اقبال کے تصور فن سے ان کے فن کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ انہی کے لفظوں میں یہ ہے:
پر سو ز و نشاط انگیز
یہ ایک بار پھر دو اضداد کی ترکیب و توازن ہے ‘ ایک طرف سوز ہے اور دوسری طرف نشاط اور دونوں مل کر ایک قماش نغمہ تخلیق کرتے ہیں۔ سو ز و گداز کی صفت عام طور پر ایک ہی مفہوم میں گویا یہ الفاظ ایک دوسرے کے مترادف ہوں‘ چند شعرا سے منسوب کی جاتی ہے اور خاص کر غزل گوئی کی صفت لازم سمجھی جاتی ہے۔ اقبال نے بھی اس کا استعمال عبارت کی حد تک غزل خوانی ہی کے سیاق میں کیا ہے۔ پورا مصرع یوں ہے:
یہ کون غزل خواں ہے پر سوز نشاط انگیز
لیکن اس مصرعے میں غزل خوانی کا لفظ مطلق شاعری کے لیے بدیہی طور پر استعمال کیا گیا ہے اور ان لفظوں میں شاعر نے اپنے فن شعر کی نوعیت کا تعارف کرایا ہے۔ چنانچہ اس قسم کی شاعری کا جو اثر اس کے خیال میں مرتب ہوتا ہے یا مترتب ہونا چاہیے وہ دوسرے مصرعے میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز
اس سے قطع نظر کہ جنون و خرد کا امتزاج اقبال کا مطمع نظر اور مزاج دونوںہے۔ اس لیے کہ ان کے خیال میں عقل کی روشنی دل کی گرمی کے بغیر پھیل نہیں سکتی‘ فن کے نقطہ نظر سے قابل اعتبار یہ امر ہے کہ اقبال فن میں سوز و نشاط کی آمیزش کو جذبہ حیات کی پیدائش کا محرک تصور کرتے ہیں۔ یہ جذبہ جب اپنے نقطہ عروج یا درجہ مطلوب تک پہنچتا ہے تو وہ کیفیت ابھرتی ہے جس پر روشنی اس شعر سے پڑتی ہے:
حرم کے پاس کوئی عجمی ہے زمزمہ سنج
کہ تار تار ہوئے جامہ ہائے احرامی
پرسوز نشاط انگیز غزل خوانی کے ذریعہ اندیشہ دانا کی جنوں آمیری کا یہ عالم کلام اقبال کا امیتاز و اجتہاد ہے۔ اس کلام یں سوز کے ساتھ گداز کی عام شاعرانہ ترکیب توڑ دی گئی ہے اور اس کی جگہ نشاط کا جوڑ لگایا گیااہے۔ یہ ایک غیر معمولی امر ہے اور ایک اجتہاد پر مبنی ہے۔ سوز سے نشاط کس طرح پیدا ہوتا ہے۔ کیا سوز کا کوئی خاص اور غیر معروف مفہوم پیش نظر ہے؟ اقبال نے شعر کی بہترین تعریف اس طرح کی ہے:
عزیز ہے متاع امیر و سلطان سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز براقی
یہاں سوز کو براقی کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ اس صفت برق کو اقبال نے اپنے فن میں موجود و مضمر فکر سے بھی منسوب کیا ہے :
صفت برق چمکتا ہے مرا فکر بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمت شب میں راہی
یہ برق میں نور کے پہلو پر تاکیدی نشان ہے۔ نور ایک نہایت وسیع تصور ہے اس میں حضور سرور اور سرور کی وہ سبھی کیفیات مدغم ہیں جن کا ذکر اقبال نے اپنے کلام کے سلسلے میں کیا ہے لیکن برق اور سوز دونوں کا ایک پہلو آتشیں بھی ہے اور ہمارے شاعری نے نغمے کو آتش ناک ہی قرار دیا ہے:
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
لہٰذا نغمہ اقبال کا نشاط سوز و براقی و آتش ناکی پر مبنی ہے نشاط یقینا ایک اثر نغمہ ہے لیکن ساز و گداز کی بجائے اس کاسوز براقی سے مشتق ہونا اور آتش ناکی پر مشتمل ہونا ایک منفرد اور امتیازی کمال ہے اور یہ دنیائے شاعری میں اقبال کا ایک اجتہادی کارنامہ ہے ۔
اقبال نے اپنے فن کے ناقد کی حیثیت سے نہ کہ محض شاعرانہ ترنگ میں کہا ہے:
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
اور یہ حرف راز اتنا دقیق و لطیف ہے کہ:
جہان صوت و صدا میں سما نہیں سکتی
لطیفہ ازلی ہے فغان چنگ و رباب
لیکن الہام شاعرانہ کا اندرونی تقاضائے اظہار اتنا شدید تھا کہ :
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
اسرار کتاب کوئی معمولی ترکیب نہیں ہے پتہ نہیں اقبال نے فکر و فن کے کس عالم میں اپنی شاعری کے حرف راز کے لیے اسرار کتا ب کی ترکیب استعمال کی ؟ ظاہر ہے کہ ویسی ہی شوخی بیان ہے جیسی ان کے متعدد مجموعہ ہائے کلام کے ناموںمیں پائی جاتی ہے جیسے ’’بال جبریل‘‘ ’’ضرب کلیم‘‘ ’’زبور عجم‘‘ بہرحال یہ محض کی شوخی نہیں ہے۔ اس کے اندر ایک ایسی اعلیٰ و ارفع سنجیدگی مضمر ہے کی دینیات کے علاوہ کسی دوسرے علم و فن کے لیے اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کم از کم شاعری میں اسرار کتاب کے افشا کرنے کا تصور دنیا کے کسی اور شاعر نے پیش نہ کیا ہے۔
ا س معاملے میں اقبال کا ذہن اتنا محکم ہے کہ انہوںنے ضرب کلیم میں باضابطہ سرود حرام اور سرود حلال کے عنوانات سے مطلوب و نامطلوب فن کاری کی تشریح کی ہے۔ اول الذکر میں سب سے پہلے تو یہ واضح کر دیتے ہیں کہ ان کی شاعری کوئی پیمانہ عذاب و ثواب نہیں ہے یعنی شاعری فن کا معاملہ ہے دین کا نہیں اور اس کا عمل اصلاً جمالیات سے متعلق ہے نہ کہ اخلاقیات سے فن اور جمالیات کے موقف سے اب وہ اعلان کرتے ہیں۔
اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام
حرام میری نگاہوں میں نالے و چنگ و رباب
اسی طرح ثانی الذکر میں وہ مقصد فن محض شگفتگی کی بجائے زندگی و پایندگی کو قرار دیتے ہیں:
کھل تو جاتا ہے معنی کے بم و زیر سے دل
نہ رہا زندہ و پایندہ تو کیا دل کی کشود
اپنے اس خیال کی تائید میں انہوںنے ایک نظم میں فقیہہ شہر کو اور دوسری نظم میں فقیہان خودی کو گواہ بنا کر پیش کیا ہے ۔ ثواب و عذاب کی فقہی بحث سے اظہار بے تعلقی کے باوجود سرو د حرام و سراد حلال کے فنی تفقہ کا مطلب کیا ہے اس سوال کا جواب شاعری کے لیے استعمال کی گیء اسرار کتاب کی شرعی ترکیب میں ہے۔ دینی مباحث سے الگ رہ کر بھی فن میں ا س اعتماد کے ساتھ دینی اصلاحات کا استعمال اور دینی مقاصد کی اشاعت یقینا فن کا اجتہاد ہے۔
یہ اجتہاد فن ایک تجدید فن کا پیش خیمہ اور وسیلہ ہے ۔ انیسویںصدی کے آخری ایام میں عصر حاضر کے ہر ادب بالخصوص شاعری میں زوال کے دن تھے۔ رومانیت کے بچے کھچے آثار بھ مٹ چکے تھے اور ایسا معلوم ہوتاتھا کہ سائنس اور صنعت کے بڑھتے ہوئے مادی انقلاب نے شاعری کے امکانات ختم کر دیے ہیں۔ اس لیے کہ اس فن لطیف کا جوہر روحانی ہے یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی کی ترقی یافتہ ممالک میں کوئی بڑا شاعر پیدا نہ کر سکی اور شاعری میں جدت کے نام پر ساری کوششیں صرف نو بہ نو رجحان و رواج ثابت ہوئیں انگریزی میں ئیٹس اور ایلیٹ کی کوتاہ نظری یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مگرب میں عظمت شاعری کا آفتاب غروب ہو چکا تھا اور صرف چند انجم کم ضو طلسم شب میں گرفتار تھے ۔ مشرق کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ فارسی کا آسمان تو بہت قبل تاریک ہو چکا تھا۔ اردو کے افق پر بھی غالب ستارہ سحر کی طرح اپنی چمک دکھا کر غائب ہو چکے تھے… ایشیا اور یورپ دونوں جگہ فکر کا بحران فن کے زوال میں عیاں تھا۔
ان حالات میں میتھیو آرنلڈ نے خود ایک اہم وکٹورین شاعر ہونے کے باوجود اپنی تنقیدوںمیں شاعری کے بہتر مستقبل کا کوئی واضح اور معین معیار پیش نہ کیا‘ چنانچہ اس کے جانشینوں نے اس کے فنی تصورات کو نظر انداز کر دیا تھا۔ آرنلڈ نہ تو کوئی بڑا شاعر تھانہ بڑامفکر لہٰذا بعض نیم صداقتوں کے ادراک و اظہار کے باوصف اس کی رسائی ہمہ گیر آفاقی حقائق تک نہ ہو سکی۔ اردو میں یہی حال حالی کا ہے۔ قدیم طرز سخن کے خلاف ایک رد عمل تووہ ضرور ظاہر کر سکے‘ مگر فن شاعری کی تشکیل جدید کے لیے درکار اوصاف کے وہ حامل نہ تھے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ مغرب کا آخری عظیم شاعر گیٹے تھا اور مشرق کا آخری عظیم شاعر عبدالقادر بیدل۔
حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں بڑی شاعری کے لیے درکار فکر مشرق میں مضمحل ہو چکی تھی اور فن مغرب میں منتشر ہو چکا تھا۔ چنانچہ مثال کے طور پر فارسی اور اردو شاعری کے اسالیب سخن تو سلامت تھے مگر موضوعات مفقود یا مجروح جب کہ انگریزی شاعری میں ڈرامے کا مایہ ناز اسلوب اپنی واقعیت کھو چکا تھا۔ یہاں تک کہ وقت کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار برنارڈ شا کو انگریزی ڈرامے کی تجدید کے لیے نثر کا قالب اختیار کرنا پڑا۔ اور بیسویں صدی میں نثری ڈرامے ہی کو انگریزی ادب میں فروغ ہوا۔ حالانکہ ٹی ایس الیٹ نے تنقید و تحقیق دونوں ہی ذرائع سے شعری ڈرامے کی احیا کی زور دار کوشش کی۔ لیکن یہ کامیاب نہ ہوئی اور اس کے نتیجے میں فن کا کوئی عظیم نمونہ سامنے نہیں آیا۔
اس پس منظر میں اقبال نے فکر و فن دونوں کی تشکیل جدید کا بیڑہ اٹھایا ۔ اس مقصد کے لیے مشرقی اسالیب فن میں انہوںنے ایک خاموش ہمہ گیر اور عہد آفریں انقلاب برپا کر دیا۔ غزل ان کے ہاتھوں گل و بلبل کی نزاکتوں سے آگے بڑھ کر خودی و خدا کی صلاحیتوں کی ترجمان ہو گئی۔ حالانکہ اس کے استعارات و علائم اور ہئیت سخن اپنی عام روایتی شکل میں برقرار رہے مگر ان کے مفاہیم و مضمرات یکسر بدل گئے۔ اسی طرح نظم کے مختصر و طویل سانچے پہلے سے فارسی اور اردو می مستعمل تھے‘ ان میں ہی ضروری ترمیم اور اضافہ کر کے اقبال نے ان کے امکانات و کمالات کو تمثیل و رزمیہ کی وسیع و پیچیدہ قماشوں تک وسیع کر دیا۔ جدید انداز کی موضوعاتی نظمیں (ردیف و قافیہ کے ساتھ) مثنوی مثلث مربع مخمس مسدس اور ترکیب بند سبھی صورتوں میں اقبال نے اس کثرت وجودت کے ساتھ تخلیق کی ہیں کہ ان کا ایک وسیع و عریض نظام فن مرتب ہو گیا ہے ۔ اس نظام میں رباعیات اور قطعات کے مختصر پیمانے بھی اپنی جگہ رکھتے ہیں اقبال کی نظموں میں ڈرامائی عناصر و مظاہربھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ خاص تمثیلی نظمیں بھی متعد د ہیں اس طرح مشرقی بیانہی اور مغربی تمثیلیہ اسالیب کے امتزاج سے ایک ایس ہئیت پیدا ہو گئی ہے جو مخصوص ارفع و اعلیٰ تصورات کے موزوں ترین ابلاغ کے ساتھ ساتھ دونوں ہی اسالیب کے بہترین فنی اوصاف پر مشتمل ہے۔ یہ گویا فن شاعری سے عصر حاضر کے فکری تقاضوں کا جواب ہے ڈرامہ نگاری کا فن تھیٹر کے زوال اور سینما کے عروج کے ساتھ ختم ہو چکا ہے پھر آج کے حقائق کی سنگینی واضح اور راست اظہار کی طالب ہے۔ لہٰذا اپنی شاعری میں اقبال نے تمثال آفرینی اور پیکر تراشی کی حد تک تمثیلی عناصر کو باقی رکھتے ہوئے بالعموم ایک لطیف و نفیس بیانیہ انداز اختیار کیا ہے ۔ اور استعارات و علائم کے وافر استعمال سے اس کی شعریت کو زیادہ سے زیادہ تہ دار اور معنی آفریں بنای دیا۔ پھر انہوںنے جو چند تمثیلی نظمیں لکھیں ان کو موضوعاتی نظم کے سانچے تک محدود رکھا۔ زیادہ پھیل کر ڈرامے کے نشیب و فراز میں بکھرنے اورالجھنے نہ دیا۔ اس انضباط نے شاعری کوجدید ذہن کے لے زیادہ سے زیادہ قابل قبول دلکش اور پر اثر بنا دیا۔ اس انداز نظم کو اقبال کے مخصوص اسلوب تغزل کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے ت ومحسوس ہو گا کہ درحقیقت اقبال نے نظم و غزل کے ظاہری سانچوں کو اپنی اپنی جگہ برقرا ر رکھتے ہوئے بھی طر ز فکر اور طرز ادا کے لحاظ سے دونوں کی اندرونی سرحدوں کو توڑ کر انہیں ایک ہی دائرہ فن کے زاویوںمیںتبدیل کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی غزلوں میں مسلسل مضامین اور ان کے درمیان عام طورپر ربط و ارتباط ہوتے ہیں‘ جبکہ بہتیری غزلوں میں تخلص نہیں ہوتا جس سے وہ نظموں کی طرح موضوعاتی نظر آنے لگتی ہیں۔ حالانکہ تغزل کی پوری لطافت و ایمائیت ان میں موجود ہوتی ہے۔
اقبال کی آواز شاعری میں ایک مجتہد انہ غزل ہے۔ میر ا خیال ہے کہ بنیادی طور پر شاعری کی دو آوازیں ہیں‘ایک تغزل کی اور دوسری تمثیل کی ان میں تغزل کی آواز زیادہ قدیم اور اصلی اور خالص ہے۔ اسی میں نغمہ دائود اور غزل الغزلات کا مقدس آہنگ بھی رونماہواہے اور فارسی شاعری کی بے مثال صدائے فن و نوائے سخن بھی جب کہ تمثیل کا ظہور اس وقت ہوا جب شاعری میںڈرامے کی ملاوٹ ہو گئی اور نغمہ روح کے ساتھ نقالی اعضاء کو بھی شامل کر لیا گیا یہ وہ ڈرامہ نگاری تھی جو گویا غزل سرائی سے الگ ہو کر ایک دوسری ہئیت سخن کے لیے اختیار کی گئی گرچہ اسمیں اصل سرچشمہ فن کے کچھ قطرات باقی رہ گئے اب دنیائے شاعری میں یقینا یہ اقبال کا امتیاز و اجتہاد ہے کہ انہوںنے تمثیل کے اضافی عنصر کو بھی کسی نہ کسی درجے اور شکل میں برقرار رکھتے ہوئے تغزل کے اصل نغمہ شاعری کو خود ا س کی بہتری اندرونی آلائشوں سے پاک کر کے خودی و خدا کے درمیان مکاملے کی اس خالص شکل میں دوبارہ زندہ و پایندہ بلکہ غالب و رائج کر دیا ۔ جس میں وہ نغمہ دائود اور غزل الغزلات کا آہنگ لے کر پہاڑوں اور پرندوں کی مترنم تسبیح و تقدیس کے ساتھ پھوٹا تھا۔ اس طرح اقبال کے آفاقی و سرمدی تغزل میں پر اسرار فطرت کا بسیط حسن مسایل حیات کا جلال اور جذبہ عبودیت کا جمال و تقدس ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر شاعری کی تمام تہوں اور جہتوں کو نقطہ کمال تک پہنچا دیتے ہیں۔
اقبال کے لفظوںمیں یہی وہ سوز و سخن ہے جو عین حیات اور سوز حیات ابدی ہے‘ یہ سوز بڑی درد مندی سے پیدا ہوا ہے۔ اس کی نوائے عاشقانہ کے پیچھے عصر حاضر میں انسانیت کے ابتلا اور زندگی کے المیہ کی ایک دردناک داستان ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ا س ابتلا و المیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک آتش ناک نغمہ ایک ’’شعلہ نوا‘‘ ابھرا جس کے سوز و براتی نے بڑے نشاط انگیز انداز میں انسانیت اور زندگی کے ٹوٹے ہوئے رشتے کائنات اور خالق کائنات دونوں کے ساتھ جوڑ دیے۔ یہ شعلہ نوا ذکر و فکر و جذب و سرور سے روشن ہوا ہے اور ایک سینہ روشن کے سوز نفس کی کیمیا گری کر کرشمہ ہے۔ یہ وہ شعر عجم نہیں جو صرف طرب ناک و دل آویز ہے۔ بلکہ یہ وہ شعر ہے جس سے فرد و ملت دونوں کی شمشیر خودی تیز ہوتی ہے ۔ اس نغمہ شوق سے عصر حاضر کی شب تاریک میں انسانیت کی راہیں روشن ہو سکتی ہیں اور ایک بوسیدہ و فرسودہ دنیا کی جگہ نئی دنیا آباد ہو سکتی ہے:
اندھیری شب ہے ‘ جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لیے ہے مرا شعلہ نوا قندیل
٭٭٭
تلاش اس کی فضائوں میں کر نصیب اپنا
جہان تازہ مری آہ صبح گاہ میں ہے
اس آتش ناک نغمے سے فروغ حیات کی بجھی ہوئی چنگاری دوبارہ فروزاں ہو سکتی ہے‘ اوربگڑا ہوا مقدر بن سکتا ہے:
کیا عجب مری نوا ہائے سحر گاہی ہے
زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے
٭٭٭
نہ ستارے میں ہے‘ نے گردش افلاک میں ہے
تیری تقدری مرے نالہ بے باک میں ہے
٭٭٭
کیا فن کے یہ مقاصد و اثرات فن کی تجدید کا سامان نہیں کرتے اور اس تجدید کے ذریعے خود زندگی کی تجدید کا اہتمام نہیں کرتے شاعری کے لیے اقبال کا اپنا نصب العین یہ ہے:
وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل
٭٭٭
فن اور زندگی دونوں کی ابتدا و اتنہا کی آواز دینیات کے نقطہ نظر سے اول یہی نغمہ جبریل ہے جس سے ہمیشہ تاریخ انسانیت میں منزل حیات کے صحیح رخ اور راہ مستقیم کا الہام ہوتا ہے‘ پھر بانگ سرافیل ہے جس سے غلط وادیوں میں بھٹک کر فنا ہو جانے والے کاروان حیات کو زندگہ کیا جا سکتا ہے۔ خواہ صحیح رخ پر انسانیت کو گامزن کرنے کی مہم ہو یا اس کو ایک حیات تازہ دینے کی تحریک ہو‘ دونوں تجدید کے کارمانے ہیں اور فردو ملت نیز فن و زندگی و دونوں کی حیات ابدی کا راز اسی کارنام میں مضمر ہے ۔ یہ ایک انقلابی کارنامہ ہے اور پیہم بدلتی ہوئی تاریخ کے ہرموڑ پر کسی نہ کسی اجتہاد سے انجام پاتا ہے۔ عصر حاضر کی شاعری میں اس اجتہاد فن کا اعزاز و امتیاز اقبال کو حاصل ہوا۔ اسی لیے وہ رسمی و روایتی معنوں میں اپنے کلام کو محض شاعری کہنا اور کہلانا پسند نہیں کرتے تھے اس لیے کہ ان کے زمانے میں شاعری فقط بلبل کی آواز اور طائوس کے رنگ کی تقلید کا نام تھا جو ایک فرسودہ و بوسیدہ سی چیز تھی۔ اقبال کو شکایت تھی:
مرے ہم صفیر اسے بھی اثر بہار سمجھے
انہیں کیا خبر کہ کیا ہے یہ نوائے عاشقانہ
یعنی اقبال کی اعری کسی خارجی ؤمحرک کی تحریک نہیں ہے۔ حتیٰ کہ بدلتے ہوئے موسموں میں سب سے خوشگوار اور سرور انگیز موسم بہار کا عطیہ بھی نہیں‘ یہ ایک سراسر داخلی جذبے کا اظہار ہے لیکن یہ کوئی عام اور معمولی جذبہ نہیں ہے یہ ایک پوری دنیا کو بدل ڈالنے کے جذبے سے کمتر کوئی چیز نہیں یہ حیات و کائنات میں ایک انقلاب عظیم کا جذبہ ہے سرو د و جلال میں اقبال کہتے ہیں:
ہے ابھی سینہ افلاک میں پنہاں وہ نوا
جس کی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود
جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک
اور پیدا ہو یازی سے مقام محمود
مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے
تو رہے اور ترا زمزمہ لا موجود
جو کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہاں خودی
منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود
٭٭٭
یہ مثالی نصب العین وہی ہے جس کی طر ف بال جبریل کی ایک غزل کے شعر سے اشارہ کیا گیا تھا:
مرے گلوں میں ہے اک نغمہ جبریل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لیے
اس نصب العین میں مابعد البطیعتی پہلو نمایاں ہے اور اس کی رفعت کی تشریح مشکل لیکن اقبال کے بے شمار اشعار کے اشارات و کنایات سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ ا س خودی کے اظہار کا آخری نصب الدین ہے جس کے مظاہرے موجودہ ماحول میں بھی متوقع و مطلوب ہیں ۔ بال جبرئیل کی ایک مناجاتی انداز کی غزل میں اقبال خدا سے دعا کرتے ہیں‘
نغمہ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
یہ نو بہار کیا ہے جس کا نغمہ اقبال اپنی شاعری کو بنانے کی تمنا کرتے ہیں۔ یقینا یہ اس جہان تازہ کی آواز ہے جس کی فضائوں کی نشاندہی غزل کی آہ صبح گاہ‘ میں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کلام اقبال میں آہ سحر گاہی اور نغمہ و نالہ صبح گاہی کے جو بیانات کثر ت سے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سوز و گداز کے علاوہ ایک نئی صبح‘ ایک جہان تازہ کی سحر کے اشارات بھی مضمر ہیں ۔ اس سحر کے بارے میں بھی اقبال کا تصور غیر معمولی ہے:
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
(’’صبح‘‘ …ضرب کلیم)
مطلب یہ کہ اقبال کی شاعری کا سارا سو ز و گداز کسی معمولی و عارضٰ سرور و انبساط اور وقتی تشخص لطف و مسرت کے لیے نہیں ہے وہ جس حیات تازہ کے طالب ہیں وہ محدود اور فنا آمیز نہیں ایک زندگی جاوداں اور وجود بیکراں ہے جو ایک بار حاصل ہونے کے بعد بھی کبھی ختم نہیں ہوتی یہ آفاقی زندگی عصر حاضر سے قبل انسانیت کے ایک طبقہ کو برابر میسر رہی تھی۔ مگر لادین مغرب کی بنائی ہوئی نئی دنیا نے جس میں آج کی انسانیت سانس لے رہی ہے اس زندگی کے سراغ گم کر دیے ہیں۔ لہٰذا ہمارا شاعر اپنی نوائے عاشقانہ سے دلوں میں گم گشتہ مثالی و آفاقی زندگی کی مطلب اور تڑپ پیدا کر دینا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے نصب العین کی صریح نشاندہی بڑے ولوہ انگیز انداز میںکرتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ اگر دلوں میںایک اعلیٰ نصب العین کو پانے کی آرزو پید ا ہو گئی ت اتنی انقلاب انگیز آرزو سے جو جذبہ ہائے بلند ابھریں گے وہ دور حاضر یا مستقبل قریب میں ایک نوبہار کا سامان اپنے آپ پید ا کر لیں گے۔ چنانچہ شاعر کی تمنا اپنے محبوب ازل سے یہ ہے کہ اگر اس نوبہار کا مشاہدہ اس کے نصیب میں نہ ہو تو اس کے کلام کا دم نیم سوز کم از کم آنے والی بہار کا مژدہ جاں فزا ثابت ہو اور اس کی حیثیت ایک خوش نوا پرندے کی ہو جو بہار کی آمد سے پہلے اس کے استقبال میں فضا کواپنے نغمات سے بھر دیتا ہے۔ تجدید فن اور تجدید زندگی دونوں کے لیے کلام اقبال کا پیغام حیات ابدی یہی ہے جو نغمہ جبریل بھی ہے اور بانگ سرافیل بھی۔
یہ دراصل نغمہ اللہ ہو ہے جو شاعر کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے اور جس کا شوق اس کی نے اور لے سے مترشح ہے۔ یہ سرود جلال کا وہی زمزمہ لاموجود ہے جس کی تشریح اس شعر سے ہوتی ہے :
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
(لا الہ الا اللہ… ضرب کلیم)
اس نغمے کا حسین ترین نقش مسجد قرطبہ میں جلوہ فروز ہے۔ اقبا ل نے مسجد قرطبہ کو ایک طرف قلب مسلمان کے حسن کا مترادف Objective Correlativeقرار دیا ہے تو دوسری طرف دنیا کی عظیم ترین شاعری کی قدر جمال کا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظم میںبہ نسبت دیگر تمام منظومات کے اقبال نے اپنے تصور فن پر سب سے زیادہ روشنی ڈالی ہے۔ اس نظم سے جو آٹھ اشعار میں پچھلے باب میں نقل کر چکا ہوں ان میں صڑف دو کا اعادہ موجودہ باب کے خاتمہ بحث کے آغاز ک لیے موزوں ہو گا:
تیری فضا دل فروز‘ میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور‘ مجھ سے دلوں کی کشود
٭٭٭
کعبہ ارباب فن ! سطوت دین مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
٭٭٭
اقبال کی نوا سینہ سوز ہے اورا اسے سے دلوں کی کشود ہوتی ہے ۔ یہ وہی پر سوز و نشاط انگیز غزل خوانی کی دوسرے لفظوں میں ترجمانی ہے جس سے ہم نے زیر نظر موضوع پر بحث کا آغاز کیا تھا۔ اب سب سے اہم نقطہ جو قابل غورہے یہ ہے کہ شاعر نے مسجد قرطبہ کو سطوت دین مبین کے ساتھ ساتھ کعبہ ارباب فن بھی کہا ہے اور اس طرح دین کی اخلاقیات اور فن کی جمالیات کو ایک دوسرے میں مدغمکر دیا ہے ۔ اس ادغام سے فن کا ایک امتیازی و اجتہادی تصور مرتب ہوتا ہے اور فن کے سوتے دین کی گہرائیوں میں ڈوب کر سرچشمہ حیات تک پہنچ جاتے ہیں۔ مسجد قرطبہ مطلق دین کی ایک آفاقی‘ ازلی اور ابدی علامت ہے۔ اس کے سیاق و سباق میں اسلام اور اس کے مشتقات دین کی ایک آفاقی ازلی اور ابدی علامت ہے۔ اس کے سیاق و سباق میں اسلام اور اس کے مشتقات کا جو کچھ استعمال ہوا ہے وہ دین مطلق کی حقیقی و اصولی نشاندہی کے لیے ہے اس لیے کہ قرآن حکیم کے لفظوں میں دین صرف اسلام ہے اور اسلام ایک قانون فطرت ہے جس ا منشا بندگی رب ہے اور کائنات کا ایک ایک ذرہ اس قانون کا پابند ہے ۔ اس طرح انسان اور اس کی تمام سرگرمیوں کا رشتہ کائنات کے تمام مظاہر اور حیات کی قوت محرکہ کے ساتھ استوار ہو جاتاہے جو عمل بھی اس عظیم رشتے پر مبنی ہو گا وہ لازماً آفاقی و ابدی ہو گا۔
اسی لیے زمانے کے تمام فنا آموز تغیرات کے درمیانصرف اس نمونہ فن کے لیے حیات جاوداں مقدر ہے جس کے متعلق اقبال کہتے ہیں:
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
اس لیے کہ :
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
(مسجد قرطبہ)
اور
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیںرفت و بود
(مسجد قرطبہ)
عشق ایک بہت عام اور قدیم تصور ہے اور ہر دور میں بے شمار لوگوں نے اس کی بے شمار تعبیریں کی ہیں لیکن فن کی قدر جمال کی کوئی تعریف و تشیرح عشق کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ واقعہ یہ ہے کہ عشق کی عمومیت و قدامت ہی فن کی جوہری آفاقیت کی ضامن ہے۔ اس لیے کہ بڑے فن کی بنا ایک جذبہ عشق پر استوار ہوتی ہے۔ یہی جذبہ فن کار کے خون جگر سے اس کے نمونہ فن میں زندگی پابندگی کا سامان کرتا ہے:
رنگ ہو یا خشت و سنگ‘ چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
(مسجد قرطبہ)
یہ خون جگر عشق اور دین کے درمیان مشترک ہے اس لیے کہ سچا عشق دل کی گہرائیوں سے ہوتا ہے اور عاشق کی رگ رگ سے لہو کھینچ لیتا ہے اور عشق کا سرچشمہ نیز مثالی نمونہ ہو ہے جسے عشق حقیقی کہا جاتا ہے جبکہ عشق حقیقی ذات باری تعالیٰ سے ہوتا ہے۔ جو دین کا بھی محبوب ہو مقصود ہے ۔ اس طرح عشق محاورے کی حد تک عام ہوتے ہوئے بھی علامت کی مانند خاص الخاص ہے اور اس تصور کے ساتھ تخلیق کی ساری رعنائیاں اور کارفرمائیاں ناگریز طور پر وابستہ ہیں۔ خالق و مخلوق کے درمیان‘ خواہ فن میں ہو یا زندگی میں عشق ہی کا باہمی رشتہ ہے اور حیات و کائنات کی تمام رنگینیاں اسی رشتے پر مبنی ہیں انفس و آفاق کے سارے نغمات محرک یہی رنگینیا ں ہیں اور شاعری نغموں کا نغمہ ہے ۔
عصر حاضر میں اقبا ل کا اصل فنی اجتہاد دہی ہے کہ انہوںنے شاعری کو صدیوں کی تمثیلات کی آلودگیوں سے نکال کر خالص اور حقیقی تغزل کی ا راہ پر لگا دیا جس کی فطری پہنائیوں ہی سے نغمہ شاعری پھوٹا تھا۔ یہ ایک عظی الشان تجدید فن ہے بلا شبہ اس تجدید کی روح مشرقی ہے اور یہ ایک قدرتی امر ہے ۔ اس لیے کہ دین اور فن دونوں کا منبع تاریخ انسانی ہی مشرق رہا ہے ۔ اور یہ بھی تجدید ہی کا ایک اہم پہلو ہے کہ عصر حاضر کی ادبیات و سیاسیات میں مغرب اور اس کے تمثیلی انداز فکر و فن کے غلبے کے باوجود مشرق کے ایک فن کار نے تغزل کی مرکزی و فنی برتری کا ثبوت اپنے تخلیقی تجربات س فراہم کر دیا ہے اور اس طرح اعری کے لیے بالکل ناسازگار ماحول میں جب کہ سائنس اور صنعت نے فنون لطیفہ کا وجود مشتبہ بنا دیا تھا۔ شاعری کی فتوحات کے کمالات دکھائے اور مستقبل کے لیے اس کے امکانات روشن کر دیے۔
تغزل کے کے اس ٹھوس اجتہادی کارنامے کے پیش نظر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اقبال نے جمالیات فن کی ترتیب کے لیے جس تصور عشق سے کام لیا ہے وہ عام معنوں میں مثالی و ماورائی یعن عینی و مابعد الطبیعتی نہیں ہے جبکہ فن یا زندگی کے لیے عینیت اور مابعد الطبیعت کی بھی اہمیت ہے بہرحال اقبال کا تصور عشق ہی بہت حقیقی و عملی ہے۔ اور اس کی مثالیت و ماورائیت اس کے معیار کی انتہائی بلندی اور مطمح نظر کی اتھاہ گہرائی کے سبب ہے۔ چنانچہ اس عشق کے مرکز نظر حسن کا جو جلوہ اقبال نے قلب مسلمان میں دیکھا اور دکھایا ہے وہ علامتی طور پر وسیع و رفیع ہونے کے ساتھ ساتھ تجربی طور پر دقیع ہے۔ اس کاجلوہ مسجد قرطبہ کی ٹھوس تعمیر کے منار بلند سے عیاں ہے جس پر کھڑے ہو کر اذان سحر دینے کا شرف ایک بندہ مومن کو حاصل ہوا ہے اور یہ اذاں نہ صرف ’’ندائے آفاق‘‘ ہے بلکہ ستاروں سے گزر کر ترقی فکر و فن کے سدرۃ المنتہیٰ تک جانے اور لے جانے والی ہے۔
یہی معراج شاعری ہے جو دنیائے ادب کو اقبال کے امتیازی و اجتہادی فن اور تصور فن سے میسر آتی ہے:
علام نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
(مسجد قرطبہ)