے ملنے آئیبیوی کی زرخیز آنکھوں میںصرف اولاد نرینہ کیخواب اُگا کے چلے گئےیہ شوہر کے رستے میں حائل نہ ہوئیں دل کے ٹکڑیہوسٹلوں میں پلے بڑھے حیف کہ ان کے دکھ سکھ میںشامل نہ ہوئیںدادا جان کی سخت طبیعت نیاس کا موقع ہی نہ دیایہ وہ ناطقجو خاموش رہیںاُس نازیبا خاموشی میںآگ لگانے کے دن آئیاب اپنے چقماق مانگتی ہیں (ان کے اندرتنہائی کا زہر اترتا چلا گیااور زمانہ اردگردسیپرچھائیں کی طرح گزرتا چلا گیا)سوگ میںہیںتریاق مانگتی ہیںایک جنم تک اندھی گونگی بہری بن کیاپنے ہی گھر میں بے دخلبے قدری کے” سخی حسن“میں دفن رہیںآج نئے آفاق مانگتی ہیںدادی اماں طلاق مانگتی ہیں“
حمل سرا۔ساقی فاروقی (سخی حسن کراچی کا ایک قبرستان ہے)
ابراراحمد جدید اردو نظم کا ایک معتبر اور اہم نام ہیں۔روایتی مضمون اورپرانی علامتوں کو انہوں نے نظم کی نئی فضا میں عمدگی کے ساتھ ایسے سمودیا ہے کہ یہ سب اِسی عہدسے وابستہ باتیں ہیں۔
٭”کوہکن!پھینک یہ تیشہ اپناسر کو ٹکرا کے بہت دیکھ لیاپتھروں سے کبھی آنسو نہیں ٹپکا کرتیاک جنوں سے کبھی نہریں نہیں نکلا کرتیںتیرے ہاتھوں سکتدل میں وہ وحشت نہ رہیبیٹھ چشمے کے کنارے پہبہادے آنسوبھر لے آنکھوں میں یہ سبزہیہ مہکتا منظرآ!ادھر لَوٹ زمینوں کی طرفاپنی بستی کو پلٹاپنے مکینوں کی طرفاپنے پھولوں کی طرف دیکھانہیں ہاتھ لگااُٹھ کے بڑھ اپنوں کی جانب جو تری راہ میں تھیاور غیروں پہ نظر کر اپنییہ جو رونق ہیلپکتی ہے،لپٹتی ہے ہر اک دامن سیکوئی دن اس سے نمٹاس کے اندر سے گزرخواب اوڑھے ہوئیخوابوں سے لدی آنکھوں سیاور اک رنگِ شب و روز میں ٹھہری دنیاجتنی بھی ادنیٰ ہے،معمولی ہیچھوڑ تکرار ،گوارا کر لیجو بھی موجود ہے اب اس کا نظارہ کر لیاپنی بے سود محبت سے کنارا کر لے!“ پھینک دے تیشہ اپنا۔ابرار احمد
نظم کی آخری لائن پڑھتے ہوئے مجھے بے ساختہ فیض صاحب کی مشہور نظم کا مشہور مصرعہ ”اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو“یاد آگیا۔بظاہر اس مصرعہ کا ابرار احمد کی نظم کی آخری لائن سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتالیکن مجھے بہر حال یہ مصرعہ مسلسل یاد آئے جا رہا ہے۔
خاور اعجاز کی نظم کی اپنی الگ آن بان ہے۔انہوں نے”کہانی“سلسلے کی کئی نظمیں پیش کی ہیں۔ایسی ایک نظم یہاں پیش کر رہا ہوں جو اتنے مختصر ترین الفاظ میںہزاروں برسوں کے انسانی سفر کا خوبصورت احاطہ کر رہی ہے۔
٭”کہانی !کہاں سے کہاں تُو مجھے لے کے پھِرتی رہیباغِ جنّت کی رُخصت سے آغاز ہوتی ہیپانی پہ بہتی ہُوئی ایک کشتی کے ہمراہ چلتی ہیبازارِ مصر اور سِینا کے صحرا سے ہوتی ہُوئیشہرِ مکہ میں کچھ دن ٹھہرتی ہیاور پھِر مدینہ کی سمت آ نِکلتی ہیتیرے مآخذپُرانے صحیفوں کے دریاﺅں سے پھُوٹتے ہیںہزاروں برس کا سفر کر کے آئی ہے تُوبھید تخلیق کے اپنے الفاظ میں باندھ لائی ہے تُوکس طرح زِندگی کو بسر کرنا ہےیہ بتایا مجھیضابطے اور قانون اخلاق و برتاﺅ کیسب سِکھائے مجھیخانہءدِل بھی کافی تھالیکن کہااپنے رَب کی عبادات کے واسطے گھر بنامَیں نے تعمیل کیگھر کی بنیاد رکھیہر اِک اینٹ کے درمیاں میں تِری یاد رکھیمگر اے کہانی ! مِرا ذکر ہیداستانِ محبت میں معدوم ہونے لگا ہےیہ معلوم ہونے لگا ہیخود اپنے ہی گھر میں ٹھہرنے کی صورت نہیں اَبتجھے کیا ہماری ضرورت نہیں اَب ! ؟“
تجھے کیا ہماری ضرورت نہیں۔خاور اعجاز
جدید نظم لکھنے والوں میں افتخار عارف،خالد اقبال یاسر،ثمینہ راجہ،غلام حسین ساجد،شہزاد نیر،سید ماجد شاہ،حفیظ طاہر،ثروت زہرا،عامر عبداللہ،عطاالرحمن قاضی،مسعود منور (ناروے)،اشفاق حسین(کینیڈا)،شہاب مصطفی (برطانیہ)، شاہین (کینیڈا) ،افضل عباس (ناروے) ،نصر ملک(ڈنمارک)،ڈاکٹر عبداللہ(امریکہ)اور متعدد دیگر شعرائے کرام نے اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق عمدہ نظمیں کہی ہیں۔یہاں تاجدار عادل،احمد صغیر صدیقی اور علی محمد فرشی کی تین نظمیں پیش کر رہا ہوں۔یہ ان تینوں نظم نگاروں کے عمومی انداز کی ترجمانی بھی کر رہی ہیں اور جدیدنظم کے عمومی انداز کا بھی ان سے بڑی ھد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
٭”تم اپنے خواب نہ توڑو نہ مےں شکستہ کروںکہ تم نہ چاہو مجھے‘ مےں بھی ترکِ غم نہ کروںکہ خواب جیسے بھی سہیخواب تو ہمارے ہےںکہ یہ متاع کسی کی بھی ہو عزیز تو ہیکہ درد یہ ہوکسی کا لہو رلا تا ہیپھر اِس کے ساتھ ہی یہ ایک بات اور بھی ہیکہ تجربہ ہے جراحت کا کچھ تمہےں نہ مجھیملے گا زخم تو کیسے اُسے سنبھا لےں گیکسی نے حال جو پوچھا تو کیا کہےں گے۔۔کہو“ سوال۔تاجدارعادل
٭”اُدھرسوچ میں ایک پیمان اس کادلِ نارسیدہ میں ارمان اس کادیے سے جلاتابدن جگمگاتانفس در نفس لالہ و گل کھلاتااِدھر تاک میںاک اُدھڑتی ہوئی رُت کا طوفان کوئیبکھرنے کا ،مٹنے کااِمکان کوئینشانے لگاتااُمیدیں اُڑاتاگزرتا ہوا وقت چہرے پہ گہری لکیریں بناتا!“ سمتیں۔احمد صغیر صدیقی
٭”کھیل کی اک عمر ہوتی ہیجہاں سارے کھلونے ٹوٹ جاتے ہیںچھنک سے ایک دن۔۔۔سانس روکے،سنسناتی،خالی رہ جاتی ہیںگلیاں وقت کیسُونی کلائیوں کی طرحجن پر کبھی شیشے کی رنگیں چوڑیاں اٹکھیلیاںکھیلی نہ ہوںلاڈلے کنچوں سی عمریںتالیوں کی پھول جھڑیوں میں بکھر کر ٹوٹتی ہیںاور اس کے آسمانی منظروں کی اک دلھندیکھتے ہی دیکھتے چرخا سجا کر بیٹھ جاتی ہیدکھوں کی برف جیسی روئی کاآؤ اپنے خواب سے باہرچرخ نیلی فام کے ٹکڑے چنیں!“ نظم۔علی محمد فرشی
جدید نظم کے اس انداز کے دوش بدوش نسبتاً نئے لکھنے والوںکی نظموں میں کچھ قدرے مختلف بھی سامنے آرہا ہے ۔عمومی نظم کے سامنے جو کچھ قدرے مختلف سامنے آرہا ہے،اس کی ایک جھلک ان چند نسبتاً نئے نظم نگاروں کے ہاںدیکھا جا سکتا ہے۔
٭”ہاں تو مےں یہ کہہ رہا تھا مرے اجداد نے ورثے مےں مجھ کو ڈر دیا ہیگزرتے پل کو ڈر اور آنے والے کل کا ڈرخدا کا ڈر خدا کے ضابطوں کے چھوٹنے اور رابطوں کے ٹوٹنے کا ڈرتوا تر نے مری پشتوں کی پشتوں سے اُبلتے دودھ مےں یہ ڈر ملایا ہے(یہ ڈر اب کس طرح جائے یہ ڈر اب جا نہےں سکتا)مرے بیٹے نے کل مجھ کو جگا کر جب کہا بّپا!تم آنکھےں کھول کر سونا،مجھے ڈر لگ رہا ہیتو مےں اُس وقت بیٹے سے زیادہ ڈر گیا تھا“ ڈر۔جان عالم
٭”جیسے کوزے پہ جھک کرکبھی روشنی کی مرصع صراحی نیدو گھونٹ امرت انڈیلا نہیں جیسے کوزہ نہیں جانتااک جھرینوکِ سوزن سی پتلی لکیر اُس کے پیندے پہ ہیکیسے محفوظ رکھے گا پانیجو اندھے کنویں سیہوا کھانستی ٹونٹیوںبے نمو گھاٹیوں سیچٹانوں کی باریک درزوںتڑختی زمیں کی دراڑوں سیقطرہ بہ قطرہ اکٹھا ہواجیسے کوزہ نہیں جانتاآبِ زرمنبعءنور سیاک تسلسل کے عالم میں بوندوں کی صورتٹپکتا ہیتر کرتا رہتا ہیپیاسوں کے لب پَربجھاتا نہیں ایک دم تشنگیایک میقات ہوتی ہے کوزے کیبھرنے کے، رسنے کے مابیناک رات ہوتی ہے!“جیسے کوزہ نہیں جانتا۔رفیق سندیلوی
٭”مجھے اب یقیں ہو چلا ہے میں خلقت سے پیچھے کہیں رہ گیا ہوںاور اب مَیںزمانے کے قدموں سے اپنے قدم کو ملانے کی کوشش میں تھک بھی چکا ہوںجہاں بھیڑ میںلوگ بہتے چلے جا رہے ہیںوہاں پرسڑک کے اُس اگلے کنارے پہ رُک کرفلک پر رواںبادلوں سے الجھتیکئی خواب بُنتی نظرکے تماشے میں مشغول ہوں مَیںگزرتے ہوئے وقت کی دھول ہوں مَیں۔“
وقت کی دھول ہوں۔فیصل ہاشمی(ناروے)
٭”دعا کو ہاتھ اٹھاؤں تَو دل لرزتا ہیرگوں میں دوڑتی وحشت بھی کانپ اٹھتی ہےیہ مرحلہ جو محبت میں ہے مجھے درپیشاک ابتلا ہے اور اِس کا بیان سہل نہیںبس اک خدا ہی مرا چارہ ساز ہے لیکنخدا سے کیسے کہوں بات ہی کچھ ایسی ہیوہ حسن جس کے تقدس سے شرمسار تھا عشقاب اُس کی آنچ مرے دل کو گُد گُداتی ہیبدن سے آتی ہے بوئے گناہ ِ نا کردہاک آگ سی مرے سینے میں لہلہاتی ہیمجھے خود اپنے خیالوں سے خوف آتا ہیخود اپنے ڈر سے مری سانس پھول جاتی ہیبس ایک بار دھڑکتا ہے بے طرح مرا دلاور اس کے بعد مری نبض ڈوب جاتی ہیگناہ کر نہیں سکتا، گناہ سوچتا ہُوںمیں کیا کروں مری اوقات ہی کچھ ایسی ہیدعا کو ہاتھ اٹھاؤں تَو دل لرزتا ہیخدا سے کیسے کہوں ،بات ہی کچھ ایسی ہے“Guilty Love۔احمد حسین مجاہد
بعض نظم نگاروں نے ”نظم“کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے اور اپنے اپنے اندا زسے اسے دیکھنے اور دکھانے کی کاوش کی ہے۔یہاں ایسی دو نظمیں پیش کر رہا ہوں۔عامر سہیل کی نظم سے ترقی پسند زاویے سے نظم کا انقلابی تعارف ہوتا ہے توانور زاہدی کی نظم سے داخلی کیفیات کی پھوار میںجھلمل کرتی نظم سامنے آتی ہیں۔دونوں نظمیں اپنی اپنی جگہ ایک خوبصورت تعارفیہ بن گئی ہیں۔
٭”کلیشے توڑتی ہینظم شیشے توڑتی ہیپتھروں میں ہست کی پیوند کاریحاسدوںکی آنکھ سے گہری کٹاریکانچ کے بے داغ فرشوں پرجواہر پھوڑتی ہینیلگوں غصہ ہے جارییہ بدیسی عورتوں کے جسم سے بڑھ کر کنواریاک گلابی اور آبی بے حجابیہفت خوابی انگلیوں سے بُن رہی ہے دل کی لابیجس میں بھوری کہکشائیںوہ پری خانہ جہاں پوشاک سے عاری ادائیںبد لحاظی کی حکایت چھانتی ہیجو جہاں پر جس طرح کے خواب دیکھینظم خوابوں کی زبانیں جانتی ہیٹوٹے پھوٹے عہد کی گستاخ بے ترتیب سطریںخوش دلی سے جوڑتی ہیملک میں جعلی معزز اس کی باگیں موڑنے کاقصد کرتے ہیں تو زینہ چھوڑتی ہیبادشاہوں کوجھڑک دیتی ہے عامرخلق کو جھنجوڑتی ہینظم شیشہ توڑتی ہے۔“نظم ۔عامر سہیل۔
٭”اسے تحریک کہتے ہیںجو مل جائے ‘تو اک لمحہنہ ہاتھ آئے توکتنے ہی زمانے بیت جاتے ہیںکبھی بارش کا موسماور کبھی ٹھنڈی ہواکا ایک جھونکا کبھی جب شام ڈھلنے پر ستارہ آسماں کے نیلگوں آنچل پہ جل اُٹھے کبھی آنکھوں میں پانی بن کے آنسو جھلملا جائیکسی کی یاد کا ٹکڑا خیالوں میں چمک جائیتو پھر جو لفظ کاغذ پر اتر آئےںاُسی کو نظم کہتے ہیں۔“
ایک دوست کے نام نظم ۔انور زاہدی
آزاد نظم کی آمد اپنی جگہ ایک بغاوت تھی۔اس بغاوت میں اس وقت جلتی پر تیل کا کام ہوا جب فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید نے اپنی نظموں میں عورت کے حق کی جنگ شروع کر دی۔اس جنگ میں جو اسلحہ استعمال کیا گیااس کی خطرناک شدت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔لیکن جب پروین شاکرسامنے آئیں توخود خواتین کے کیمپ میں ہی کھلبلی مچ گئی۔پروین شاکر نے خیال کی بے باکی کو یکسر ترک نہیں کیا لیکن اسے ایک لفظی تہذیب سے ضرور آراستہ کر دیا۔پھر پروین شاکر کے جذبے کی نزاکت اور اظہار کی نفاست نے مل کر انہیں اپنی دونوںپیش رو شاعرات پر سبقت عطا کر دی۔پروین شاکر نے”حوّا“کو”ہوّا“ نہیں رہنے دیا،پھر سے”حوّا“بنا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں آنے والی بیشتر شاعرات نے فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید کی بجائے پروین شاکرسے انسپائریشن حاصل کی۔خواتین کی شاعری کے اس مروج و مقبول انداز کے ساتھ ساتھ ادا جعفری کی نظمیں بھی نہ صرف ادب میں اپنی جگہ بنا رہی تھیں بلکہ ان کے انداز کو کسی نہ کسی رنگ میں قبول بھی کیا جا رہا تھا۔ادا جعفری کے انداز کی نشان دہی کے طور پر یہاں ان کی ایک خوبصورت نظم پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
٭”مرے بچیمجھے جب دیکھنا چاہوتو بس اپنی طرف دیکھوتمہارے لب پہ جو حرفِ صداقت ہےیہی میں ہوںتمہارے دل میں جو نازِ جسارت ہےیہی میں ہوںنگاہوں میں جو اک طرزِ عبادت ہےیہی میں ہوںمحبت کی طرح میں بھی ہوں بے پایاںکبھی ظاہر کبھی پنہاںجہاں تم ہو وہاں تک میری خوشبو ہیوہاں میں ہوں۔“ مرے بچے۔ادا جعفری
بچے اور ماں کے مقدس رشتے کو ادا جعفری نے جس عمدگی سے پیش کیا ہے،اس روایت کو بعد کی شاعرات نے آگے بڑھایا ہے۔ادا جعفری اپنے بچے سے مخاطب ہیں تو فرحت نواز اور فاطمہ حسن اپنی نظموں میں بچوں کی طرح اپنی ماؤں کا ذکر کررہی ہیں۔دونوں نظم نگار اپنے ذاتی تجربوںاورقلبی کیفیات کو یوں بیان کرتی ہیں۔
٭”ماں کے دودھ کو پینے والیچھوٹے بچوں کے چہروں سیکتنی معصومی اور کتنا نور چھلکتا رہتا ہیایسے نور کی مجھ میں کوئی لہر نہیں ہیماں کے دودھ کا ذائقہ تک میں بھول گئی ہوںسوہنے ربا!میری ماں کو اتنا عرصہ زندہ رکھنامیں اس کو بے حد خوش کر دوںاتنا۔۔۔۔جس سے میراجنت میں جانا بھیغیر یقینی نہ رہ جائیمجھے یقیں ہیجنت کی نہروں میں ہر دَم بہنے والا دودھیقیناََ ماں کے دودھ ایسا ہی ہو گا!“ دعا۔فرحت نواز
٭”پہلی بار میں کب تکیے پر سر رکھ کر سوئی تھیاُن کے بدن کو ڈھونڈا تھااور روئی تھیدو ہاتھوں نے بھینچ لیا تھاگرم آغوش کی راحت میںکیسی گہری نیند مجھے تب آئی تھیکب دور ہوئی تھی پہلی باراپنے پیروں پر چل کربستر سے الگ،پھر گھر سے الگاک لمبے سفر پر نکلی تھیاپنی انگلی کو تھامیدھیرے دھیرے دور ہوئی کبنرم بدن کی گرمی سیاس میٹھی نیند کی راحت سیاب سوچتی ہوںاور روتی ہوں“ایک نظم ماں کے لیے۔فاطمہ حسن
جب ترقی پسند شعراءآزاد نظم کی طرف مائل ہوئے تو ترقی پسند افکار بھی جدید نظم میں آتے چلے گئے۔جمشید مسرور اور خرم خرام صدیقی کی دو نظمیں ایک انداز سے ترقی پسند نظموں ہی کی توسیع ہیں۔بلکہ دیکھا جائے تو دونوں کی پیش کردہ نظموں پر فیض کی شاعری کا اثر صاف دکھائی دیتا ہے۔تراکیب و استعارات سے لے کرنظموں کی مجموعی فضا تک فیض صاحب کا فیض دکھائی دے رہا ہے۔
٭”عکسِ محبوب مہکتا ہی چلا جاتا ہیشمع رُخسار لئے وعدۂ دلدار لئیجنتِ چشم و لبِ یا ر سے خورشید بکفجاں کی تنہائی میں قندیلِ صبا اترے گینور سے دکھ کے سیہ راستے دُھل جائیں گیریگزاروں کی جبینوں سے گھٹا اترے گیذہن سے رُوح کی ویران گزرگاہوں تکنکہت و رنگ کے گلبار دریچے آخرشوق کی دستکِ بے تاب سے کھل جائیں گیاسی امید میں شاید کوئی جھونکا آئیاورچپکے سے کوئی درز،کوئی چاک کھُلیچاندنی دل کے کواڑوں سے لگی بیٹھی ہے“ ۔
منتظر۔جمشید مسرور(ناروے)
٭”سحرکے انتظار میں تمام خواب سو گئیچراغ بجھ گئے طویل رات کے حصار میں کہیں پہ ٹمٹمائی گر کسی نظرکی روشنیمہیب آندھیوں نے اک غبار میں بدل دیاکہیں پہ جھلملائی یاد کی کوئی کرن اگرتو خامشی کے اژدہوں نے اس کو بھی نگل لیاسحر کے انتظار میں مگر یہ دل تھا پُر یقیںکہ آئے گا نظر ابھی ترے جمال کا قمرنثار ہوگا دل ترے رخِ حسیںکی تاب پرفگار ہوں گی انگلیاں بس اک نگہ کی آب پرچمک اٹھے گی تیرے لب کی احمریںشگفتگیجلے گی دل کی انجمن میں پھر سے شمعِ وصالسحر تو آگئی یقیں کی روشنی چلی گئیبہم تو ہم ہوئے مگر وہ دلکشی چلی گئی“۔
سحر کے انتظار میں ۔۔۔خرم خرام صدیقی
بعض نظم نگاروں کی ترقی پسند مزاج سے ملتی جلتی نظمیں سچ اور جھوٹ کو الگ الگ کرتے دکھائی دیتی ہیں۔کاوش عباسی،واحد سراج اورشاہین مفتی نے اپنی نظموں میں ترقی پسند روایت سے تعلق کے باوجود اپنے داخلی تجربات کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔
٭”وہ بھی جھوٹ تھاتو پھر اس کو چھوڑودوسرے جھوٹ سے ہاتھ ملاؤجو پہلے جھوٹ سے کچھ تو زیادہ مہذب‘کچھ تو زیادہ انسانی ہیاپنے کتنے ٹکڑے کرواؤگے خود کو کتنا کھبواؤگیزہر تو زہر ہے تمہارا وجودی مادہ اس میں ضم نہیں ہوگااپنے مہر کو ‘اپنے سبھاؤ کواپنے وجود کو کتنا گھٹاؤ گیکتنا نظر انداز کرو گے،کتنا نظر انداز کراؤگیدوسرے جھوٹ سے ہاتھ ملاؤلیکن یاد رکھواس میں بھی کھب نہیں جانااُس کو خود میں کھبو نہیں لیناپہلے جھوٹ کو چھوڑودوسرے جھوٹ کو گلے لگاؤاُس سے کھیلولیکن جھوٹ کو جھوٹ ہی سمجھواُس کو اپنا سچ نہ بتاؤ“۔
وہ بھی جھوٹ تھا۔کاوش عباسی(سعودی عرب)
٭”تمام الفاظ سر بریدہتمام جذبے بدن دریدہجو سچ تھا وہ سامنے نہیں تھاجو سامنے تھا،وہ سچ نہیں تھاسراب نیرنگ واہمے تھیعجب روایت تھی اُس نگر کیجو سچ تھا وہ بولتے نہیں تھیجو بولتے تھے وہ سچ نہیں تھااور ایک ہم تھیکہ صبح ِ کاذب کے ملگجے کوسحر سمجھ کر دیے بجھانے نکل پڑے تھیبجھے دیے نے جو غم کی کالک سیجھوٹ کی داستان لکھیکسے سنائیں؟ہم ایک ہونی سے ڈر رہے تھیوہ رُو بہ خورشید ریت تھیجس کو زر سمجھ کرہم اپنے دامن میں بھر رہے تھیجو اپنی کم مائیگی پہ نادم تھیاپنی بے مائیگی پہ نادم تھیاپنی بے مائیگی کا قصہکسے سنائیںکسے سنائیں؟“ کسے سنائیں۔واحد سراج(ایبٹ آباد)
٭”جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ہیںپھر بھی ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں اسیکیا خبر کون سے رستے پہ کہاںوہ سمندر کے کنارے پہ ملیسرخ بتی کے اشارے پہ ملےیا کسی اور ستارے پہ ملیبند کمرے میں چھپا بیٹھا ہوسبز وعدوں کی کماندار پناہوں میں کہیںسلسلہ وارسوالوں کی نگاہوں میں کہیںیہ بھی ممکن ہے کہ زینے کے تلیملگجی شام کو پہلو میں لییبند ہوتے ہوئے کھلتے ہوئے دروازے میںہم سے ٹکرا کے گزر جائے کہیںاس ملاقات کی صورت کیا ہواس ستم گر کی شباہت کیا ہواس کی پوشاک کی رنگت کیا ہواُس پہ پھر رنگِ طبیعت کیا ہواس مدارا کی قیمت کیا ہوجھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ہیں“جھوٹ کے پاؤں۔شاہین مفتی
یہاں یہ نشان دہی کرنا ضروری ہے کہ جدید عہد کی تمام حیرت انگیز ایجادات سے ہم سب مستفیض ہو رہے ہیں۔خصوصاََ گلوبل ولیج کی جو صورت سامنے آئی ہے اس کی برق رفتاری سے لطف اندوز تو ہو رہے ہیں لیکن ان کے پس پشت جو اسرارہیں،ہم انہیں دیکھنے کی طرف مائل نہیں ہو سکے۔ہمارے نظم نگار سامنے کی حیرتوں کو بھی نظموں میں کسی روپ میں نہیں لا سکے۔البتہ وسیع تر کائنات کے اسرار و رموزپر اپنے اپنے انداز میں غور و فکر کا سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری ہے۔مختلف نظم نگار اپنے اپنے فکری ظرف کے مطابق ان پر خامہ فرسائی کر رہے ہیں۔
نصیر احمد ناصرجدید نظم کے ایک اہم شاعر ہیں،انہوں نے اپنی نظم میں کائناتی وسعتوں سے ہوتے ہوئے آج کے ایسے کرداروں کی نشان دہی کی ہے جو کسی بلیک ہول کی طرح اپنی ہی اناخود پرستی کی کشش میں بند پڑے رہتے ہیں۔
٭”مجھے تم دور لگتے ہوافق کی آخری قوسوں کے بیچوں بیچاک موہوم سے فلکی جسیمے کی طرحخاموش اور تاریکاپنی ہی کشش کے دائمی قیدیکسی بھی دوسرے ذی روح کے احساس سے عاریبہت بھاری!“سنو،بلیک ہول آدمی!۔نصیر احمد ناصر
اختر رضا سلیمی نے مہاتما بدھ ہونے کا دعویٰ کیے بغیرگوتم بدھ کے ایک بھکشوکے ذریعے کائنات کو پانچویں بُعد سے دیکھنے کی بات کی ہے۔جستجو اور انکشاف کے کسی درمیانی پڑاؤ میں لکھی گئی نظم ملاحظہ کریں۔
٭”ہم اب تک اسے چارابعاد سے دیکھتے اور پرکھتے رہیمگرایک بھکشو نے کل رات مژدہ سُنایا کہ یہ کائنات طویل و عریض و عمیق و قدیمپانچویں بُعدسے دیکھے جانے کی حق دار ہیاور وہ پانچواں بُعد دُکھ ہیمحبت کا دُکھازل سے جسے بُعد ہی راس ہیاسی بُعدنے قُربتوں کو مٹاکے ہمارے لیے حُسن کیدل کشی کو بڑھایایہ ہر آن بڑھتی ہوئی حسن کی دل کشی، زندگی کیعلامت ہے یہ ہجر سب کی بقا کی ضمانت ہیوصل اک قیامت ہیسو قبل اس کے کہ پھر وصل آغاز ہوہم اسے پانچویں بُعد کی معرفت سے سمجھنے کی کوشش کریںعین ممکن ہے الجھی ہوئی ڈوریاں خودسلجھنے لگیں“ پانچواں بُعد۔اختر رضا سلیمی
ابرار احمد کی نظم معرفتِ ذات کو ایک المیہ کی صورت میں بیان کر رہی ہے۔
٭”جوسر میں بھر گئے ہیںانگلیوں میں سرسراتیانکھ میں کانٹے اُگاتے ہیںانہی لفظوں سے لکھ دیکھوبیاں ممکن نہیں ہے اس کاجو تم جھیلتے ہوکہ پہلی آنکھ کھل جانے سیلمبی تان کر سونے کا عرصہ بوجھ ہوتا ہیسو کندھے ٹوٹتے،ٹخنے تڑختے ہیںدُکھن ہوتی ہیبوجھل پن میںگدلی گونج چکراتی ہیبرتن ٹوٹتے،بجتے ہیںبجتے،ٹوٹتے رہے ہیںآنگن میں ،رسوئی میںکوئی صورت بدلتی دھند سی ہیگھاس کے تختوں پہکیچڑ سے بھری راہوں میںچکنے فرش پردن کی سفیدی میںسنہری خواب کے لہراتے اندر میںتمہاری ہی طرح کے لوگبالوں سے پکڑ کر کھینچتے ہیںراستوں پربے حیائی سیبہت تذلیل کرتے ہیںکوئی ملبوس ہوکوئی قرینہ ہواُدھڑ جاتا ہے آخر کوکناروں پر ہے خاموشیچھدی تاریکیاں ہیںکیا کرن کوئی تمہاری ہے؟کوئی آنسو،کوئی تارہتمہیں رستہ دکھائے گا؟کوئی سورج تمہارے نام سے چمکے گا آخر کو؟حقیقت تھی سوالِ اوّلیں اور بساور کے بعد یہ کیا ہے؟فقط خفت ہیننگی بے حیائی ہے،ڈھٹائی ہیجئے جاؤ ندامت میں مگر لکھتے رہودیوار سے سر مار کرکہ عظمت خبط ہیاک واہمہ ہےیہ لہو کی رقص کرتی گنگناہٹ بھیکہ دانائی بھی اک بکواس ہیاواز بھی،چُپ بھییہاں ہونا نہ ہونا بھیوہی قصہ پرانا ہیتو پھر لکھتے رہو بیکار میں بے گار میںلکھتے رہوکیا فرق پڑتا ہے!“
بیاں ممکن نہیں ہے۔ابراراحمد
جب زندگی بھر کا کیا کرایا بے معنی لگنے لگے،تو بے شک یہ معرفت اور گیان کی ایک صورت ہے لیکن یہ ایک مہا المیہ بھی ہے ۔اگر بے معنویت کا احساس قلب و نظر میں عرفان میں ڈوبی ہوئی مسکراہٹ پیداکر دے تو تمام تر بے معنویت کے باوجودزندگی کا سفر کامیاب رہتا ہے۔لیکن جب گیان کی حیرت آمیز مسکراہٹ کی بجائے نام آوری کے شوق کے نتیجہ میں تذلیل،آنسو اور ندامت مقدر بنیں تو دراصل یہ زندگی کی دوڑ میں اپنی شکست کو تسلیم کرنے کا اعلان بن جاتا ہے۔کیفیات کا مفہوم کوئی بھی رہا ہو،اس میں شک نہیں کہ ابرار احمد نے ایسے مضمون کو باندھتے وقت بھی ایک خوبصورت نظم تخلیق کر دی ہے۔ہاں یہاں مجھے نظم کے اختتام تک آتے آتے ”وہی قصہ پرانا ہے“کی لائن پڑھتے ہی فلم ”تیسری قسم“میں مکیش کا گایا ہوا ایک پرانا گانا یاد آگیا۔”سجن رے جھوٹ مت بولو،خدا کے پاس جانا ہے ۔“اس گیت کا ایک بند یوں ہے ۔
”لڑکپن کھیل میں کھویاجوانی نیند بھر سویابڑھاپا دیکھ کر رویاوہی قصہ پرانا ہے“۔
اب ابرار احمد اپنے بڑھاپے میںوہی پرانا قصہ یاد کررہے ہیںدہرا رہے ہیں تو اچھی بات ہے۔
جدید نظم کے اکیسویں صدی کے ایک اہم رجحان پر بات کرنے سے پہلے نظم کی دنیا کے ایک منفی طرزِ عمل کی نشان دہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ستیہ پال آنندجدیداردونظم کے ایک اہم شاعر بنتے بنتے رہ گئے ہیں۔امریکہ اور کینیڈا میں طویل عرصہ سے مقیم ہونے کے باعث انہیں اب مغربی دنیا میں اردو کا اہم رائٹر شمار کیا جاتا ہے۔نظم کا شاعر ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی نظم پر پوری توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپنی توانائی کا بڑا حصہ اردو غزل کے خلاف لکھنے اور بولنے میں ضائع کر دیا ہے۔مزید ستم یہ ہوا ہے کہ ان کی اپنی نظمیں اردو غزل کے مضامین سے استفادہ کرتے ہوئے تشکیل پاتی ہیں۔عام طور پر ایسی کسی قباحت کے سامنے آنے پر اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا ایک دو بار ہی کیا جانا چاہیے۔اگر غزل کے مضامین سے کثرت سے استفادہ بھی کیا جا رہا ہو اور غزل کو اردو بدر کرنے پر زور بھی دیا جا رہا ہوتوبات کچھ اچھی نہیں لگتی۔یہاں ستیہ پال آنند کی نظموں میں غزل کے مضامین سے استفادہ کی چند مثالیں پیش کر کے اس بات کو ختم کرتا ہوں۔
٭”نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی،اے مرگابھی سراپا عمل ہوں،مجھے ہیں کام بہتابھی تو میری رگوں میں ہے تیزگام لہوابھی تو معرکہ آرا ہوں،برسرِپیکاریہ ذوق و شوق،یہ تاب و تواں،یہ بے چینی ابھی تو میرے تمتع پہ منحصر ہے یہ جنگنہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی،اے مرگیہ رزمیہ جو مِری زیست کا مقدر ہےیہ حرف حرف تحارب،یہ لفظ لفظ جہادمِرا یہ نعرۂ تکبیر، صف شکن”رَن بیر“اسے تو ظلم و تشدد کی جڑکو کاٹنا ہیاسے تو زشت خو دشمن سے جنگ جیتنی ہینہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی،اے مرگکہ اب یہ لفظ مِرے گل نہیں ہیں،کانٹے ہیںمجھے پرونا نہیں کتخداؤں کے سہریمجھے سجانا نہیں باکرہ بتولوں کومجھے تو تیغ زن غازی کی طرح لڑنا ہیمری قضا، مجھے کچھ وقت دے کہ مجھ کو ابھیجہاں کے فرضِ کفایہ کو پورا کرنا ہے“
(ستیہ پال آنند کی نظم”نہیں،نہیں مجھے جانا نہیں ابھی“مطبوعہ ماہنامہ شاعر بمبئی شمارہ اپریل ۲۰۱۲)
اس نظم کی پہلی تین لائنوں کو غور سے پڑھ لیں اور پھر مرزا اسداللہ خاں غالب کا یہ شعر ملاحظہ کریں۔اورنظم میں غزل کے شعر سے استفادہ کا کمال دیکھ لیں۔
خوں ہوکے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں،اے مرگ!
رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے
نظم کا مجموعی خیال یہ ہے کہ نظم نگار موت سے کچھ عرصہ کے لیے زندگی کی مہلت مانگ رہا ہے۔یہ مضمون اردو غزل میں سو رنگ سے باندھا جا چکا ہے۔چند مثالیں پیش کر رہا ہوں۔
اے اجل ذرا ٹھہرجا،میں کچھ اور دیر جی لوں
ابھی تلخیاں ہیںباقی،انہیں کر تو لوں گوارا
(دانش پیرزادہ)
اے اجل بہرِ خدا اور ٹھہر جا دَم بھر
ہچکیاں آئی ہیں،شاید میں اُسے یاد آیا
(میر مونس)
اجل ٹھہر کہ ابھی تیرے ساتھ چلتا ہوں
مگر یہ دیکھ ابھی میرے روبرو ہیں حضور
(بیکل اتساہی)
یہ ایک نظم میں غزل کے دو دو مضامین سے استفادہ کرکے انہیں ملا کر نظم گھڑنے کافارمولہ ہے جسے ستیہ پال آنند کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں۔ایک اور نظم میں یہی طریق کار دیکھنے کے لیے پہلے ان کی ایک اور نظم ملاحظہ کریں۔
٭”اپنی زنجیر کی لمبائی تک:کچھ برس پہلے تک(پوری طرح یاد نہیں)میں بھی آزاد تھا،خود اپنا خدا تھا مجھ میںقوت کار بھی تھی،جراتِ اظہار بھی تھی گرمیٔ فعل و عمل،طاقتِ گفتار بھی تھیمیں کہ خود اپنا مسیحا تھا،خود اپنا مالک،کچھ برس پہلے تک(پوری طرح یاد نہیں)اب مجھے حکم عدولی کا کوئی شوق نہیںبے زباں طاقتِ گویائی سے محروم ہے اب،ماسوا اس کے کہ شکراََ کہے خاموش رہیاب مجھے گالیاں سننا بھی گوارا ہے کہ میں حرفِ دشنام ہو یا حرفِ پذیرائی ہوفرق لہجے کا، سمجھ سکتا ہوں الفاظ سبھی سرزنش کے ہوں یا تعریف کے۔مالک کی زباںجو بھی ارشاد کرے میرے لیے واجب ہیہاں مجھے دیکھنے چپ رہنے کی آزادی ہیاور میں گھوم کر کچھ دور تک چل سکتا ہوںاپنی زنجیر کی لمبائی تک آزاد ہوں میں!“(نظم مطبوعہ ماہنامہ پرواز لندن۔جنوری ۲۰۰۶ء)
جبرواختیار کا مسئلہ اردو غزل کا مرغوب مضمون ہے جو فارسی غزل کی روایت سے چلا آتا ہے۔یگانہ چنگیزی نے اس مضمون کو اپنی ایک رباعی میںیوں باندھا ہے۔
ہوں صید کبھی ، اور کبھی صیاد ہوں میں کچھ بھی نہیں بازیچۂ اضداد ہوں میں
مختار۔۔ ۔۔مگر اپنی حدوں میں محدود ہاں وسعتِ زنجیر تک آزاد ہوں میں
جبر و اختیار کے قدیم موضوع کویگانہ نے”وسعتِ زنجیر تک آزادی“سے تعبیر کیا تو ستیہ پال آنند نے اسی ترکیب کو”دسعتِ زنجیر کی لمبائی تک“کر لیا۔باقی نظم کے آغاز میں جواپنا خدا آپ ہونے کا بول بولنے کی کوشش کی ہے،یہ بھی یگانہ چنگیزی سے ہی مستعار لیا ہوا خیال ہے۔یگانہ کا بہت ہی مشہور شعر ہے۔
خودی کا نشہ چڑھا،آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
غزل کو برا بھلا کہتے ہوئے اور غزل کی مذمت کرتے ہوئے غزل ہی کے مضامین سے چپکے چپکے استفادہ کرنے کی عادت نے ستیہ پال آنند کو ایک اچھا نظم نگاربننے سے محروم کر دیا۔یہ اردو نظم کی دنیا کا ایک المیہ ہے۔
اور اب اکیسویں صدی میں جدید اردو نظم کے ایک اہم رجحان کی بات۔۔ ۔ امریکہ میںنائن الیون کے سانحہ کے بعد جو کچھ ہوا اور ابھی تک جو کچھ ہوتا چلا جارہا ہے،وہ ہم سب کے سامنے ہے۔اس حوالے سے اردو نظم میں کافی کچھ لکھا گیا ہے۔اس المیہ اور کرب کو نظم نگاروں نے اپنے اپنے انداز سے دیکھا،سوچا اور لکھا ہے۔تاہم اکیسویں صدی کی نظموں کے ذکر سے پہلے میں وزیر آغا کی مشہورطویل نظم”اک کتھا انوکھی“کا ذکر کرنا چاہوں گا۔۱۹۹۰ءمیں کتابی صورت میں شائع ہونے والی اس نظم میں ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑے واضح سیاسی و سماجی اشارے دئیے ہیں۔تیل کی دولت سے مالامال عرب ملکوں کی صورتِ حال،آئرن ایج،کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعے اعدادکی الفاظ پر بالا دستی،آندھی کی طرح چھا جانے والی کمپیوٹر کی دنیا اور اس میں الجھ کر رہ جانے والوں کی بے آرامی،تیز رفتار کااندھی رفتار میں بدل جانا،انسانی احتجاج کی ہیبت ناکی اور بے معنویت ایک ساتھ، ۔۔۔۔اس نظم کے تین مختلف لیکن متعلقہ اقتباس یہاں پیش کر رہا ہوں۔
٭”آنکھیں کھول کے باہر آاور دیکھ کہ گلیاں سب اُجڑی ہیںگلشن بے آباد ہیں سارے ریت کے دھارے!ریت کے دھارے،تیل کے دھارے بن کراُبل پڑے ہیںلوہا جیسے جاگ اُٹھا ہیچہک رہا ہیچاروں جانب کُوک رہا ہیتتلی،بھونرا،کوئل،چڑیاسب لوہا ہے لوہے کے پَراُگ آئے ہیں!۔۔۔۔۔دھرتی جننا بھول گئی تھیلوہا،سر پر اک فولادی تاج رکھے اس دھرتی کا سرتاج ہوا تھاوہ دن اور پھر آج کا دناس دھرتی پر نہ رات آئینہ دن نکلانہ شام ہوئی ہیایک مسلسل آندھی بے آرام ہوئی ہیوقت نے اُٹھ کر اک اندھی رفتار سے خود کو لیس کیا ہے بجلی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھا ہے!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سونے والے!جب دھرتی پر آوازوںکا شور اُٹھا تھا اور فولاد کا راج ہوا تھاانساں ساریلوہے کے روبوٹ بنے تھیبے چہرہ بے نام ہوئے تھیکالے،پیلے ہندسے بن کرلفظوں کے انکھووں پر جیسے ٹوٹ پڑے تھیاک اک ”لفظ“پہ ثبت ہوئے تھیاور اب ہندسے ہی ہندسے ہیںجمع کرو۔۔تودُگنے تگنے ہوجاتے ہیں لاکھوں کا اک لشکر بن کرآگ اور خون کے کھیل کا منظردکھلاتے ہیںضرب لگے توبھنور سا بن کر تیز ہوا کا،پاگل بھوتوں کیوحشی گرداب کی صورت ایک ہی پل میںدھرتی اور آکاش سے اونچے اُٹھ جاتے ہیںکرو اگر تفریق صفر ہو جاتے ہیں!“۔۔
اقتباس از طویل نظم: اک کتھا انوکھی۔وزیر آغا
بیسویں صدی کی آخری دہائی میں وزیر آغا کی اس نظم میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا نائن الیون کے سانحہ کے بعد وہ کھل کر سامنے آچکے ہیں اوراب ہمارے دوسرے لکھنے والوں کی طرح نظم نگار بھی اپنے اپنے انداز سے اس صورتِ حال پراپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ چونکہ یہ سانحہ امریکہ میں رونما ہوا تھا،اس لیے امریکہ کے اردو نظم نگارفیصل عظیم کے ہاں اس کے اثرات سب سے پہلے دیکھتے ہیں۔
٭”عمارت کیا گری!محسوس ہوتا ہے،کہ اپنے گھر کے بھی دیوار و در ٹوٹیہمارے سر پہ گویا چھت نہیں باقیکھڑے ہیں بے سر و سامان ، بے سایہ”کسی“ کا سانحہ”ہم “ کو بلا کی دھوپ میں لایاکبھی تو پاؤں جلتے تھیمگر اب سر بھی زد پر ہیںیہ سمجھیں جیسے اب ہم سب فنا ہونے کی حد پر ہیںعمارت کیا گری !ہم لوگ میلوں دور بھی پتھرا گئے جیسیہم اس کے ٹوٹتے ملبے کے نیچے آگئے جیسیوہ پتھر ، اینٹ اور گارا تو آخر ہٹ ہی جائے گامگر ہم پر گرا جو، کون ”وہ“ ملبہ ہٹائے گا؟ہمارے ساتھ ہے تہذیب اور تاریخ بھی شاید!سنائی دی ہے ہم کو دین ِحق کی چیخ بھی شاید!صدا زخمی سہی لیکن غنیمت ہے، صدا تو ہے!ہمیں خود احتسابی کا کوئی موقع ملا تو ہے!“
ورلڈٹریڈسینٹر کا ملبہ۔فیصل عظیم(امریکہ)
امریکہ کے ردِ عمل نے افغانستان اور عراق سے ہوتے ہوئے تقریباََ ساری مسلم ورلڈ کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔جب چاہتا ہے کسی بھی ملک کا نام لے کر،کوئی الزام دیتا ہے اور پھر اس پر چڑھ دوڑتا ہے۔فیصل عظیم کے دکھ کو پاکستان میں بیٹھے عامر سہیل نے اپنے دکھ کی صورت میں کچھ یوں دیکھا۔
٭”رات کے سرخ کاسے میں خرطوم ہیانسوؤں کے دلاسے میں خرطوم ہیمعجزہ ہے حلب تیری رفتار میںکوئی چنتا ہے ہونٹوں کی دیوار میںزرد پانی کا پنجہ ہے تشہیر میںآگ کو روتے دیکھا ہے کشمیر میںمیں نے تہران سے پوچھنا ہے میاںگردنوںسے سنہری تری سردیاںدشت اور شہرِ بابل کے رقعے پڑھوآؤ اور چِرتے کابل کے کُرتے پڑھومیں نے سینوں پہ کاڑھے ہیں مندر تریہند دے مجھ کو کاندھے سمندر تریپنجگور اور ہنزہ ندی پھیر دیپاک لاشوں سے تھی جو صدی پھیر دیجو کراچی کی گلیوں میں چلتا نہیںاس کی ایڑی سے چشمہ ابلتا نہیںشہ سوار آلِ ہاشم ترا خون ہیںشام میں میرے ابدال مدفون ہیںجب فلک بوس مینار تک ڈھے گئیمجھ سے بصرہ نے پوچھا کہاں رہ گئیدلربا نیل کی بے کسی چوم لوںتیری دوشیزہ رُت میں ذرا گھوم لوںاے فلسطیں تجھے معبدوں کی اماںمیں اندھیرے میں سنتا ہوں تیری اذاںدیویاں،دیوتا اپنی تسکین کوچور نظروں سے دیکھیں اباسین کوعشق حسان کا،درد بولان کاپشت پر قہقہہ سرخ طوفان کاجو بھی عشاق زادہ ہے اس دور کاتذکروں میں لکھے حسن لاہور کاگوئٹے! کوئٹے کی پلک سرمگیںتیرے بچوں،دریچوں،لبوں سے حسیںموت کا کانچ درّوں سے میں چن سکوںزندگی کی ہنسی دور سے سن سکوں“عہد آشوب۔عامر سہیل
عالمی سطح پر اس المیہ کے دردناک اثرات ابھی تک رونما ہورہے ہیں۔پاکستان کے اندر خود کش دھماکوں کی بلا آچکی ہے۔فرقہ پرست اوردہشت گرد تنظیموں کی ملی بھگت سے پورا ملک لہولہان ہو رہا ہے۔ایوب خاور ایک افغان بچے کے جذبات کو ایک سوالیہ نظم کی صورت بیان کرتے ہیں۔تو اقبال نوید اس ساری صورت حال پر اپنی بے بسی کا نوحہ لکھتے ہیں۔جنت کی بشارت کو اپنے آنکھوں میں سجائے ہوئے خود کش حملہ آوروںنے دہشت گردی کی انتہا کر دی تواختر رضاسلیمی کی معجزے کی امید دم توڑ گئی۔ ارشد خالد دہشت گردوں کے جنت گھروں کی حقیقت کو بچپن کے ایک کھیل سے تشبیہ دیتے ہیں۔یہ سب ان کی ذیل کی نظموں میں دیکھئے۔
٭”اے امریکا!مرے حصّے کے بسکٹ بم دھماکوں کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہوگئے ہیںبھوک، آتش گیر مادے کی طرحسینے سے معدے تک بھڑکتی پھر رہی ہیحلق میں گریہ کی ڈلیاں ہیںجو نگلی جارہی ہیں اور نہ اُگلی جارہی ہیںاِس طرف دیکھو…. اِدھر….میرے اُدھڑتے پیروں کے تلوﺅں سیبے آب و گیہ دھرتی پہ برسوں سے برسنے والیبارودی تھکن لپٹی ہوئی ہیاور سر پر لو ہے کی چیلیں مسلسل اُڑ رہی ہیںپیٹ خالی ہیاے امریکا!مرے دامن میں میری بانجھ دھرتی کی یہ مٹی اور ہاتھوں میں یہ میزائل کے ٹکڑے ہیںتُم اس مٹی اور اِن ٹکڑوں کے بدلے میںمجھے کھانے کو کیا دو گے؟“ایک افغان بچّے کا سوال۔ایوب خاور
٭”ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا اوربارود کی دھڑکنوں کے سہارے جئیخود کو نفرت کے چشموں سے سیراب کرتے رہیایک شعلہ بنیتاکہ آرامگاہوں میں پلتے ہوئیبے حسوں کی حفاظت رہیخواب گاہوں میں پردے لٹکتے رہیںرقص جاری رہیتاکہ محلوں کے آقا کے دربار میںایک تالی سے سب کچھ بدلتا رہیجتنے ایوان ہیںدوسروں کے اشاروں کی تعظیم میںسر ہلاتے رہیںہم نے دل سے محبت کو رخصت کیاایک شعلہ بنیتاکہ بیٹوں کے لاشے تڑپتے رہیںبین کرتی ہوئی بیٹیوں سے پریاپنے کشکول ہاتھوں سے لکھے ہوئیعہد ناموں کی تحریر پڑھتے رہیںہم سے بہتر تھے وہجن کے ٹکڑے ہوئیجو جنازوں کی صورت اٹھائے گئیایک بیکار آنسو کی صورت گریہم وہ تلوار تھے جو عجائب گھروں کے لئے رہ گئیایسی بندوق تھیجس کو مفلوج ہاتھوں میں سونپا گیا“
ایک بے کار آنسو کی صورت گرے۔اقبال نوید (برطانیہ)
٭”مرا موسٰی کہیں پیغمبری لینے گیا تھاآگ لے کر آ گیا ہیادھر آبادی پر پیغمبری وقت آ پڑا ہیمری بستی کے سارے آدمی جادو گروں کے سحر میں ہیں انہیں اب رسیاں بھی سانپ دکھتی ہیںچنانچہ سر بہ سجدہ ہیںمرا ہارون کوہ خامشی پر چلہ کش ہیاور اس پر مصلحت کی وحی نازل ہو رہی ہے بس اک لاٹھی مرا واحد سہارا تھی مگر وہ بھی بجائے اژدھا بننے کے ان شعلوں کا ایندھن بن گئی ہیجو موسیٰ ساتھ لایا ہیتری لاٹھیوہ بے آواز لاٹھی اب کہاں ہیکیا بشارت کے زمانے جا چکے ہیں؟“ کیا بشارت کے زمانے جا چکے ہیں۔اختر رضا سلیمی
٭”ہم اپنے بچپنے میں ساحل دریا پہ جاکے پیروں کو بھر کیریت کے کچھ خوشنما سے گھر بناتے تھیپھر اپنے پھول ہاتھوںسیانہےں مسمار کر تے تھےیہ لگتا ہے بڑے ہو کر بھی ہم اب تک۔۔۔ ابھی تک بچپنے میں ہیںکہ اپنی خواہشوں کی جنتیں پانے کی خاطرنیکیوں کے نام پر جنت کے گھر تعمیر کرتے ہےںپھر ان جنت گھروں کو خود جہنم زار کرتے ہیںہراپنی خوشنما تعمیر اپنے ہاتھ سے مسمار کرتے ہےںفقط نادانیوں سے پیار کرتے ہےں“۔جنّت کے گھر۔ارشد خالد
نائن الیون کے سانحہ کے بعد جو ردِ عمل مختلف اطراف سے سامنے آرہا ہے،اس میں دہشت گردوں کی طرف سے پولیو کے حفاظتی ٹیکے لگانے والوں کے خلاف دہشت گرد کاروائیاںبھی شامل ہےں۔پاکستان میں ان مذہبی انتہا پسندوں نے پولیو کے ٹیکے لگانا حرام قرار دے رکھا ہے۔اس کے نتیجہ میں متعدد پولیو ہیلتھ ورکرز کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔اس وحشیانہ طرزِ عمل کے خلاف محمود احمد قاضی اور احفاظ الرحمن کی دو نظمیں ان کی طرف سے جوابی مزاحمت کہی جانی چاہیے۔
٭”یہ مملکتِ خدا داد ہیالحمد للہکہ ہم اس کے باسی ہیںصد شکر کہ یہاں مرنے کے لییپولیو ہیلتھ ورکر ہونا ہی کافی ہے“ سہولت۔محمود احمد قاضی
٭”محبت کی ہتھیلی رنگ سے خالی نہ ہونے دومحبت کم نہ ہونے دو،زمیں کو سانس لینے دوزمیں پر جینے والوں کو مہکتے خواب لکھنے دومہکتے خواب کی تعبیر کا عنوان لکھنے دومحبت کم نہ ہونے دومحبت تتلیوں کی گفتگو میں رقص کرتی ہیپرندوں کے حسیں نغموں کی دُھن میں رقص کرتی ہیہوا کے ساتھ لہراتی ہوئی پرواز کرتی ہیفضا میں میٹھی خوشبو کی مہک کو کم نہ ہونے دومحبت کم نہ ہونے دو۔۔۔۔محبت کم نہ ہونے دوجو نفرت بیچتے ہیںخون کا بیوپار کرتے ہیںخوشی کی کوکھ پر خنجر سے کیسے وار کرتے ہیںلرزتی آرزوؤں کو ڈرا کر شاد ہوتے ہیںوہ نازک تتلیوں کے خواب سیزیر و زبر ہوں گیپرندوں کی حسیں چہکار سیزیرو زبر ہوں گیپرندوں کے حسیں نغموں پہنازک تتلیوں کو رقص کرنے دومحبت کم نہ ہونے دومحبت کم نہ ہونے دو“
محبت کم نہ ہونے دو۔احفاظ الرحمن(پولیو کے قطرے پلانے والی لڑکیوں کے نام)
پاکستان میں دہشت گردوں کی کاروائیاں حد سے بڑھ گئیں تو فاطمہ حسن اور فرحت نواز نے ماؤں کی حیثیت سے اپنے کرب اور احتجاج کو یوں درج کرایا۔
٭”ہم نہیں جنم دیں گے وہ بچیجنگ کا ایندھن جو بنتے ہیںاور ساری عمر رُلاتے ہیںہم ماؤں کو ہم جنم نہیں دیں گے وہ لڑکیایسے بہادرایسے مرنے مارنے والیجن کی قوت دنیا کی تسخیر کریاور نرم دلوں کو دہلادیہم خود کو بنجر کرلیں گیاس دھرتی کے بنجر ہونے سے پہلے“
انکار۔فاطمہ حسن
٭”مِرے شہروں میں اب بارود کی بو ہےیہ بستی سر کٹے شعلوں میں گھرتی جا رہی ہیگھروں پر جانے والے راستوں پرخون کی ہولی رچی ہیجواں بیٹوں کی لاشوں سے لپٹ کر روتی مائیں کون دیکھیکہ بینائی بھی آنسو بن کے جیسے بہہ گئی ہیزمیں سے آسماں تک بین کرتا سوگ برپا ہیاگر تم آئے دن کی یہ قیامت روکنے پربھی نہیں قادرتو پھر مت اوربہلاؤکسی اِن کیمرہ اجلاس میں اعلان فرمادو نیا قانون نافذ ہو گیا ہےیہاں کی سب رُتوں کو بانجھ کر دوہوا پھولوں سے ہم بستر نہ ہو ابکوئی خوشبو کہیں آنکھیں نہ کھولیکسی آنگن میں اب بچپن نہ کھیلے جوانی سے کہو ہر بات پر ہنسنے کی عادت بھول جائےیہاں اب رونقیں خود کش دھماکہ ہیںمِری گلیوں میں اب بارود کی بو ہے!“۔خود کش دھماکے۔فرحت نواز
دنیا ابھی تک غیر یقینی کی حالت میں ہے۔آج کے انسان کا ایک قدم خلا کی سعتوں کی طرف اُٹھ رہا ہے تو ایک قدم جیسے اپنے ابتدائی دور کی طرف جا رہا ہے۔جنگل کے دور کی جانب سے ہوتا ہوا پتھر کے دورکی طرف۔ایک طرف روشنی کی رفتار سے سفر کے امکانات سامنے آنے لگے ہیں تو دوسری طرف کسی اچانک ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں پیدل چلنے کے زمانے کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔بلکہ پیدل چلنے کی کیوں؟بقول میرا جی”گھسٹتے ہوئے ،رینگتے رینگتے“چلنے کی حالت کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔انسان اپنی عظیم تر ترقی کے دور میں داخل ہوتا چلا جاتا ہے یا ایک حد کے بعد اپنے ہی ہاتھوں اپنی عظیم تر شکست سے دوچار ہونے والا ہے۔اردو کے جدید نظم نگاروں سمیت تمام اہم تخلیق کاراس سارے منظر نامہ کو دلچسپی اور اضطراب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔یہ دلچسپی اور اضطراب ان کی نظموں سے بھی ظاہر ہورہا ہے۔تاہم اس کے باوجود معمول کی زندگی بھی اپنی ساری خوبصورتیوں اور بد صورتیوں سمیت رواں دواں ہے۔اور جدید اردو نظم نگار بھی ان ساری کیفیات سے گزرتا ہوا،اپنی کیفیات کو بُنتا ہوا،تخلیق کے عمل سے گزر رہا ہے۔زندگی جیسے اچھے برے امکانات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے ویسے ہی ہمارے جدید نظم نگار بھی اپنے اچھے برے امکانات سمیت آگے کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔سو یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔
مجھے 16 مئی کی شام کو ڈاکٹر شہناز نبی نے اس موضوع پر کچھ لکھنے کی تاکید کی تھی۔انتہائی مختصر وقت میں جو کچھ میرے پاس موجود تھا،اسی کو جمع کر کے ،اسی میں سے ایک انتخاب کیا اورجیسے تیسے اس مضمون کو آج 18 مئی کی شام کو مکمل کر لیا ہے۔وقت کی گنجائش ہوتی تو زیادہ ہوم ورک کر پاتا اور مضمون میں مزید کئی قابلِ ذکر شعراءکی نظموں پر بھی گفتگو کر سکتا۔لیکن وقت اور نظموں کی عدم دستیابی کی مجبوری کے باعث جو کچھ لکھنا ممکن تھا،پیش کر رہا ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعبہ اردوکلکتہ یونیورسٹی کے رسالہ
دستاویز کا جدید نظم نمبر سال۲۰۱۴ء ۔ شمارہ نمبر:۹