فرض کیجئے کہ دفتر میں آپ کا ایک ساتھی آپ کو پیشکش کرتا ہے کہ وہ ایک ہفتہ آپ کے حصے کا کام بھی کر لے گا تا کہ آپ اس ہفتے کی چھٹی لے سکیں۔ آپ کو کیسا محسوس ہو گا؟ اگر آپ “سخت منطقی” ہیں تو آپ کو خوشی محسوس ہو گی جیسے کوئی شے مفت مل گئی ہو۔ لیکن اگر آپ عام انسان ہیں تو پھر آپ جانتے ہیں کہ یہ مفت نہیں۔ یہ ایک احسان ہے۔ اور اگر آپ یہ پیشکش قبول کرتے ہیں تو آپ کے دل میں اس کے لئے ابھرنے والے احسان مندی کے جذبات سے آپ اس کا شکریہ ادا کریں گے۔ اس کی مہربانی کی تعریف کریں گے اور اگر اسے ایسی مدد کبھی ضرورت پڑی تو امکان ہے کہ آپ خود بھی ایسا ہی کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارتقائی تھیورسٹ اکثر اوقات ہمارے جین کو “خودغرض” کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ اپنے سے بننے والے جاندار کے صرف انہی رویوں پر اثرانداز ہوتی ہیں جن کی مدد سے ان جین کی کاپیاں زیادہ سے زیادہ آگے پھیلیں۔ لیکن اخلاقیات کے منبع کی تلاش میں ملنے والی اہم ترین بصیرت یہ ہے کہ “خودغرض” جین سے “بے لوث” مخلوق ابھر سکتی ہے۔ لیکن اس بے لوث مخلوق کو اپنی سخاوت کے بارے میں منتخب ہونا پڑتا ہے۔ اپنے رشتہ داروں سے کی جانے والی مہربانیاں تو معمہ نہیں لیکن انسان اپنے بے غرضی کے جذبے اس کو صرف اپنے قریبی رشتہ داروں تک محدود نہیں رکھتے۔ اور اس کی وجہ طویل عرصے تک ایک چیلنج تھا۔ اس معمے کو حل کرنے کا ایک خیال رابرٹ ٹریورز کا تھا جن کا reciprocal altriusm پر پیپر 1971 میں شائع ہوا۔
ٹریورز کا کہنا تھا کہ ایک نوع میں بے غرضی کا جذبہ اس وقت ہو گا اگر اس کے افراد یہ یاد رکھ سکیں کہ دوسروں نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے۔ اور جنہوں نے اچھا سلوک کیا ہے، ان کے احسان کو بدلہ چکا سکیں اور انسان ایک ایسی ہی نوع ہے۔ ٹریورز کا پیش کیا گیا خیال “ادلے کا بدلہ” کا تھا۔ ہم عام طور پر کسی سے پہلی بار ملیں تو اس سے اچھی طرح پیش آتے ہیں۔ لیکن بعد میں ہم اس بارے میں منتخب ہو جاتے ہیں۔ جو ہم سے اچھا ہے، اس سے اچھے رہتے ہیں۔ جبکہ جو ہمارے بھلے ہونے سے فائدہ اٹھانا چاہے اس سے دور رہتے ہیں۔
انسانی زندگی میں باہمی تعاون کے بہت سے مواقع ہیں۔ اگر ہم ٹھیک طرح سے رہیں تو دوسروں کے ساتھ ملکر ایسے کام کر سکتے ہیں جن کا فائدہ سب کو ہو۔ ہمسائے ایک دوسرے کے گھروں کی نگہبانی کر سکتے ہیں۔ ہم سب مل جل کر کھا سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو برتنے کی چیزیں ادھار دے سکتے ہیں۔ ساتھی ایک دوسرے کے کام میں مدد کر سکتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملکر کام کرنے سے ہم سب ہی اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔
لیکن ایک مسئلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ کسی کی حکمتِ عملی ہے کہ “جس کو بھی مدد کی ضرورت ہو، اس کی مدد کی جائے” تو یہ دوسروں کو فائدہ اٹھانے کی دعوت ہے۔ جبکہ “مدد لی جائے لیکن کی نہ جانے” کی حکمتِ عملی کا مطلب یہ ہے کہ جلد ہی وہ وقت آ جائے گا جب کوئی آپ کا ہاتھ بٹانے کو تیار نہیں ہو گا۔ ان کے مقابلے میں جبکہ “ادلے کا بدلہ” کی حکمتِ عملی ایک اچھا توازن دے گی۔
انصاف پسندی کی بنیادی اخلاقی قدر کا یہ ٹرگر ہے۔ بڑے پیمانے پر تعاون اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دھوکہ دہی کرنے والوں کو اس کی سزا نہ ملے اور وہ اس تعاون کا یک طرفہ فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ بھروسے کے قابلِ اعتماد نیٹ ورک اسی طرح بن سکتے ہیں۔
ہم کسی کی طرف سے کی گئی بے غرض مدد کو پسند کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی ہمیں دھوکا دینے کی کوشش کرے یا ہماری بے غرضی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے تو ہمارا ردِ عمل غصے اور ناگواری کا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انصاف کے اس ماڈیول کے موجودہ ٹرگر میں بہت سی چیزیں ہیں۔ ایک طرف سماجی انصاف اور برابری کے خیالات اسی بنیاد پر ہیں۔ طاقتور اور امیر لوگ اگر معاشرے میں اپنی طاقت اور رتبے کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو یہ ہمیں طیش دلاتا ہے یا اگر لوگ اپنے حصے کا ٹیکس نہیں دیتے تو ہمیں اسی لئے یہ بالکل پسند نہیں آتا۔
اور دوسری طرف، اگر لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ ان کی کی گئی محنت سے فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو مفت خورے اور کاہل ہیں، تو بھی اس پر ہونے والی ناگواری اسی باعث ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب سماجی انصاف کی پرواہ کرتے ہیں۔ تاہم اس کی دو بڑی اقسام ہیں۔ بائیں بازو کے خیالات میں اس کا مطلب برابری ہے یعنی ممکنہ حد تک ہر ایک کو معیشت میں سے برابر ملے۔ جب کہ دائیں بازو کے خیالات میں اس کا مطلب تناسب ہے یعنی لوگوں کو اتنا ملے جتنا وہ معیشت میں حصہ ڈالتے ہیں، خواہ اس کا مطلب غیرمساوی نتائج ہوں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...