(یہ کالم پاکستانی انتخاب کے بعد ۲۷اکتوبر کو لکھا گیا تاکہ اسے کسی سیاسی پارٹی کے حق میں یا مخالفت میں
نہ سمجھا جائے)
۔۔۔۔آج میں تیسری دنیا کے حوالے سے بات نہیں کروں گا بلکہ سیدھے سبھاؤبنیادی طور پر پاکستان کے حوالے سے اور مجموعی طور پر اسلامی دنیا کے حوالے سے بات کروں گا۔اسلامی دنیا اس وقت دو بڑے بحرانوں کا شکار ہے۔ایک خود غرضی کے باعث باہمی نفاق(عدم اتحاد) اور دوسرا موثر اور باصلاحیت قیادت کا فقدان۔یہ دونوں بحران کسی بھی خطے کی کسی محدود مقامی سطح سے لے کر بڑی اسلامی سطح تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ہماری بیشتر قیادت مصنوعی یا جعلی نوعیت کی ہے،قیادت کی طرح مصنوعی طرز زندگی مسلم معاشروں میں بڑی حد تک سرایت کر چکا ہے۔جب برصغیر میں مغل سلطنت کا زوال ہوا تھا تب اسی زوال کی راکھ سے سر سید احمد خان اور مولانا محمد قاسم نانوتوی جیسی شخصیات نے جنم لیا۔ان کی علمی اورسماجی قیادت نے زوال کے انتہائی نازک ایام میں روشنی کی کرن دکھائی اور بر صغیر کے مسلمان پھر سے جی اٹھے۔ بعض مقبوضہ عرب ممالک کو بھی یکے بعد دیگر آزادی ملتی گئی۔آج تمام اسلامی ممالک کے مسائل گھمبیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔اس کے دیگر بیرونی اسباب کے ساتھ چند ہمارے اپنے ہی پیدا کردہ اسباب بھی شامل ہیں۔
۔۔۔۔پاکستان کی حالیہ انتخابی مہم کے دوران جس طرح ایک دوسرے کے خلاف مقامی نوعیت کی الزامی تراشی کی گئی،اس سے اسلامی معاشرے کے عدم اتفاق اور خود غرضانہ نفاق کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ کرکٹ سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔اس لئے کرکٹ والے عمران خان میں میرے لئے کوئی خاص کشش نہیں تھی۔میں ان کے کینسر ہسپتال کی انسانی خدمات کو ذاتی طور پر جانتا ہوں اور اس وجہ سے ان کا معترف ہوں ۔جمائما سے ان کی شادی پر میں نے ان کے ان بیانات کو یاد کیا جن میں انہوں نے کہا تھا کہ جب بھی شادی کروں گا کسی پاکستانی لڑکی سے کروں گا۔تب میں یہ سوچ کر اپنے آپ میں مسکرا دیا کہ یہ تو ہمارے سیاستدانوں والا کام ہوا ہے۔بہر حال جمائما سے شادی عمران خان کا ذاتی معاملہ تھا اور انہیں اپنی پسند کے جیون ساتھی کے ساتھ شادی کرنے کا حق حاصل تھا۔جمائما نے بے شک عمران خان سے شادی کی وجہ سے اسلام قبول کیا،لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق جب کوئی اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتا ہے تو وہ مسلمان کہلاتاہے۔
۔۔۔۔قائد اعظم نے جب ایک پارسی خاتون سے شادی کی اور ان خاتون نے باقاعدہ اسلام قبول کیا،تب بعض تنگ نظر اور متعصب حلقوں نے نہ صرف قائد اعظم کی ذات پر ناپاک حملے کئے بلکہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اس شادی کو منفی رنگ دینے کی کوشش کی۔یہی صورتحال حالیہ انتخابی مہم کے دوران عمران خان کے سلسلے میں پیش آئی۔ عمران خان کے سیاسی خیالات سے قطع نظران کے خلاف چلائی جانے والی نازیبا مہم میں ایک طرف ان کی اہلیہ جمائما کے سابقہ مذہب کے حوالے سے اشتعال انگیزی کی گئی دوسری طرف اسے مسلم لیگ ق کے خلاف یہودی سازش قرار دیا گیا۔
۔۔۔۔ میرے نزدیک اس اشتعال انگیزی سے ہمارے قومی مزاج کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔اس ”کارِ خیر“سے یہ رویہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دوسرے مذہب سے اگر اسلام قبول کرلے تو ہم اس کا یا اس کے متعلقین کاآگے بڑھنابرداشت نہیں کر سکتے اور فوراً اس کے سابقہ مذہب کو بنیاد بنا کر حملہ کردیتے ہیں۔کیا ایسے کم ظرفی کے رویے سے اسلام کے فروغ میں کوئی مدد مل سکتی ہے؟اور ایسا کرنے والے خود اسلام کے خدمتگار کہلا سکتے ہیں؟
۔۔۔۔جہاں تک میں جانتا ہوںجمائمانے فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر جس انداز میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا،اتنی سطح تک تو ہمارے کئی اچھے بھلے دانشوربھی حقائق کا تجزیہ نہیں کر سکے تھے۔میں نے جمائما کے مضمون سے بہت سے مخفی اسرائیلی عزائم اور ان سے متعلق حقائق کا ادراک کیا۔انہوں نے کسی سیاسی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ فلسطین میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی چیرہ دستی اور عالمی بے حسی کے نتیجہ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔جمائما کے ان خیالات کی داد دی جانی چاہئے تھی ۔ایسے کسی مضمون کا عشر عشیر بھی اس پاکستانی سیاسی حلقے کی طرف سے نہیں ہوسکا جو عمران خان کے خلاف ان کی اہلیہ کو بہانہ بنا کر اور وہ بھی ناجائز طور پر نشانہ بناگیاہے۔اگر اس سیاسی کھیل میں کہیں کوئی یہودی سازش دیکھی جا سکتی ہے تو وہ اتنی ہو سکتی ہے کہ اپنی ایک ارب پتی یہودی لڑکی کا اسلام قبول کرنا اور پھر صہیونی عزائم کے خلاف مضامین لکھنا یہودیوں کو اچھا نہیں لگا اور انہوں نے الیکشن کے بہانے جمائما اور عمران کے خلاف مہم چلانے والوں کی سرپرستی کی۔اگرچہ ایسا بھی نہیں ہوا ہوگا۔تاہم اگر امکان کی بات ہے تو یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ وگرنہ مسلم لیگ ق کے خلاف یہودیوں کو کسی مہم چلانے کی کیا ضرورت ہے۔اس وقت امریکی صدر اسرائیل کے” سپوکس مین“ کی پھبتی کی حد تک یہودیوں کے تابع فرمان ہیں۔۔۔ جنرل پرویز مشرف امریکہ کے تابعدار ہیں اور مسلم لیگ ق جنرل پرویز مشرف کی تابع مہمل ۔اپنے کسی تابع کے، تابع کے” تابع مہمل“ کے لئے یہودیوں کو اتنا سرمایہ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آنے لگی؟
۔۔۔۔عمران خان کے خلاف چلائی جانے والی ایک مہم تو یہی تھی جو آن دی ریکارڈ رہی۔دوسری مہم گمنام فحش پوسٹرزکی صورت میں سامنے آئی۔بحیثیت ادیب میں جانتا ہوں کہ جعلی ،مصنوعی اور چور قسم کے رائٹرز کسی اوریجنل شاعر اور ادیب کے مقابلہ میں ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔اپنی دانست میں خوش ہوتے ہیں کہ شاید ہم نے کوئی بڑا تیر مار لیا ہے لیکن کسی کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ ایسے بیہودہ رویوں کا نشانہ بننے کے باوجود غالب جیسا بڑا شاعر بھی بڑا ہی رہا اور اُن بدبخت مخالفوں کا نام ادب میں صرف اس حد تک رہ گیاکہ انہیں اس حوالے سے یاد کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ غالب کے خلاف بدزبانی کی فلاں حد تک گئے تھے۔ سیاست میں ایسے رویے کا فروغ پانا نہ وطنِ عزیز کے لئے مفید ہے نہ عالمِ اسلام کے لئے سود مند۔اس رویے سے صرف قوم کے اخلاقی زوال کی انتہا کی نشاندہی ہوتی ہے۔عمران خان کے خلاف جو گمنام گندگی اچھالی گئی اس سے عمران خان کا کچھ نہیں بگڑا ۔۔۔بس چھپے ہوئے اورظاہر کے سارے گندہ دہن لوگ مزید ظاہر ہوگئے ہیں اور قوم کی قیادت بھی اب غالباً یہی لوگ کرنے جا رہے ہیں۔
۔۔۔۔کتنا اچھا ہو کہ مسلم لیگ ق کے قائدین اور ان کے ساتھی کسی سیاسی غرض سے بالا تر ہو کراپنے بعض افراد کی ان حرکات پر نہ صرف عمران خان سے معذرت کریں بلکہ جمائما کے دل میں اس ساری مہم سے جو دکھ پیدا ہوا ہے اس کی تلافی کریں۔شاید اس طرح ان کے طرز عمل سے ملک میں مریضانہ سیاسی رویوں کی روک تھام ہو سکے اور قوم مزید اخلاقی زوال سے بچ سکے۔
۔۔۔۔عمران خان کے خلاف ہونے والی اس گندی مہم کے حوالے سے ہماری سیاست کی اخلاقی حالت کا مجموعی طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود یہی لوگ اب ایون اقتدار میں داخل ہو رہے ہیں تو وطنِ عزیز کا اﷲ ہی حافظ ہے۔اس مثال سے نہ صرف ہمارے قومی نفاق اوراخلاقی زوال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اسی مثال سے ہمارے ہاں موثر اور باصلاحیت قیادت کے فقدان کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔سر سید احمد خان سے قائد اعظم محمد علی جناح تک بر صغیر کو جیسی مسلم قیادت میسر آئی ،وہ کوئی خاص خدائی عنایت ہی تھی۔اس کے بعد نئے بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اسلامی بلاک کی قیادت کرنے والے چند اہم لیڈر ابھرے۔ذوالفقار علی بھٹو،شاہ فیصل اور کرنل قذافی اسی قبیل کے لیڈر تھے۔بھٹو اور شاہ فیصل کے خلاف جو عالمی سازش رچائی گئی وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔اور کرنل قذافی کو جیتے جی جس طرح مار دیا گیا وہ ظاہر ہے۔اب تو پوری اسلامی دنیا میں ایسی کسی قیادت کا فقدان ہے جو عالمی صورتحال کے مطابق آگے قدم بڑھا سکے۔اسلامی دنیا کو اس دلدل سے نکال سکے جس میں صہیونی سازشوں سے پورا عالمِ اسلام دھنستا چلاجا رہا ہے۔موجودہ حالات میں تو کوئی سر سید احمد خان اور مولانا محمد قاسم نانوتوی بھی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں گے۔اس وقت عالمِ اسلام کو بین الاقوامی سطح کے بڑے اسلامی لیڈروں کی ضرورت ہے۔مہاتیر محمد اور سعودی شہزادہ عبداﷲ میں ایسی لیڈر شپ کے امکانات تو ملتے ہیں لیکن جب قوم کی حالت ہی ناگفتہ بہ ہو تو ایسی قیادت بھی کیا کرسکے گی؟
۔۔۔۔مجھے لگتا ہے عمران خان کے خلاف چلائی جانے والی گندی مہم ہمارے جس قومی اخلاقی زوال کی نشانی ہے،وہ زوال پورے عالم اسلام میں نفوذ کرچکا ہے ۔عالمِ اسلام عمومی طور پر اپنی بیشتر سماجی اور سیاسی سطحوں پر اس وقت انتہائی خود غرضی اور مفاد پرستی کی دلدل میں دھنس چکا ہے،اس دلدل سے بچ نکلنے والوں کے لئے آگے امریکی صدر بش اور ان کے مشیروں کی بنائی ہوئی دلدل موجود ہے۔
٭٭٭