’’بارش کیا تھی اچھا خاصا طوفان تھی۔۔۔ اس وقت بے موسم کی با رش تیز ہوا کی سنگت میں پو ری قوتّ کے ساتھ برس رہی تھی۔ وہ آج صبح سے بالکل خا مو ش تھی،اور اپنے کمرے کی واحد کھڑکی سے وہ انتہائی صدمے سے برگد کے سو کھے درخت کو دیکھ رہی تھی جو چند ہی دنوں میں بالکل سوکھ گیا تھا۔ ایک طو فا ن اس کے اندر بھی آیا ہو ا تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ بھی کسی دن اسی برگد کے درخت کی طرح سو کھ جا ئے گی۔ اسی وقت بجلی کڑکی اور بادل زور سے گرجا۔ جمیلہ بی بی نے آگے بڑھ کر کھڑکی کا پر دہ ہٹا کر کھڑ کی ہی بند کر دی ۔‘‘
’’ کیا ہے اماں، پہلے ہی اندر باہر ہر طر ف حبس ہے،‘‘ وہ سخت بے زا ری سے بولی۔ اور اس نے اپنے تکیے کے پاس پڑا شیشہ بھی اٹھا کر فرش پر پھینک دیا ۔ جمیلہ مائی اپنی بیٹی کی رگ رگ سے وا قف تھی۔ اسے معلو م تھا کہ اسے اس قدر غصہ کیوں آ رہا ہے۔ اس نے دانستہ اس کی اس حرکت کو نظر انداز کیا ۔ کچھ اکلوتی اولاد سے محبت بھی بندے کو بہت کمزور کر دیتی ہے اس کا ادراک اُسے انہی دنوں میں ہوا تھا۔
سکینہ کو خو د بھی نہیں معلو م تھا کہ صبح نوبجے ڈا کٹر خاور کے ساتھ ڈاکٹر ضویا کو اپنے کمر ے میں دیکھ کر اسے اتنا غصہ کیو ں آیا تھا۔ اس کے اندر با ہر بھا نبھڑسے جل اٹھے ۔ وہ پاؤں سے لے کر سر کے آخری بال تک سلگ اٹھی ۔
ڈا کٹر ضو یا نے کسی بات پر ہنستے ہو ئے ڈا کٹر خاور کے با زو پر اپنا ہا تھ رکھا تھا۔اور جتنی محبت سے وہ اس کے چہرے کو دیکھ رہے تھے سکینہ کو یو ں لگ رہا تھا کہ وہ کسی گرم توّے پر ننگے پا ؤ ں کھڑ ی ہو۔
’’اللہ جوڑی کو نظر بد سے بچا ئے،ما شاء اللہ چا ند سورج کی جو ڑی لگ رہی تھی۔‘‘ سکینہ کو نہ جا نے کیو ں لگا تھا کہ اماں نے یہ با ت سرا سر اسے سنا نے کے لیے کہی ہے۔تبھی اْس نے سخت صد مے کی کیفیت سے اماں کو دیکھا جسے احسا س نہیں تھا کہ وہ ان کے لیے تو دعا جبکہ اپنی بیٹی کے لیے بلواسطہ بد دعاکر رہی ہے۔وہ تب سے نہ صرف امّاں سے بلکہ اپنے آپ سے بھی خفا تھی۔اُسے بالکل خاموش دیکھ کر امّاں نے ناصح انداز اپنایا۔
’’دیکھ سکینہ پترّ! مخمل میں کبھی ٹا ٹ کا پیو ند نہیں لگتا۔‘‘امّاں نے اپنی نا زک مزاج بیٹی کا بر ہم چہر ہ دیکھتے ہوئے ذرا محتا ط انداز سے کہا لیکن اس کے باوجود سکینہ اس کی بات پر بُری طرح سے چڑ گئی ۔
’’امّا ں جیسے مقدر کا لکھا ٹل نہیں سکتا،کمان سے نکلا تیر اور منہ سے نکلی بات وا پس نہیں آ سکتی ،اسی طرح میر ے دل کو بھی تیر ی منطق سمجھ نہیں آسکتی۔تو مجھے بتا کس زبا ن میں اپنے دل کو سمجھا ؤں،میں پا گل تھو ڑی ہوں،اپنی اوقا ت پہچا نتی ہوں، میں اللہ دتا کمہا ر کی کبڑ ی بیٹی ہو ں ‘‘۔ اس نے اپنا مذا ق خو د اڑا یا ۔
اس کے چہرے پر پھیلی بے بسی اور مایوسی سے جمیلہ ما ئی کے دل کو کچھ ہوا،وہ فو راََ اْٹھ کر اس کے پاس آ کر اس کا سر سہلا نے لگی’’ میر ی بچی بہت صا بر ہے‘‘ اس کادل بھر آیا ۔اُس نے بمشکل دل سے اٹھتے ہوئے جوار بھاٹے کو آنسوؤں کی صورت میں باہر نکلنے سے روکا تھا۔
’’ اماں تو گوا ہ ہے پچھلے آٹھ سا لو ں میں ، میں نے اپنی بیما ری کا کبھی اللہ سے شکو ہ نہیں کیا کہ اس نے مجھے چودہ سال صحت و تندرستی بھی تو دی تھی،میں نے کہا ں کہا ں نہیں دھکے کھا ئے، جب میر ی کمر پر کْب نکلنے لگا میں تب بھی روئی لیکن اللہ پا ک سے کو ئی گلہ نہیں کیا، جب لا ہور والے ڈاکٹرو ں نے میرا مزید علا ج کرنے سے انکا ر کر دیا،میرے اندر پھر بھی طا قت تھی صرف یہ سو چ کر کہ میرا رب کہتا ہے کہ ما یو سی کفر ہے لیکن مجھے اس نے اب جس آزما ئش میں ڈال دیا ہے،مجھے اس چیزپر اللہ سے گلہ ہے‘‘وہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔جمیلہ ما ئی کے دکھو ں میں ایک دم اضا فہ ہو ا ۔
’’نہ میری جند،نہ میری جان،اللہ سوہنے سے گلہ نہیں کرتے۔۔۔جمیلہ مائی ایک دم ہی خوف زدہ ہوئی۔
’’امّاں خدا کی قسم یہ میرے بس کی بات نہیں ۔۔۔‘‘وہ آج اپنے دل کا وہ راز کھول ہی گئی ۔امّاں کا چہر ہ فق ہو گیا ۔
’’امّاں کھڑکی کھول دے ناں۔۔۔‘‘ اُس نے روتے ہوئے التجا کی تو امّاں کے دل پر آرا سا چلا۔
اُس نے آگے بڑھ کر کمرے کی کھڑکی کھول دی تھی۔ باہر سے تازہ ہوا کے جھونکوں نے اندر کے حبس زدہ ماحول کو کچھ کم کیا ۔وہ اپنی بھولی بیٹی کو کیا سمجھاتی کہ وہ یہ کھڑکی کیوں بند کرتی ہے ۔تاکہ باہر کے مناظر اُسے مزید ذہنی تکلیف نہ دیں۔ڈاکٹر ضویا کو ڈاکٹر خاور کے ساتھ پارکنگ کی طرف جاتے دیکھتے ہوئے جتنی اذیت اس کے چہرے پر پھیلتی تھی وہ جمیلہ مائی کا کلیجہ جلا جاتی تھی اور اگلے کئی گھنٹوں تک وہ خوفزدہ انداز سے سکینہ کی شکل دیکھتی رہتی کہ اسے کچھ ہو ہی نہ جائے۔
پو رے سر کا ری ہسپتا ل میں ڈاکٹر خا ور اس کی ہمت بڑھا تے اور اپنے مکمل تعاون کا یقین دلا تے دلاتے اللہ جا نے کب اس کے دل کا دروازہ کھو ل کر بڑ ے دھڑلے سے اندر دا خل ہو گئے تھے۔ جس رات اُسے اس با ت کا ادراک ہوا،وہ سخت خوفزدہ ہو ئی،کئی راتیں اس نے خو د سے جنگ کرتے ہو ئے گذا ری تھیں۔
وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھی اور اکثر بیٹھ کر سوچتی ۔’’یہ کیسی محبت تھی جو گھن کی صو رت اسے چا ٹ رہی تھی وہ جو زند گی سے لڑ نے آئی تھی اپنے دل سے ہا ر بیٹھی،جسم تو معذور تھا ہی وہ دل کو بھی معذورکر بیٹھی،اب اس اپا ہج دل کو لے کر وہ کہا ں جا تی؟اس نے تو بہت سنبھل کر زند گی گذاری تھی،رب سے تعلق اتنا مضبو ط تھا جو اسے کہیں اور دیکھنے ہی نہیں دیتا تھالیکن دل نے جیسے ہی پہلی چو ری کی،پکڑا گیا،اللہ سے تھو ڑا سا غا فل ہوئی،اس نے منہ کے بل گرا دیا،اس پر بھی امّاں کہتی تھی کہ شکر کرسکینہ اللہ تجھ سے غا فل نہیں ہو ا۔‘‘
اْسے کچھ دن سے اپنے علا ج سے کو ئی د لچسپی نہیں رہی تھی ، سکھر سے اباّ ان کو ملنے آیا تو اسے اس قدر کمز ور دیکھ کر حیرا ن رہ گیا،وہ گھنٹو ں چپ بیٹھی رہتی،اور کھڑ کی سے با ہر بر گد کے سو کھے در خت کو دیکھتی رہتی۔اس کے چہر ے پر بس چند منٹو ں کے لیے تازگی آتی جب ڈا کٹر خا ور صبح را ؤ نڈ پر آتے،لیکن اب وہ بھی نہ جانے کیوں اس کے ساتھ ذرا محتا ط ہو کر با ت کرتے تھے اور ان کی یہ لا تعلقی دیمک کی طر ح سکینہ اللہ دتّاکے وجود کو کھا رہی تھی۔
’’ اماّں میں خوبصو رت کیوں نہیں ہوں؟‘‘ اس دن اس نے شیشہ دیکھتے ہو ئے سخت رنجیدہ لہجے میں اما ں سے پو چھا۔جو جا ئے نما ز پر بیٹھی تسبیح کر رہی تھی ،اس نے ابھی اپنے کمر ے کی کھڑ کی سے ڈا کٹر ضو یا کو ڈا کٹر خا ور کے سا تھ جاتے دیکھا ۔ افسردگی کی ایک بھاری دیواردل پر آن گری اور اس نے پچھلے دس منٹو ں میں بلاشبہ کوئی پندرہ دفعہ شیشہ دیکھا اور ہر دفعہ دیکھنے پر پہلے سے زیا دہ ما یو سی کا شکارہو ئی ۔
’’کملی نہ ہو ،کون کہتا ہے کہ میری دھی خوبصورت نئیں اے۔۔۔‘‘ امّاں نے دل ہی دل میں سورت پڑھ کر اس کے ماتھے پر پھونک ماری۔وہ اس وقت ساری دنیا سے خفا لگ رہی تھی۔امّاں جائے نماز سے اٹھ کر اس کے پاس آن بیٹھیں۔
’’امّاں تیرے علاوہ ،ساری دنیا کہتی ہے۔‘‘ اُس کے انداز میں اکتاہٹ اور بے دلی کا عنصر نمایاں تھا۔وہ اب دانستہ طور پر کھڑکی سے باہر دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔
’’میری دھی دا ،دل تے شیشے ورگوں روشن تے چمکیلا اے۔۔۔‘‘ امّاں نے اُس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔اُس کے ہر انداز سے اپنی بیٹی کے لیے امڈتا محبت کا سمندر ہر کسی کو ہی دِکھائی دیتا تھا۔ سارے پنڈ والے جمیلہ اور اللہ دتّے کمہار کا مذاق اڑاتے تھے جنہوں نے لڑکی ذات کو سر پر چڑھا رکھا تھا۔
’’میری بھولی ماں،آجکل کے دور میں کون بے وقوف دلوں کے چمکیلے پن کو دیکھتا ہے۔ لوگ اجلے جسم اور خوبصورت چہروں کے پیچھے ہی بھاگتے ہیں۔‘‘وہ زہر خند لہجے میں بولی تھی۔
’’پتّر اب اتنا بھی اندھیر نہیں مچا،ابھی بھی کچھ لوگ اجلے دلوں سے پیار کرتے ہیں۔۔۔‘‘امّاں نے میز سے لکڑی کا فریم اٹھاتے ہوئے سادہ سے انداز سے کہا ۔ لکڑی کے فریم کے ساتھ ہی ایک سفید اور گلابی رنگ کی کریم زمین پر گری۔جسے گرتے دیکھ کر سکینہ کا رنگ فق ہوا۔
’’نی سکینہ ،اے کی اے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ امّاں نے ٹیوب اٹھا کر اُس کی آنکھوں کے آگے کی۔جو اُس سے نظریں چرائے باہر انار کے درخت پر بیٹھی ایک اداس سی چڑیا کو دیکھنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
’’پتا نہیں امّاں۔۔۔‘‘ اُس نے دانستہ اپنے لہجے کو لاپرواہ بنایا ۔ اُسی وقت ایک نرس اس کے بخار کی ریڈنگ لینے اندر آئی تو امّاں نے وہی ٹیوب اس کے آگے لہرا دی۔
’’پتّر اے کی اے،سکینہ دی کوئی دوائی تے نہیں اے ناں۔۔۔‘‘ ؟وہ نرس ٹیوب دیکھ کر کھلکھلاکر ہنس پڑی۔
’’امّاں جی ،اے تے فئیر اینڈ لوّلی ہے۔۔۔‘‘ اُس نے تھرمامیٹر سکینہ کے منہ میں ڈالتے ہوئے جمیلہ مائی کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’’اے دھی رانی،میں ان پڑھ ،جاہل کیا جانوں،یہ کس بلا کا نام ہے،تو یہ بتا کہ یہ کس کام آتی ہے۔۔۔‘‘ امّاں کو واقعی سمجھ نہیں آئی تھی تبھی تو وہ حیرانگی سے نرس کو ہنستے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
’’خالہ جی اے رنگ گورا کرنے والی کریم ہے،اس کا نام فئیر اینڈ لوّلی ہے۔یہ تیری دھی نے مجھ سے ہی پرسوں بازار سے منگوائی تھی۔‘‘نرس کی چلتی زبان دیکھ کر سکینہ کا دل چاہا کہ وہ تھرما میٹر اپنے منہ سے نکال کے اُس کے منہ میں ڈال دے۔
’’رنگ گورا کرنے کی۔۔۔سکینہ نے منگوائی سی۔۔۔‘‘ امّاں نے سخت غصّے اور ناراضگی سے سکینہ کو دیکھا جس نے اماں کے غضب سے بچنے کے لیے فوراً آنکھیں بند کر لی تھیں،لیکن امّاں نے بھی نرس کے باہر جانے پر اپنی بیٹی کا دماغ سیٹ کرنے کا ارادہ کر ہی لیا تھا۔
**************************
’’کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ کے منہ سے نکلنے والی بے ساختہ چیخ پر ماہم کے ہاتھ سے چھری گرتے گرتے بچی ۔
وہ دونوں اس وقت ماہم کے کچن میں شیلف پر بے شمار سبزیاں رکھے چائینز بنانے کے لیے کٹنگ کرنے میں مصروف تھیں کہ ماہم نے اُسے رامس کے پرپوزل کا بتا یا ۔جسے سنتے ہی عائشہ اپنے منہ سے نکلنے والی بے ساختہ چیخ پر قابو نہیں پا سکی ۔
’’اُس پاگل کا دماغ ٹھیک ہے جو تمہیں پرپوز کرنے بیٹھ گیا۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ نے کٹنگ بورڈ پر اور تیزی سے چھری چلاتے ہوئے غصّے سے کہا ۔اُس کے اس انداز پر ماہم کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔اُس کے یوں ہنسنے سے اُس کے دائیں گال پر بننے والا ڈمپل اور خوبصورت لگنے لگا۔
’’بے تحاشا غصّہ آ رہا ہے مجھے اُس آٹے کی بوری پر۔۔۔‘‘ عائشہ کو مردوں کی سفید رنگت سخت بُری لگتی تھی جب کہ رامس بھی خوب گورا چٹا ہونے کی وجہ سے اُسے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔اُس نے پچھلے ہفتے ہی تو اُسے ماہم کے ساتھ دیکھ کر منہ بنایا ۔
’’قسم سے عائش ،ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے تم سبزیاں نہیں رامس کی گردن کاٹ رہی ہو۔۔۔‘‘اُس کے شرارتی انداز پر عائشہ نے مصنوعی غصّے سے اُسے گھورا۔
’’ہزار دفعہ کہا ہے کہ میرا نام مت بگاڑا کرو،تم جیسی جاہل کو علم ہی نہیں کہ میرا نام کتنی محترم ہستی کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔خالصتاً اسلامی نام جب بگاڑ کر تم عائش کہتی ہو تو مجھے وہ کم بخت لمبوتری ایشوریہ رائے یاد آجاتی ہے جو باپ اور بیٹے کے ساتھ دنیا کو بے وقوف بنا رہی ہے۔‘‘
’’استغفراللہ۔۔۔عائشہ ایسے کسی پر الزام تراشی نہیں کرتے۔۔۔‘‘ماہم نے نفاست سے بند گوبھی کاٹتے ہوئے اُسے ٹوکا ۔
’’تم اپنے ایمان سے بتاؤ کہ وہ ابھیشک سے زیادہ امیتابھ کے ساتھ سوشل گید رنگز میں نہیں ہوتی۔دونوں ایک دوسرے کہ ہمراہی میں کتنے خوش باش لگتے ہیں کہیں سے بھی ان میں سُسر اور بہو کا رشتہ لگتا ہے۔۔۔‘‘عائشہ نے بڑی مہارت سے گاجر پر چھری چلائی ۔جب کہ ماہم نے اُسے تاسف بھرے انداز سے دیکھا ۔
’’یاللہ ،تم کتنی مکّار عورت لگ رہی ہو ایسی باتیں کرتے ہوئے بالکل اسٹار پلس کے کسی سازشی ڈرامے کی کٹنی کی طرح۔۔۔‘‘ ماہم نے ایپرن باندھ کر فرائی پین نکالتے ہوئے اُسے چھیڑا تھا۔
’’میں جو بھی لگوں ،تم اس بات کو چھوڑو ،تم نے پھر رامس علی درّانی کو کیا جواب دیا۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ نے کٹنگ شدہ سبزیوں کو پانی میں کھنگالتے ہوئے تجسس سے دریافت کیا ۔جب کہ اس کی بات کے جواب میں ماہم لاپرواہی سے کندھے جھٹک کر بولی ۔
’’آف کورس۔۔۔ایسی بات کا جواب صرف خاموشی ہی ہو سکتی تھی۔ایسی صورت میں جب آپ کو پتا ہو کہ اگلا بندہ آپ کا مریض ہے اور اس کی ذہنی حالت بھی ایسی نہیں کہ وہ اپنے مستقبل کا کوئی ایسا اہم فیصلہ کر سکے۔۔۔‘‘
’’فرض کرو کہ اگر وہ بالکل ٹھیک ہوتا،اُسے کو ئی نفسیاتی مسئلہ درپیش نہ ہوتا اور وہ عام سے حالات میں تم سے ملتا تو کیا تم اُس کا پرپوزل قبول کر لیتیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے سبزیوں کا پیالہ شیلف پر رکھ کر اُسے سنجیدگی سے دیکھا ۔
’’آئی ڈونٹ نو یار،تمہیں پتا ہے ناں کہ میں کتنی متلون مزاج واقع ہوئی ہوں اس لیے اپنے ہی بارے میں بھی کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتی ‘‘ وہ تھوڑا سا عجیب انداز میں مسکرائی۔’’ میں چونکہ حسن پرست واقع ہوئی ہوں ۔اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس کا پرپوزل قبول کر لیتی۔۔۔‘‘ فرائی پین میں آئل ڈالتے ہوئے اُس نے شرارت بھرے انداز میں کہا ۔اُس کی اس قدر بونگی دلیل پر عائشہ نے کھا جانے والی نظروں سے اُسے دیکھاجو فرائی پین میں گرم ہوتے آئل کی طرف متوجہ تھی۔
’’تم اتنی زیادہ بیوٹی کونشش کیوں ہو یار۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ نے اُلجھ کر اس کے بے داغ سراپے کو دیکھا تھا،کہیں بھی کچھ کمی نہیں تھی۔
’’پتا نہیں یار،یہ چیز میری فطرت میں شامل ہے۔مجھے اس پر کوئی اختیا ر نہیں۔۔۔‘‘وہ ہنستے ہوئے کچن میں رکھے ڈائننگ ٹیبل کی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔عائشہ نے شیشے کے گلاس پر جمی اس کی مخروطی انگلیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا ۔وہ بڑے سکون اور فراغت سے پانی پی رہی تھی۔
’’خوبصورتی کس بندے کو متاثر نہیں کرتی یار۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ اب ٹشو پیپر کے ساتھ بڑی نفاست سے اپنے ہاتھ صاف کرتے ہوئے لاپرواہی سے بولی ۔اس کی راج ہنس جیسی گردن پر نمایاں بیوٹی بون سے عائشہ نے بمشکل آنکھیں ہٹا ئیں ۔
’’سب کو کرتی ہے لیکن ہر ایک کا پیمانہ اور پرکھنے کا انداز مختلف ہو تا ہے۔کسی کو ظاہر ی خوبصورتی اور کسی کو باطن کی اچھائی زیادہ اچھی لگتی ہے۔۔۔‘‘اس کی دلیل پر وہ استہزائیہ انداز سے ہنسی اور ایک دفعہ پھر چولہے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
’’یہ باطنی خوبصورتی والی باتیں محض ٹوپی ڈرامہ ہوتی ہیں یار۔آج کے تیز رفتار دور میں کس کے پاس اتنی فراغت ہے کہ آپ کے اندر خوبصورتی ڈھونڈتا پھرے۔یہ سب کتابی باتیں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ لوگ ظاہری خوبصورتی کے پیچھے ہی لپکتے ہیں۔چمک دمک سے متاثر ہونے کے بعد ہی کسی چیز کی کوالٹی کی طرف دھیان جاتا ہے۔اُس کے باوجود بعض دفعہ بہترین کوالٹی پر بھی ہم اکثر اُسی چیز کو ترجیح دیتے ہیں جو ہماری بصارت کو اچھی لگ رہی ہو۔جو چیز دیکھنے میں ہی نہ اچھی لگے کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ خوردبین کے ساتھ اُس کی خوبیاں ڈھونڈتا پھرے۔ ۔۔۔‘‘اُس کے مذاق اڑاتے انداز پر عائشہ کو جھٹکا ہی تو لگا ۔کئی لمحوں تک وہ کچھ بھی نہیں بول پائی ۔اُسے ایسے لگا تھا جیسے اس کی قوت گویائی سلب ہو گئی ہو۔اُس نے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ میز پر رکھ دی ۔اُسے ڈر تھا کہ وہ اس کے ہاتھ سے کہیں چھوٹ کہ گر ہی نہ جائے۔
’’اگر یہ بات ہے توپھر میں تو اتنی خوبصورت نہیں ،تم نے مجھے اپنی فرینڈز لسٹ میں کیسے شامل کر رکھا ہے۔۔۔‘‘عائشہ کی بات پر سبزیاں فرائی کرتے ہوئے ماہم نے حق دق انداز سے اُسے دیکھا تھا۔جو بڑی بے رحمی سے اس پر نگاہیں ٹکائے بہت عجیب سے تاثر کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔
’’میرا دل کر رہا ہے کہ اس قدر گھٹیا،فضول اور انتہائی نامعقول بات کرنے پر تمہیں اسی چھری کے ساتھ قتل کر دوں۔عائش تمہیں ذرا بھی شرم نہیں آئی ایسی بے ہودہ بات کرتے ہوئے؟؟؟؟ ‘‘ ماہم نے بمشکل خود کو مشتعل ہونے سے روکا ۔وہ سخت خفا نظروں سے عائشہ کو دیکھ رہی تھی جسے ماہم کے اس قدر شدت پسندانہ روئیے کی توقع نہیں تھی ۔تبھی تو وہ حق دق تھی۔اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ماہم کو اتنا غصّہ کیوں آ رہا ہے۔
’’تم نے کیا مجھے کوئی ذہنی مریض سمجھ رکھا ہے جس کے دماغ پرہر لمحہ صرف خوبصورتی سوار رہتی ہو۔یامیں کوئی بچّی ہوں جسے بُرے بھلے کی پہچان نہیں۔یار میں بھی ایک عام انسان ہوں۔میرے اندر بھی خوبیاں اور خامیاں ہو سکتی ہیں لیکن کیا میں واقعی تمہیں اتنی گھٹیا لگتی ہوں کہ زندگی کے ہر معاملے میں اس چیز کو اپنے ذہن پر سوار کر لوں،اور خصوصاً تم نے سوچا بھی کیسے کہ میں تمہارے معاملے میں کوئی ایسی فضول چیز سوچوں گی۔۔۔‘‘وہ آج اس کی مکمل کلاس لینے کے موڈ میں تھی اس کے لہجے سے جھلکتی بے ساختہ محبت جو صرف اور صرف اس کے لیے تھی وہ عائشہ کو مزید شرمندہ کر رہی تھی۔۔۔
’’اور تمہیں کس احمق نے کہا ہے کہ تم خوبصورت نہیں ہو۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے چھری شیلف پر پھینکی تھی۔
’’کس نے کہنا ہے،آئینہ بتاتا ہے۔ کچھ بھی تو خاص نہیں ہے مجھ میں۔۔۔‘‘ عائشہ نے استہزائیہ انداز سے اپنا مذاق اڑایا تھا جو ماہم کو سخت بُرا لگا تھا۔
’’تمہیں پتا ہے عائش،تمہاری سب سے بڑی خوبصورتی تمہارا پُر اعتماد انداز ہے۔تمہاری ذہانت ،سچائی اور تمہارا کھرا پن ہے ۔مجھے اگر ظاہری خوبصورتی متاثر کرتی ہے تو میں کردار کی ان خوبیوں پر بھی مرتی ہوں۔جو تمہارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔اگر اپنے حوالے سے ایسی بات سوچو گی تو خود ترسی اور احساس کمتری کا شکار ہو جاؤ گی۔۔۔‘‘ ماہم کے لہجے سے تلخی کے ساتھ ساتھ سچائی بھی جھلک رہی تھی۔
’’تمہیں پتا ہے ماہم کہ میں ایسی چیزوں کو کبھی اہمیت نہیں دیتی۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مجھے ایسا کوئی کمپلیکس نہیں۔الحمد اللہ ۔میں نے یونہی مذاق میں کی جانے والی باتوں پر ایساسوچا تھا اور یہ خیال بھی بخدا ابھی ابھی میرے ذہن میں آیا تھا ۔تم پتا نہیں کیوں سیریس ہو گئی۔‘‘ عائشہ کو ہنستے دیکھ کر ماہم نے بمشکل خود پر قابو پایا اور انتہائی سنجیدہ انداز سے کہا۔
’’اب باقی سارا چائینزکھانا تم اکیلے بناؤ گی یہ تمہاری سزا ہے۔۔۔‘‘اُس نے ایپرن اتارتے ہوئے عجیب سی سزا سنائی تھی ۔عائشہ نے ہکّا بکّا انداز سے شیلف پربکھرے سبز یوں کے طوفان کو دیکھا۔وہ ایک دم گھبرا گئی تھی۔جب کہ ماہم بہت آرام سے ڈائننگ کرسی پر بیٹھی اب لاپرواہی سے گاجر کھا رہی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...