(Last Updated On: )
حسرت ہے میری قاصد ان کو نہ بتا دینا میرا خون جگر انکی مہندی میں ملا دینا
گر پوچھیں میرا تم سے کچھ ان سے نہیں کہنا اٹھتی ہوئی میت کی تصویر دکھا دینا
ان کا پیار ملا نہ ہم کو ہم جن کے دیوانے تھے
یہ تھی اپنی قسمت لوگو زخم یہ ہم نے کھانے تھے
ساری بستی میں اِک چہرہ تھا جو اچھا لگتا تھا
باقی سارے جتنے بھی تھے لوگ سبھی انجانے تھے
میرے گلشن میں کیوں کھلتا پھول کسی کی چاہت کا
میرے دامن میں تو خالی کانٹوں کے نذرانے تھے
جس صورت کو دیکھ کے صادقؔ خوف سا مجھ کو آتا ہے
وہ بھی دور تھا اِس صورت کے لاکھوں لوگ دیوانے تھے