اگر انسان کی جبلت ایک ہی ہے تو ہر کلچر میں اخلاقیات کیوں ایک سی نہیں؟ مثال کے طور پر، “برابری” کا تصور ہر جگہ پر ایک نہیں تو کیا اس کا مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس کا تعلق انسانی فطرت سے نہیں؟ ہمارے تمام رویے سیکھے ہوئے ہیں؟
نہیں، ایسا نہیں۔ اور اس کو سمجھنے کے لئے ہم ذائقوں سے مدد لے سکتے ہیں۔
ہر کلچر میں میٹھے مشروبات پائے جاتے ہیں۔ مشروب کسی مقامی پھل سے اخذ کردہ ہو سکتا ہے یا چینی اور مصنوعی فلیور سے۔ لیکن ایسا سمجھنا بے وقوفی ہو گی کہ ہمارے پاس آم کے رس، سیب کے جوس، کوکا کولا اور فانٹا کا ذائقہ محسوس کرنے لئے الگ الگ طریقے یا پھر ہم نے انہیں پسند کرنا محض سیکھا ہی ہے۔ مٹھاس کا ریسپٹر سب انسانوں میں ایک ہی ہے اور ہر کلچر نے اس کو چھیڑنے کے لئے اپنے مختلف طریقے بنا لئے ہیں۔ اور اگر ایک اینتھروپولوجسٹ یہ بتائے کہ اسکیمو قبیلے میں کوئی میٹھا مشروب نہیں تو بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسکیمو قبیلے کے لوگوں میں ایسا ذائقے چکھنے کا ریسپٹر نہں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسکیمو دسترخوان اس کا خاص فائدہ نہیں اٹھاتا۔ اور اس کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ اسکیمو کے پاس میٹھے پھل تک کی رسائی نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلچرل اینتھروپولوجسٹ انسانی رویے کے بارے میں ارتقائی وضاحتوں کو پسند نہیں کرتے۔ اینتھروپولوجسٹ نکتہ نظر یہ رہا ہے کہ انسان آلات استعمال کرنے والی دو ٹانگوں پر چلنے والے اور بڑے دماغ والی نوع ہے اور یہاں تک پہنچنے تک تو طویل عرصہ لگا لیکن ایک بار کلچر بنانے کی اہلیت آ گئی تو پھر حیاتیاتی ارتقا کا کردار ختم ہو گیا یا کم از کم غیرمتعلقہ ہو گیا۔ کلچر اس قدر طاقتور ہے کہ انسانی رویے کسی بھی قدیم جبلت پر آسانی سے حاوی آ جاتے ہیں۔
لیکن ایسے نکتہ نظر کے ساتھ مسئلہ ہے۔ محض کلچر کی وضاحت کافی نہیں۔ انسان اپنا ذہنی ڈیزائن رکھتے ہیں اور اس کو الگ نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ تو درست ہے کہ صرف ہمارے ذائقوں کے ریسپٹر ہمارے دسترخوان کی وضاحت نہیں کرتے۔ لیکن انسان کے ذائقے کی صلاحیت کو الگ کر دینا غیرمفید ہے۔ اسی طرح انسان کے اخلاقی ذائقوں کے ریسپٹرز کے لئے ارتقائی نفسیات مفید طریقہ کار ہے۔
لیکن دوسری طرف، اینتھروپولوجسٹ اس حوالے سے درست ہیں کہ اخلاقیات کی ارتقائی وضاحتوں کو قبول کرنے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ سادہ لوح اور functionlist ہیں۔ اس میں فٹافٹ یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ہر رویے کے ارتقا کا کوئی فنکشن ہے۔ دوسرا یہ کہ کئی بار یہ ریڈکشنسٹ ہیں اور مکمل تصویر پیش کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔
اب اس سب کا تجزیہ کرنے کے لئے دنیا بھر میں پائی جانے والی انواع و اقسام کی اخلاقی میٹرکس میں سے مشترک کو کیسے نکالا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر یاددہانی: نفسیات میں ہمارا مقصد descriptive ہے۔ ہم یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ ذہن اصل میں کام کیسے کرتا ہے۔ اس کا موضوع یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ اس کو کام کرنا کیسے چاہیے۔ اس لئے دریافت کا یہ کام ریاضی، منطق یا ریزن سے نہیں ہو سکتا۔ اس کا طریقہ صرف مشاہدہ کرنا ہے اور مشاہدے کے لئے لازم ہے کہ اپنے ذہنی تعصبات کو الگ رکھ دیا جائے۔ منطق کی جگہ جس چیز کی زیادہ ضرورت ہے، وہ empathy ہے۔ اور اپنی اخلاقی میٹرکس سے باہر نکل کر دیکھنے کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے لئے دنیا بھر کی اقدار میں اخلاقی خوبیوں (virtues) کی فہرست بنائی۔ جنگجو کلچر میں بچوں کو سکھائی جانے والی خوبیاں زرعی یا صنعتی کلچرز سے مختلف ہیں۔ مختلف فہرستوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں لیکن اس کے معنی ایک نہیں۔ مثال کے طور پر، مختلف مذاہب ہمدردی کی خوبی کا ذکر کرتے ہیں (اگرچہ یکساں طور پر نہیں)۔ یا پھر، ہر کلچر میں مہربانی، وفاداری اور انصاف کی قدر کی جاتی ہے تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسانیت میں نچلی سطح پر اخلاقیات کے کچھ مشترک ریسپٹر پائے جاتے ہیں، ویسے ہی جیسے ذائقہ چکھنے کے لئے زبان کے ریسپٹر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذائقوں میں مٹھاس کا ریسپٹر جبلی ہے اور تمام انسانیت میں یونیورسل ہے۔ جبکہ ماحول اور کلچر کی وجہ سے اس کا استعمال ہر جگہ پر یکساں نہیں۔ بائیولوجیکل ڈیزائن سب انسانوں میں مشترک ہے (جس کے لئے ارتقائی وضاحت کام کرتی ہے) لیکن اس کا اظہار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی ارتقائی تھیورسٹ یہ کلاسیکل غلطی کرتے ہیں کہ ایک خاصیت لی اور سوال کیا۔ “کیا میں ایک کہانی سوچ سکتا ہوں کہ اس خاصیت کی وجہ سے بقا میں یا جین آگے بڑھانے میں فائدہ ہوا ہو؟”۔ اس سوال کا جواب ہمیشہ “ہاں” ہوتا ہے۔ کیونکہ عقل (اور گوگل) آپ کو ہمیشہ اس جگہ پر لے جا سکتی ہے جہاں آپ جانا چاہیں۔ روڈیارڈ کپلنگ کے مطابق “آپ کرسی پر بیٹھ کر اچھی کہانیاں بنا سکتے ہیں کہ اونٹ کو کوہان یا ہاتھی کو سونڈ کیسے ملی۔ اچھے سائنسدان ہمیشہ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ اچھی وضاحت اور ٹھیک وضاحت ایک چیز نہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان مخالف عوامل کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے اچھی تھیوری بنانا ایک احتیاط سے کیا جانے والا کام ہے۔ اور کیا جانے والا ایسا ایک کام Moral Foundation Theory ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...