(Last Updated On: )
کھانا کھا کر اسکا جی متلانے لگا تھا شاید بخار کیوجہ سے، وہ چہل قدمی کرنے کے لیے لان میں نکل آیا تھوڑی دیر چل کر جب اسکی طبیعت تھوڑا بہتر ہوئی تو وہ دالان میں پیڑ کے نیچے ایک کرسی پر بیٹھ گیا تبھی بے ارادہ طور پر اسکی نظر ذیشان کے کمرے سے ملحقہ ٹیرس پر اٹھ گئی۔
ذیشان اسکے ہاتھ پکڑے نہ جانے کیا کہہ رہا تھا جس پر وہ کھلکھلا رہی تھی۔
شاہزیب نے کرب سے آنکھیں بند کی۔ہمیشہ اس نے ایمل کو ہمسفر کے طور پر سوچا تھا اسی کے خواب سجاۓ تھے اب ایمل کو بھابی تسلیم کرنے میں اسے دقت محسوس ہو رہی تھے سارے خواب شیشے کی طرح ٹوٹ کر پاش پاش ہو گئے تھے جو اسے اندر ہی اندر زخمی کر رہے تھے۔اسکے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ذیشان کی شادی ایمل یعنی اسی کی فیری سے ہو رہی ہے ورنہ وہ پاکستان آنے کی غلطی نہ کرتا۔
اس نے چکراتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھاما
“یا خدا یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ کیوں میرے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے میں کیسے یہ سب برداشت کروں میں بہت کمزور ہوں یااللہ میری آزمائش کم کر دیں” اس نے تڑپ کر التجا کی
ذیشان اسے ہاتھ ہلا رہا تھا اور شاید کچھ کہہ بھی رہا تھا مگر شاہزیب کو اسکی آواز نہ سنائی دی جواباً اس نے بھی ہاتھ اٹھا کر ہلایا
“میں فنا ہو جاؤں گا مگر کبھی اپنے بھائی کی خوشیاں نہیں چھینوں گا ان دونوں کی خوشی میں میری خوشی ہے میں ان کی زندگی سے دور چلا جاؤں گا” اس نے سوچتے ہوۓ کرسی چھوڑی اور اپنے کمرے کیطرف چلا گیا۔
ان کی آنکھوں کی اجازت مار دے گی
مجھے اس بار ہجرت مار دے گی
ہنسی میں دکھ چھپا لیتا ہوں اپنے
کسی دن یہ سہولت مار دے گی
کبھی سوچا نہیں تھا تیرے ہوتے
کوئی تازہ محبت مار دے گی
کسی کو اپنا دشمن ہی بنا لوں
وگرنہ یہ فراغت مار دے گی
محبت کرنے سے پہلے پتہ تھا
قبیلے کی روایت مار دے گی
حسنؔ یہ وقت آنے پر کھلے گا
کسے کس کی ضرورت مار دے گی
۞۞
طبیعت بہتر ہوتے ہی اس نے کریم یزدانی سے لندن واپس جانے کی بات کر دی۔اگرچہ وہ واپس نہ جانے کے لیے آیا تھا مگر روز روز ایمل کو دیکھ کر خود کو اذیت نہیں دے سکتا تھا اور نہ ہی کسی کو شک و شبہات میں مبتلا کرنا چاہتا تھا۔
کریم یزدانی اسکی بات سن کر بھڑک اٹھے
“تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے شاہ ابھی تمہیں آۓ ایک ماہ نہیں ہوا اور تم واپس جانے کی بات کرتے ہو ہوش ٹھکانے ہیں یا نہیں”
بابا جانی میرا جانا ضروری ہے میں ذیشان کی ناراضگی کیوجہ سے آیا تھا اور اب۔۔۔۔ اس نے منمناتے ہوۓ کہا
شادی تو تم نے اسکی اٹینڈ کی نہیں۔ کریم یزدانی نے اسکی بات کاٹ کر کہا
ذیشان اور ایمل ہنی مون پر جانا چاہتے ہیں جب تک انکی واپسی ہوتی تم یہی رہو گے۔ کریم یزدانی نے حتمی انداز میں کہا وہ دونوں اسوقت لاؤنج میں بیٹھے تھے ذیشان اور ایمل احد کیطرف گئے ہوۓ تھے شاہزیب نے موقع اچھا جان کر واپسی کی بات چھیڑ دی تھی۔
میں تو چاہتا تھا تم لندن سے واپس آؤ تو تمہاری بھی شادی کر دوں آخر کب تک ایسے اکیلے رہو گے۔ کریم یزدانی نے اسے گم سم دیکھتے ہوۓ کہا۔
میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔ یکدم اسکے دماغ کی رگیں تن گئی تھی
کیوں الرجک ہو شادی سے ؟تم سے ذیشان کتنے برس چھوٹا ہے اور وہ اپنا گھر بسا چکا ہے۔ کریم یزدانی نے اسے ذیشان کی مثال دے کر کہا
مجھے نہیں کرنی شادی بس اور اگر اب آپ نے یہ ٹاپک چھیڑا تو بغیر بتاۓ کہیں بھی چلا جاؤں گا۔ وہ سختی سے کہتا اپنے کمرے چلا گیا اور کریم یزدانی حیرانگی سے اسکا یہ روپ دیکھ رہے تھے انہیں بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
وہ لائٹ آف کیے کرسی پر بیٹھا سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
یس۔۔
تبھی دروازہ کھول کر کریم یزدانی اندر داخل ہوۓ کمرہ سگریٹ کر دھویں سے بھرا ہوا تھا انہوں نے لائٹ آن کی اور تاسف سے شاہزیب کو دیکھا
یہ سب کیا ہے شاہ؟ کریم یزدانی اسکے پاس آۓ وہ نظریں جھکا گیا تھا۔
تم نے کب سے سگریٹ پینے شروع کر دیے؟ کریم یزدانی نے نیچے مسلے ہوۓ سگریٹ دیکھ کر کہا وہ ہنوز خاموش رہا۔
کیا بات ہے شاہ؟ انہوں نے پاس آکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا “کون سی آگ تمہارے اندر دہک رہی ہے جس کے شعلے تمہاری آنکھیں اگل رہی ہیں”
بابا آپ نہیں سمجھ سکتے میں آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔ اس نے بے بس ہو کر کہا تھا۔کچھ دیر کریم یزدانی اس کو دیکھتے رہے پھر اسے لندن جانے کی اجازت دے کر کمرے سے باہر نکل گئے۔
“لندن سے واپسی پر خوش باش تھا پھر آخر ایسا کیا ہوا جو اتنا ڈسٹرب ہے”وہ کریم یزدانی کو بھی بے چین کر گیا تھا انہیں بھی گہری سوچوں میں دھکیل گیا تھا۔
۞۞
وہ ہمیشہ کے لیے لندن چلا گیا تھا اس کے جانے کے بعد ذیشان نے ہنی مون منانے کا ارادہ ترک کر دیا تھا اور کریم یزدانی کیساتھ ان کے بزنس میں مصروف ہو گیا۔زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر روانہ ہو چکی تھی۔رُک تو وہ گیا تھا زندگی کی اس دوڑ میں۔ لندن آکر بھی اسکی اداسی میں کمی نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ اپنا دھیان کام پر لگا پایا تھا سارا دن کمرے میں سگریٹ سلگا کر ماضی کی ستم ظریفی یاد کرتا یا ٹیرس پر کھڑے ہو کر گھنٹوں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو گھورتا رہتا۔پھر آہستہ آہستہ وہ بھی اس حول سے باہر آنے لگا اور اپنا پورا دھیان کام پر لگا دیا آخر کب تک وہ خود کو اذیت دیتا کب تک قسمت کو موردِالزام ٹھہراتا رہتا۔
لندن میں اسے آۓ تین ماہ ہوۓ تھے جب ایک دن اسے ذیشان نے بتایا کہ وہ باپ بننے والا ہے اور شاہزیب تایا۔اس نے دل سے ذیشان کو باپ بننے پر مبارک باد دی تھی وہ اسکی خوشی سے چہکتی آواز سن کر خود بھی مسکرایا تھا۔کبھی کبھی اپنوں کی خوشی میں انکا ساتھ ہنس کر دینا پڑتا ہے چاہے دل غم سے کتنا ہی بھرا ہوا کیوں نہ ہو اور وہ بھی ذیشان کا ساتھ دینے پر مجبور تھا۔ننھے زیان کی پیدائش پر شاہزیب نے بہت سے تحفے بھیجے تھے وہ بھی اپنوں میں جانا چاہتا تھا ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا تھا مگر نہ جانے کیوں اسے ایسا لگتا تھا جیسے وہ پاکستان جائیگا تو ذیشان کی خوشیوں کو کھا جائے گا۔
۞۞
☜حال
وہ لاؤنج میں بیٹھی شو دیکھ رہی تھی جب شاہزیب آندھی طوفان بنا گھر آیا وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی
کب سے کال کر رہا ہوں کال کیوں نہیں اٹھا رہی۔ شاہزیب نے غصے سے پوچھا
وہ میرا سیل تو کمرے میں ہے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا آج صبح بھی اسکی جھڑک سن چکی تھی جو ابھی اسکے ذہن میں تازہ تھی
زوبیہ پھپھو نے رات کے کھانے پر بلایا ہے ہمیں۔ شاہزیب نے نرم پڑتے کہا
بابا جانی اور زیان تو نہیں جائیں گے ہم دونوں ہی جائیں گے انکا گھر کافی دور ہے واپسی شاید لیٹ ہو اسلیے زیان کو باباجانی کے پاس چھوڑنا ہی ٹھیک رہے گا۔ شاہزیب نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا
ٹھیک ہے۔وہ ٹی وی بند کر کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
اس نے موسم کی مناسبت سے تیز سبز کلر کا سوٹ نکالا جس پر گولڈن کلر کی خوبصورت اور نفاست سے موتیوں کی کڑھائی کی گئی تھی۔
آدھے گھنٹے میں وہ ریڈی ہو چکی تھی۔شاہزیب کمرے میں آیا تو اس پر سے نظریں ہٹانا بھول گیا بلاشبہ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
موسم کے تیور ٹھیک نہیں ہیں تم شال وغیرہ بھی ساتھ لے لو۔ شاہزیب نے اس پر سے نظریں چراتے ہوۓ کہا
اس نے اثبات میں سر ہلایا تبھی شاہ زیب کی نظر اسکی خالی گردن پر پڑی اس نے اپنی الماری کا لاک کھولا اور برسوں پہلے جو لاکٹ اس نے کسی اور کے لیے لیا تھا وہ نکال کر رابی کیطرف بڑھایا
یہ کیا ہے؟ رابی نے پوچھا
لاکٹ ہے پہن لو اچھا لگے گا۔ شاہزیب نے جواباً کہا۔
آپ پہنا دیں۔ اس نے شاہزیب کے ہاتھ سے لاکٹ نہیں لیا تھا مجبوراً شاہزیب کو ہی اسے لاکٹ پہنانا پڑا۔
اسکی صراحی دار گردن پر وہ لاکٹ بہت جچ رہا تھا۔
شاہزیب اس پر سے نگاہیں ہٹا کر کپڑے لے کر واشروم میں شاور لینے چلا گیا۔
جب تک وہ ریڈی ہوتے کریم یزدانی بھی گھر آگئے تھے زیان انہی کے پاس تھا۔بابا جان سے اجازت لے کر اور زیان سے پیار کرکے وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر زوبیہ بیگم کے گھر کیطرف روانہ ہو گئے۔
۞۞
آسمان پر گہرے سیاہ بادل چھاۓ ہوۓ تھے پرندے آسمان پر گول دائرے کی شکل میں اڑتے ہوۓ گھروں کو لوٹ رہے تھے اور وہ دونوں اس موسم میں گھر سے نکل آۓ تھے۔
وہ ڈرائیونگ کرتے شاہزیب کو بار بار مڑ کر دیکھ رہی تھی وہ قمیص شلوار میں بہت ڈیسنٹ لگ رہا تھا چہرے پر ہلکی سی داڑھی اسکی شخصیت کو مزید نکھار رہی تھی۔
کیا دیکھ رہی ہو؟ شاہزیب نے اسے اپنی طرف دیکھتے پاکر کہا
کچھ نہیں۔ اس نے گھبرا کر جلدی سے نظریں ہٹا کر گاڑی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ شاہزیب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئی تبھی شاہزیب کے موبائل پر رنگ ٹون ہوئی
ہیلو۔اس نے کال پک کر کے کان سے لگایا
جی راستے میں ہیں۔
بتا دونگا اللہ حافظ۔ شاہزیب نے موبائل ڈیش بورڈ پر رکھا
کس کی کال تھی؟ رابی نے پوچھا
بابا جانی کی، کہہ رہے تھے وہاں پہنچ کر بتا دینا۔شاہزیب نے ایک نظر اسکے سردی سے سرخ ہوتے چہرے پر ڈال کر کہا
بارش کی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی اور ہلکی ہلکی ہوا بھی ہورہی تھی۔چند ہی پل گزرے تھے کہ زوبیہ بیگم کا گھر بھی آگیا۔ زوبیہ پھپھو اور انکی بہو نے دروازے پر ہی ویلکم کیا
رابی ان کی مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئی اور اپنی اسقدر عزت اور آؤ بھگت سے اسکی آنکھیں بھیگ گئی وہ تو اس قابل نہیں تھی یقیناً اسی شخص کی وجہ سے وہ عزت اور پیار لینے کے قابل ہوئی تھی۔
__________
ان کی واپسی رات کو دیر سے ہوئی تھی زوبیہ بیگم نے شاہزیب کو روکنے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ نہیں رکا تھا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ سردی میں ٹھٹھرنے کیوجہ سے رابی کو فُلو ہو گیا تھا اور اسکا اپنا سر بھی درد سے بھاری تھا۔
ایک بات پوچھوں؟ وہ لاکٹ اتار رہی تھی جب اسکے ذہن میں ایک سوال آیا
ہوں۔ وہ بستر پر لیٹ چکا تھا
یہ لاکٹ آپ نے کس کے لیے لیا تھا؟ اس نے عام سے لہجے میں پوچھا تھا مگر شاہزیب کو اسکا لہجہ شک سے بھرا ہوا لگا
کیا مطلب ہے تمہارا؟
مطلب یہ آپ نے کب اور کس کے لیے لیا مجھے پہلے تو نہیں دیا اور نہ میں نے دیکھا یہ؟ اس نے ایر رنگز اتارتے ہوۓ کہا
نرمی سے پیش آتا ہوں تو اسکا یہ مطلب نہیں تم سوال جواب کرنے لگ جاؤ۔وہ نروٹھے پن سے کہتا اسکی طرف پشت کرکے لیٹ گیا اس نے بھی دوبارہ کوئی سوال نہیں کیا ڈریس چینج کر کے وہ زیان کے کمرے کیطرف چلی گئی جو ناراضگی کا برملا اظہار تھا۔
اگلے دن وہ کریم یزدانی کی اجازت سے زیان کو لے کر میکے چلی گئی شاہزیب سے اجازت تو دور اسنے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔شام کو وہ گھر آیا تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
کہاں گئے سب لوگ؟ اس نے ملازمہ نازو سے پوچھا
بی بی جی زیان میاں کو لے کر میکے گئی ہیں اور بڑے صاحب کمرے میں ہیں۔ نازو بتا کر کچن میں روپوش ہو گئی تھی۔ اسکے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے
“میکے” آخر ایسا کیا کہہ دیا میں نے اسے۔ وہ غصے سے کھولتا کریم یزدانی کے کمرے کیطرف بڑھا دروازہ ناک کر کے وہ اندر داخل ہوا
اسلام علیکم۔ اس نے اپنے اعصاب قابو کیے
وعلیکم سلام۔وہ نظر کا چشمہ لگا کر کوئی کتاب پڑھ رہے تھے اسے دیکھ کر کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھی
آگئے تم۔ انہوں نے نرمی سے پوچھا
جی۔ وہ اسکے کمرے میں آنے کی وجہ جان گئے تھے تبھی بولے
ربیکا میکے گئی ہے کل اتوار تھا تو زیان کو بھی لے گئی۔ تم سے پوچھا تھا اس نے؟
نہیں۔ کس کیساتھ گئی ہے؟ اس کے ماتھے پر پڑی سلوٹوں میں اضافہ ہوا
ٰڈرائیور چھوڑ آیا تھا اسے۔ کریم یزدانی نے اسکے چہرے پر کچھ کھوجنے کی کوشش کی ” مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ وہ تم سے ناخوش ہے؟”
وہ انکی بات پر خاموش ہو گیا
“اچھی اور تمیز دار بچی ہے میرا خیال رکھتی ہے سب سے بڑھ کر وہ زیان کو ایک ماں کی طرح ٹریٹ کرتی ہے۔ حالانکہ اسکی عمر ہی کیا ہے پھر بھی وہ ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھا رہی ہے مگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہوۓ بھی کیوں اپنی فرض سے نظریں چرا رہے ہو؟ ایک تو دن بھر کی تھکن اور پھر کریم یزدانی کی باتیں، اسے سخت تاؤ آگیا
نبھا تو رہا ہوں سب۔اور کیسے نبھاؤں؟
بیزار ہو کر نہیں دل سے ذمہ داریاں نبھاؤ۔ ان کی بات پر اس نے سر ہلا کر اٹھنا چاہا تبھی کریم یزدانی بولے
اب صبح جا کر اسے لے آنا۔یہ نہ ہو مجھے یاد دلانی پڑے۔ وہ واپس کتاب ہاتھ میں لے چکے تھے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا۔
۞۞
☜ماضی
وقت پر لگا کر گزر گیا شاہزیب کو لندن گئے پانچ سال ہونے کو آۓ تھے۔ انہی دنوں احد کی شادی کلاس فیلو نشاء کیساتھ طے ہو گئی تھی۔شادی کی شاپنگ وغیرہ ایمل کو ہی کرنی تھی اسلیے وہ شادی کے دنوں اُدھر ہی شفٹ ہو گئی تھی۔
آج وہ دونوں زیان کو لے کر احد کیساتھ برائیڈل ڈریس لینے آۓ تھے احد نے لائٹ پنک کلر کا لہنگا پسند کیا تھا جس پر گولڈن اور بِلو کلر کا کام کیا ہوا تھا۔باقی شاپنگ مکمل کر انہوں نے مہنگے سے ریستوران میں کھانا کھایا اور پھر گھر کی راہ لی۔زیان احد کیساتھ اسکی گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا اور ذیشان اور ایمل اپنی کرولا میں۔
ماموں آئس کریم کھانی ہے؟ چار سال کا زیان آئس کریم پارلر دیکھ کر مچل گیا اسکی آئس کریم کی رٹ سے مجبوراً احد کو گاڑی روکنی پڑی۔وہ اسے لے کر آئس کریم پارلر کی طرف بڑھا۔
آئس کریم سے لطف اندوز ہو کر وہ واپس گاڑی میں بیٹھے۔
گھر پہنچتے ہی ایک خبر نے ان کے اوساں خطا کر دیے احد زیان کو ملازم کے پاس ہی چھوڑ کر واپس گاڑی لے کر ہسپتال بھاگا
ہسپتال پہنچ کر جو خبر اسکی سماعتوں میں پڑی وہ سن کر وہ نڈھال سا ہو کر بنچ پر ہی گِر گیا۔
ذیشان اور ایمل کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ذیشان تو موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا اور ایمل زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔ذیشان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔شاہ زیب کو بھی اس خبر کی اطلاع کر دی گئی تھی وہ وہاں سے آنے کیلیے تڑپ رہا تھا اور کریم یزدانی وہ تو بلکل ہمت ہار بیٹھے تھے جوان بیٹا آج اللہ کو پیارا ہو گیا تھا انکے گھر کی خوشیوں کو ایک بار پھر کسی کی نظر بد لگ گئی تھی۔
۞۞
وہ ذیشان کی تدفین کے بعد لندن سے آیا تھا اندر داخل ہوتے ہی جو پہلی نظر پڑی وہ چارپائی تھی جو سفید چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس سے نظر ہوتی ہوئی احد پر گئی کو بے آواز رو رہا تھا احد سے نظر ہوتی ہوئی کریم یزدانی پر گئی جو ضبط کی انتہا پر تھے تبھی کسی کی نظر اس پر پڑی۔
شاہ زیب آگیا۔سب اسکی طرف مڑ کر دیکھنے لگے تھے وہ نہیں جانتا کون کون اس سے لپٹ کر اسے تسلی دلاسے دے رہا تھا وہ تو جیسے پتھر ہو گیا تھا۔
وہ روتے ہوۓ زیان کو اپنے ساتھ بھینچے ہوۓ تھا آنسو اندر ہی اندر گر رہے تھے دل غم سے پھٹنے کو تھا مگر وہ تو جیسے بت بن گیا تھا آج وہ لڑکی جو ہر پر ہنسی کھلکھلاتی چہرے پر ہر طرح کا رنگ سجا لیتی تھی آج وہ خاموشی سے سوئی ہوئی تھی اور ذیشان جو ہر بار اسے کہتا تھا بھائی میں ناراض ہو جاؤنگا مگر اس کے آنے پر اسے خوشی سے گلے لگا لیتا تھا آج کہیں چھپ گیا تھا ہمیشہ کیلئے اس سے روٹھ گیا تھا۔
کریم یزدانی اور احد اسے دلاسے دے رہے تھے مگر ایک جامد چپ تھی جو اسکے ہونٹوں سے چپک گئی تھی۔
۞۞
اس دل دہلا دینے والے حادثے سے گزر کر وہ کمرے میں بند ہو کر رہ گیا تھا دن میں کئی ڈبیاں سگریٹ کی ختم کر دیتا۔
“یہ میرے اندر کی آگ تھی کو ان دونوں کو بھی ختم کر گئی یہ میرا قصور تھا میرا دل انکی خوشیوں قبول نہیں کر پا رہا تھا اسی لیے خدا نے دونوں کو چھین لیا”
ایک آنسو کا قطرہ جو اسکا چہرہ بھگوتے ہوۓ ہتھیلی پر آگرا۔اس کے اندر اتنا غم تھا کہ اگر روتا تو سب کو بہا کر لے جاتا مگر یہ آنسو بھی کبھی کبھی روٹھ جاتے ہیں باوجود غم تڑپ کے یہ آنکھوں میں نہیں آتے دل ہی دل میں گر کر اسے زخمی کر دیتے ہیں۔
وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے اور وقت کیساتھ سبھی سنبھل گئے تھے کریم یزدانی بھی پہلے کیطرح نہیں روتے تھے اپنے بیٹے کی نشانی کو انہوں نے اپنی بانہوں میں بھر لیا تھا۔
احد کی جو اس حادثے کی وجہ سے کینسل ہو گئی تھی چند ماہ بعد سادگی سے ہوئی اور وہ نشاء کو لے کر بیرون ملک چلا گیا اب وہ یہاں نہیں رہنا چاہتا تھا جاتے ہوۓ وہ زیان کو ساتھ لے جانے پر بضد تھا مگر شاہزیب نے زیان کو اپنے پاس رکھ لیا تھا۔
زندگی پھر اپنی ڈگر پر روانہ ہو گئی تھی تبھی ایک دن کریم یزدانی نے اس سے شادی کی بات کر دی۔
شاہزیب میں چاہتا ہوں تم اب شادی کر لو یہ ویران گھر مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے پہلے ایمل تھی اسکے ہنسنے کھلکھلانے سے گھر میں رونق تھی اب یہ سناٹا دل کو چیرتا ہے۔ وہ آنکھوں میں آنے والی نمی صاف کرتے ہوۓ بولے
بابا جانی میں پہلے بھی آپکو کہہ چکا ہوں کہ میں شادی نہیں کر سکتا۔ شاہزیب نے انہیں یاد دلایا
کبھی تم نے بوڑھے باپ کی کوئی بات مانی ہے ہر بار تم نے مجھے مایوس کیا ہے باپ مرے گ۔۔۔۔
ایسا تو مت کہیں۔شاہزیب نے انہیں ٹوکا
پھر میری بات مان لو بیٹا۔کریم یزدانی نے اس سے التجا کی تھی
ٹھیک ہے جہاں کرنا چاہتے ہیں شادی کردیں۔ وہ انکی بلیک میلنگ میں آگیا تھا۔
شاہزیب کے ہامی بھرتے ہی کریم یزدانی نے زوبیہ بیگم کو رشتہ ڈھونڈنے کے لیے کہا تھا اور پھر زوبیہ بیگم شاہزیب کو لے کر سہیل احمد کے گھر گئی تھی شاہزیب خود کو شادی شدہ ظاہر کرنے لے لیے زیان کو ساتھ لے کر گیا کہ لڑکی والے اپنی کنواری بیٹی کا رشتہ شادی شدہ مرد کو تو بلکل بھی نہیں دینگے مگر نتیجہ اسکے برعکس نکلا تھا۔
۞۞
☜حال
اس نے رات بہت مشکل سے گزاری اور صبح ہوتے ہی سہیل احمد کے گھر پہنچ گیا۔جتنی دیر وہ وہاں بیٹھا رہا اپنے اعصاب کو قابو کرنے کی کوشش کرتا رہا پھر رابی اور زیان کو لے کر گھر آگیا۔
رابی کو کمرے لاکر وہ جیسے پھٹ ہی پڑا۔
“ایسا کیا کہہ دیا میں نے تمہیں جو میرا تماشا بنا رہی ہو کس کی اجازت سے تم گئی تھی میکے؟ بتاؤ مجھے” وہ اسکے تیور دیکھ کر سہم گئی تھی
وہ بابا سے اجازت لی تھی میں نے۔ اسکی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
شوہر میں ہوں تمہارا۔اس نے جتا کر کہا تھا وہ نظریں جھکا گئی تھی “آج کے بعد اگر میری اجازت کے بغیر کمرے سے بھی قدم باہر نکالا تو ٹانگیں توڑ دونگا” شاہزیب نے سخت لہجے میں کہہ کر باہر نکل گیا
وہ اسکے جانے کے بعد بیڈ پر بیٹھ پر زارو قطار رونا شروع ہو گئی۔کل ناصرہ بیگم نے بھی اسے کھری کھری سنا دی تھی اور اب شاہزیب نے۔ اسکا رونا بجا تھا۔
ماما آپ رو رہی ہیں؟ زیان کمرے میں آیا تو اسے روتے دیکھ کر گویا ہوا مگر وہ ہنوز روتی رہی
بابا نے ڈانٹا ہے؟ اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اسکے آنسو صاف کیے۔رابی نے اثبات میں سر ہلایا اور اسے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔ ننھا زیان ہی اسے اپنا ہمدرد لگا تھا۔
۞۞
وہ اسٹڈی میں بیٹھا تھا جب زیان اندر داخل ہوا
بابا جانی میں آپ سے ناراض ہوں آپ نے ماما کو کیوں ڈانٹا وہ رو رہی تھی۔ زیان نے منہ بسورا
تم ماما کے سفارشی بن کر آۓ ہو؟ شاہزیب نے اسے کہا
ماما کو سبھی ڈانٹتے ہیں وہ آنٹی بھی ڈانٹ رہی تھی۔ شاہزیب کو اسکی باتوں میں دلچسپی پیدا ہو گئی
کونسی آنٹی؟
وہی موٹی سی جن کے گھر ہم ماما کو لینے گئے تھے۔زیان نے اسے یاد دلایا
اوہ ہاں۔شاہزیب نے یاد کرنے کی ایکٹنگ کی۔ تو کیا کہا انہوں نے ماما کو؟
میں وہ دوسری آپی کیساتھ بات کر رہا تھا وہ کچھ ماما کو کہہ رہی تھی ماما بہت روئی میں نے ہی انکے آنسو صاف کیے ماما نے کہا کسی کو مت بتانا میں نے آپکو بتا دیا۔ اس نے رازداری سے کہا
شاہزیب اسکی بات پر مسکرایا “اب نہیں ڈانٹیں گے نا ماما کو” اس نے تصدیق چاہی
اب تو زیان کی بات ماننی پڑے گی۔شاہزیب نے کہا تو زیان خوشی سے بھاگتا ہوا رابی کو یہ خوشخبری سنانے چلا گیا۔
“آنٹی نے آخر کس بات پر ربیکا کو ڈانٹا ہو گا” شاہزیب کے لیے نئی سوچوں کے در وا ہو گئے تھے…♡