ٹوریل نے بچوں میں اخلاقی نفسیات کی دریافت کے کام کو نئے زاویے سے آگے بڑھایا۔ اس میں اچھوتی چیز سادہ کہانیاں تھیں۔ مثلاً۔
“ایک سکول میں یونی فارم پہن کر آنا لازم ہے۔ ایک بچہ عام کپڑے پہن کر چلا جاتا ہے۔ کیا اس نے ٹھیک کیا؟”
زیادہ تر بچے جواب دیتے تھے کہ “نہیں”۔
“اور اگر سکول ٹیچر اس بچے کو اجازت دے دے کہ وہ عام کپڑوں میں آ سکتا ہے، پھر ٹھیک ہو گا”۔ یا
“کسی اور سکول میں جہاں یونی فارم پہننے کی پابندی نہیں، وہاں پر عام کپڑے پہننا ٹھیک ہو گا؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوریل نے دریافت کیا کہ پانچ سال کے بچے بھی عام طور پر یہی کہتے ہیں کہ سکول کا قانون توڑنا منع ہے لیکن اگر ٹیچر اجازت دے دے یا پھر سکول میں یہ قانون نہ ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس عمر کے بچے اس بات کو پہچان لیتے ہیں کہ کپڑوں، خوراک اور زندگی کے کئی دوسرے پہلو سماجی پہلووں کے قوانین سماجی عہد یا طریقے ہیں۔ یہ کسی حد تک تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اب اس سوال میں کچھ ترمیم کے ساتھ کسی کو ضرر پہنچانا آ جائے؟
“ایک سکول میں ایک بچہ دوسرے کو جھولے سے دھکا دے کر نیچے گرا دیتا ہے کیونکہ اس نے خود جھولا لینا تھا؟”
اب جوابات بدل جاتے ہیں۔ تقریباً تمام بچے کہتے ہیں کہ اس نے غلط کیا۔ اور اگر ٹیچر نے ایسا کرنے کی اجازت بھی دی، تب بھی یہ ٹھیک نہیں۔ یا اگر کسی ایسے سکول میں ہوا جہاں پر دھکا دینے کے بارے میں قوانین نہیں، تب بھی یہ غلط ہے۔
بچے اس کو پہچان لیتے ہیں کہ ایسے قوانین جو کسی کو ضرر پہنچانے سے روکیں “اخلاقی قوانین” ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوریل کہتے ہیں کہ یہ قوانین انصاف، حقوق، فلاح سے متعلق ہیں اور ان کی مدد سے یہ طے ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے کیسا رویہ رکھنا چاہیے۔
یعنی چھوٹے بچے بھی اس بات کی تمیز رکھتے تھے کہ تمام قوانین برابر نہیں ہوتے۔ یہ ابھی اخلاقی فلسفی نہیں بنے لیکن سماجی انفارمیشن کی پیچیدہ سمجھ رکھتے تھے۔ اس بات کو پہنچانتے تھے کہ کونسے قوانین آفاقی ہیں، اہم ہیں اور تبدیل نہیں ہو سکتے۔
ٹوریل کے لئے اخلاقی ڈویلپمنٹ کے لئے یہ چیز بنیاد بن گئی۔
“بچے اپنی اخلاقی فکر جس اصول پر بناتے ہیں، وہ یہ کہ کسی کو نقصان پہنچانا غلط ہے۔ خاص قوانین کلچر میں الگ ہو سکتے ہیں لیکن اخلاقی قوانین اور سماجی قوانین میں تمیز ہر کوئی رکھتا ہے”۔
ٹوریل کا کام کوہلبرگ سے مختلف تھا لیکن نتائج اسی طرح کے تھے۔ “اخلاقیات کا مطلب دوسروں سے اچھا سلوک ہے۔ اس کا کام انصاف اور ضرر سے بچانا ہے۔ اس میں وفاداری، احترام، ذمہ داری، تقویٰ، حب الوطنی اور روایت نہیں آتے۔ اتھارٹی بری چیز ہے۔ تعلیمی اداروں اور خاندانوں کو مساوات اور آزادی کی آفاقی اقدار کو بڑھانا چاہیے نہ کہ بڑوں کے طے کردہ قوانین اور روایات کو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوہلبرگ اور ٹوریل کا کام بیسویں صدی کے آخر تک اخلاقی فکر کی سٹڈی پر بہت اثرانداز ہوا لیکن ایسے نکتہ نظر کئی بنیادی چیزوں کا جواب نہیں دیتے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...