وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اس سے دو سال بڑا اس کا ایک بھائی تھا ، خوشحال گھرانا تھا گلِ زارا اپنے ماں باپ کی خاصی لاڈلی تھی اور پڑھائی کا بھی کوئی اتنا خاص شوق بھی نہیں تھا اس لیے بڑی ہی مشکلوں سے اس نے ایف اے کیا اور پھر پڑھائی کو خیر باد کہہ دیا جبکہ اس کے برعکس اس کا بھائی کو پڑھائی کا حد سے زیادہ جنون تھا اس لیے اس نے وکالت میں گھس گیا ،اس کی ماں چاہتی تھی یہ بھی مزید پڑھ لے لیکن اسے ناولوں سے فہرست ملتی تو سب سوچتی اس کا تو ایک خواب تھا بس ناولز میں ہیرو جیسا ہوتا ہے ویسے ہی مل جائے امیر خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والا اور خاص کر نیلی آنکھوں والا بس اتنی سی معصوم خواہش تھی اس کی لیکن ریلیسٹک ماں باپ کو تھوڑی سمجھ آنا تھا اس کے رشتے ڈھونڈنے شروع کردیں ایک تو مڈل کلاس تھی دوسری بس خوش شکل تعلیم کو تو اس نے ٹاٹا بائی کردیا تو رشتے بھی تو عام سے آنے تھے اور آجکل کے زمانے میں تو اِکا دُکا آنے بھی غنیمت تھے اور جب زارا کو رشتوں کو پتا چلا کے کس قسم کے رشتے آرہے تھے تو وہ تو ہتھے سے اکھڑ گئی
“اماں اب میرے لیے اس قسم کے رشتے آئے گے شکل دیکھی ہے اس سلیم میاں کی کہی سے بھی شہزداں سلیم نہیں لگتا ۔”
“تو تم کون سا انارکلی ہو ۔”
اماں کو اس کے تبصرے پہ ناگواری ہوئی
“انارکلی سے زیادہ ہی خوبصورت ہو اماں اچھا میں نہیں کرنے والی ۔”
“کیوں نہیں کرنے والا اچھا خاصا خوش شکل اور دیکھا بھلا لڑکا ہے اوپر سے اس کی اپنی بیٹری کی دُکان ہے اکلوتا بھی ہے اور دو بہنیں ویسے بھی اپنے گھر کی ہوگی ۔”
“وہ سانولے رنگ کا موچھر سلیم میاں بیٹری والا آپ کو خوش شکل لگتا ہے ۔”
“تو صاف رنگت پا کر بہت اکڑنے لگی مشکلوں سے ایف اے پاس کیا ہوا ہے اپنے بھائی کی طرح زیادہ پڑھنے لگتی تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا ۔”
ماں کی بات سُن کر وہ باپ کے پاس گئی اور ابا بھی اس بار اماں سے متفق تھے یہ بات سُنتے ہی زارا کا منہ کھل گیا پھر اس نے پڑھائی مزید جاری رکھنے کا فیصلہ کیا حسیب اس کا بڑا بھائی ہنس پڑا جے جس طرح اس نے نمبر لیے ہیں کوئی عام سے یونی ورسٹی بھی نہ اسے چُنے بدلے میں زارا نے حسیب کی ایک کیس سڈڈی کے نوٹس گھما دیے بدلے میں حسیب اس کے کمرے میں داندانتا ہوا آیا
“میرے رحمان والے کیس کے نوٹس کہاں ہے ۔”
ابھی وہ یارم میں علیان کا دھُکرا پڑھ رہی تھی جب اس کا بھائی اپنا دُھکرا سامنے لے آیا
“کون سے نوٹس بھائی ؟۔”
“زارا بنو مت چلو نوٹس دو میرے شاباش منڈے کو میری پرسنٹیشن ہے ۔”
“ابھی تو منگل ہے اتوار کو دیں دوں گئ تب تک اس منہوس امرحہ کو پڑھو توبہ کتنی ظالم ہے بیچارا عالیان ۔”
“اب یہ عالیان ٹپک پڑا بہت پہلے وہ کون سا تھا کردار ؟۔”
“اگر تم ہاشم کی بات کررہے تو ہاں وہ ابھی بھی پہلا پیار ہے ہائے کیا وکیل تھا لیکن تمھیں اور تمھارے دوستوں کو دیکھ کر وکیلوں کی سارے ایمیج خراب کردیں ہے ویسے کیا ایک بھی نہیں وہی سنبھالنے والا جو لاکھ کے سوٹ میں ملبوس اور پچاس ہزار کے ہیر کٹ میں لوگوں کو مار دینے والا ہائے ۔”
وہ ہاتھ میں عالیان کی ہمدردی کو بھول کر اب ہاشم کو سوچ رہی تھی
“ہاں ایک ہے بشیر کردار وہ بچے سنبھالتا اپنے تو ملواوں ۔”
“فٹے منہ تمھارے اب شکل گُم کرو ہاشم کے خلاف بولنے والے مجھے سخت زہر لگتے ہیں ۔”
“ہاشم کی بچی !۔”
حسیب دانت پیستے ہوئے بولا
زارا تو تڑپ اُٹھی
“ہائے میرے کان کیوں نہیں پھٹ گئے نکل جاو حسیب اس سے پہلے تمھارا قتل کردوں ۔”
وہ بُک چھوڑ کر اسے دھکا دینے لگی
“پہلے نوٹس دیں موٹی ۔”
“بھینگے نہیں دو گی نوٹس نکل آیا بڑا ہاشم کے خلاف بولنے والا ۔”
“چل اللّٰلہ تمھیں قاتل آئی مین وہ سنبھالنے والا کردار بھائی دیں چلو نوٹس دوں ۔”
زارا نے اسے گھورا
“پہلے ایک شرط !۔”
“وہ کیا ؟”
“ابا اماں کو کہو مجھے شادی نہیں کرنئ اس سلیم میاں سے ۔”
“شادی بھی نہیں کرنی اور میاں بھی کہہ رہی ہو لڑکی دماغ تو سیٹ ہے ۔”
حسیب نے اپنی پھسلتی ہوئی عینک اوپر کی
“فضول مت بولو اچھا سُنو ابا امی کو کہہ دونا وہ کتنا کوجا ہے اوپر سے ٹو مچ غریب ۔”
“تو تم کون سی پرنسس ڈیائنہ جو تمھیں چارلز ضروری ہے ملے ۔”
“ان کو چھوڑوں طلاق موت دوسری شادی یہ کوئی محبت ہوئی بھلا ۔”
اسی طرح بعث معباثے میں جیت زارا کی ہوئئ اور اس نے حسیب کو قائل کردیا لیکن حسیب نے یہ کہا تھا کے وہ پڑھائی کریں گی تو دل سے کریں گی اس کا آڈمیشن اس کی شوق کے بنا پر گرافکس ڈیزانگ میں ہوگیا چونکہ کام کمپیوٹر پہ تھا اور زیادہ مغز ماری نہیں کرنی تھی اس لیے وہ تو خوش ہوگئی اور امی ابا بھی خاموش ہوگئے اسے طرح زارا کو تین مہینے ہوگئے ۔ حسیب اتنے دنوں بعد واپس آیا اور ابا امی سے کوئی بات کی جس پہ وہ ہتھے سے اکھڑ گئے زارا کو تو نہیں پتا چلا تھا وہ تو رات کو ابا کی ڈانٹ سی بھری آواز پہ جو وجدان مصطفی کے غم میں ڈوبی ہوئی تھی فورن تیزی سے نکلی اور حُسیب کھڑا ان سے بات کررہا تھا
“ابا وہ جج کی بیٹی ہے اس میں میرا ہی فائدہ ہے ۔”
“بیٹا وہ اچھے خاندان کے لوگ نہیں ہے تم نے خود اخبار میں اس لڑکی کی ماں کا کیس دیکھا ہے اور وہ لڑکی بھی ٹھیک نہیں ۔”
“ابو پلیز ثنا کے خلاف میں ایک لفظ نہیں سُنو گا آپ لوگوں کو میں کارڈ بجھوادوں گا آنا تو آئے نہیں آنا تو میرا اور آپ کا رشتہ ختم ۔”
زارا نے منہ پہ ہاتھ رکھا وہ تو اس کا بھائی نہیں لگ رہا تھا اتنا بےحس یہ غیر لڑکی کی محبت کی خاطر انسان اتنا بے حس ہوجاتا ہے کے اپنے پیٹ کاٹ کر کھلانے والے اپنی جان قربان دینے والے ماں باپ کا بھی نہیں سوچتا غصے کی لہر زارا کے اندر دوڑی وہ سیدھا بھاگتے ہوئے حسیب کے کمرے میں گئی
“حسیب کان کھول کر سُن لو میری بات اگر تم یہاں سے گئے تو خدا کی قسم میں اس ثنا ٹنا چہرہ نوچ دوں گی تمھیں زرا بھی لحاظ نہیں ہوا ابا کا پتھر کے ہوگئے
“زارا تم اس وقت دفع ہوجاو یہاں سے یہ نہ ہو میرا ہاتھ اُٹھ جائے ۔”
اب زارا ساکت ہوگئی کیا معاملہ اتنا بگڑ گیا کے اس کا جان لُٹا دینے والا بھائی اب اس پہ ہاتھ اُٹھانے کی بات کررہا ہے آنکھوں میں نمی آئی اور اس پہ لعنت بھیج کر باہر آئی تو ابا اور اماں بالکل خاموش بیٹھے زارا سے ان کی خاموشی برداشت نہ ہوئی تو سیدھا ان کے پاس آئی اور گھٹنے کے بل بیٹھ کر ان کی گود میں سر رکھ دیا ابا چونکے
“چھوڑیں اس گدھے کو عقل جب آئی گی نا تب آپ کے پیر پکڑ کے معافی مانگیں گے اور اگر نہ عقل آئی تو اس کے انڈر رہ کر خون کے آنسو رہے گا ۔”
“اللّٰلہ نہ کریں کیسی بدفال منہ سے نکال رہی ہو ۔”
ماں تو تڑپ اُٹھی اور ابا مسکرا پڑے
“صحیح تو کہہ رہی ہو آپ لوگوں کو تکلیف دیں کر کھبی خوش رہ سکتا ہے ۔”
اس طرح حُسیب ان سے ناراض لاہور چلا گیا زارا کو بڑا غصہ آیا اسی طرح مہینے گزر گئے اور پتا چلا وہ شادی کر چکا ہے اور ہنی مون منانے اسے کی پیسے پہ دوبئی گیا زارا کو پتا چلا تو سو گالیاں نوازی اگر جا بھی رہا تھا تو پوچھ بھی لیتا کے بہن تم نے بھی دیکھنا ہے دوبئی منہوس ! اس کا ایک رشتہ آیا تھا وہ انکار کرنا چاہتی تھی کیونکہ اس بار بھی اس کے معیار کا نہیں آیا تھا
“امی آپ ایسے لوگوں کو سریس کیوں لیتی ہے ۔”
وہ مالٹے کے ساتھ بڑی ہی حسرت زدہ نظروں سے فواد خان کو ٹی وی پہ دیکھ رہی تھی جو اپنی ہیرون کے ساتھ رومینٹک ڈائیلوگ مار رہا تھا
“امی ایسا داماد کیوں نہیں آتا سلیم ، ممتاز توبہ نام بھی دیکھو ان کے ۔”
“پہلے آئینے میں جاکر اپنی شکل دیکھو !۔”
امی کڑیلے کاٹ رہی تھی جب وہ جل کر بولی
“امی پورے محلے میں میری جیسی سکن میری جیسی ڈریسنگ ہو تو بتائیں گا ابھی ابھی خالا پروین کی بیٹی کی شادی میں نے وہ بلیو لمبی سے فراک کے ساتھ اوپر بالوں کا جوڑا بنایا تھا اور خالی سادھے سے جھمکے پہنے تھے نا تو ساری لڑکیاں مجھے کہہ رہی تھی ماہرہ خان لگ رہی ہو لیکس ساٹئل آوارڈ والی ۔”
وہ اترا کر مالٹے کے چھلکے پلیٹ میں رکھ کر اُٹھی اور امی تو باقئدہ پریشان ہوگئی اس لڑکی کا کیا ہوگا
“یہ تمھاری کہانی ہے یا پورا ناول شارٹ فورم میں بتائیں محترمہ آپ کے ساتھ ہوا کیا تھا ۔”
معید نے جوس کا سپ لیتے ہوئے اس کو تقریباً چیختے ہوئے ٹوکا
“دیکھیں اگر میں آپ کو ایک بات حرف با حرف نہیں بتاو گی تو سٹوری آپ کو زیادہ سمجھ میں نہیں آئی گی ۔”
“سٹوری میں مجھے آپ کی نالائقی ، ریسسیم ، بے انتہا خوبصورت کانشس ناولز کی دیوانی کے علاوہ آپ کے ساتھ کیا غم ہے ۔”
وہ اپنا سر پیٹ رہا تھا اس لڑکی کی مدد کر کے
“یہ بتانا ضروری تھا ورنہ آپ میرا غم نہیں سمجھ سکتے تو پھر یہ ہوا ۔”
وہ سینڈیوچ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بولی
بھاگ جا معید اس سے پہلے یہ لڑکی تیرا سارا دن برباد کردیں وہ دماغ میں سوچتے ہوئے وہ جلدی سے اُٹھا
“میں چلتا ہوں میرا کچھ کام ہے ایبی اِدھر آو کم ٹو ڈیڈی ۔”
اس کا یہ کہنا غزب ہوگیا اور وہ جو اپنی دستان سُنا رہی تھی اچانک وہ چیر کے اوپر چڑھ گئی
“دور پھینکے اس کرم جلی کو ایبی سیدھا بھاگتے ہوئے معید کے پاس آئی اپنی نیلی آنکھیں زارا کے سامنے کر کے زارا نے چھڑی اُٹھا کر اس وار کرنے لگی معید نے اس کا بازو پکڑا
بلی کو چھوڑا اور جو زارا کُرسی سے گرنے والی تھی معید نے اس پکڑ لیا
زارا نے اس کے کندھے کو پکڑ لیا اور آنکھیں زور سے بھینچ لی جبکہ معید ایک دم رُک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا تو ایک سکینڈ کے لیے ٹہر گیا لیکن یہ ایک سکینڈ ہی تھا کیونکہ نا تو یہ فینٹسی تھی نا ہی کوئی مووی اس لیے اس کو چھوڑ کر بولا
“خبردار میری ایبی کو قتل کرنے کی کوشش کی پولیس کو بلواوں گا اب سیدھے سیدھے بتائیں اور پھر اب تک تو وہ پولیس بھی یہاں سے گزر گئی ہوگی برائے مہربانی یہاں سے تشریف لیے جائے ۔
زارا سے اپنی بے عزتی برداشت نہیں ہوئی خونخوار نظروں سے اس کرم جلی کو ایسے دیکھا جیسے اس کی سوکن ہو
“ٹھیک ہے بہت شکریہ آپ کا آپ کو پیسے اور کپڑے بجھوادوں گی اور اس کرم جلی کا کوفن بھی ۔”
وہ جل کر کہتی لنگڑا کر چلنے لگی
“توبہ توبہ کیسے میری جان کے لیے فضول بات کررہی ہے ۔”
“توبہ توبہ لوگ اب بلیوں تک کو بھی جان جانوں کہنے لگے قیامت کی نیشانیاں ۔”
وہ تیزی سے بڑبڑاتی وہ جانے لگی جب ایبی کو اس کی بات پسند نہ آئی تبھی اس کے سامنے گزری اور وہ ایک بار چیخی
زارا کو سیٹل کر کے وہ میسن کی کال پر سیدھا وہ ایکشن رومز کیفے پہنچا فل حال اس نے زارا کو نہیں نکالا ایک تو اس کی گھٹنے اور ہاتھ دوسرا وہ اس کی بیوقوفی دیکھ چکا تھا اس نے باہر نکل کر لازمی پکڑ جانا تھا اتنی تو وہ انسانی ہمدردی رکھتا تھا اس سے
اپنے دوستی کے گروپ پر نظر پڑتی ہی وہ اپنی کوٹ کے کالر ٹھیک کرتے ہوئے اندر بڑھا میسن اور علورد نے دیکھ لیا تو اس کی طرف بڑھے ہی تھے کے اس کی نشیلی آنکھوں کے گرد سیاہی دیکھ کر وہ ہنسنے شروع ہوگئے معید نے دانت کچائے
“اپنے بتیسی اندر کرو ورنہ میں نے ایک بھی نہیں چھوڑنے ۔”
“کسی مائی کو چھیڑا تھا تو نے ۔”
علورد نے ہسنی کو پھر بھی بریک نہیں لگایا
“کون سی چک نے تمھارا یہ حال کیا ہے ۔”
معید کو زارا کے لیے میسن کے یہ الفاظ زرا بھی نہیں پسند آئے حالانکہ اسے کیا پتا کون زارا یہ اسے کیا ہورہا ہے ۔
“بس سڑھیوں سے گر گیا تھا ۔”
یہ ایسی کون سی سیڑھی تھی جو صرف تیری نشے کرتی ہوئی آنکھوں پہ ہی جاکر لگی ۔”
وہ پھر کہتے ہویے باز نہ آئے
“دفع ہو تم دونوں جارہا ہوں ۔”
“اچھا رُک رُک اب اصل بات بتانا ہمیں پتا ہے تجھے کچھ پتا ہے ۔”
معید میسن اور علورد ہائی سکول سے بیسٹ فرینڈ تھے معید جب پندرہ سال کا تھا تو اس کی ممی نے کسی ریچ بلینر گورے سے شادی کر لی اس کی ممی خود کرسچن تھی تو اسے کون سے پروا تھی ممی ویسے بھی اس کے باپ سے نہیں اس کی دولت سے پیار کرتی تھی اگر اس کے باپ سے کرتی تو مزید دولت کے پیچھے نہ بھاگتی اور معید کے ساتھ ہی اس کے باپ کی جائیداد پہ اپنی زندگی گزارتی لیکن چونکہ ان کو ساتھی کے ساتھ جائیداد اپنے نام کرنے کا شوق تھا لیکن معید کے والد نے ساری پراپرٹی معید کے نام رکھی معید اس ماحول کے رہنے کے باوجود اسے اکیلے رہنے کی بہت تکلیف ہوئی تھی مغرب میں پلنے والے لڑکے میں مشرق کے بھی رنگ تھے جان بوجھ کر بے حسی کا لبادہ اوڑھ کر وہ اپنی زندگی بھر پور انجوائی کرنے کی کوشش کرتا سکولرشپ لیتے لیتے اس کی پڑھائی پر کوئی خرچہ نہیں ہوا اور آرکیٹیکچر کی لائن میں گھس کر اس وقت میلبورون کا ٹاپ ٹین آرکیٹیکچرز میں آچکا ہے اور ایک آئیڈیل لائف گزار رہا ہے لیکن ناجانے کیوں اس کو اپنی یہ لائف بے رنگ سی لگ رہی تھی جو اچانک زارا کے ایک دن آنے سے وہ پریشان ہونے کے باوجود کچھ محسوس کررہا تھا جو دل کو ناجانے کیوں عجیب احساس سے دوچار کررہا تھا
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
وہ اس کے صوفے پہ بیٹھی ابھی ابھی اس کے فریج سے میلک شیک نکال کر ٹی وی آن کر کے پی رہی تھی لیکن وہ ٹی وی کو غور نہیں کررہی تھی جہاں وہ ماضی میں چلے گئی جہاں سے خبر آئی تھی کے حسیب اور اس کی بیوی ٹرپ کی واپسی سے پلین میں آرہے تھے کے اچانک موسم کی خرابی کی باعث پلین کنڑول میں نہ رہا اور کریش کی صورت میں فلائٹ میں موجود سارے پسینجر جاں بحق ہوگئے یہ بات زارا کی فیملی سمیت کو اندر تک توڑ دیا زارا کو یقین نہیں آرہا تھا اس کا بھائی اچانک ان کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناراض ہوکر چلا جائے گا ابا تو یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے اور وہ بھی اپنے بیٹے کے پاس اس کی میت کے دفنانے کے ایک ہفتے پاس اس کے پاس پہنچ گئے اب زارا کے عصاب ہی جنجھوڑ چکے تھے اسے سمجھ نہیں آئی تھی صرف ایک ہفتے ایک ہفتے میں اس کی پوری دُنیا الٹ ہوگئی تھی اب وہ اور امی اکیلے کیسے اس دُنیا کا مقابلہ کریں گی اب وہ ماضی میں کھوئی وی تھی کے اچانک بیل ہوئی وہ اچھل پڑی شُکر کے میلک شیک صحیح سلامت رہا بیل دوبارہ ہوئی پھر کوئی اچانک دروازہ کھول کر اندر آیا اسے لگا منہوس آدھے گھنٹے میں آگیا ہے لیکن جب ہیل کی آواز پہ اس نے دیکھا کوئی ریڈ ڈریس اور ریڈ کوٹ میں ملبوس کوئی لمبے منہ والی لڑکی تھی
اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی اور جب بولی تو کاٹ دار لہجے میں بولی
“تم کون ہو اور یہ معید کے کپڑوں میں کیا کررہی ہو ۔”
زارا نے بھی اس کا جائزہ لیا تو وہ تیزی سے بولی
“میلک شیک پی رہی ہو ۔”
اس کی اس جواب کی توقع نہیں تھی لیکن لائیزا سمجھی وہ طنز کررہی تھی
“تم کون ہو اور میرے بوئی فرینڈ کے گھر اور کپڑے میں کیا کررہی ہو ۔”
زارا کو اچھو لگا جسے اس نے منہ پہ ہاتھ رکھا اس شخص کا ٹیسٹ کتنا خراب ہے چاہیے وہ جانور پہ ہو یا لڑکی پہ
“او تو تم پلاسٹک فیس اس کی گرل فرینڈ ہو ۔”
وہ منہ کھولے اس کو دیکھنے لگی جو کھلکھلا کر ہنس رہی تھی
“شٹ آپ ! دیکھو جو کوئی بھی ہو یہاں سے فورن نکلو ابھی اس معید سے پوچھتی ہو مجھے چھوڑ کر دوسرے پہ منہ مارنے لگا ۔”
یہ بات زارا کو آگ لگا دیں
“یو شٹ آپ ! پہلے شکل تو دیکھو اپنی بندریاں وہ باندر تو بیزار ہوگا ہی لیکن میں اس کی کوئی تمھاری طرح گرل فرینڈ نہیں ہو ۔”
“کون ہو پھر ؟۔”
وہ چیخ ہے پڑی
“ابھی بتاو گی معید مجھے پولیس کی دھمکی دینے والے ۔”
“میں اس کی بیوی ہو کل ہی معید نے مجھ سے شادی کر کی ۔”
جو دماغ میں آیا اس نے بول ڈالا اور لائیزا کا منہ پہ ہاتھ گیا
“جیسز ! ”
※※※※※※※※※※※※※※※
معید اپنے دستان ختم کر کے کافی کا سپ لے رہا تھا کڑوی کافی اپنے اندر اتارتا بالکل چُپ ہوگیا
“تو اس ڈان کو اپنے گھر کیوں رکھا ۔”
“سوچ رہا ہو پولیس کے حوالے کردوں پھر اس سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے اب بتاو میں کرو تو کیا کرو ۔”
“تو نے اس سے پوری سٹوری کیوں نہیں سُنی ۔”
“آدھے گھنٹے کی سٹوری میں وہ اُردو کے ناولوں فواد خان کی دیوانی ،کام چور اور ریسسیم کے علاوہ مجھے اس کے بارے میں کچھ نہیں پتا چلا اب بتاو میں اپنا سر خالی کروا آتا ۔”
“او ہو تو ٹینشن نہ لے کچھ سوچتے چل تھوڑا اور سپ لے ۔”
علورد کوکٹیل پیتے ہوئے بولا
اچانک اس کا فون بجا تو اس کے چہرے پہ مزید بیزاری آگئی
“اس کا کیا کرو میں یہ کب پیچھا چھوڑے گئ ۔”
لائیزا کا نمبر دیکھ کر اس نے فورن کال کاٹی
“بیٹا یہ تو ایلفی ہے اتنی آسانی سے نہیں پیچھا چھوڑنے والی ۔”
“اُف آج کل ستارے گردش میں لگ رہے جبھی دن خراب ہے ۔”
“ایک ہی دن میں ستاروں میں گردش واہ معید ۔”
میسن نے اس کے کندھے پہ ہاتھ مارا
“اُف اُٹھا لے یہ نہ ہو تیرے سر پہ آ پہنچے ۔”
اس نے ناچار اُٹھا لیا
“ہلیو !”
“تم نے شادی کر لی ۔”
معید کو سمجھ نہیں آئی وہ کیا کہہ رہی ہے
“میں کچھ پوچھ رہی ہو معید ۔”
“یہ کیا کہہ رہی ہو ۔”
“جھوٹ مت بولنا ورنہ میں تمھارا سر گنجا کردوں گی تم نے شادی کر لی ہے ۔”
“میں نے بھلا کس سے تم کہاں ہو اور یہ کس نے بکواس کی ہے ۔”
معید کا دماغ پہلے سے خراب تھا مزید اور خراب ہوگیا
“میں اس وقت تمھارے گھر پہ موجود ہو اور تمھاری بیوی تمھارے ہی کپڑوں میں مجھے باوار کروارہی ہے اور مجھے گھر سے نکال رہی ہے ۔”
اور معید نے غصے سے ہاتھ ٹیبل پہ مارا
“میں اس کو چھوڑو گا نہیں ۔”
وہ تیزی سے اُٹھا اور اس کے دوست ارے ارے کرتے رہے
※※※※※※※※※※※※※※※※