”اردو میں ماہیا نگاری “کے مکمل ہونے تک اس موضوع سے متعلق بعض دلچسپ مخفی گوشے سامنے آگئے ہیں۔ ماہیے کے وزن کی بحث میںتحقیقی زاویے سے ان پر مزید کام ہونا چاہیے۔یہاں میں مختصراً نشاندہی کیے دیتا ہوں۔
پنجابی ماہیے کے وزن کے سلسلے میں بظاہر تنویر بخاری اور ڈاکٹر ہوشیار پوری کے درمیان وزن کے تعین کا اختلاف بحث کی صورت میں چلا تھا جس میں تنویر بخاری کے بقول ماہیے کا وزن مفعول مفاعیلن بنتاہے اور ڈاکٹرجمال ہوشیار پوری کے بقول ماہیے کا وزن فعلن فعلن فعلن بنتا ہے۔ اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ مفعول مفاعیلن کا وزن پنجابی میں سب سے پہلے پروفیسر شارب نے بیان کیا تھا۔ پنجاب بورڈ لاہور نے ۱۹۸۷ءمیں ان کی مرتب کردہ کتاب ماہیے پر شائع کی تھی۔ اس کے صفحہ نمبر۱۱تاصفحہ نمبر۳۶پروفیسر شارب نے ”کچھ ماہیے بارے“کے زیر عنوان اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ا س میںانہوںنے ماہیے کا وزن مفعول مفاعیلن بیان کیا ہے۔
تنویر بخاری نے اپنی کتاب ”ماہیا فن تے بنتر“(مطبوعہ۱۹۸۸ء) میں وزن کے مسئلے پر مختلف پنجابی اور سرائیکی دانشوروں کی آراءکے حوالے دئیے ہیں۔ (شاید احتیاطاً) ۱۹۶۵ءسے بھی پہلے علامہ غلام یعقوب انور کے ساتھ اپنی زبانی گفتگو کا حوالہ بھی دیا ہے جس کی رو سے مفعول مفاعیلن وزن کا تعین سب سے پہلے تنویر بخاری نے کیا تھا (کتاب ”ماہیا ۔۔فن تے بنتر“ صفحہ نمبر ۲۸تا صفحہ نمبر ۳۱) ہو سکتا ہے اس وزن کی دریافت تنویر بخاری نے ہی سب سے پہلے کی ہو اور انہیں کی زبانی بات پروفیسر شارب لے اڑے ہوں تاہم مناسب تھا کہ تنویر بخاری نے جہاں مختلف پنجابی اور سرائیکی دانشوروں کے حوالے دئیے تھے وہیں ۱۹۸۷ءمیں چھپنے والی کتاب ”ماہیے“اور پروفیسر شارب کا حوالہ بھی دے دیا ہوتا بلکہ یہ وضاحت بھی کر دی ہوتی کہ پروفیسر شارب نے انہیں کے بیان سے استفادہ کیا تھا تو ان کی علمی پوزیشن زیادہ بہتر ہوتی ۔ان کی طرف سے پروفیسر شارب کے نام اور کام سے گریز حقیقتاً شعوری اخفا کے زمرے میں آرہا ہے اور ان کی تحقیقی محبت کا یہ پہلو مشکوک ہو رہا ہے تاہم اس سلسلے میں تنویر بخاری اور پروفیسر شارب اور دیگر سنجیدہ اہل علم بہتر طور پر حقیقت کو واضح کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری نے مفعول مفاعیلن کے مقابلے میں فعلن فعلن فعلن کا جو وزن بیان کیا تھا وہ غلط نہیں تھا ۔ابھی تک ماہیے کی دھن کی بنیاد پر میرے لیے تو یہ دونوں وزن (دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی کے ساتھ)ویسے بھی قابل قبول ہیں تاہم احمد حسین مجاہد نے اپنی عروضی تحقیق سے واضح کیا ہے کہ اردو میں ان دونوں اوزان کا فرق صرف ”تسکین اوسط“ کی کرشمہ سازی ہے ورنہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔سو اس سے ہمارے موقف کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ہم صرف دھن کی بنیاد پر جن اوزان کو تسلیم کرتے ہیں وہ عروضی لحاظ سے بھی اردو میں ایک ہی ہو جاتے ہیں۔ میرا اور میرے دوسرے ساتھیوں کا بنیادی موقف یہی ہے کہ ماہیے کے وزن کا تعین اس کی دھن کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس اصول کے مطابق ماہیے کا جو وزن بھی دریافت کر لیا جائے قابل قبول ہے۔ تاحال کسی بھی وزن میں طے کریں ماہیے کے دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کی کمی لازم آرہی ہے۔دھن کی بنیاد پرماہیے کے وزن کی تلاش کا اصول ایسا بنیادی کام ہے جس سے اب ہمارے پنجابی اسکالرز بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔
”اردو ماہیا نگاری “کا یہ اختتامیہ ماہیے کی بحث کا اختتام نہیں ہے بلکہ علمی ،ادبی اور تحقیقی زبان میں بات کرنے والوں کے لیے ایک بڑی سطح پریہ نقطہ آغاز ہے۔ مجھے امید ہے کہ ماہیے کے خدو خال کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے تخلیقی اور تحقیقی دونوں لحاظ سے مزید پیش رفت ہوگی۔ پنجابی کا لوک گیت ماہیا اردو شاعری میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے ساتھ اردو کی ایک مقبول، توانا اور میٹھی شعری صنف کے طور پر نمایاں ہوگا۔اردو ماہیے کے حسن ، خوشبو اور رس کا جادو عوام کو بھی اور تخلیق کاروں کو بھی اپنا اسیر بناتا چلا جائے گا۔
حیدر قریشی
(جرمنی سے)