فرض کیجئے کہ “الف” اور “جیم” دو ہمسائے ہیں۔ دونوں رات کو ایک ہی پارٹی میں جاتے ہیں۔ دونوں نشے میں دھت ہو جاتے ہیں۔ رات گئے واپس گھر لوٹتے ہیں۔ دونوں کو حواسوں پر زیادہ کنٹرول نہیں۔ “الف” چند منٹ پہلے نکلتا ہے۔ سڑکیں خالی ہیں اور وہ بغیر کسی حادثے کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ جب “جیم” گھر کو نکلتا ہے تو ایک بچہ گاڑی کے سامنے آ جاتا ہے۔ جیم نشے کی وجہ سے وقت پر بریک نہیں لگا پاتا۔ بچہ گاڑی کے نیچے آ کر ہلاک ہو جاتا ہے۔ کیا ہم کہیں گے کہ جیم کا قصور الف سے زیادہ ہے؟
بیسویں صدی کے مفکرین برنارڈ ولیمز اور تھامس نیگل اس طرح کی مثالوں کو اخلاقی ذمہ داری کے مشکل مسائل سے آگاہی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ جیم کا قصور زیادہ ہے کیونکہ اس نے ایک بچے کو مار دیا ہے جبکہ الف نے نہیں۔ لیکن زیادہ قریب سے دیکھتے ہیں۔ الف اور جیم نے جب نشے میں گاڑی چلانے کا فیصلہ کیا تھا تو یہ ان کا انتخاب تھا۔ ایک ہی حالت میں ان کا فیصلہ ایک ہی جیسا تھا۔ اور اس حوالے سے ان کا قصور برابر کا تھا۔ جیم کو ایسا فیکٹر درپیش ہوا (بچے کا سامنا آنا) جس پر اس کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔
اگر بچہ الف کے سامنے آ جاتا تو نتیجہ پھر بھی یہی ہوتا۔ دونوں کا فیصلہ نشے میں گاڑی چلانے کا تھا۔ لیکن دونوں میں سے کسی کا ارادہ بچے کو مارنے کا نہیں تھا۔ الف کے ساتھ اخلاقی خوش قسمتی رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخلاقی ذمہ داری کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ایسا کام کرنا ہے جس کی وجہ سے آپ کو سراہا جا سکے یا قصوروار ٹھہرایا جا سکے۔ لیکن اس کا کیسے پتا لگے؟ اخلاقی فلسفے میں اس کا اصول ہے کہ “ذمہ داری کے لئے اہلیت لازم ہے”۔ مثلاً اگر آپ کو اخلاقی طور پر کوئی چیز سرانجام دینی چاہیے تھی تو آپ کے پاس یہ اہلیت ہونا چاہیے کہ آپ کر سکیں۔ آپ کی ذمہ داری صرف وہی ہے جو آپ کے لئے کرنا ممکن ہے۔ یہ ایک ایسا فلسفانہ اصول ہے جس پر کم و بیش ہر کوئی متفق ہے۔ اس کی منطقی طور پر تک بنتی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ ان چیزوں کے ذمہ دار نہیں جو آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ مثلاً، اگر کسی نے میرے علم کے بغیر میری گاڑی کی بریک لائن کاٹ دی تھی اور اس کی وجہ سے میرا حادثہ ہو گیا تو زیادہ تر لوگ یہ کہیں گے کہ اس سے ہونے والے نقصانات کی ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہوتی۔ ہاں، ان نقصانات تک پہنچنے والے واقعات کی لڑی میں میں بھی شامل تھا۔ کیونکہ اگر میں نے گاڑی پر جانے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو حادثہ نہ ہوتا لیکن مجھے اس میں قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مثال سے “ہونے کی ذمہ داری” اور “اخلاقی ذمہ داری” کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ “ہونے کی ذمہ داری” میں آپ واقعات کی زنجیر میں سے ایک حصہ ہیں اور اخلاقی ذمہ داری کی صورت میں منفی یا مثبت نتائج آپ کے سر ہیں۔
اخلاقی ذمہ داری کا تصور اخلاقی ایجنٹ کے ساتھ ہے۔ یعنی کہ اخلاقی ایجنٹ وہ ہے جس میں ٹھیک اور غلط میں تفریق کی سوچ کی صلاحیت ہے اور اس کے مطابق فیصلے لینے کی اہلیت ہے۔
اگر ایک ناریل میرے سر پر گرتا ہے تو میرے سر پر پڑے گومڑے کے ہونے کی ذمہ داری تو اسی کی ہے لیکن چونکہ یہ سوچ کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کو قصووار نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اگر آپ نے جان کر میرے سر پر ناریل مار دیا تو بات مختلف ہے۔ دونوں میں فرق کیا ہے؟ یہ فرق اخلاقی ایجنٹ کے ہونے کا ہے۔ آپ اخلاقی ایجنٹ ہیں، ناریل کا درخت نہیں۔
یہاں تک تو آسان معاملہ ہے۔ لیکن اگر آپ ناریل سے نشانہ کہیں اور لے رہے تھے اور میں اچانک سامنے آ گیا اور ناریل مجھے لگ گیا؟ یا میں کھڑا قریب ہی تھا لیکن آپ کا نشانہ انتہائی برا تھا اور وہ مجھے آن لگا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب واپس الف اور جیم کی طرف چلتے ہیں۔ اگر دونوں نے اپنے انتخاب میں برابر کی غیر ذمہ داری دکھائی تھی تو پھر وہ برابر کے قصوروار ہوئے۔ ٹھیک؟ اپنے کنٹرول سے باہر کا واقعہ (بچے کا سامنے آ جانا) قصور کی شدت میں فرق نہیں ڈالتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر سوچ کا ایک تجربہ: اکثر سمجھا جاتا ہے کہ کوئی شے غلط اس وقت ہے جب اس سے کوئی نقصان پہنچے لیکن ایسا نہیں۔ اس کے لئے ایک مثال دیکھتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ آپ کسی دکان پر کپڑے ٹرائی کر رہے ہیں۔ آپ کو علم ہوئے بغیر کسی نے آپ کی اس دوران نازیبا تصاویر اتار لیں۔ اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر کیں۔ آپ کو اس کا بالکل کبھی پتا نہیں لگا۔ آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچا کیونکہ آپ کو علم ہی نہیں کہ یہ تصاویر کبھی لی بھی گئی ہیں۔ کیا آپ کو ضرر پہنچا؟ نہیں۔ کیا دوستوں کے اس بے ہودہ گروپ نے غلط حرکت کی؟
کسی کو نقصان پہنچانا اور غلط کام مترادف نہیں، الگ تصورات ہیں۔ اس کا برعکس میرے سر پر ناریل کا گرنا تھا جس نے مجھے نقصان تو پہنچایا تھا لیکن اس میں کسی نے بھی کچھ غلط نہیں کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلط کرنے اور نقصان پہنچانے میں یہ تفریق ہے جس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اخلاقی تعریف اور قصور کا مسئلہ اس سے زیادہ پیچیدہ ہے جو ہمارا خیال ہوتا ہے۔
تھامس نیگل اس بارے میں خیال پیش کرتے ہیں کہ اس کے لئے ہمارے ایکشن کو زیادہ گہرائی میں دیکھنا پڑے گا۔ جس میں ہمارے کنٹرول کے فیکٹر بھی ہیں اور وہ بھی جو ہمارے کنٹرول میں نہیں۔ خارجی فیکٹر ہمارے ایکشن کی اخلاقی کوالٹی پر فرق ڈال سکتے ہیں اور یہ مختلف قسم کی قسمت کا ہاتھ ہے۔
ایک قسمت وہ ہے جس کا تعلق خود ہمارے سے ہے۔ یہ constitutive luck ہے اور ہماری شخصیت پر منحصر ہے۔ ہم سب الگ مزاج رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ غصیلے ہوتے ہیں، کچھ نہیں۔ کچھ لوگ فطری طور پر سخی دل ہوتے ہیں، کچھ کو ایسا کرنے کے لئے اپنے آپ پر زور دینا پڑتا ہے۔ ایسا ضرور ہے کہ ہم اپنے مزاج کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔ اپنی کمزوری پر قابو پا سکتے ہیں۔ اچھے اساتذہ اور والدین ہمیں اس میں مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ کچھ لوگوں کو لالچ، بدمزاجی یا اینٹی سوشل رویہ ترک کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ کچھ کو فیاضی اور ہم آہنگی کا تحفہ قدرتی طور پر ملا ہوتا ہے۔
دوسری قسمت کا تعلق ہمارے حالات سے ہے۔ یہ circumstantial luck ہے۔ ہم خود کو کس طرح کی صورتحال میں پاتے ہیں؟ اس کا بڑا تعلق اس سے ہے کہ ہم اچھا یا برا کام کر جاتے ہیں۔ کسی عقوبت خانے کے افسر کو تشدد کرنے پر الزام دینا آسان ہے۔ کسی کی جان بچانے کے لئے ریسکیو کی ٹیم کے ممبر کو داد دینا آسان ہے۔ لیکن اگر ان دونوں کو ملازمت ایک دوسرے کی جگہ پر ملی ہوتی؟ ہمارے ایکشنز میں حالات کا بڑا مضبوط کردار ہوتا ہے۔
ایک عام آدمی کو موقع ملے تو وہ بڑھ کر ہیرو بن سکتا ہے۔ لیکن وہی شخص بڑھ کر ولن کا کردار بھی لے سکتا ہے اگر اس کو ٹھیک طرح سے یہ کردار پیش کیا جائے۔ (تباہی مچا دینے والے دہشتگرد اور اور اس دہشتگرد کو تباہ کر دینے والے ہیرو میں کئی بار صرف حالات کا فرق ہوتا ہے)۔
قسمت کا تیسرا پہلو ماضی کی صورتحال میں ہے۔ دوسرے الفاظ میں، آپ کا کردار ان چیزوں سے تشکیل پاتا ہے جو آپ کے ساتھ زندگی میں رونما ہوئیں۔ کئی لوگوں کو زندگی میں بہت سے مواقع ملے جبکہ دوسروں کو سختیاں جھیلنا پڑیں۔ لوگ بہترین ماحول میں بھی بدترین انسان کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں جبکہ انتہائی شاندار لوگ بدترین ماحول سے ابھر سکتے ہیں۔ لیکن جہاں سے بھی آپ آئے ہیں، یہ آپ کے اختیار میں نہیں تھا اور حالات کا آپ کے کردار پر ہونے والا اثر ناقابلِ تردید ہے۔
اور قسمت کا آخری پہلو consequent circumstances کی قسمت ہے۔ یعنی آپ نے جو کچھ کیا، اس کا نتیجہ آپ کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ کئی بار بہترین ارادے سے کیا گیا کام ناکام ہو جاتا ہے جبکہ کئی بار انتہائی ناقص پلان زبردست نتیجہ دے سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ایک شخص نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی لیکن ناکام رہا تو اس کو داد نہیں ملتی۔ اگرچہ اس نے اتنی ہی کوشش کی تھی جو کامیاب ہوا تھا۔ اور یہ وجہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کے لئے الف کے مقابلے میں جیم کو زیادہ قصوروار قرار دینا آسان ہے کیونکہ جیم کی حرکت کا نتیجہ کسی کی موت کی صورت میں نکلا تھا جبکہ الف کا نہیں۔
لیکن ایسے عوامل کی بنیاد پر، جو کنٹرول سے باہر ہوں، اخلاقی تعریف اور قصور کا کوئی معنی ہے؟ اگر اس روشنی میں دیکھا جائے تو ہمیں اس تعین کے بارے میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو کسی کے بس میں نہیں اور جس کا انحصار خارجی عناصر پر تھا، ان کی بنیاد پر، وہ قصوروار یا داد کا مستحق نہیں۔
اس منطق کی بنیاد پر نیگل دونوں ڈرائیوروں کو برابر کا قصوروار گردانتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور نکتہ نظر یہ ہے کہ قصوروار ٹھہرائے جانے میں جزوی فیکٹر نتائج کا بھی ہونا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا بحیثیت مجموعی معاشرے کے لئے اچھا ہو گا۔ اور نہ صرف یہ قابلِ قبول ہے بلکہ درست بھی کہ ان عوامل کو بھی شامل کیا جائے جو کسی کے کنٹرول میں نہیں تھے۔ ہم چاہیں گے کہ ایسے ڈرائیوروں کو سزا ملے جنہوں نے نقصان کیا۔ لیکن اگر کوئی بحفاظت گھر پہنچ گیا ہے تو ہمیں ٹھیک معلوم نہیں کہ وہ نشے میں تھا بھی کہ نہیں تو اسے الزام دینے کا ہمارے پاس جواز نہیں ہے۔ لیکن جو پکڑا گیا، اس کو زیادہ قصوروار بنایا جائے، خواہ نہ پکڑے جانے والے بھی اتنا ہی قصوروار تھے۔
اور یہی کام تعریف کے لئے۔ یہ ہم سب کے مفاد میں بھی ہے کہ ہیرو تخلیق کئے جائیں۔ ایسا شخص جس نے کسی کی زندگی بچانے کے لئے اپنی زندگی داوٗ پر لگا دی (خواہ اسے کامیابی ہوئی یا نہیں) کو ہیرو بنانے سے معاشرے میں ایسے رویے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
تو جہاں پر بھی اچھا رویہ دیکھا جائے، اسکی تعریف کی جائے۔ خواہ اس کے پیچھے کسی شخص کا فطری مزاج ہو یا اچھائی کا ارادہ جو ایسا کرنے کا مستحق بناتا ہے۔
اس نکتہ نظر کے مطابق، داد اور قصور کا تعلق اخلاقی ذمہ داری سے نہیں، مختلف قسم کے رویوں کی حوصلہ افزائی اور حوصلہ شکنی کرنے سے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ وجہ ہے کہ شاید آپ کے خیال میں جیم کو جیل میں ہونا چاہیے۔ جبکہ الف کے لئے اخلاقی قسمت کام آ گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...