عمران نے شیلا کی طرف دیکھا جو بڑے اطمینان سے سیگرٹ کے ہلکے ہلکے کش لے رہی تھی!… اس کے انداز سے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے ہی مکان کے کسی کمرے میں بیٹھی ہو!
“تم مطمئن رہو! وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے!” عمران نے اس سے کہا! “خصوصاً اس کمرے میں!”
“تم اپنا وقت برباد کر رہے ہو!” شیلا لاپرواہی سے بولی!
“کیوں؟”
“تم مجھے مرنے سے نہیں روک سکتے! میں خود مرنا چاہتی ہوں
میں تمہارے خیالات کی قدر کرتا ہوں! لیکن تمہارے مرنے سے کسی کا کوئی فائدہ نہ ہوگا! کیونکہ تم مجھے ان لوگوں کے متعلق بہت کچھ بتا چکی ہو! ویسے تمہاری زندگی ملک و قوم کو ضرور فائدہ پہنچا سکتی ہے!”
“مجھے ملک و قوم سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے! کیونکہ اسی ملک و قوم نے مجھے نقصان ُُپہنچایا ہے …”
عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر خاموش ہو گیا… تھوڑی دیر تک سوچتا رہا! پھر بولا “خیر… تم یہ رات تو اسی کمرے میں گزارو گی! تم نے وعدہ کیا تھا!…”
“وہ دوسری صورت تھی!… اب بات کہیں اور جا پڑی ہے، پہلے میرا خیال تھا کہ میں تم سے کم از کم دو ہفتوں کی رقم ضرور اینٹھ لوں گی!”
“میں تمہیں چار ہفتوں کی رقم سے سکتا ہوں! لیکن تمہیں میرے کہنے پر عمل کرنا پڑے گا!”
“میرا پیچھا چھوڑو!” شیلا جھنجھلا گئی… پھر تھوڑی دیر بعد نرم لہجے میں پوچھا!”کیا تم یہاں شراب نہیں رکھتے!”
“یہاں شراب کا نام لینا بھی جرم ہے!”
“تمہارا نام کیا ہے…!”
“خچر!”
“خچر ہی معلوم ہوتے ہو! کوئی سمجھدار آدمی شراب کے متعلق ایسی سخت بات نہیں کہہ سکتا!… اگر تم میرے لئے شراب مہیا کر سکو تو میں رات یہیں گزار دوں گی!”
“شراب اس عمارت میں ممنوع ہے!”
“تب پھر تم مجھے یہاں روک بھی نہیں سکتے!”
“اچھا تو چلی جاؤ!” عمران ہاتھ پھیلا کر بولا!
“ان خودکار دروازوں پر تمہیں گھمنڈ ہے!” شیلا ہنسنے لگی! مگر یہ ہنسی بڑی کھوکھلی تھی! ایسا معلوم ہوا تھا جیسے کسی مشین سے نکلی ہو!…
عمران کچھ نہ بولا! وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا… ایک بار وہ ایک دروازے کے قریب گیا اور اسے کھول کر باہر نکل آیا اور دروازہ پھر بند ہو گیا!… اس نے گھوم پھر کر پوری عمارت کا جائزہ لیا پھر بیرونی برآمدے میں نکل آیا. کمپاؤنڈ سنسان پڑی تھی اور جھینگروں کی جھائیں جھائیں کے علاوہ اور کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی!
وہ تقریباً دس منٹ تک وہاںکھڑا رہا! پھر نیچے اتر کر عمارت کے عقبی حصے کی طرف چل پڑا تھوڑی دیر یہاں بھی ٹھہر کر وہ دوبارہ صدر دروازے پر پہنچ گیا.
اسے کہیں بھی کسی آدمی کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا!… اس نے ساؤنڈ پروف کمرے کا دروازہ کھولا لیکن دوسرے ہی لمحہ میں بری طرح بوکھلا گیا کیونکہ شیلا وہاں نہیں تھی!… وہ وہاں سے نکل کر تیر کی طرح کمپاؤنڈ کے پھاٹک پر آیا… مگر وہاں تو اب قدموں کی آہٹیں بھی نہیں تھیں! سامنے والی سڑک بالکل ویران ہو چکی تھی!
“شامت!” وہ آہستہ سے بڑبڑا کر رہ گیا.