۔۔۔۔پاکستان اور انڈیا کے عوام کے مسائل اور دکھ بالکل ایک جیسے ہیں۔دونوں ممالک کے عوام کی بہت بڑی اکثریت کا مسئلہ تعلیم کا حصول، اچھا علاج معالجہ ،غربت کا خاتمہ اور دیگربنیادی انسانی ضروریات ہیں۔اسے مختصر لفظوں میں کہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ بر صغیر کے عوام کو غربت،بھوک ،بیماریوںاورجہالت سے جنگ کرنا ہے اور ان ساری مصیبتوں سے نجات پانا ہے۔بر صغیر کے عوام کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ اس کے ممالک کے حکمرانوں نے اصل مسائل کی طرف بہت کم توجہ دی ہے اور اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے غیر ضروری اور غیر متعلق مسائل کو زیادہ ہوا دی ہے۔سیاسی پارٹیوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور مار دھاڑ سے لے کرقومی خزانے میں کرپشن اور لوٹ مار کا ایک سلسلہ ہم دونوں ممالک میں دیکھتے ہیں۔اس معاملہ میں نعروں کے فرق کے باوجود دونوں اطراف کے ”اشرافیہ“نے ہر سطح پر اور ہر ممکن رستے سے اپنے اپنے ملک میں مالی کرپشن کا”نیک کام“کیا ہے۔اس کے نتیجہ میں لٹیرے ”اشرافیہ“میں مختلف طبقات کا اضافہ ہوتا گیا اور غریب عوام غریب سے غریب تر ہوتے گئے۔اسی غربت نے مزید مسائل کو جنم دیا۔احساسِ محرومی نے معاشرے میں بغاوت کی مختلف صورتوں میں جرائم کے نئے رستے بنائے۔یوں ہمارے غربت زدہ معاشرے مزید کئی سماجی دکھوں میں مبتلا ہوتے گئے۔
۔۔۔۔برصغیر کے ”اشرافیہ“نے ایک طرف اقتدار کے مزے لوٹے،عوام کا استحصال کیا،اپنے گھروں میںدولت کے انبار لگا کرغریب عوام کی پھیلی ہوئی جھولیوں میں مزید غربت بھرتے گئے۔تو دوسری طرف اسی ”اشرافیہ“ نے اپنے اقتدار کے استحکام کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف حربے استعمال کرکے غریب عوام کے مختلف طبقوں کو آپس میں لڑانے کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ انہیں اپنے اصل مسائل کی طرف دھیان دینے کا موقعہ نہ ملے ۔ وہ مختلف سیاسی اور مذہبی نعروںکے چکر میں پڑ کر ایک دوسرے سے الجھتے رہیں۔ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں۔اور”اشرافیہ“طبقہ اطمینان سے اپنی لوٹ مار میں مشغول رہے۔
۔۔۔۔انڈیا میں ایک وقت تک فرقہ پرست قوتیں موجود ہونے کے باوجود اتنی طاقتور نہ تھیں جتنی اس وقت ہیں۔پاکستان میں ایک عرصہ تک فرقہ پرست قوتوں کو کوئی اہمیت نہیں مل سکی تھی۔جنرل ضیاءالحق کے زمانہ میں جب انہوں نے مختلف طبقات کو آپس میں لڑانے کے ساتھ مذہبی فرقہ پرستی کو بھی ہوا دی تب ہی اس کے اثرات انڈیا کے انتہا پسند ہندو طبقوں پر مرتب ہونے لگے۔پاکستان میں تو فرقہ پرستی ایک تکلیف دہ صورت اختیار کر گئی۔مسجدوں اور امام باڑوں کی جتنی بے حرمتی اس کے نتیجہ میں ہوئی ہے ،سب کے سامنے ہے۔پھر پاکستان کی اقلیتوں کو بھی عدم تحفظ اور نفرت کاایک نفسیاتی خوف لاحق رہا اور اس کی وجہ بھی جنرل ضیاءالحق کا لایا ہوا فرقہ پرستی پھیلانے والا اسلام ہی تھا۔اس ”جرنیلی اسلام“ کے نتیجہ میں ایک طرف اندرون ملک مذہبی تشدد کا خونریز سلسلہ چل نکلا۔دوسری طرف ہندوستان کی انتہا پسند ہندو جماعتوں میں ”ہندو توا“کی لہر توانا ہوتی گئی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اب انڈیا کا اقتدار انہیں انتہا پسند قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔اور ان کی سرپرستی میں گجرات میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے شرمناک فسادات کا زخم تو ابھی بالکل تازہ ہے۔انڈیا اور پاکستان،دونوں طرف کے مذہبی انتہا پسندوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان مذہبی نفرت کی خلیج گہری ہوتی جا رہی ہے۔اس کا فائدہ انتہا پسند ہندو جماعتوں اور انتہا پسند مسلم جماعتوں کو ہو رہا ہے لیکن عوام کے دکھوں میں کوئی کمی ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔کیونکہ نفرت کا یہ زہر تو مختلف خطرناک نشہ آور انجکشنز کی طرح عوام ہی کو انجیکٹ کیا جارہا ہے۔اور اس کا سارا عذاب دونوںطرف کے عوام ہی کو بھگتنا ہے۔
۔۔۔۔سیاسی سطح پر کشمیر کا مسئلہ بلاشبہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بے حد حساس اور سنگین مسئلہ ہے۔اگر انصاف اور نیک نیتی کے ساتھ مسئلہ حل کرنا ہو تو اقوام متحدہ کی قراداد کے مطابق اور کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا جا سکتا ہے اور یہی ایماندارانہ اور منصفانہ حل ہے جوکشمیریوں کا جائزحق بنتا ہے۔لیکن گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے کشمیری عوام نہ صرف اپنے حق رائے دہی سے محروم ہیں بلکہ ان پر بے پناہ ریاستی ظلم بھی توڑے گئے ہیں۔دونوں ممالک کی ”اشرافیہ“ قوتیں اس مسئلہ کے حل سے زیادہ اس کا نام لے کر غریب عوام کو مروانے اور ان کے نام پر اپنی سیاست چمکانے میں زیادہ دلچسپی لیتی رہی ہیں ۔
۔۔۔۔ایسے حالات میں جب پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کشیدگی کی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔یہاں مجھے ماضی کی ایک اہم بات یاد آگئی۔اگر ہمارے ایک جنرل نے ملک کو نفرت کی آماجگاہ بنایا تھا جس کے اثرات انڈیا پر بھی پڑے تو ہمارے ہی ایک جنرل صدر ایوب خان نے ایک زمانے میں جواہر لال نہرو کو دوستی کی ایک ایسی پیش کش کی تھی جس کے نتیجہ میں انڈو پاک کی ایک طرح سے ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن وجود میں آسکتی تھی۔اس کے نتیجہ میں دونوں ممالک اپنی افواج میں بہت زیادہ کمی کرکے اپنے ملک کے غریب عوام کے حالات کو بہتر بنا سکتے تھے۔افسوس کہ نیک نیتی کے ساتھ کی جانے والی صدر ایوب خان کی ایک بہت اچھی پیش کش کو جواہر لال نہرو جیسے زیرک سیاستدان نے رد کرکے اپنی سیاسی بے بصیرتی کا ثبوت دیا۔اگر صدر ایوب خان کی اُس پیش کش کو خلوص دل سے قبول کرلیا گیا ہوتا تو آج برصغیر کے غریب عوام بہت خوشحال نہ سہی لیکن اچھی زندگی بسر کررہے ہوتے۔
۔۔۔۔اب جو ایل کے ایڈوانی اور ان کے بعض ہمنوا گاہے بگاہے ”اکھنڈ بھارت“کی بات کرتے ہیں،ان کی دھونس جمانے والی زبان کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن ان کا خواب اس انداز سے کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔اگر ایل کے ایڈوانی نیک نیت کے ساتھ اور بھائیوں والی زبان میں صدر ایوب والی پیش کش کو اس بار اپنی طرف سے دہراتے تو اس سے نہ صرف کشمیر کامسئلہ بھی باعزت طور پر اور برادرانہ طور پر حل ہوجاتا بلکہ انڈیا اور پاکستان کے بہت سارے مشترکہ مسائل کا مشترکہ حل تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ۔
۔۔۔۔میرے ذہن میں یورپی یونین کی طرز پر سارے سارک ممالک کے درمیان اشتراک کا منظر ایک خواب کی طرح آتا ہے۔یورپ نے ایک عرصہ تک شدید نفرتوں کا بازار گرم کئے رکھا۔کئی باہمی لڑائیوں کے ساتھ دو عالمی جنگیں بھی ہو گئیں۔ اتنا لڑنے مرنے کے بعد آخر سب کو جو بات سمجھ میں آئی اس کے نتیجہ میں یورپی یونین کا اتفاق اور اتحاد قائم ہو چکا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ کسی ملک کی سرحدوں کی سلامتی کو کسی سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔کسی ملک کی سرحدوں کے کسی حصہ پر کسی کا کوئی غاصبانہ قبضہ نہیں ہے۔کسی کی طرف سے کوئی ایسا دعویٰ نہیں ہے۔ہر ملک اپنی مکمل خودمختاری اور سلامتی کے ساتھ قائم ہے۔اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوتے وقت یہی پتہ نہیں چلتا کہ ہم اب دوسرے ملک میں آگئے ہیں۔
۔۔۔۔میرے نزدیک اس وقت انڈوپاک کا خاص طور پر اور سارے سارک ممالک کا عمو می طور پراتحاد ہوجانا اس خطے کے لئے بابرکت ہو سکتا ہے۔لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کشمیر کے مسئلے کو منصفانہ طور پر حل کیا جائے،پھر ”اکھنڈ بھارت“ کی بڑکیں مارنے کے بجائے دوستانہ طور پر اور نیک نیت کے ساتھ پورے خطے میں پیار اور محبت کو فروغ دیتے ہوئے اتحاد کا کام شروع کیا جائے۔انڈوپاک کے درمیان اعتماد کی بحالی اور جملہ نفرتوں کے خاتمہ کے لئے دونوں اطراف سے موثر اقدامات کئے جائیں تو سارک ممالک کا اتحاد محض خواب نہیں ایک حقیقت بن سکتا ہے۔ایسی حقیقت جس سے اس خطے کے غریب عوام کی قسمت بدل سکتی ہے۔لیکن اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی برقرار رہی اور فرقہ پرست قوتیں اپنی انانیت کا شکار رہیں تو پھر ان ممالک کو یورپی ممالک کی طرح زیادہ سوچنے کی مہلت نہیں ملے گی۔اگر ان کی اگلی جنگ ہوئی تو پھر دونوں ممالک کی مکمل تباہی کے سوا اورکچھ نہ ہوگا۔کیونکہ دونوں ممالک ہی ایٹمی قوت رکھتے ہیں۔لیکن یہ کیسی نفرت ہو گی جو دونوں ممالک کی تباہی کے بعد گواہی دے گی کہ انڈیا اور پاکستان کا جینا ،مرنا ساتھ ساتھ تھا۔محبت کے ایسے مقام پر ہوتے ہوئے دونوں ملک نفرت کی ایٹمی آگ میں جل گئے۔بہتر ہوگا کہ ایسے وقت کے آنے سے پہلے ہی حقائق کا ادراک کرلیا جائے ۔ اسی میں ہم سب کی،اس خطے کے تمام عوام کی بہتری اور بھلائی ہے۔
٭٭٭