مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ یہ میرے لیے خوشی کی بات ہوگی میری بیٹی کے لیے بھلا موحد سے بڑھ کر اچھا لڑکا کہاں ملے گا ۔مگر میں اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی فاروق صاحب سے بات کر کہ ہی آپکو بتاؤں گی ۔رافعہ بیگم کی بات سن کرخالدہ بیگم نے حیرت اورخوشی کے ملے جلے انداز میں جواب دیا
ٹھیک ہے جیسے تم کہو ہم پھر آ جائیں گے۔ رافعہ بیگم نے کہا
کیوں نہیں تمہارا اپنا ہی گھر ہے ۔خالدہ بیگم خوشدلی سے بولیں
ہاں آنٹی ہم ضرور آئیں گے، مگر پلیز آپ جلدی انکل سے بات کیجیے گا اور جواب ہاں میں ہونا چایئے۔ کوئی غیروں والی بات تو ہے نہیں آپ بھائی کو اچھے سے جانتے ہیں ۔ پلیز پھپھو ۔افق نے انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے منت کرنے والے انداز میں کہا
میں اپنی پوری کوشش کروں گی تم فکر مت کرو ۔ خالدہ بیگم نے اسے تسلی دی
بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر ۔۔۔۔۔ خالدہ بیگم بات پر فاروق صاحب سوچ میں پڑ گئے
مگر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ہمیشہ سے ہی میشا کے لیے صائم کو ہی سوچا تھا اب اچانک اس طرح سے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا
آپ صائم کا انکار سن چکے ہیں ،اس کے باوجود بھی ابھی تک آپ وہیں اٹکےہوئے ہیں ۔
میں مانتی ہوں صائم آپکا بھتیجا ہے جتنا آپ اس سے پیار کرتے ہیں وہ اتنی ہی آپ سے عداوت رکھتا ہے اس بات کو آپ ابھی نہیں سمجھ سکتے ۔ میشا بیٹی ہے ہماری، بھتیجے کے سکھ کے لیے آپ اپنی بیٹی کو آزمائش میں نہیں ڈال سکتے جو کہ آپ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں، مگر اس بار بات میری بیٹی کی ساری زندگی کی ہے اب میں چپ نہیں رہوں گی ۔خالدہ بیگم نے سختی سے کہا تو وہ خاموش ہو گئے
دیکھیں فاروق صاحب جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا ممکن نہیں ہے ۔ کون سی ماں نہیں چاہے گی کہ اس کی بیٹی اسکی آنکھوں کے سامنے رہے ۔مگر مجھے ان تلوں میں تیل نظر نہیں آ رہا ۔موحد اچھا لڑکا ہے دیکھا بھالا ہے یوں سمجھو گھر کا ہی بچہ ہے۔ ساری زندگی ہمارے پاس ہی رہے گی اور پھر سب سے بڑھ کر رافعہ بیگم اور افق بہت چاؤ سے رشتہ لینے آئی ہیں۔ اتنے اچھے رشتے روز روز نہیں ملتے
ہمممم ۔۔۔۔۔ٹھیک ہے تم انہیں ہاں کر دو ۔۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فاروق صاحب نے رضامندی دی
آپ پریشان مت ہوں دیکھے گا انشاءاللہ ہماری بیٹی بہت خوش رہے گی
انشاءاللہ انہوں بے آواز کہا
……………………….
سنو ۔۔۔۔۔موحد گھر کے اندر جا رہا تھا کہ زینی کو سیڑھیوں پر بیٹھے دیکھ کر اسکا حلق تک کڑوا ہوا۔ اچانک اسے ایک خیال آیا تو اس کے سر پر جا پہنچا۔زینی نے سر اٹھایا تو اسے کھڑا دیکھ کر مسکرائی۔
افق صیح کہ رہی تھی اسکی مسکراہٹ واقعی ہی خوبصورت ہے۔ موحد اعتراف کیا
کیا ہوا سکتہ کیوں ہو گیا ہے ۔زینی نے اس کے سامنے ہاتھ لہرایا تو وہ اپنے حواس میں لوٹا
ہاں ۔ نہیں کچھ نہیں کیسی ہو
ٹھیک ہوں ۔۔ میرے کونساِگٹے (ٹخنے) نکلے ہوئے تھے جو تو اتنی فکر سے پوچھ رہا ہے۔ اس کے جواب پر موحد نے کچھ دیر پہلے والے خیال پر دو حرف بھیجے
تو نے شائد کوئی بات کرنی تھی ۔ زینی نے اسے یاد دلوایا کہ وہ کوئی بات کرنے آیا تھا وہ سر جھٹکتے ہوئے متوجہ ہوا
آں ہاں وہ میں کہہ رہا تھا کہ مام بتا رہی تھی انہوں نے ہمارا مطلب میرا اور تمہار رشتہ طے کر دیا ہے تو تم انکار کر دو
کیوں میں کیوں انکار کر دوں ۔ اس نے ابرو اچکائے
وہ تم مجھے پسند نہیں کرتی ہو نہ تو میں نے سوچا کہ ہو سکتا ہے تم خوش نہ ہو اس لیے میں کہہ رہا تھا کہ اگر تم چاہو تو انکار کر سکتی ہو ۔
تیرے کو کس نے کہا کہ تو مجھے پسند نہیں ہے
وہ تم ہر وقت مجھ سے لڑتی رہتی ہو تو مجھے لگا شائد میں تمہیں اچھا نہیں لگتا
تیرے کو پتہ ہے تُوکافی دیر سے میرے کو بیوقوف بنانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے
ارے نہیں زینی میں بنی بنائی چیزوں پر کوشش نہیں کرتا ۔اس سچویشن میں بھی وہ اسے چڑانے سے باز نہیں آیا تھا
سب جانتی ہوں میں تم خود یہ رشتہ نہیں چاہتے ، اگر انکار کرنا ہے تو خود کر یوں میرے کندھے پہ بندوق رکھ کر چلانے کی لوڑ نہیں ہے
نہیں بھلا مجھے کیا پرابلم ہو گی میں تو تمہارے لیے ہی کہہ رہا تھا ۔اگر تم خوش ہو تو ٹھیک ہے ۔موحد نے اپنی طرف سے نے نیازی دکھائی
میرے خوش ہونے یا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے ماں بابا خوش ہیں میرے لیے اتنا ہی کافی ہے
اور جو تو میرے ساتھ کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے نہ میرے کو سب پتہ ہے، بچی نہیں ہوں میں تیری بات کے پیچھے چھپے مقصد کو خوب جانتی ہوں۔ میرے سے کوئی توقع مت رکھنا اس لیے کچھ اور سوچ ۔۔ زینی نے اسے جتایا کہ وہ بے خبر نہیں ہے تو وہ خجل ہوا۔
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی ۔
اب میں جاوں یا ابھی کوئی اورشوشہ چھوڑنے والا رہتا ہے
ہاں جاؤ ۔۔۔
یہ زبان کے ساتھ ساتھ دماغ کی بھی تیز ہے ۔ موحد نے دانت پیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم مام کیسی ہے
وعلیکم اسلام حنان تم اتنی جلدی آ گئےتمہیں تو ایک ہفتے بعد آنا تھا نہ
کام ختم ہو گیا تو میں نے سوچا واپس چلتے ہیں ۔بتایا اس لیے نہیں سوچا سرپرائز دے دیا جائے
اچھا ہوا تم آ گئے مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی ، تم ریسٹ کر لو، پھر بات کرتے ہیں
خیریت ہے نہ
ہاں ہاں خیریت ہی ہے ۔
اچھا میں چینج کر کہ آتا ہوں آپ میرے لیے چائے بنوا دیں
ملازمہ تو آج چھٹی پر ہے میں خود ہی بنا لاتی ہوں ۔ وہ اٹھ کر کچن کی طرف چل دیں
ہاں تو اب بتائیں کیا کہہ رہیں تھیں آپ ۔حنان نے فریج کا دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا
میں کہہ رہی تھی کہ تم مجھے اس لڑکی کا نام بتاؤ جسے پسند کرتے ہو تا کہ ہم رشتہ لے کر جائیں
بلکل بتاتا پہلے آپ یہ بتائیں یہ مٹھائی کہاں سے آئی
ارے ہاں میں نے تمہیں اہم بات تو بتائی ہی نہیں ۔ میشا اور موحد کا رشتہ طے ہو گیا ہے ۔ نوشابہ بیگم نے کپ میں چائے ڈالتے ہوئے گویا اس پر بمب پھوڑا ۔پیروں تلے سے زمین کھسکنا کسے کہتے ہیں یہ اسے آج معلوم ہوا تھا ۔اس کے ہاتھ سے بے اختیار ڈبہ چھوٹا
سنبھال کر حنان ،کیا کرتے ہو
کیا ہوا تم ٹھیک ہو نہ ۔ اسکی زرد پڑتی رنگت کو دیکھ کر پوچھتے ہوئے وہ جھک کر مٹھائی کا ڈبہ اٹھانے لگیں
ایسا کیسے ہو سکتا ہے میشا اور موحد ۔اس کے لہجے میں بے یقینی تھی
کیوں نہیں ہو سکتا ۔ کیا پرابلم ہے اس میں ۔ڈبہ اٹھا کر سلیب رکھتے ہوئے وہ سنک کی طرف بڑھیں
مام آپ مذاق کر رہی ہیں نہ ۔ کسی آس کے تحت اس نے پوچھا
لو بھلا اس میں مذاق والی کیا بات ہے بھابھی نے آپا سے رشتہ مانگا تو انہوں نے ہاں کردی موحد اچھا لڑکا ہے آٹھ دن بعد نکاح اور منگنی کی تقریب رکھی ہے ۔ وہ اس کے سر پر ایک سے بڑھ کر ایک دھماکہ کر رہی تھیں
میرا بڑا ارمان تھا میشا کو اس گھر کی بہو بنانے کا ۔مگر تم نے صاف جواب دے دیا خیر تم مجھے اس لڑکی کا نام پتہ بتاؤ۔ خاندان میں سب بچوں کے رشتے ہو چکے ہیں میری بھی خواہش ہے کہ اپنی زندگی میں تم دونوں بہن بھائیوں اپنے اپنے گھر کا کر دوں، تمہارے ساتھ ہی سمائرہ کی رخصتی بھی کر دوں گی اس کی حالت سے بے خبر کہتی وہ سنک سے پلٹ کر اس کے سامنے آ کھڑی ہوئیں
کیا ہوا یہ تم اتنے پیلے کیوں پڑ رہے ہو طبعیت تو ٹھیک ہے۔۔ اس کو بت بنا کھڑا دیکھ کر اسکا بازوپکڑ کر ہلایا
وہ لڑکی میشا ہی ہے ۔۔۔۔ اس کے ساکت وجود میں جبنش اب بھی نہیں ہوئی تھی
یہ کیا کہہ رہے ہو۔ اس کے انکشاف پر وہ دنگ ہوئیں
مام وہ میشا ہی ہے
تمہارا دماغ ٹھیک ہے۔ کیا بول رہے ہو ۔ تم نے کہا تھا کہ تم اسے نہیں جانتے پھر میشا کیسے
تب میں اسے نہیں جانتا تھا ،بعد میں پتہ چلا تھا
اچھا اب جو ہونا تھا ہو گیا اب آگے سوچو کیا کرنا ہے وہ کچن سے نکل کر لاونج میں آ بیٹھیں
مام آپ خالہ سے بات کریں ۔وہ بھی اس کے پیچھے آیا
کیا بات کروں ۔۔نوشابہ بیگم نے نا سمجھی سے اسے دیکھا
وہ یہ رشتہ ختم کر دیں اور۔۔۔۔۔۔۔
واٹ ۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو نہ کیا کہہ رہے ہو ۔
میں اچھے سے جانتا ہوں میں کیا کہہ رہا ہوں
اچھا پھر اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔
میں شادی کرنا چاہتا ہوں میشا سے
مجھے لگتا ہے تم واقعی ہی ہوش میں نہیں ہو۔پہلے جب میں نے کہا تب تم نے منع کر دیا ۔حالاںکہ میں نے تمہیں کتنا کہا تھا کہ ایک بار مل لو تب تم نے میری بات نہیں مانی ۔تمہارے انکار کرنے پر ہی میں نے آپا سے دوبارہ بات نہیں کی میری طرف سے مایوس ہو کر ہی انہوں نے بھابھی کو ہاں کی ہے ۔ اب کہہ رہے ہو تمہیں اس سے شادی کرنی ہے نوشابہ بیگم سختی سے بولیں تووہ انکے قدموں میں بیٹھا
مام میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں ۔۔میں نہیں رہ پاؤں گا مر جاؤں گا پلیز کچھ کریں ۔
دیکھو حنان میں اب کچھ نہیں کر سکتی ۔۔آپا ہاں کر چکی ہیں وہ کیسے منع کریں ۔تم رشتوں کی نزاکت کو نہیں سمجھتے ۔ بھابھی کو منع کرنا مطلب رشتوں میں دراڑ آنا ہمارا ایک ہی بھائی ہے اور وہ بھی اس دنیا میں نہیں ہے ۔لوگ کیا کہیں گے کہ بھائی کے بعد بہنوں نے ان کی اولاد کا مزاق بنا کر رکھ دیا ہے
مام پلیز ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ میں نہیں رہ پاؤں گا نہ ۔۔۔آئی سوئیر میں مر جاوں گا پلیز ۔انکا ہاتھ پکڑتے ہوئے اس نے التجا کی
حنان پاگل مت بنو ۔وہ کوئی آخری لڑکی تو نہیں ہے اور کوئی کسی کے لیے نہیں مرتا ۔سب کہنے کی باتیں ہوتی ہیں
میں خالہ سے خود بات کر لیتا ہوں وہ اٹھ کھڑا ہوا
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ۔۔پہلے بھی میں تمہیں منع کرتی رہی مگر تم نے میری ایک نہیں سنی اپنی من مانی کی اب پھر وہی حرکت کر رہے ہو
آپ ایک بار خالہ سے بات کر کہ تو دیکھں پلیز مام۔آپ بس ایک بار میری بات مان لیں پھر آپ جو کہیں گی میں کروں گا
تم سمجھ کیوں نہیں رہے ہو میشا ان کی بیٹی ہے کوئی بھیڑ بکری نہیں جو آج یہاں تو کل وہاں۔۔ میں نے جب پہلے ان سے بات کی تھی تب انہوں نے بخوشی ہاں کر دی تھی اس کے بعد میں نے تمہاری ضد کی وجہ سے چپ سادھ لی۔ میں تو پہلے ہی ان سے بہت شرمندہ ہوں اب تم مجھے مزید شرمندہ مت کرواؤ جو جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔ ہاں عیشا کے لیے کہتے ہو تو میں آپا سے بات کر لیتی ہوں
آپ کو سمجھ نہیں آ رہا میں کیا کہہ رہا ہوں مجھے میشا چایئے مام ہر حال میں ۔اس نے ٹیبل پر پڑا واس دیوار پر دے مارا
ٹھیک ہے آپ کچھ مت کریں اب جو بھی کرنا ہوگا میں خود ہی کر لوں
تم کچھ نہیں کرو گے اگر کچھ ایسا ویسا کیا نہ تو میں بتا رہی ہوں حنان میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے۔خالدہ بیگم نے سپاٹ انداز میں کہا
مام ۔حنان نے بے یقینی سے انہیں دیکھا
بس بہت ہوا بہت سن لی میں تمہاری الٹی سیدھی بکواس ۔۔ کبھی ہاں کبھی ناں ، تماشا بنا کر رکھ دیا ہے ۔ جاؤ اپنے کمرے میں تم نے جتنا زلیل کروانا تھا کرا لیا اب مزید کی گنجائش نہیں
مام آپ اچھا نہیں کر رہی ہیں ۔ اس کے جانے کے بعد پاس بیٹھی سمائرہ نے افسوس سے کہا
میں کیا کر رہی ہوں اور کیا نہیں تم مجھے مت بتاؤ ۔ اس سب کی تم بھی برابر کی زمہ دار ہو .اس وقت تم ہی بڑھ چڑھ کر اس کا ساتھ دے رہی تھی ۔نوشابہ بیگم سر جھٹکتی اٹھ گئیں
…………………………
خالہ خالہ کدھر ہیں بھئی سب ۔ میشا آوازیں دیتی اندر آئی
تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔سمائرہ نے اسے کڑے تیوروں سے گھورا
کیا ہو گیا سمی ۔کیسے بات کر رہی ہو۔اس کے بی ہیور پر میشا حیران ہوئی
تو تم بتا دو کیسے بات کروں
سمی ۔۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تم یہاں کر کیا رہی ہو اصولا تو تمہیں موحد کے گھر جانا چایئے نہ اور میرا نام سمائرہ ہے سو پلیز مجھے میرے نام سے ہی بلاؤ
میں حنان سے ملنے آئی ہوں خالہ بتا رہیں تھیں کہ وہ دبئی سے واپس آگیا ہے
اوہ تو تمہیں تمہاری خالہ نے تمہیں اطلاع دے دی ۔۔۔۔ کیا ۔۔ کرنے کیا آئی ہو اسکی بے بسی کا تماشا دیکھنے آئی ہو ۔
میں ایسا کیوں کروں گی سمائرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنی بھولی تو نہیں ہو تم۔۔ سمائرہ نے سینے پر بازو لیپٹتے ہوئے طنز کیا
وہ بات ختم ہو چکی ہے۔۔۔
نہیں میشا ابھی ختم نہیں ہوئی، ابھی تو شروع ہوئی ہے جاؤ جا کہ دیکھو اس کا حال ۔ایک ہی دن میں کیسے پیلا پڑ گیا ہے ابھی نکاح میں آٹھ دن ہیں ، تب تک مر جائے گا وہ ،تم مار دو گی اسے میشا۔۔۔۔۔ مار دو گی
اللہ نہ کرے سمائرہ کیسی باتیں کر رہی ہو۔میشا اس کی طرف بڑھی
نہ ۔ وہی کھڑی رہو ،آگے مت آنا اور میں تو صرف بات کر رہی ہوں تم حقیقتاً یہی کر رہی ہو
تم مجھے یوں الزام نہیں دے سکتی ۔ اس نے خود منع کیا تھا ایک بار نہیں بار بار اور وہ بھی صاف اور کھرے انداز میں ۔۔۔میں اتنی ارزاں تو نہیں ہوں کہ جب جس کا دل چاہے بار بار ریجیکٹ کرے اور جب دل چاہے ایکسپٹ کرے ۔میری کوئی فیلینگز نہیں ہیں
وہ سوری کر رہا ہے نہ شرمندہ بھی ہے
مجھے نہیں چایئے اس کی سوری۔ جب مام نے مجھے بتایا کہ خالہ بات کر کہ پیچھے ہٹ گئی ہیں تو مجھے کیسا لگا ہوگا ۔ میں کتنا ہرٹ ہوئی ہوں گی اس کا اندازہ لگا سکتی ہو۔ ریجکشن کی کتنی تکلیف ہوتی ہے تم نہیں سمجھ سکتی ۔سوچو اگر ساحل بھائی کہتے کہ وہ تم سے نہیں نکاح کرنا چاہتے کسی اور کو پسند کرتے ہیں تو کیا گزرتی تم پر
تو تم اس کا بدلہ لے رہی ہو
نہیں میں کسی سے کوئی بدلہ نہیں لے رہی ۔جو جیسا ہو رہا ہونے دو ورنہ ۔۔۔۔
ورنہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
تم جانتی ہو ورنہ کیا ۔۔۔میں بات کر چکی ہوں اور اپنی بات سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹتی۔اب فیصلہ تمہارا ہے۔خیر میں حنان کو لینے آئی تھی مجھے شاپنگ پر جانا ہے اس کے ساتھ
واٹ تم .. تم اپنے نکاح کی شاپنگ حنان کے ساتھ کرو گی . تمہارا دماغ ٹھیک ہے
آف کورس ڈئیر ۔۔۔ اسے کہتی وہ حنان کے کمرے کی طرف بڑھی۔ اندر داخل ہوئی تو کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا
یوں ٹہل ٹہل کر کونسا اٹیم بمب بنانے کے بارے میں سوچ رہے ہو ۔ وہ جو بے چینی سے آنے والے وقت کو سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا اس کو یوں اپنے سامنے پا کر حیرانگی سے دیکھا
تم یہاں کیا کر رہی ہو
خیر ہے آج ہر کوئی یہی کہہ رہا ھے تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔میں یہاں نہیں آ سکتی
نہیں آ سکتی ہو۔۔ میں بس ویسے ہی پوچھ رہا تھا آؤ بیٹھو
بیٹھنے کا ٹائم نہیں ہے میرے، پاس مجھے شاپنگ پر جانا ہے۔ میرے ساتھ چلو
شاپنگ۔۔۔۔۔
ہاں بھئی میرے نکاح کی شاپنگ۔ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اس نے حنان کے پیروں تلے سے زمین کھینچی
تو میں کیوں ،تم موحد کے ساتھ جاؤ
تمہیں پتہ تو ہے میری اس کے ساتھ بلکل بھی نہیں بنتی شاپنگ خاک کروائے گا۔ اس نے منہ بناتے ہوئے حنان کا موبائل اٹھایا
تو پھر اس سے شادی کیوں کر رہی ہو۔حنان کی بات پر اس کا موبائل الٹ پلٹ کرتی میشا کا ہاتھ تھما
میں کہاں کر رہی ہوں مام ڈیڈ کروا رہے ہیں ۔میری کوئی سنتا تو کبھی اس لنگور سے نہ کرتی
تو تم منع کر دو
بھلا وہ کیوں۔۔۔۔۔۔ صائم ریجیکٹ کر چکا ہے۔ اڑتی اڑتی خبر ملی ہے کہ تم بھی صاف منع کر چکے ہو ۔۔مزے کی بات بتاؤں موحد بھی کر چکا ہے وہ تو ممانی جان زبردستی کروا رہی ہیں تو مجبوراً خاموش ہو گیا جب گھر کے لڑکے منع کر رہے ہیں تو باہر سے کیا امید رکھوں اب جو جیسا مل رہا ہے اس پر آمین کہہ کر ہامی بھر لی ہے
میشا میرا وہ مطلب نہیں تھا میں نے منع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر چھوڑو پرانی باتیں مجھے شاپنگ کرنی ہے اور تم مجھے کرواو گے سو میں نیچے ویٹ کر رہی ہو جلدی سے آ جاؤ۔اسکی پوری بات سنے بغیر وہ آرڈر دیتی جا چکی تھی
کیا ہوا کچھ پسند نہیں آ رہا
نہیں نہ مجھے کچھ نیا اور ڈیفرنٹ کلر چائے یہاں پر وہی پرانا سب پڑا ہے ۔میشا نےناک چڑھائی ۔وہ پچھلے دو گھنٹوں سے اسے مال میں خوار کر رہی تھی اور وہ بھی ماتھے پربل ڈالے بغیر اس کے ساتھ ایک دکان سے دوسری دکان میں چکر لگا رہا تھا
تو ہم کسی اور مال میں چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم تھک گئے ہو گے ہم پھر آ جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں ۔آجاؤ نزدیک ہی ایک اور مال ہے وہاں چلتے ہیں
یہ دیکھو کیسی ہے۔ میشا نے ایک پنک کلر کی فراک اپنے ساتھ لگائی
یہ اچھی نہیں ہے تم یہ دیکھو وائٹ کلر کی فراک نکال کر اسے تھمائی
پکا نہ
ہاں بہت اچھا لگے گا
میں ٹرائی کر کہ آتی ہوں
نہیں سیف نہیں ہوتا ٹرسٹ می تم پر بہت اچھا لگے گا
اوکے چلو ابھی جیولری اور سینڈل لینی ہے ۔
تم خوش ہو۔ مزید دو گھنٹے تک مال چھان لینےکے بعد اسکی شاپنگ پوری ہوئی تو واپسی پر جاتے ہوئے حنان نے پوچھا
ہاں بلکل ساری شاپنگ بہت اچھی ہوگئی ہے تھینک یو سو مچ
میں شاپنگ کی بات نہیں کر رہا
تو پھر۔۔۔۔
موحد کے ساتھ رشتے کی بات کر رہا ہوں
موحد اچھا لڑکا ہے ، ویل اسٹیبلشڈ ہے مام ڈیڈ اس رشتے کو لے کر بہت خوش ہیں
اور تم ۔تم خوش ہو
ہاہاہاہا ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی میں انہیں ہر چیز ان کی پسند کی دلوائی جاتی ہے سوائے اس کے دلہے کے ۔ لیکن پھر بھی خوش ہوں۔۔ناخوش ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے میشا ہنس کر بولی تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا ۔ میشا کو گھر کے سامنےاتار کر وہیں رک ہو کر اسے جاتا دیکھنے لگا کہ اسے اندر سے موحد آتا دکھائی دیا
تم کہاں سے آ رہی ہو موحد نے اس سے پوچھا
شاپنگ کرنے گئی تھی
پھپھو بتا رہیں تھیں کہ تم کافی دیر کی گئی ہوئی اور شاپنگ یہ تھوڑی سی کر کہ آئی ہو
کچھ پسند نہیں آ رہا تھا یار
محترمہ تمہارا ںکاح ہی ہے کوئی نیا کام تو نہیں کرنے جا رہی کچھ بھی پہن لیتی
ہاں تو میرا نکاح ہے تو کچھ اچھا ہی پہنوں گی نہ
میں نے اس دن بھی کہا تھا کچھ بھی پہن لو کچھ بھی کر لو کوئی فرق نہیں پڑنے والا
موحد میرا موڈ نہیں ہے بہت تھکی ہوئی ہوں تم پلیز کسی اور وقت کے لیے رہنے دو ۔ میشا حنان کو کھڑا دیکھ کر اسے بازو سے پکڑ کر سائیڈ پر کرتی ہوئی اندر داخل ہوگئی
کمال ہے پٹاخہ بغیر کچھ کہے چلا گیا۔ بڑبڑاتا ہوا وہ بھی اپنے گھر کو چل دیا ۔ ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھ گاڑی میں بیٹھے حنان کو لگا جیسے کسی نے اس کی آنکھوں مرچیں بھر دی ہو طوفانی رفتار سے گاڑی چلاتا ہوا وہ گھر پہنچا ۔ اور خود کو روم میں بند کر اپنا غبار روم کی چیزوں پر نکالنے لگا ۔اندر سے آتی توڑ پھوڑ کی آوازیں سن کر سمائرہ نے نوشابہ بیگم کی طرف دیکھا
میرے بھائی کو کچھ ہوا نہ تو میں آپ دونوں کو کبھی معاف نہیں کروں گی یاد رکھیے گا
…………………………………..
موحد نے بہت بار افق اور رافع بیگم کو قائل کرنے کوشش کی مگر اسکی ایک نہ چلی بلکہ اسکے بار بار انکار کو دیکھتے ہوئے رافعہ بیگم نے فاروق صاحب اور خالدہ بیگم سے بات کر کہ منگنی کے ساتھ نکاح رکھ دیا تھا ۔ جو موحد کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھا
مام آپ ایسا کیسے کر سکتی ہیں۔۔۔۔۔ بس منگنی تک ہی رہیں نکاح کی ابھی کوئی ضرورت نہیں
میں زبان دے چکی ہوں میری عزت اب تمہارے ہاتھوں میں ہے ۔ انہوں نے اسے ایموشنل بلیک میل کرنا چاہا
مام آپ ایٹ لیسٹ مجھ سے پوچھ تو لیتیں
میں نے سوچا منگنی کے ساتھ ساتھ اگر نکاح بھی ہوجائے تو رشتہ زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔
رشتہ زیادہ مضبوط ہو جاے گا یا پھر آپ نے مجھے باندھنے کا پکا پلان کیا ہے ۔موحد نے خفگی سے ماں کو دیکھا۔
دیکھو بیٹا میں جانتی ہوں تمہارے لیے مشکل ہے یوں اچانک سے یہ رشتہ جوڑنا وہ بھی اس صورت میں جب تم لوگوں کو ایک دوسرے سے ملے ابھی کچھ ہی ماہ ہوئے ہیں ۔مگر یقین کرو وہ بہت اچھی لڑکی ہے ،دوسری لڑکیون کی طرح اس میں تیز طراری نہیں ہے ،دل کی بہت صاف ہے، تمہیں خوش رکھے گی۔
دل کے ساتھ ساتھ دماغ اور زبان کی بھی صاف ہے۔ موحد بڑبڑایا
تم جو بھی کہو پہلے نکاح اور پھر منگنی کی رسم ہو گی اور تم کوئی بھی بدمزگی کیے بغیر میشا کو انگوٹھی پہناؤ گے ۔
نکاح آپ زینی سے کرنے کو کہہ رہی ہیں انگوٹھی میشا کو پہنانی ہے، یہ بیک وقت دو دو بہویں لانے کا پروگرام ہے ۔
اس کا پورا نام میشا زینب ہے بد تمیز نہ ہو تو ۔
مام پلیز اب بھی وقت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو پلیز نو اگر مگر بس میں نے کہہ دیا ہے نکاح ہو گا ،تم کیوں اتنے لوگوں کے سامنے ماں کو زلیل کرنا چاہتے ہو۔ اب کی بار وہ سختی سے بولیں تو وہ منہ بناتا اٹھ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مام ۔۔۔حنان نے نوشابہ بیگم نے کے روم میں داخل ہوتے ہوئے آواز دی
ارے حنان آؤ ۔ بیڈ پر کوئی کتاب پڑتی نوشابہ بیگم نے ٹانگیں سمیٹ کر اس کے لیے جگہ بنائی تو وہ ان کی گود میں سر رکھے لیٹ گیا
کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
مام میں اسے نہیں دیکھ سکتا کسی اور کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز مام کچھ کریں نہ ورنہ آپکا بیٹا مر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔آپ میری اچھی مام ہیں نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے وہ چایئے مام۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی کریں ۔۔۔۔۔۔مجھے پتہ ہے آپ خالہ سے کہیں گی تو وہ آپکو انکار نہیں کریں گی ۔۔میں مانتا ہوں میری غلطی ہے آپ جو چاہیں سزا دیں مگر یوں تو نہ کریں
پاگل مت بنو ۔۔۔ ستائیس سال کے میچور ہو کر تم ٹین ایج والی باتیں کر رہے ہو ۔ کچھ دن تک تمہیں مشکل لگے گا پھر خود ہی بھول جاؤ گے۔اس کی حالت دیکھتے ہوئے انہیں بھی افسوس ہونے لگا
یہاں دیکھیں آپ کو لگتا ہے میں اس کو بھول پاؤں گا۔۔ آپکو لگتا ہے میں اس سے دل لگی کر رہا تھا جو اسکا کسی اور کی ہو جانے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا.میں آپکو بتاؤں مام ، اٹھ کر بیٹھتے ہوئےاس نے انکا ہاتھ تھاما اس کی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہوا
جب جب میں سوچتا ہوں کہ کل وہ کسی اور کی ہوجائے گی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.میرا دل اچھل حلق میں آ جاتا ہے ۔ جان کو بن آتی ہے ۔ سر درد سے پھٹنے لگتا ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے ،جیسے کوئی قطرہ قطرہ میری جان نکال رہا ہو۔ پلیز مام بس ایک بار میری بات مان لیں اس کے بعد کبھی کچھ نہیں مانگوں گا آپ سے
حنان بس کر دو کیوں میرا امتحان لے رہے ہو اٹھو جاؤ اپنے کمرے میں ۔ فضول کی ضد باندھ کر بیٹھے ہو
مام
اٹھو حنان مجھ سے تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی جا رہی ہے تم اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی تکلیف دے رہے ہو۔ نوشابہ بیگم نے اسے اٹھایا تو وہ مرے مرے قدموں سے باہرنکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میشا یہ تم ٹھیک نہیں کر رہی ہو ۔ فضہ نے موبائل پر گیم کھیلتی میشا سے کہا ۔ان دونوں کی آج نائٹ ڈیوٹی تھی اس لیے سٹاف روم میں آڑھی ترچھی بیٹھیں تھیں
ہے ناں مجھے بھی لگ رہا تھا کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے پوائنٹ گرتے جا رہے ہیں تم دیکھو زرا۔ میشا نے موبائل اس کی جانب بڑھایا
میں گیم کی بات نہیں کر رہی ہوں ۔ ۔فضہ نے موبائل اس سے لے کر ٹیبل پرپٹخا
تو پھر کس کی بات کر رہی ہو
ننھی کاکی بننےکی کوشش مت کرو
میں نے بھلا کب تم سے فیڈر کا مطالبہ کیا۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر یاد کرنے کوشش کی
میشا میں اس کی بات کر رہی ہوں جو تم حنان کے ساتھ کر رہی ہو
میں نے کیا کیا ہے
میں کل گئی تھی سمائرہ کے ہاں ۔ بڑھی ہوئی شیو ، جو بال ہر وقت نفاست سے سیٹ کیے ہوتے تھے وہ بکھرے ہوئے اور بے ترتیب تھے زرد کملائی رنگت مجھے تو دیکھ کر ہی بیچارے پر بہت ترس آ رہا تھا ۔ تمہیں پتہ ہے اجڑی بکھری حالت اور ہیلی پڑتی رنگت کے ساتھ کئی دنوں کا بیمار لگ رہا تھا
تو میں کیا کر سکتی ہوں موبائل اٹھا کر دوبارہ گیم اوپن کرتے ہوئے اس نے لا پرواہی سے کہا
مجھے سمجھ نہیں آ رہا تم دھوکہ کیسے دے رہی ہو۔موحد سے شادی کر کہ کس کے لیے ازیت کا سامان پیدا کر رہی ہو ۔ خود کا یا حنان کا
تم کہنا کیا چاہ رہی ہو
تم اچھے سے سمجھ رہی ہو میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں
مجھے کچھ نہیں سمجھ رہی ۔ تم کھل کر کہو جو بھی کہنا ہے۔پہلیاں مت بجھواؤ
چلو کھل کر کرتی ہوں کیا تم حنان کو پسند نہیں کرتی ۔ فضہ نے اس کا چہرہ تھام کر اوپر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑیں ۔میشا نے بے ساختہ آنکھیں چرائیں
تت۔۔تمہیں کچھ غلط فہمی ہوئی ایسا کچھ نہیں ہے ۔
تو پھر ہکلا کیوں رہی ہوں
ہم بچپن سے ساتھ ہیں ۔ تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں جو بات تم سوچتی ہو میں تمہارہ چہرہ دیکھ کر بتا سکتی ہوں
ہاں تم تو نجومی ہو نہ
چلو تم مجھے غلط ثابت کرو۔۔ وہ ہر دوسرے روز تمہارے ہوسپیٹل آتا ہے ۔تم بجائے خفا ہونے کے مسکرا دیتی ہو اس کے ساتھ باہر گھومنے کے لیے جاتی ہو تو کبھی شاپنگ پہ ہوتی ہو۔ آئے دن وہ تمہارے گھر ہوتا ہے، نہیں تو تم اس سے ملنے پہنچی ہوتی ہو ۔ یہ سب کیا ہے ۔جتنا وہ تم سے فرینک ہے اتنا تم کسی بھی لڑکے کو برداشت نہیں کرتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ مت کہنا کہ کزنز ہیں کیوں کہ صائم اور موحد بھی کزنز ہی ہیں ان کے ساتھ تو تمہاری اتنی فرینکنس نہیں ہے اس لیے کوئی سولڈ ریزن دینا۔ اس کو منہ کھولتا دیکھ کر فضہ نے اسے ٹوکا
تو کیا کروں تم بتاو ۔مجھے
تم گھر بات کرو اور۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہوں کہ مجھے ایسے خود غرض شخص سے شادی کرنی ہے جو منہ پھاڑ کر ایک بار نہیں بار بار مجھے ریجکٹ کر چکا ہے
اس نے تمہارے لیے ہی تمہیں ریجکٹ کیا تھا
نہ فضہ۔۔۔ میرے لیے نہیں کیا تھا، کسی اور کے لیے مجھے ریجکٹ کیا تھا ۔ کسی اور کو مجھ پر فوقیت دی تھی ۔ میرے لیے نہیں کیا تھا بلکہ اپنی محبت کے لیے کیا تھا
تم اس کے ساتھ ساتھ خود کو بھی سزا دے رہی ہو ۔یہ بات تم کیوں نہیں سمجھ رہی ہو ۔اور کیا ہو گیا اگر اس نے تمہیں ریجکٹ کر دیا۔ تم کوئی انو کھی تو نہیں، دنیا میں ہزاروں لڑکیاں روز ریجکٹ ہوتی ہیں ، تو کیا وہ تمہاری طرح فضول کی ضد باندھ کر بیٹھ جاتی ہیں
مجھے میری عزت نفس بہت پیاری ہے اورتم جانتی ہو اس کے لیے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں ۔کسی حد تک بھی جا سکتی ہوں
اور موحد بڑا تمہیں سر آنکھوں پر بٹھا رہا ہے وہ بھی تو انکار کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔۔۔۔
سچ بتاؤ یہ ریجکشن کی تکلیف ہے یا حنان نے تمہیں ریجکیٹ کیا ہے اس بات کی تکلیف ہے ۔فضہ نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا
تو کیا کروں زہر کھا لوں ۔میشا نےٹیبل پر رکھا گلاس اٹھا کر دیوار میں دے مارا
میں ہی فساد کی جڑ ہوں نہ تو ایسا کرتی ہوں خودکشی کر لیتی ہوں ۔ سب کی جان چھوٹ جائے گی۔ پہلے سمائرہ طعنے دیتی ہے اب تم بھی شروع ہو گئی ہو
میشا ۔۔۔۔ فضہ اس کی حالت دیکھتے ہوئے اٹھ کر اس کے پاس آئی
ہاں صیح کہہ رہی ہوں مرہی جاتی ہوں۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے نیچے پڑا کانچ اٹھایا ۔فضہ نے جلدی اس کے ہاتھ کانچ لے کر پھینکا
میشو پاگل ہو گئی ہو ۔ کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ریلیکس کوئی تمہیں الزام نہیں دے رہا ۔ میں تمہاری دوست ہوں نہ کچھ نہیں کہہ رہی ۔۔یہاں بیٹھو ۔وہ ضد پر اڑ گئی تھی اور فضہ جانتی تھی کہ ایک بار وہ ضد پر آ جائے تو اپنے نقصان کی بھی پرواہ نہیں کرتی
سمائرہ اس کا رئیکشن بہت شدید ہے اگر میں اسے فورس کروں گی تو وہ خود کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ کچھ اور سوچو اس کا دھیان بٹا کر فضہ نے سمائرہ کو میسج کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم ابھی تک سوئے نہیں۔ سمائرہ حنان کے روم میں آئی تو اسے زمین پر بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا دیکھ کر کہا
نیند ہی نہیں آ رہی کیا کروں ۔
اور میری بھائی کو کیوں نیند نہیں آ رہی ۔وہ بھی وہیں اس کے پاس بیٹھی
پتہ نہیں ۔اس کے انداز میں بے بسی تھی
سو جاؤ حنان کیا حال بنا رکھا ہے ۔یوں پریشان ہونے سے وہ مل نہیں جائے گی
تم خالہ سے بات کرو نہ تمہاری بات تو وہ مانتی ہیں
حنان بات خالہ یا کسی اور کی نہیں بات میشا کی ہے وہ ضد لگائے بیٹھی ہے
وہ مجھ سے ناراض ہے نہ ، تو میں اسے سوری بول لیتا ہوں۔ وہ جہاں کہے گی جیسے کہے گی ، میں معافی مانگنے کو تیار ہوں،کہے گی تو اس کے قدموں میں بیٹھ جاؤں گا بس ایک بار معاف کر دے نہ ۔ تم اسے کہو نہ مجھ پر ترس کھا لے ۔اس کی نم آنکھوں کو دیکھتے ہوئے سمائرہ کی آنکھیں بھی نم ہوئیں
اچھا تمہیں میشا چایئے نہ۔ سمائرہ نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا تو اس نے سر ہلایا
ایک کام کرو سکون سو جاؤ ابھی کل کا دن ہے وہ تمہاری ہے اور رہے گی تمہاری بہن کا وعدہ ہے میں کل جاتی ہوں خالہ اور ممانی کے ہاں۔ آئی پرومس ان کو منا کر ہی آؤں گی
پکا ۔۔پکا وعدہ ناں
ہاں پکا وعدہ چلو اب میں اٹھو اپنا حلیہ درست کرو میں کھانا منگواتی ہوں کھا کر سو جاؤ ویسے بھی دلہے کو فریش دکھنا چایئے ۔سمائرہ اسے واش روم بھیج کر خود اس کے لیے کھانا لینے چلی گئی۔ اسے کھانا کھلا کر نیند کی ٹیبلٹ دی ۔جب تک وہ سو نہ گیا وہ وہیں اس کے پاس بیٹھی رہی
سو گیا ہے ۔ سمائرہ حنان کے روم سے نکلی تو نوشابہ بیگم کو باہر کھڑا پایا
جی ٹیبلٹ دی ہے نیند کی ۔۔۔۔۔
کل آپا اور بھابھی کے ہاں جاؤ تو مجھے اور اپنے ڈیڈ کو بھی لیتی جانا
آپ سچ کہہ رہی ہیں سمائرہ نے بے یقینی سے پوچھا
تمہیں کیا لگتا ہے اس کی حالت دیکھ کر میں سکون میں ہوں ،مجھے تکلیف نہیں ہوتی اسے یوں تڑپتا دیکھ کر ماں ہوں میں اس کی ۔ نہیں دیکھ سکتی اسے دکھ میں۔
لو یو سو مچ مام سمائرہ کہتے ہوئے ان کے گلے لگی
نوشی تم نے ہمیں کس مشکل میں ڈال دیا ہے ان کی بات سن کر خالدہ بیگم نے کہا اگلی صبح ہی میشا کے ہوسپیٹل جانے کے بعد وہ سب فاروق صاحب کے ہاں چلے گئے تھے اور ان کے سامنے ساری بات گوش گزار کر دی
ہاں نوشابہ سارے خاندان رشتہ داروں کو پتہ ہے کہ موحد اور میشا کا رشتہ طے ہوا ہے اور اب جب کہ کل تقریب ہے تو تم ایسی بات کر رہی ہو ۔فاروق صاحب نے سنجیدگی سے کہا تو سمائرہ اٹھ کر خالدہ بیگم کے قدموں میں جا بیٹھی
خالہ جان پلیز آپ سمجھنے کی کوشش کریں حنان کی بہت بری حالت ہے ۔ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنا سنجیدہ ہو گا ورنہ ایسی نوبت ہی نہ آتی ۔موحد اچھا لڑکا ہے ماشاءاللہ سے کوئی کمی نہیں ہے اس میں اسے تو کوئی بھی اچھی لڑکی مل جائے گی ۔پلیز آپ میرے بھائی سے اس کی خوشی مت چھینں
آپا سمائرہ سہی کہہ رہی ہئ ہم جانتے ہیں عین وقت پر ہماری یہ فرمائش پچگانہ ہے مگر یقین کریں ہم آپکی بیٹی کو بہت خوش رکھیں گے ۔اسے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہو گی کب سے خاموش بیٹھے حسن صاحب نے کہا
بات اب صرف ہماری نہیں حسن اگر ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو کبھی انکار نہ کرتے مگر بات بھابھی اور موحد کی ہے
وہ کیا سوچیں گے اور ہم کیسے منع کریں انہیں بغیر کسی وجہ کے ۔برا مت مانیے گا مگر آپ نے دیر کر دی ہے اب کچھ نہیں ہو سکتا
کیوں نہیں ہوسکتا اب بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے سمائرہ جو کہہ رہی ہے آپ اس کی بات مان لیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں افق نے اندر آتے ہوئے کہا اس کے پیچھے فضہ اور رافعہ بیگم بھی تھیں ۔ فضہ نے آنکھ بچا کر ڈن کا اشارہ دیا تو سمائرہ ہلکا سا مسکرائی
ہاں بھائی صاحب افق ٹھیک کہہ رہی ہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔ ہم حنان سے اس کی خوشی چھین کر اتنا بڑا گناہ نہیں کر سکتے کل موحد اور میشا کا نہیں حنان اور میشا کا نکاح ہوگا رافعہ بیگم مسکراتے ہوئے بولیں
مجھے اچھا خاصا مشکل کام لگ رہا تھا مگر تم نے اتنی آسانی سے کر دیا سمائرہ نا محسوس انداز میں کھسک کر فضہ کے پاس آئی
پھر تم ابھی میری مکاریوں سے واقف نہیں ہو اپنی فیوچر بھابھی سے پوچھنا ہم دونوں اس سے بھی بڑے بڑے کام کر چکیں ہیں فضہ اس کے کان میں بڑبڑائی
مگر بھابھی کل جب موحد کا نکاح نہیں ہو گیا تو لوگوں کو کیا کہیں گے فاروق صاحب نے پریشانی سے کہا
آپ سے کس نے کہا کہ موحد کا نکاح نہیں ہو گا کل اسکا بھی نکاح بھی ہوگا
کس سے خالدہ بیگم نے پوچھا
اپنی عیشا سے
عیشا پر بھابھی۔۔
کیا ہوا کوئی اعتراض ہے کیا
نہیں بھلا اعتراض کیا ہوگا مگر وہ ابھی پڑھ رہی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بھی بس نکاح ہی کریں گے رخصتی اس کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی رکھیں گے
یہ کیا نیا شوشہ چھوڑ کر آئی ہو سمائرہ نے فضہ کو گھورا
تم امرود کھاؤ گھٹلیاں مت گنو
امرود میں گھٹلیاں نہیں ہوتی فضہ
وہ ہوتی تو ہے گول گول سی جس میں بیج ہوتا ہے
وہ گھٹلی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کرنے میں کیا حرج ہے
مگر بتاؤ تو سہی کیا کہا ہے
ابھی ٹائم نہیں ہے پھر بتاؤں گی ۔ ان دونوں کی سرگوشیوں میں بڑوں کے درمیان کیا طے پایا تھا وہ جان نہ سکیں یہ تو جب سب اٹھنے لگے تو سمائرہ کو ہوش آیا
پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا پھر کل موحد اور حنان دونوں کا نکاح ہے افق نے کہا
وہ تو ٹھیک ہے مگر میشا کو پتہ نہیں چلنا چایئے ورنہ اس سے کوئی بعید نہیں کہ وہ انکار کر دے
اور اگر عین نکاح کے وقت کر دیا تو خالدہ بیگم نے تشوش سے کہا
وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے گا بس جیسا میں کہتی جاؤں آپ لوگ کرتے جایئے گا فضہ نے آنکھیں مٹکائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افق نے اس کا میک اپ کرنے کی زمہ داری لی تھی سکن کلر کی فراک میں لائٹ جیولری اور ہلکا پھلکا میک اپ کیے ہوئے اس کی چھب ہی نرالی تھی ۔ افق نے سائیڈ چوٹی بنا کر اس میں بیٹس لگا دیے تھے۔ دونوں سائیڈ سے نکالی گئی لٹیں اسے مزید خوبصورت بنا رہی تھیں ۔ گو کہ ٹائم بہت تھوڑا تھا مگر سمائرہ نے اسکے ڈریس سے لے کر جیولری، میک اپ تک خود بہت دھیان سے چوز کیا تھا ۔
نکاح کے وقت فضہ نے اسے لاونج میں لا کر بٹھایا اور دائیں طرف ہارون اور بائیں طرف سمعیہ کو پکڑ کر بٹھا دیا ۔میشا نے ناسمجھی سے فضہ کی طرف دیکھا اسے کل سے ہی اس کا انداز عجیب لگ رہا تھا ۔باقی سب گھر والوں کو بھی دیکھتے ہوئے اسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس سے کچھ چھپایا جا رہا ہے عیشا سے پوچھا تو وہ ٹال گئی۔ پہلے سے لاونج میں موجود حنان کی نظر اس پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی تھی۔
سیدھے ہو کر بیٹھو کیوں جوتے کھانے ہیں فضہ نے اسے یوں دیکھتا پا کر سرگوشی کی تو وہ سیدھا ہوا ۔مولوی نے جب موحد کی جگہ حنان کا نام لیا تو اس نے نظر اٹھا کر خالدہ بیگم کو دیکھا ، انہوں نے سر سے ہاں کرنے کا اشارہ کیا
بیٹا ایسے موقع پر ہاں بولتے ہیں ۔ہارون صاحب نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا
پر بابا یہ۔۔۔۔۔
میرا اچھا بیٹا ابھی ہاں کرو، مولوی صاحب انتظار کر رہے ہیں پھر بات کریں گے ہارون صاحب نے اسے ٹوکا تو اسے سمجھ میں آیا کہ فضہ نے انہیں ساتھ کیوں بٹھایا تھا گومگو کی سی کیفیت میں اس نے ہاں میں سر ہلایا تو سب کا بالخصوص حنان کا اٹکا سانس بحال ہوا میشا نے کے زہن میں ایک ہی بات چل رہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اس نے بے ساختہ فضہ کی طرف دیکھا جو سمائرہ کے ساتھ سرگوشیوں میں مصروف تھی فضہ کی نظر اس پر پڑی تو اس نے ہلکی سی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی جواباً میشا نے بھی مسکراہٹ پاس کی تو اس نے آنکھیں پھاڑیں ۔ اس مسکراہٹ میں چھپی وارننگ کو فضہ سے بہتر کون جان سکتا تھا ۔ اسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوئی جو اب عیشا اور موحد کا نکاح پڑھا رہے تھے عیشا کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اس کے لیے سب اچانک نہیں تھا مطلب وہ آگاہ تھی ایک وہ ہی بے خبر تھی جیسے جیسے بات اس کی سمجھ میں آ رہی تھی ویسے ویسے اس کے چہرے کا زاویہ بگڑتا جا رہا تھا ۔حنان جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر اسے وہ دن یاد آیا جب اس نے لاونج میں توڑ پھوڑ کی تھی۔
اللہ پلیز میری مدد کرنا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...