مسکان ایک گھنٹہ بعد کمرے میں لوٹی موبائل فون اٹھا کر دیکھا 15 مس کالز اور میسجز۔ اسے دکھ ہوا اس نے جوابی کال ملائی ایک ہی رنگ پر زوہیب نے کال اٹھا لی اور وہ اس پر جیسے پھٹ پڑا۔
زوہیب:” کہاں غائب ہوگئی تھی اچانک۔۔۔ کنتے کالز کیے۔” وہ اپنی ہر حد کوشش کے باوجود غصہ پر قابو رکھنے میں ناکام رہا۔
مسکان:” سوری بھائی نے بلا لیا تھا۔” اس نے خوف میں کہا۔
اس نے زوہیب کو اتنے مہینوں کے رابطے میں کبھی ایسی ٹون میں بات کرتے نہیں سنا تھا وہ بہت نرم مزاج تھا بہت کم غصہ کرتا تھا کبھی مسکان کے ساتھ ناراضگی بھی ہوجاتی تو آرام سے سمجھاتا تھا
زوہیب:” لیکن بتا کے جانا چاہیے تھا نا پریشان ہوگیا تھا میں الگ الگ خیالات آرہے تھے دل میں۔” اس کے غصے میں اب بھی کوئی نرمی نہیں آئی تھی۔
مسکان کو اندازہ ہو گیا تھا آج وہ اس کے لئے کوئی نرم گوشہ اختیار نہیں کریں گا۔ وہ پھر سے نرم لہجے میں وضاحت دینے لگی۔
مسکان:” سوری کل سے میرے امتحانات شروع ہورہے ہیں تو بھائی کے ساتھ پڑھ رہی تھی” اس کی آنکھیں اشک بار ہوگئی تھی۔
زوہیب:” کچھ بھی ہو لیکن بتا کہ جانا۔۔۔ بریک اپ بھی بتا کر کرنا” اس نے ہوا میں انگلی اٹھائے کہا۔
مسکان اس کی بات پر روہانسی ہو گئی۔ اس کا دل ڈوبنےلگا۔
مسکان:” بریک اپ کی بات کہاں سے آگئی زوہیب۔۔۔۔ اچھا سوری آئندہ نہیں ہوگا ایسا پلیز غصہ تھوک دو۔” اس نے بھوکلائی آواز میں کہا۔ زوہیب نے آس پاس کے بچوں اور اپارٹمنٹ کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ پایا تو سر پکڑ لیا اور لمبی سانس لے کر خود کو نارمل کرنے لگا۔
زوہیب:” ھمممم کوئی بات نہیں بس آیندہ دھیان رکھنا۔۔۔۔ چلو ابھی تم پڑھو میں بعد میں بات کرتا ہوں۔” اس نے مسکان کے جواب کا انتظار کئے بغیر کال کاٹ دی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا فاروق کے اپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا۔
مسکان کا موڈ پوری طرح غارت ہو گیا تھا اس کا اب پڑھائی کا دل نہیں کر رہا تھا اس نے بیڈ پر پھیلی کتابیں پرے کھسکائی اور اوندھے منہ بیڈ پر لیٹی۔ چہرہ ڈھانپے رونے لگی۔
****************
وہ دس دن اپنے امتحانات میں مصروف رہی اور وہی دوسرے جانب زوہیب اپنے یونیورسٹی کے داخلے میں۔ دونوں صرف میسج پر ہی ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے رہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ زوہیب کے ساتھ ہوئی ناراضگی بھول گئی تھی اور زوہیب نے بھی اس دن کے بعد دوبارہ اس واقعہ پر بحث نہیں کی۔
عثمان سفر سے لوٹ آئے تھے اور کومل اپنے گھر چلی گئی تھی۔ زندگی معمول پر آگئی تھی۔
آخری امتحان کے دن وہ خوشی خوشی امتحانات ختم ہونے کا شکر مناتی گھر آئی۔ لندن کے وقت کا حساب کرتی اس نے دوپہر کو اپنی نیند پوری کی پھر شام کو چائے کے بعد اس نے زوہیب کو کال کیا نمبر مصروف جا رہا تھا۔ وہ پھر سے کال کرنے کا سوچ رہی تھی کہ اس نے لاؤنج سے ستارہ اور امی کی آوازیں سنی۔ وہ دیکھنے آئی تو امی کال پر چہکتی ہوئی باتیں کر رہی تھی اور ستارہ پاس کھڑی ہنس رہی تھی۔
مسکان:” کیا ہورہا ہے یہاں” اس نے حیرت سے پوچھا۔
ستارہ:”مسکااااااااان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسکان میں خالہ بننے والی ہوں۔” وہ مسکان کو کندھے سے پکڑ کر گول گول گھومنے لگی۔ مسکان نے خوشی سے امی کے ہاتھ سے فون کھینچا اور خود کومل کو مبارکباد اور دعائیں دینے لگی۔
خوشی کے عالم میں کمرے میں واپس آکر اس نے پھر زوہیب کو کال ملائی۔
زوہیب:” ہائے۔۔۔ “اس نے کال اٹھا لی اور خوش مزاجی سے کہا۔ آج دس دن بعد ان کی کال پر بات ہورہی تھی۔ بہت خوشگوار انداز میں دونوں نے گفتگو کی۔ وہ ابھی بات کر ہی رہے تھے۔
“Zohaib come over the match is gonna start”
(زوہیب جلدی آو میچ شروع ہونے والا ہے)
مسکان نے انگریزی میں کسی لڑکی کو اسے پکارتے سنا۔
زوہیب:
“Yeah just two minutes”
(ہاں بس دو منٹ) اس نے فون کان سے الگ کر کے جوابی آواز لگائی۔
مسکان:” کون تھی” اس نے کھٹک کر پوچھا۔
زوہیب:” میری یونیورسٹی کی دوست ہے کیرل۔۔۔ دوستوں کے ساتھ فٹبال میچ دیکھنے آیا ہوں۔” اس نے مصروف انداز میں چلتے ہوئے کہا۔
مسکان:” اوہ اتنی جلدی دوست بھی بن گئے وہ بھی لڑکیاں۔” مسکان کو زوہیب کا اس طرح لڑکی کو دوست کہنا اچھا نہیں لگا تھا، اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
زوہیب:” ہاں بھئی سوشلسٹ آدمی ہوں جلدی دوست بن جاتے ہیں” اس نے مسکان کو چھیڑنے کے لیے کہا۔
مسکان:” ھمممم اچھی بات ہے” وہ واقعی چھڑ گئی تھی۔
زوہیب:” ھاھاھا مسکان منفی اثرات مرتب مت کرنا وہ صرف دوست ہے۔” زوہیب نے سٹیڈیم کے شور سے دوسرے کان میں انگلی پھنسا کر اس کی بات سننے کی کوشش کی۔
مسکان:” اور میں” اس نے خفگی سے پوچھا
زوہیب:” تم زندگی ہو” اس نے بنا جھجک اونچا بولا۔ کھلاڑیوں کے سٹیڈیم داخل ہونے سے شور اور پکار بڑھتا جارہا تھا اس کا فون پر بات کرنا مشکل ہورہا تھا مسکان کو بھی پورا شور صاف سنائی دے رہا تھا۔
زوہیب:” اچھا مسکان۔۔۔ میں گھر جا کر تمہیں کال کرتا ہوں ابھی کچھ سنائی نہیں دے رہا۔۔۔۔ اوکے بائے بائے love u ” اس نے موبائل منہ کے قریب کر کے چلا کر کہا اور فون بند کر دیا۔
زوہیب کے اس لائن نے مسکان کے غصے پر گڑھوں پانی ڈال دیا وہ بلکل سکون ہوگئی۔
مسکان:” شیطان آدمی۔۔۔۔” وہ ہمہ کرتی ناک بھسورتے ہوئے کمرے سے باہر آئی اور ایک دفعہ پھر کومل کی خوش خبری یاد کرتی اتھاولی ہورہی تھی۔ ستارہ کو آواز دیتی وہ اوپر منزل پر گئی۔
************
کیرل:” it was too fun” (کتنا مزه آیا)۔
ان چار دوستوں نے آدھی رات کو خالی سڑک پر مٹر گشتی کرتے ہوئے آج کے میچ پر تبصرہ کیا۔
ڈیوڈ:” لیکن چیلسی کی ٹیم بلکل اچھا نہیں کھیلی۔ ” اسے اپنی من پسند ٹیم سے مایوسی ہورہی تھی۔
زوہیب:” کوئی بات نہیں یہ تو کھیل ہے کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ ” اس نے پینٹ کے جیبو میں ہاتھ ڈالے ہوئے کہا۔
جنیفر :” چلو کچھ پیتے ہیں” اس نے سامنے ایک مشروب والے کی دکان کھلی دیکھ کر پھرتی سے کہا۔
ان تینوں نے beer کی بوتلیں اٹھائیں اور ڈیوڈ نے سگریٹ کا ڈبہ بھی لیا۔ اس نے زوہیب کے آگے ایک سگریٹ باہر نکال کر آفر کیا جسے اس نے ہاتھ اٹھا کے رد کر دیا اور دکاندار سے ایک کولڈرنک کا ٹین مانگا۔ سب پھر سے چلتے اپنے اپنے درنک پینے لگے۔ کیرل کو زوہیب کا یہ دیسی انداز بہت بھا گیا تھا۔
*****************
زوہیب کی ان تینوں سے ملاقات یونیورسٹی کے پہلے ہفتے میں ہوئی جب اسے ایک کتاب لائبریری سے ایشو کروانی تھی اور ڈیوڈ اسے لائبریری کا راستہ بتانے اس کے ساتھ چلا گیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنے بارے میں بتاتے ہوئے ایک دوسرے کے مشغلے اور پسند ناپسند کے بارے میں پوچھتے بتاتے ہوئے لائبریری پہنچے اور ڈیوڈ کی مدد سے زوہیب کو وہ کتاب بنا محنت کے مل بھی گئی۔
اسی دوران ان دونوں کو پتہ چلا کہ وہ دونوں ایک جماعت کے سٹوڈنٹس ہے اس لئے ان کی دوستی ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
جنیفر فرانس سے تعلق رکھنے والی تھی اور ڈیوڈ کی گرل فرینڈ تھی۔ کیرل اور جنیفر ہاسٹل میں روم میٹ تھیں۔
زوہیب اپنے ڈیپارٹمنٹ کا قابل ایشیئن لڑکا ثابت ہوا تھا۔ اس نے بہت کم عرصے میں ہی وہاں کے اساتذہ سمیت اکثریت سٹوڈنٹس کو اپنا خیر خواہ بنا لیا تھا۔ وہ سب کے ساتھ اچھے سے گھل مل جاتا سب کی مدد کرتا۔ زوہیب کے اس روئیے سے اکثر احساس کمتری کے شکار سٹوڈنٹس کو وہ شدید ناپسند بھی تھا لیکن زوہیب ان کی پرواہ کئے بغیر اپنی سروسز فراہم کرنے کا شوقین تھا۔
جنیفر جب ڈیوڈ کے ڈپارٹمنٹ جاتی کیرل اس کے ساتھ ہوتی اور ڈیوڈ کے ساتھ زوہیب اس لیے اس سے بھی زوہیب کی اچھی دوستی ہوگئی تھی
زوہیب نے وہاں بھی اپنے مذہب کے قاعدے قانون کا پورا خیال رکھا تھا۔ کھاتے ہوئے حرام حلال کا فرق پرکھنا منشیات سے دور رہنا ویک اینڈ گھر پر گزارنا ڈسکو کلب نا جانا عبادت کی پابندی کرنا۔ یہ وہ خصوصیات تھی جو اس کی شخصیت کو باقیوں سے الگ متعارف کروایا کرتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ کیرل اس کی طرف راغب ہوتی رہی۔ ڈیوڈ اور جنیفر کو جہاں بھی گھومنے جانا ہوتا کیرل ان سے درخواستیں اور منتے کرتی کہ وہ زوہیب کو بھی کسی طرح اپنے ساتھ چلنے کے لیے راضی کریں۔ زوہیب کبھی منع کر دیتا کبھی ان کا دل رکھنے ساتھ چلا جاتا۔
کیرل یونیورسٹی میں بھی اکثر اوقات زوہیب کے ساتھ پھرتی نظر آتی اور زوہیب نے بھی کبھی اعتراز نہیں کیا تھا
***********************
موسم سرما کے آتے ہی زکام نے اسے اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ اس وقت بند ناک اور بہتی آنکھوں سے پریشان بیڈ پر کمبل کس کے لیے لیٹی تھی۔ ہفتے کے باقی دن مصروفیات کی وجہ سے زوہیب کی اس سے بات ہو نہ ہو لیکن سنڈے کو زوہیب اسے ضرور کال کرتا۔ آج بھی سنڈے تھا اور اس کی کال کسی بھی وقت موصول ہو سکتی تھی اس نے گلا خراش کی گولی منہ میں ڈالی تاکہ اس کی آواز بحال ہو سکے۔ لیکن اس کے کوشش کے باوجود زوہیب کو اس کے بیمار ہونے کا معلوم پڑھ گیا۔ وہ سارا وقت اسے ڈاکٹر کو دکھانے کی تلقین کرتا رہا۔
دو دن بعد زوہیب نے اس کا حال دریافت کرنے پھر کال کیا۔
زوہیب:” ڈاکٹر کے پاس گئی تھی۔ ” اس نے یونیورسٹی سے کال کی تھی آس پاس سٹوڈنٹس کا شور مسکان یقینن سن سکتی تھی۔
مسکان:” جی گئی تھی اب بہتر ہو رہی ہو۔” وہ بمشکل بیڈ سے اٹھ کر بیٹھی۔
زوہیب:” شاباش اور دوائیاں وقت پر لے رہی ہو نا۔” وہ اب نوٹس بورڈ پر کچھ چسپاں کر رہا تھا۔
مسکان:” دوائیاں۔۔۔۔۔ ”
زوہیب:” مسکان ۔۔۔ تمہارے بھولنے کی عادت نہیں گئی نا” اس نے اپنی جگہ منجمد کھڑے ہو کر سنجیدگی سے کہا۔ مسکان کو کھٹک ہوئی۔ اس نے اپنے سرہانے ٹیبل پر پڑی دوائیوں کی شیشی دیکھی۔
مسکان:” نہیں۔۔۔ لے رہی ہو وقت پر لیتی ہو سچ میں۔” اس نے ہڑبڑا کر جلدی سے کہا۔
زوہیب:” ہاں وقت پر لیتی رہو تبھی جلد صحتیاب ہوگی۔”اس نے پین ہاتھ میں لیے نوٹس بورڈ پر کچھ لکھا۔ اور پھر گویا ہوا۔
“مسکان ابھی میں یونی میں ہوں شام کو پھر فون کروں گا۔ اپنا خیال رکھنا اور سردی میں باہر مت جانا۔” اس نے قلم کوٹ کے جیب میں ڈالا اور سامنے سے تیز قدموں سے آتے پروفیسر کی طرف لپکا۔
مسکان:”اور آپ بھی خیال رکھنا”۔ اس نے فون رکھا اور پھر سستانے لگی۔ جب اتنا خیال کرنے والا بار بار پوچھنے والا ملے تو صحتیاب ہونے دل نہیں کرتا۔ اس وقت مسکان کی یہی کیفیت ہورہی تھی۔
کچھ دن پہلے کیرل اور زوہیب کو لے کر اس کے دل میں جو شک و شبہات تھے وہ زوہیب کی اپنے لئے ان دو دنوں کی فکرمندی دیکھ کر مہو ہو چکی تھی۔
**************
زوہیب:” گڈ مارننگ سر” وہ ان کے رفتار سے قدم ملاتا ان کے ساتھ چلنے لگا۔
پروفیسر:” اوو گڈ مارننگ زوہیب کیسے ہو” انہوں نے آنکھوں پر عینک برابر کرتے ہوئے جواب دیا۔
زوہیب:” سر میں نے assignment مکمل کر لی ہے میں چاہتا ہوں کہ ایک مرتبہ آپ چیک کریں تو بہت مہربانی ہوگی آپکی۔” اس نے التجائی انداز میں کہا
پروفیسر:”ہاں ٹھیک ہے میں 10 منٹ تک فارغ ہوں تم جلدی لا دو تو میں ابھی دیکھ لیتا ہوں۔” انہوں نے سٹاف روم جاتے گھڑی میں وقت دیکھ کر کہا۔
زوہیب:” اوکے سر تھینکیو میں ابھی لاتا ہوں۔” یہ کہتے وہ پھرتی سے اپنے بیگ کی جانب بھاگا جو اس نے کیرل کے پاس رکھوایا تھا۔
*********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...