ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﻡ، ﺍﻥ ﭘﮧ ﻭﮦ ﺁﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﮨﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ، ﻭﮦ ﺑﺎﺗﯿﮟ ، ﻭﮦ ﺯﻣﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﻧﮧ ﺳﻨﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﻓﺴﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺭﯼ ، ﻣﮕﺮ ﺩﺭﺩ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﮐﭽﮫ ﻧﺌﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺣُﺴﻦ ﭘﮧ ﺁﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﻣﺸﻐﻠﮧ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ، ﻭﮦ ﺑﮯ ﺗﮭﺎﺷﮧ ﺧﻮﺷﯽ
ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻭﮦ ﭘﮭﻮﻟﮯ ﻧﮧ ﺳﻤﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﺩﻝ ﻟﮕﯽ، ﺩﻝ ﮐﯽ ﻟﮕﯽ ﺑﻦ ﮐﮯ ﻣﭩﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﺭﻭﮒ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺭﺏ ! ﻧﮧ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻘﺪﺭ ﮐﻮ ﺑﮕﺎﮌﺍ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻏﻀﺐ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﮩﻠﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ
ﺑﮯ ﭨﮭﮑﺎﻧﮯ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﻥ ﺳﮯ ،ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ ، ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﮔﯿﺎ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ
“ ﺍﯾﺴﮯ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ ﺁﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ “
ﺧﻮﺏ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺏ ، ﻣﮕﺮ ﯾﺎﺩ ﺭﮨﮯ
ﺯﯾﺐ ﺩﯾﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺘﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﺑﮯ ﺟﮭﺠﮏ ﺁ ﮐﮯ ﻣﻠﻮ، ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﻣﻼﺅ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﺁﺅ ﮨﻢ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﻼﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﻧﻘﺶ ﺑﺮ ﺁﺏ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻭﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺧﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ
ﺁﭖ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﭩﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﺣﺴﺮﺗﯿﮟ ﺧﺎﮎ ﮨﻮﺋﯿﮟ، ﻣﭧ ﮔﺌﮯ ﺍﺭﻣﺎﮞ ﺳﺎﺭﮮ
ﻟﭧ ﮔﯿﺎ ﮐﻮﭼﮧﺀ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﺰﺍﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﻟﮯ ﭼﻼ ﮨﮯ ﻣﺮﮮ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﺑﺼﺪ ﺷﻮﻕ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﺁﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﺼﯿﺮ ! ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﺒﺴﻢ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ
ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮨﻢ ، ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﺩﻝ ﮐﺎ..!
عائدون کو اسے دیکھتے ہوئے بے اختیار یہ غزل یاد آئی تھی وہ زیر لب اس کو گا بھی رہا تھا ۔
رابیل جب اٹھی تو اس کی نظر پہلے اس پر پڑی تھی وہ جلدی سے اٹھی ۔۔۔۔۔
اٹھو ہمیں جانا ہے ! وہ اس پر نظریں جمایں کہہ رہا تھا
کہ۔۔۔۔ کہاں ؟؟
گھر ! یک لفظی جواب آیا تھا ۔
وہ فوراً اٹھی گھر کا سن کا اس میں جیسے توانائی آ گئی تھی
وہ اسے لیے گاڑی تک آیا اور روانہ ہو گیا راستے میں رک کر اس کے لیے برگر لیا اور اُس کی گود میں ڈال دیا خود وہ چپ چاپ گاڑی چلا رہا تھا ایک ہاتھ سٹیرنگ پر جبکہ ایک ہاتھ مٹھی کی صورت چہرے پر ٹکا تھا ۔
یہ کھانے کے لیے ہے دیکھنے کے لیے نہیں ہے ! اسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے دیکھ کر اس نے ٹوکا ۔
مجھے بھوک نہیں ہے ! وہ آہستہ آواز میں بولی ۔
عائدون نے لب بینچ لیے اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی وہ اندر ہی اندر اس کے غصے سے کانپ رہی تھی ۔۔۔
وہ اپنے خیالوں سے اس وقت باہر آئی جب گاڑی یک دم رکی اس نے چونک پہلے اسے دیکھا پھر گیٹ کو اور اسے مایوسی ہوئی کیونکہ وہ اسے اپنے گھر لایا تھا جبکہ وہ سمجھ رہی تھی کہ شاید وہ اسے اس کے گھر چھوڑ کر آئے گا اُس نے بہت مشکل سے اپنے آنسوں کو بہنے سے روکا تھا
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
وہ گاڑی سی باہر نکل کر اندر کی طرف بڑھا رابیل بھی اس کی تقلید میں اندر کی طرف بڑھی
حسن صاحب اور آمنہ ہال میں بیٹھے تھے عائدون نے اونچی آواز میں سلام کیا مگر ان کا جواب منہ میں ہی رہ گیا تھا رابیل کو دیکھ کے جو بمشکل اپنے آنسو ضبط کر رہی تھی
رابیل بیٹا آپ ! حسن صاحب نے حیرت سے اس سے پوچھا اور وہ بے اختیار آمنہ بیگم کی طرف بڑھی تھی اور ان کے گلے لگ کر اس نے جو رونا شروع کیا اس سے ان کی ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔
رابیل میری بچی کیا ہوا ہے کیوں رو رہی ہو اس طرح ؟؟ وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھی ۔
مگر وہ کہاں سن رہی دو دن کی پریشانی ، غصہ ، بےبسی اب اس کے آنسوں کے زریعے نکل رہی تھی
اس دوران عائدون لب بینچے کھڑا تھا حسن صاحب خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔
بیٹا بتاؤ کیا ہوا ہے ؟ کیوں رو رو کر ہلکان ہو رہی ہو؟؟ آمنہ نے پھر ایک دفعہ اس سے پوچھا ۔
اور اس نے ساری بات انہیں بتا دی اس کے پرپوز کرنے سے لے کر اغوا تک کی ہر بات ۔۔۔۔ وہ دونوں سانس روکے اس کی باتیں سن رہے تھے اور عائدون اپنا غصہ ضبط کر رہا تھا اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا وہ بمشکل ضبط کیے کھڑا تھا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ اس لڑکی کا دماغ ٹھکانے لگا دے ۔۔۔۔۔
وہ اپنی بات ختم کر کے ایک دفعہ پھر رونا شروع ہو گئی تھی آمنہ بیگم نے اسے پانی پلایا اس کے آنسو صاف کیے ۔
عائدون کیا رابیل سچ کہہ رہی ہے ؟؟ ان کی آواز غیر معمولی تھی
بابا وہ ! عائدون حسن ہاں یا ناں میں جواب دو کیا یہ سب سچ ہے تم نے اسے اغوا کیا تھا ؟؟ وہ پہلی بار اس سے اونچی آواز میں بات کر رہے تھے آمنہ بیگم نے بےاختیار دل پہ ہاتھ رکھا اور ڈر تو رابیل بھی گئی تھی ان کے غصے سے
جی ! اس کی ساتھ حسن صاحب کا ہاتھ اٹھا اور عائدون کے گال پہ پڑا تھا ! وہ ششدر سا اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا جنہوں نے کبھی اسے ڈانٹا نہیں تھا آج انہوں نے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا ایک چھوٹی سی بات کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔
آمنہ اور رابیل بےاختیار چیخی تھیں ۔
کیا کر رہے ہیں آپ جوان اولاد پہ اس طرح ہاتھ اٹھاتے ہیں کوئی ؟؟ آمنہ روتے ہوئے بولی اور اور کے سینے سے لگی رو دی ۔۔۔۔
“ابھی تو بس ایک تھپڑ ہی مارا ہے مجھے اس سے بھی زیادہ کرنا چاہیے تھا وہ اس کی بیوی ہے جسے گھر لانے کی بجائے اس نے اسے اغوا کیا شرم آنی چاہیے تھی تمہیں عائدون ! ” وہ ملامتی انداز میں کہہ رہے ۔
عائدون اس دوران لب سختی سے بینچے خاموش کھڑا تھا
اچھا اس کی غلطی ہے معاف کر دیں اسے ! آمنہ التیجایا انداز میں کہہ رہی تھی ۔
“میں تو معاف بعد میں کرو گا پہلے رابیل سے اور اس کے گھر والوں سے معافی مانگے ۔۔۔۔”
بیٹا ہم تمہارے ساتھ اب کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا تمہارا اپنا گھر ہے یہاں رہو اور عثمان کی فکر نا کرو میں کرتا ہوں فون اسے ۔۔۔۔۔ وہ اسے تسلی دے کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔
ان کے جانے کے بعد عائدون بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا اور دروازہ زور سے بند کر دیا ان دونوں نے اپنے دل پر بےاختیار ہاتھ رکھا تھا ۔
آمنہ صوفے پر بیٹھ کر رونا شروع ہو گئی تھی وہ ان کی طرف بڑھی ۔۔۔۔
آنٹی پلیز آپ چپ ہو جائے آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی ۔۔۔۔ وہ انہیں اپنے بازو کے گھیرے میں لے کر بولی ۔۔۔۔۔
انہوں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔
کچھ کھایا ہے تم نے کل سے؟؟ انہوں نے بےاختیار اس سے پوچھا اس نے نفی میں میں سر ہلایا ۔۔۔
وہ اسے لیے کچن کی طرف بڑھی ۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
“شادی میں اتنے تھوڑے دن رہ گئے ہیں میرا خیال ہے اب ہمیں رابیل کے گھر جانا چاہیے” منزہ بیگم عثمان صاحب سے گویا ہوئی
آج فون آیا تھا حسن کا بات ہوئی ہے میری تفصیل سے وہ کہہ رہا تھا کہ وہ سب لوگ آئیں گے شادی میں عائدون کی حرکت پر معافی بھی مانگ رہا تھا میں نے کہا کہ اس کی امانت تھی ٹھیک ہے وہ لے گیا اب ہم کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔
بس ہماری بیٹی خوش رہے اور ہمیں کیا چاہیے ! آیدہ بیگم بولی ۔
وہ لوگ بہت اچھے اور قدر کرنے والے لوگ ہیں ہماری رابیل بہت رہے گی !
چلیں بھابھی کپڑے پیک کر لیں آج یہ کام ختم کرنا ہے ! وہ دونوں باہر اپنے کام مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
دوپہر سے شام اور شام سے رات ہو گئی تھی مگر وہ اپنے کمرے سے نہیں نکلا تھا اور رابیل کمرے میں نہیں گئی تھی وہ آمنہ کے ساتھ ہی رہی تھی اب کھانے پر بھی وہ نہیں آیا تھا
عائدون کیوں نہیں آیا کھانے پر ؟؟ حسن صاحب نے آمنہ سے پوچھا
وہ تب سے باہر ہی نہیں نکلا کمرے سے ۔۔۔۔ انہوں نے آہستہ آواز میں جواب دیا ۔
حسن صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے کمرے کی طرف بڑھے ۔۔۔
انہوں نے دستک دی اور تھوڑی دیر بعد ہی دروازہ کھل گیا ۔
اس کے بال ماتھے پر گرے تھے اور آنکھیں بےحد سرخ تھی جیسے ابھی خون ٹپک پڑے گا ۔۔۔۔
آؤ کھانا کھاؤ ! حسن صاحب کہہ کر چل دئیے اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان کے پیچھے گیا ۔۔۔
کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے اس نے بھولے سے بھی نگاہ اس کی طرف نہیں کی تھی ۔۔۔۔
آمنہ نے شکر ادا کیا کہ وہ باہر تو نکلا تھا وہ خود اس کی پلیٹ میں سب رکھ رہی تھی
کھانا کھانے کے بعد حسن اور عائدون اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے رابیل وہی بیٹھی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے اور کہاں جائے ۔۔۔۔
آمنہ نے اسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے دیکھا تو اس کی طرف آ گئی
رابیل اٹھو کمرے میں چلو بیٹا !
آنٹی ! اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
بیٹا جو ہوا بھول جاؤ شاباش اور چلو اپنے کمرے میں ۔
آنٹی مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔ آمنہ نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور پھر بولی ۔
مجھے پتا ہے تمہیں کچھ غلط فہمی ہے میں چاہتی تھی کہ عائدون کلئیر کرئے مگر اب میں تمہیں بتاتی ہوں ۔۔۔۔ اور پھر آمنہ نے اسے اس کے آپریشن پر جانے سے لے کر اس کے زخمی ہونے تک ہر بات بتا دی ۔۔۔۔۔
اور تمہں پتا ہے ان لوگوں نے مجھے بھی نہیں بتایا تھا جب عائدون واپس آیا تب ہی پتا چلا تھا مجھے ۔۔۔۔
رابیل ششدر بیٹھی تھی اس نے انکشاف نے جیسے اس کی گویائی چھین لی تھی وہ اسے کتنا غلط سمجھ رہی تھی اور عائدون ۔۔۔۔
وہ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا ۔۔۔۔ وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رو دی ۔۔۔۔
رابی چپ ہو جاؤ بیٹا اور اٹھو ! وہ اسے لیے عائدون کے کمرے میں آئی وہ کچھ فائلز دیکھ رہا تھا آمنہ کے ساتھ اسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا اور پھر بغیر کچھ کہے اپنے کام میں مصروف ہو گیا ۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
آمنہ اسے یہاں چھوڑ تو گئی تھی مگر وہ تب سے ایک ہی جگہ بیٹھی تھی اپنے ہاتھوں پر نظریں جماے وہ خاموش بیٹھی تھی اسے شرمندگی بھی ہو رہی تھی اور اب تو وہ اس شخص کے رحم و کرم پر تھی پتا نہیں وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے ۔۔۔۔۔
اُس نے ایک نظر اسے دیکھا وہ ماتھے پہ بل لیے ابھی بھی فائل میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔۔
عائدون نے ایک فائل بند کی اور سونے کے لیے لیٹ گیا اس نے ایک نظر اس پر ڈالی غصے کی ایک تیز لہر اٹھی تھی وہ لب بینچ کر دوبارہ سے لیٹ گیا ۔۔۔۔
آئی۔۔۔آئی ایم سوری عائدون میں۔۔۔۔۔ وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی عائدون ایک جھٹکے سے اٹھا
شٹ اپ جسٹ شٹ اپ ! وہ چیخا تھا رابیل ڈر کر دو قدم پیچھے ہٹی اس کے آنسو پھر بہنے لگے تھے
اب تم نے کیسے گوارا کر لیا مجھ سے بات کرنا نفرت کرتی ہو نا مجھ سے اور جان چھڑوانا چاہتی ہو فکر نا کرو بہت جلد تمہاری یہ خواہش بھی پوری ہو جائے گی ۔
وہ اپنی بات مکمل کر کے کمرے سے باہر چلا گیا اور وہ وہی کھڑی روتی رہی ۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
احمد ولا کو آج پھر دلہن کی طرح سجایا گیا تھا رابیل بھی سب کے ساتھ یہاں موجود تھی اور ہر کام میں پیش پیش تھی اسے نارمل دیکھ کر سب نے ہی خدا کا شکر ادا کیا تھا ۔
رخصتی کے وقت فریال اس کے گلے لگ کر بہت روئی تھی سب ہی اداس تھے ان لوگوں کے رخصت ہوتے ہی عائدون بھی اٹھ کھڑا ہوا رابیل بھی سب سے مل کر گاڑی کی طرف بڑھ گئی ۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
فریال اس کا انتظار رہی تھی اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ رہے تھے وہ سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں معیز کا کیا ریکشن ہو گا دروازہ کھلا تو وہ بےاختیار سیدھی ہو کر بیٹھی وہ دعا کر رہی تھی کہ معیز کا موڈ صیح ہو ۔۔۔۔
آنے والا اس کے پاس بیٹھ گیا اور تعجب سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
یہ تم مجھ پر کون سے تاویز پڑھ کر پھونک کر رہی ہو ؟؟ وہ حیرت سے بولا ۔
فریال نے چونک کر آنکھیں کھولی اور اس کی طرف دیکھا وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔
میں۔۔۔ نہیں ۔۔۔ میں وہ ۔۔۔ وہ اٹک اٹک کر بولی ۔۔
یار مانا کہ میں بہت ہینڈسم ہوں اور آج تو بہت پیارا لگ رہا ہوں مگر تم سے کم جب میں اپنے حواسوں میں ہو تو تم کیوں اپنے حواس کھو رہی ہو ۔۔۔۔۔ وہ اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر شرارت سے بولا
مجھے لگا آپ مجھ سے ناراض ہیں ! وہ آنکھیں جھکائے کر بولی
ہاں میں ناراض بھی تھا اور مجھے غصہ بھی بہت تھا مگر جب مجھے پتا لگا کہ تم سب لاعلم تھے تو میرا غصہ خود ہی اتر گیا ۔۔۔۔
اس نے گہری سانس لی ۔۔۔۔
تم ڈر رہی تھی مجھ سے معیز نے قہقہ لگایا ۔۔۔
وہ چپ رہی !
او کم آن یار ! ریلیکس اور ویسے بھی تم جتنی خوبصورت لگ رہی ہو میں تم سے ناراض ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔ وہ شرارت سے ہنسا فریال بھی جھنپ کر مسکرا دی ۔۔۔۔۔۔
※ ※ ※ ※ ※ ※ ※
وہ عائدون کے لیے چائے کمرے میں لے کر آئی عائدون فریش ہو کر آیا اور بالوں میں برش کر رہا تھا رابیل نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا عائدون نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر لب بینچ لیے مگر کچھ بولا نہیں ۔
رابیل نے شکر ادا کیا کہ وہ کچھ بولا نہیں اور آگے بڑھ گئی وہ عائدون کی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی آج فنگشن میں بھی وہ اس کی نظریں خود پہ جمی محسوس کر رہی تھی وہ الماری کا پٹ بند کر کے بیڈ کی طرف بڑھی
تو پھر کیا سوچا ہے تم نے ؟؟
کس بارے میں ؟؟ وہ ٹھٹھک کر بولی ۔
الگ ہونے کے بارے میں ۔۔۔ وہ آرام سے بولا
اس کی بات سن کر بےاختیار اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے
عائدون میں ۔۔۔ میں مانتی ہوں میری غلطی ہے مجھے نہیں پتا تھا کہ ۔۔۔۔
ہاں اور اب پتا چلا گیا ہے تو میں بہت اچھا ہو گیا ہوں ہاں! وہ طنز سے گویا ہوا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو گرتے رہے مگر وہ خاموش رہی ۔۔۔۔
میرے سامنے آنسو مت بہاؤ ۔۔۔ وہ پھر چبا چبا کر گویا ہوا۔
آپ بھول جائیں نا پلیز ۔۔۔
اچھا کیا کیا بھولوں !! وہ مسکراہٹ ہونٹوں میں چھپا کر گویا ہوا
جو کچھ بھی ہوا تھا ۔۔ وہ آنکھیں جھکا کر بولی ۔
اچھا اگر میں بھول گیا تو مجھے کیا ملے گا ! وہ شرارت سے بولا
رابیل نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔
آپ ۔۔۔ ادھر آؤ عائدون نے بازو پھیلا کر اسے اپنے پاس بلایا
وہ اس کے ساتھ لگ کر پھر رو دی ۔۔۔۔
بس اب چپ ہو جاؤ ! آنکھیں دیکھو کیسے سوجی ہوئی ہیں عائدون نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔۔
آپ تو بہت غصے میں تھے پھر ۔۔۔۔۔
یار تمہارے بھائی بہت خطرناک ہیں میں نے سوچا تم سے صلح کر لوں اسی میں بہتری ہے ۔۔۔۔
کوئی نہیں میرے بھائی ایسے نہیں ہیں ! وہ بےساختہ بولی
عائدون ہنس پڑا ۔۔۔۔
میں نے سوچا ایک اتنی پیاری لڑکی مجھ سے اتنا پیار کرتی ہے تو کیوں میں ناشکری کروں ۔۔۔ وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
رابیل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر اس کے ماتھے پر گرے بال مٹھی میں پکڑ کر کھینچے
او ظالم لڑکی کیوں مجھے گنجا کرنا ہے ۔۔۔ وہ دہائی دینے والے انداز میں بولا
کون کس سے پیار کرتا ہے ؟؟
میں تم سے پیار کرتا ہوں ۔۔۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر گویا ہوا
رابیل کی بولتی بند ہوئی
اور پوچھو کیا پوچھنا ہے وہ شرارت سے بولا ۔۔۔
کچھ نہیں ! وہ ہنس کر بولی ۔۔۔۔
بندھنے لگیں ہیں محبت کے دھاگے تیرے میرے درمیان
ہاں تجھ سے محبت ہونے لگی ہے
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...