انسانوں نے اپنے ساتھ رفاقت کے لئے بہت سے جانوروں کو سدھایا ہے۔ بھیڑ، بکری، کتا، بلی ۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ رہا ہے کہ ہمارے سدھائے ہوئے جانوروں میں جارحانہ رویے کی کمی اور دوستانہ رویہ پایا جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے ان میں سے وہی چنے تھے جو دوستانہ تھے اور ان میں سے جارحانہ کو نسل در نسل الگ کیا جاتا رہا۔
انسان نے خود کو بھی سدھایا ہے۔ غیرسماجی رویے، جارحیت کو سزا ملی ہے یا الگ کر دیا گیا ہے یا مار دیا گیا ہے۔ قبیلے کی اخلاقی میٹرکس کے اندر رہنے کی صلاحیت رکھنا زندگی میں پنپنے کے لئے ضروری ہے۔
اس کا نتیجہ ویسا ہی نکلا، جیسے سدھائے ہوئے جانوروں میں۔ چھوٹے دانت، کم جارحیت اور کھلنڈرا پن جو بلوغت میں بھی رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے قبائلی ذہن ہمیں آسانی سے تقسیم کر دیتے ہیں لیکن قبائلی ذہن اور کلچر نے صرف ہمیں جنگ کے لئے تیار نہیں کیا۔ اس نے ہمیں اپنے گروہوں میں پرامن وجود کے لئے تیار کیا ہے۔ اور سماج کی اس جدت کا دائرہ حالیہ وقتوں میں وسیع تر ہوتا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کسی بھی جگہ پر رہتے ہوں، الٹراسوشل نوع ہیں۔ ایسا کب ہوا؟۔ اندازہ ہے کہ افریقہ اور مشرقِ وسطی سے باہر پھیلنے سے قبل ایسا ہوا ہو گا جو پچاس ہزار سال قبل کی بات ہے۔ اور ایک مرتبہ گروہی تعاون کی جدت آ جانے کے بعد انسان نے بہت جلد دنیا فتح کر لی جس میں نینڈرتھل کی زمینیں بھی شامل تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان (اور تمام ممالیہ) میں لیکٹوز ہضم کرنے کی صلاحیت بچپن میں ختم ہو جاتی ہے۔ لیکٹوز دودھ میں پائی جانے والی شوگر ہے۔ وہ جین جو لیکٹیز بناتی ہے (وہ انزائم جو لیکٹوز توڑتی ہے) زندگی کے ابتدائی برسوں کے بعد آف ہو جاتی ہے۔ ممالیہ اپنے ابتدائی وقت کے بعد دودھ نہیں پیتے، اس کی ضرورت نہیں۔
لیکن جب مویشی پالنے والوں نے ریوڑ رکھنے شروع کئے تو تازہ دودھ کی کثیر سپلائی میسر آ گئی۔ ایسے افراد جن میں یہ جین آف ہونے میں میوٹیشن کی وجہ سے تاخیر ہو جاتی تھی، وہ فائدے میں تھے۔ وقت کے ساتھ جینیاتی تبدیلیوں نے کلچرل تبدیلیاں بھی کر دیں۔ مویشیوں کے ریوڑ بڑے ہونے لگے۔ دودھ کے نئے استعمال کئے جانے لگے۔ دہی اور پنیر بننے لگا۔ کلچرل جدتوں نے نئے جینیاتی جدتیں ممکن کیں اور یہ عمل بڑھتا گیا۔
جین اور کلچر باہم آگے بڑھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 2000 میں سٹیفن گولڈ نے کہا تھا کہ انسان میں پچھلے چالیس سے پچاس ہزار سال میں کوئی بائیولوجیکل تبدیلی نہیں آئی کیونکہ کلچرل ارتقا کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ لیکن انسانی جینوم پراجیکٹ کے بعد ملنے والا ڈیٹا دکھاتا ہے کہ ہمارے جین بہت متحرک ہیں۔ سٹریس، بھوک اور بیماری کا جواب مسلسل فعال اور غیرفعال ہو کر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے 70000 سے 140000 سال قبل افریقہ کا موسم تیزی سے تبدیل ہوتا رہا۔ بڑے پیمانے پر فاقہ کشی عام تھی۔ اور پھر 74000 سال قبل موجودہ انڈونیشیا میں ٹوبا کا سپرآتش فشاں پھٹا جس نے ایک سال تک زمین کے موسم میں ڈرامائی تبدیلی کر دی۔ جو بھی وجہ بنی، ہمیں یہ معلوم ہے کہ تقریباً تمام انسان اس وقت مارے گئے تھے۔
بچے کون اور کیوں؟ ہمیں شاید کبھی معلوم نہ ہو لیکن فرض کیجئے کہ کسی واقعے کی وجہ سے 95 فیصد خوراک ختم ہو جائے تو کیا ہو گا؟ امن و امان ختم ہو جائے گا۔ افراتفری ہو گی۔ زیادہ تر لوگ دو مہینے میں مارے جائیں گے۔ ایک سال بعد زمین پر وہ نہیں ہوں گے جو سب سے بڑے اور طاقتور ہوں گے بلکہ وہ جنہیں ملکر کام کرنا، چھپنا، تدبیر لڑانا، حکمت عملی بنانا بہتر آتا ہو گا۔
اب فرض کیجئے کہ ایسے قحط ہر چند صدیوں بعد آتے ہیں تو انسانی جینیاتی پول میں کیا اثر ہو گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک گروہی سلیکشن کی سادہ ترین شکل کو بیان کیا گیا ہے۔ گروہ آپس میں ویسے مقابلہ کرتے ہیں، جیسے جاندار۔ اور زیادہ متحد گروہ کم متحد گروہوں کو جنگوں میں شکست دے دیتے ہیں۔ اور کسی وقت میں ایسا ہی تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن یہ تاثر درست نہیٰں۔
لیسلے نیوسن اس پر لکھتی ہیں۔
“گروہوں کے آپس میں مقابلے کا مطلب جنگ و جدل ہی نہیں۔ اپنے وسائل کا بہتر استعمال ہے”۔
جو خاصیتیں کسی گروپ کو خوراک حاصل کرنے اور بچوں کی پرورش کے ذریعے انہیں باقیوں سے زیادہ فِٹ بناتی ہیں، وہ باقی رہ جاتی ہیں۔ گروہی سلیکشن تعاون کی طرف کھینچتی ہے۔ غیرسماجی رویہ روکتی ہیں اور افراد کی خودغرضی ختم کرتی ہے۔
اس کا نتیجہ جنگ کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے لیکن زیادہ تر اس کا فوکس اپنے گروہ (قبیلے، قوم، ملک) کی فلاح، خوشحالی اور ترقی پر توجہ پر رہا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...