(Last Updated On: )
ان کی الفت کا جہاں شور و شرر ہوتا ہے
دل وہی مرکزِ الطافِ نظر ہوتا ہے
ہوش اڑ جاتے ہیں بے چاری خرد کے دیکھا
غم مقابل ہو تو دل سینہ سپر ہوتا ہے
واعظِ شہر نے برباد کیا وقت مرا
صرف باتوں کا کہیں دل پہ اثر ہوتا ہے
لاکھ انسانوں میں ہوتا ہے کوئی ایک بشر
یوں بشر کہنے کو ہر شخص بشر ہوتا ہے
میں تو اس شخص کی باتوں پہ تَرَس کھاتا ہوں
خردِ خام کا جو دستِ نگر ہوتا ہے
گوشۂ دل سے تری یاد ہے یوں وابستہ
دامنِ صبح میں جوں نورِ سحر ہوتا ہے
عالمِ نزع ہے اور اشک ہیں آنکھوں میں نظرؔ
کچھ نہ کچھ رختِ سفر وقتِ سفر ہوتا ہے
٭٭٭