فرض کیجئے کہ آپ کشتیوں کی ایک ریس میں شرکت کر رہے ہیں۔ ایک سو کشتیوں کا مقابلہ ہے۔ آپ نے دس میل کا فاصلہ طے کرنا ہے اور جیتنے والے کو بڑا انعام ملے گا۔ آدھا فاصلہ طے کرتے وقت آپ اول نمبر پر تھے۔ لیکن اس وقت اچانک ہی ایک کشتی آپ سے آگے نکل گئی۔ اس میں دو ملاح تھے جو ایک ایک چپو چلا رہے تھے۔ یہ تو غلط ہو گیا! اور اس سے عجیب یہ کہ کچھ دیر بعد آپ دیکھتے ہیں کہ کسی نے تین کشتیاں جوڑ کر ایک لمبی سی کشتی بنا لی۔ ہر ایک میں دو ملاح ہیں۔ یہ چھ ہم آہنگی سے چپو چلا رہے ہیں اور ایک ساتواں ان سب کو ایک تال میل میں رکھنے کے لئے پکارتا جا رہا ہے۔
یہ دھوکے باز جیتنے ہی لگے تھے کہ ریس ختم ہونے سے بالکل پہلے چوبیس ملاحوں کی ایک کشتی ان سب سے آگے نکل گئی۔ یہ ایک موٹربوٹ تھی جو کسی نے کرائے پر لی تھی۔
دراصل، اس ریس میں کوئی اصول نہیں تھے کہ کس قسم کی کشتی کی اجازت ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ زمین پر زندگی کی کہانی کا استعارہ بھی ہے۔ ابتدائی ارب سال میں زمین پر جاندار صرف سادہ خلیات (پروکارئیوٹ) تھے جیسا کہ بیکٹیریا۔ سب کا اپنا اکیلا سسٹم تھا۔ ایک دوسرے سے مقابلہ اور اپنی کاپیاں بنا لینے کا نظام۔
پھر تقریباً دو ارب سال پہلے، کسی طریقے سے دو ایسے جاندار ایک ہی جھلی کے اندر مدغم ہو گئے۔ (اسی وجہ سے مائیٹوکونڈریا کا اپنا ڈی این اے ہے جو نیوکلئیس کے ڈی این اے سے الگ ہے)۔ یہ دو ملاحوں والی کشتی تھی۔ ایسے خلیات کو محنت کی تقسیم کی وجہ سے فائدہ تھا۔ ان دونوں کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ یہ باہمی تعاون سے ہونے والا اکٹھ تھا۔
ماہرینِ حیاتیات کی زبان میں زمینی زندگی میں یہ انقلابی تبدیلی تھی۔ فطری چناوٗ ہمیشہ کی طرح ساتھ ساتھ ہوتا رہا لیکن اب یہ عمل ایک نئے قسم کے جاندار پر ہو سکتا تھا۔ یہ اس ریس میں ایک نئی قسم کی کشتی تھی۔ یک خلوی یوکارئیوٹ زبردست طریقے سے کامیاب ہوئے اور دنیا بھر کے سمندروں میں پھیل گئے۔
چند سو ملین سال پہلے، ان یوکارئیوٹ میں سے کچھ نے ایک انوکھی ایڈاپٹیشن کی۔ خلیے کی تقسیم ہو جانے کے بعد یہ الگ نہیں ہوئے اور ایک کثیر خلوی جاندار بنا دیا، جس میں ہر خلیے میں ایک ہی جین تھے۔ ایک مرتبہ پھر، ان کے درمیان مقابلہ ختم ہو گیا۔ (ہر خلیہ صرف اس وقت افزائشِ نسل کر سکتا تھا جب پورا جاندار ایسا کرے)۔ خلیات کا گروہ ایک فرد بن گیا۔ ان خلیات میں محنت کی تقسیم ہو سکتی تھی۔ اعضاء جیسی سپیشلائزیشن آ سکتی تھی۔ یہ ایک نئی اور بہت طاقتور قسم کی کشتی تھی۔ اور اس نے مختصر عرصے میں زمین کو جانوروں، پودوں اور فنگس سے بھر دیا۔ یہ ایک اور انقلابی تبدیلی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی انقلابی تبدیلیاں نایاب ہیں۔ جون مینرڈ سمتھ نے چار ارب سال میں ایسی آٹھ واضح مثالیں گنی ہیں۔ (ان میں سے آخری انسانی معاشرت ہے)۔ لیکن یہ زندگی کی تاریخ کے سب سے اہم واقعات ہیں۔ اور یہ سب ملٹی لیول سلیکشن کا عمل ہے۔ یعنی اگلی سطح کی طرف جانے کا۔ جب بھی انفرادی یونٹ ملکر تعاون سے کام کرنے کا طریقہ تلاش کر لیتے ہیں، ٹیم کے طور پر کام کر سکتے ہیں، محنت کی تقسیم کر سکتے ہیں اور مفت خوری کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں تو اس سے کمتر سطح پر چناوٗ بے معنی ہو جاتا ہے۔ اوپر والی سطح کا چناوٗ زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ اور یہ چناوٗ تعاون کرنے والے سپرآرگنزم کی حمایت کرتا ہے۔ اور جس طرح یہ سپرآرگنزم بڑھتے ہیں اور دوسروں سے مقابلہ کرتے ہیں تو یہ زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ گروپ سلیکشن کا عمل ہے۔ زیادہ فِٹ گروپ اپنی اگلی نسلوں کو اپنی خاصیتیں منتقل کر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلابی تبدیلیاں نایاب ہیں۔ لیکن جب یہ ہوتی ہیں تو زمین کو بدل دیتی ہیں۔ دس کروڑ سال پہلے، بھِڑوں کے اجداد نے محنت کی تقسیم کا مسئلہ حل کر لیا۔ (ملکہ انڈے دے گی۔ کئی قسم کے مزدور گھر کی دیکھ بھال اور خوراک کا بندوبست کریں گے)۔ اسی نظام سے یہاں سے شہد کی مکھیاں اور چیونٹیاں بھی برآمد ہوئے۔ اور درجنوں مرتبہ یہ حربہ دریافت ہوا۔ (دیمک، نیکڈ مول ریٹ، جھینگے کی کچھ انواع، ایفڈ، بِیٹل اور مکڑیوں کی چند انواع کے اجداد نے)۔ مفت خوری کے مسئلے کے حل نے ہر مرتبہ خودغرض جین سے بے لوث گروپ مبر بنانے شروع کر دئے اور خودغرضی ایک سطح اوپر کھسک گئی۔
یہ گروہ ایک نئی قسم کی کشتی تھی۔ ایک چھتا یا ایک کالونی جس میں جینیاتی اعتبار سے قریب رشتہ دار تھے جو ایک یونٹ کے طور پر اکٹھے ہوئے تھے۔ خوراک ڈھونڈنے، رہائش اور دفاع مشترک ہو گیا تھا اور یہ ایک اکائی کے طور پر نسل آگے بڑھاتے تھے۔ یہ وہ موٹربوٹ تھی جو ایسی جدتوں اور انجینرنگ کا سہارا لے کر سب سے آگے نکل گئی تھی جو اس سے پہلے موجود نہیں تھی۔ یہ ایک اور انقلابی تبدیلی تھی۔ ایک گروپ ایک اکائی کے طور پر اور ایک جاندار کی طرح کام کرنے لگا تھا۔ تنہا کیڑوں کے جین ان کے آگے کچلے گئے۔ کالونی میں رہنے والے کیڑے انواع کا صرف دو فیصد ہیں لیکن بہت مختصر عرصے میں یہ اچھے مقامات پر قبضہ کر چکے ہیں اور اپنے مقابل کیڑوں کو ان کی جگہوں سے دھکیل چکے ہیں۔ زمین کے زیادہ تر ایکوسسٹم تبدیل کر چکے ہیں (مثلاً، پھولدار پودوں کو ممکن بنا کر جنہیں اپنا پولن بکھیرنے والے کیڑے درکار ہیں)۔ اور اگر تمام زمینی کیڑوں کا وزن کیا جائے تو یہ اکثریت میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور انسان؟ قدیم زمانے سے انسانی معاشروں کو شہد کی مکھیوں سے تشبیہہ دی جاتی رہی ہے۔ کیا یہ محض ایک کمزور استعارہ ہے؟ اگر آپ شہد کی مکھیوں کی ملکہ کو انسانی ملکہ (یا بادشاہ یا حکمران) سے تشبیہہ دیں تو ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ چھتے یا کالونی میں کوئی حکمران نہیں ہوتا۔ (ملکہ صرف اس سپرآرگنزم کی ایک اووری ہے)۔ لیکن اگر ہم سوال کریں کہ کیا انسانوں میں خودغرض انفرادیت پسندی سے گروہی رویے کی انقلابی تبدیلی آئی جس نے انسانی تہذیب و تمدن اور پھر زمین پر غلبہ ممکن بنایا تو ہاں، یہ تشبیہہ اب درست طرز کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانوروں میں سے کئی سوشل ہیں، ریوڑوں اور گروہوں میں رہتے ہیں۔ لیکن بہت ہی کم ایسے ہیں جو الٹراسوشل کی حد کو پار کر چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بڑے گروہوں میں رہتے ہیں جہاں پر کوئی اندرونی سٹرکچر ہیں اور یہ محنت کی تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ شہد کی مکھی کے چھتے اور چیونٹیوں کی کالونی، جن میں فوجی، سکاوٹ، بچوں کی پرورش کرنے والے الگ ہیں۔ یہ الٹراسوشل انواع ہیں۔
انسان بھی الٹرا سوشل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیرانسانی الٹراسوشل انواع کو یہاں تک پہنچے میں جس نے مدد کی، وہ اپنے مشترک گھر کے دفاع کی ضرورت ہے۔
ہولڈوبر اور ولسن ان میں دو مزید باتوں کا اضافہ کرتے ہیں۔ بچوں کی دیر تک پرورش کرنے کی ضرورت اور گروہوں کے آپس میں تنازعات۔
شہد کی مکھی کا چھتا قلعے میں بنی فیکٹری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانوں میں یہ تینوں عوامل پائے جاتے ہیں۔ اور پھر جب بڑے پیمانے پر معاشرت شروع ہوئی۔ انسان نے فصلیں اگائیں، باغ بنائے۔ غلہ اکٹھا کرنا شروع کیا۔ چراہ گاہوں کے گرد باڑ لگائی اور مستقل گھر بنانا شروع کئے تو خوراک کی سپلائی کو محفوظ کر لیا۔ اس نے دفاع کی ضرورت کو دوچند کر دیا۔
اور اس وجہ سے زمین پر ایک اور نئی قسم کی “کشتی” نمودار ہوئی۔ یہ شہری ریاست تھی۔ اس کا دیواروں سے اور افواج سے دفاع کیا گیا۔ اور ان ریاستوں کی جگہ سلطنتوں نے لی، جو شمالی افریقہ، یورپ، ایشیا، میسوامریکہ میں تیزی سے پھیلیں۔ اس نے دنیا کے ایکوسسٹم بدل دئے۔
بارہ ہزار سال قبل ہولوسین کے دور میں ایک ناقابلِ ذکر نوع نے دنیا پر غلبہ جمانا شروع کر دیا۔
جس طرح کالونیل کیڑوں نے کیا تھا، ویسے ہی انسان نے دوسرے ممالیہ کو پیچھے دھکیل دیا۔ کئی کو ناپید کر دیا۔ کئی کو غلام بنا لیا۔
انسان اور شہد کی مکھیوں میں بہت فرق ہیں، لیکن انسانی تہذیب اور شہد کی مکھی کا چھتا ۔۔ یہ دونوں ہی زندگی میں ہونے والی انقلابی تبدیلیاں ہیں۔ یہ وہ موٹربوٹ ہے جس نے ہر ایک کو پیچھے چھوڑ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب افراد اپنی خودغرضی دبا کر اکٹھے ٹیم کی صورت میں کھیلنے کا فن پا لیں تو ان کا آپس کا مقابلہ ختم ہو جاتا ہے۔ اور اس دنیا پر کئے جانے والے غلبے میں ہمارا گروہی رویہ ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اور ایسا ہماری اخلاقی نفسیات نے ممکن کیا ہے۔ یہ ہماری نوع کی موٹربوٹ ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...