یہ دیکھو آج میں چھوٹے صاحب کا کمرا صاف کر رہا تھا تو مجھے کیا ملا۔۔رشید جو خان ولا میں ڈرائیور اور صفائی وغیرہ کا کام کرتا تھا،بڑی رازداری میں اپنی بیوی کو کچھ دکھا رہا تھا۔اس کی چھ ماہ پہلےشادی ہوئی تھی۔چونکہ سرونٹ کوارٹر میں چوکیدار اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا،اسلئیے سلمان صاحب نے ایک چھوٹا کمرہ اسکو بھی بنوا کے دے دیا تھا۔بیوی اسکی ویسے تو کوئی کام نہیں کرتی تھی،مگر اکثر آفرین تائی مالش وغیرہ کے لئے بلا لیا کرتی تھیں۔اسلئیے اسکا آنا جانا بھی گھر کے اندر تھا،اور وہ گھر کے سب ہی مکینوں کو جانتی تھی۔جو کچھ رشید نے اسکو دکھایا،اسکو دیکھ کر تو جنت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔یہ شہر کے پڑھے لکھے لوگ بھی آپس میں ایک دوسرے کو ایسے قتل کردیتے ہیں۔اسکی گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ہاں یہاں بھی وہی لوگ بستے ہیں بس چہروں پر تعلیم کے نقاب ہوتے ہیں ،رشید نے طنز سے بولا۔تم اسکو فوراً پولیس کو دے دو۔۔جنت نے اسکو مشورہ دیا۔پگلی ہوگئی ہے،اس سے تو ہم امیر بن سکتے ہیں۔۔پولیس کو دے کر ہمارا کیا فائدہ۔۔۔خوف کر رشیدے۔۔۔اس بھلے مانس نے ہمارے لئیے یہ چار دیواری بنوائی تھی،جنت کو واقعی بہت افسوس ہورہا تھا۔ہاں تو اب وہ تو اس دنیا میں نہیں ہے نہ۔۔اور یہ دوسرا صاحب تو مجھے ویسے بھی نہیں بھاتا،اس سے پیسے لیکر عیش کریں گے۔ہم یہ جگہ چھوڑ کے چلے جائیں گے۔رشید نے ساری پلاننگ کی ہوئی تھی۔ رشیدے میرا دل نہیں مان رہا،ہم کسی بھلے مانس کے قتل پر بجنس(بزنس) چلائیں۔میری بے جی کہتی تھیں,سورۂ مائدہ میں اللہ نے فرمایا ہے،جس نے ایک انسان کا قتل کیا ،گویا اس نے تمام انسانوں کا قتل کیا۔جنت نے اسکو جھرجھری لے کر بتایا۔چل زیادہ سقراط نہ بن۔۔ایک تیری بے جی ماسٹرنی ہے،ایک تو بن گئی ہے اب۔۔۔جب عیش کرے گی نہ پیسوں پر ،تب ہوچھوں گا تجھ سے۔۔رشید نے اسکو سبز باغ دکھائے۔پر تجھ کو یہ سب چلانا کیسے آیا۔؟؟تو تو بڑا سیانا نکلا۔ارے دس سالوں سے شہر میں رہتا ہوں۔مجھے ان چیزوں کی کافی سمجھ بوجھ ہے۔رشید نے فخر سے کالر جھاڑے۔تجھ کو جو ٹھیک لگے تو کرلے،مگر سچ بولوں تو میرا دل نہیں اٹھ رہا۔جنت ابھی ابھی رشید سے متفق نہیں تھی۔چل تو روٹی لا جلدی۔۔۔۔زیادہ اپنی چھوٹی عقل نہ لڑا۔رشید نے اسکو جھاڑا،اور کیم کرڈر چھپا کر الماری میں رکھ دیا۔اس بات سے بے خبر کہ جنت نے خاموشی سے اسکو رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔جنت نے سوچ لیا تھا کہ وہ پولیس کے چکر میں تو نہیں پڑ سکتی مگر وہ مشی بی بی کو انکی یہ امانت ضرور پہنچاۓ گی۔
۔۔۔۔۔۔۔
آج صبح سے ہی جنت رشید کے گھر سے جانے کا انتظار کر رہی تھی،تاکہ وہ کیم کارڈر نکال سکے،۸بجے رشید گھر سے نکلا تو جنت نے ساری الماری چھان ماری،شاید رشید نے رات کے کسی پہر اٹھ کر وہ کہیں چھپا دیا تھا،جنت کو بہت قلق ہوا۔وہ ایک طرف تو اپنے محسن کو انصاف دلوا کر انکا احسان اتارنا چاہتی تھی،تو دوسری طرف وہ رشید کو بھی اس گناہ میں ساجھے دار نہیں بننے دینا چاہتی تھی۔وہ بھلے انپڑھ عورت تھی،مگر اخلاق اور انسانیت کے سارے تقاضے نبھاتی تھی۔بچپن سے ہی اسکی بے جی نے اسکو (جو بچوں کو قرآن پاک پڑھاتی تھیں،)حقوق العباد کی بڑی تاکید کی تھی۔وہ سوچنے لگی ابھی اگر بے جی یہاں ہوتیں تو وہ کتنا ناراض ہوتیں۔اسکو یاد تھا،اسکے گاؤں میں دو بھائیوں میں جائیداد کے تنازعے پر جھگڑا اتنا بڑھا تھا کہ ایک نے دوسرے کو قتل کردیا تھا۔سزا کے طور پر قاتل کو بھی جرگے نے موت کی سزا سنائی تھی۔مگر وہ رفوچکر ہوگیا تھا۔کتنے دن جنت کو رات کو مرے ہوۓ بھائی کا چہرہ نظر آتا رہتا تھا،کتنا ڈر گئی تھی وہ۔بے جی اس پر آیتیں پھونک پھونک کر سلاتی تھیں ۔اس نے ایک دن بے جی سے پوچھا تھا کہ چاچا نذیر تو بھاگ گیا اب اسکو سزا کیسے ملے گی۔بے جی نے کہا تھا،پتر۔۔۔وہ دنیا کی سزا سے بھاگ سکتا ہے،پتہ ہے،جو کسی مسلمان بھائی کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اسکی سزا جہنم ہے۔اسمیں ہمیشہ رہے گا،اور اس پر اللہ کا غضب ہوگا،اور لعنت ہوگی۔اس کے لئیے دنیا سے بھی بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔جنت ابھی یہی سوچ رہی تھی،اور ناحق قتل کی پردہ پوشی اور اس قتل پر کمائی کرنے والے کے لئے کتنا عذاب ہوگا۔۔کاش اس نے یہ بھی بے جی سے پوچھ لیا ہوتا۔بہرحال اسکو اپنے رشید کو اس گناہ کی شراکت سے بچانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر تائی امی پاپا سے میری ایک روز پہلے بات ہوئی تھی،انہوں نے تو مجھ سے شادی کے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی،اور ویسے بھی وہ جہاں بھی گئے ہیں دو چار دن سے زیادہ تھوڑی لگائیں گے۔وہ واپس آئیں گے تو آپ ان سے ہی سب بات کرلیجئیے گا۔مجھے ان باتوں کا کچھ نہیں پتہ۔بیٹا تمھاری تائی ٹھیک کہہ رہی ہیں،سلمان نے جاتے ٹائم مجھ سے کہا تھا کہ اسکی واپسی پر نکاح کرلیں گے،رخصتی تمھاری پڑھائی کے بعد بھی ہوتی رہے گی۔زیشان تایا ابھی ابھی نیچے لاؤنج میں آئے تھے۔انکو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لڑکی آفرین تائی کے بس کی نہیں ہے۔وہ لوگ چاہ رہے تھے کہ سلمان صاحب کی گمشدگی کے دن بڑھنے سے پہلے کمُ از کم وہ لوگ مائشہ اور شہریار کا نکاح کردیں تاکہ بعد میں مائشہ پیچھے نہ ہٹ سکے۔مگر مائشہ آسانی سے ہاتھ آنے والوں میں سے نہیں تھی۔تایا ابو میں صبح سے پاپا کو کالز کر رہی ہوں مگر فون آف جارہا ہے انکا۔۔میری جب ان سے بات ہوجائے گی تب ہی میں کچھ اور سوچوں گی،ابھی میں بہت پریشان ہوں اور ویسے بھی یہ سب پاپا کے کام ہیں۔۔وہ خود ہی آکر نمٹائیں گے۔وہ منہ بسور کر بیٹھ گئی۔زیشان تایا پیچ و تاب کھا کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
آپ لوگ سے ایک لڑکی نہیں سنبھالی جارہی۔میں خود دیکھ لونگا۔مجھے پتہ ہے،کیسے راضی کرنا ہے اسکو۔شہریار نے غصے سے کہا۔خبردار۔۔۔خبردار جو تم نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی۔میں نے دیکھا ہے کل رات تم نے کیسے بات سنبھالی ہے۔سن لو آفرین اگر اب کی بار اس لڑکے نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو میں اسکو جائیداد سے عاق کردونگا۔زیشان تایا غصے میں کف اڑا رہے تھے۔مجھےآپ کی دولت میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے،بس مجھے ہر حال میں مائشہ سے شادی کرنی ہے،بہت صبر کرلیا میں نے۔شہریار نے بھی دوبدو جواب دیا۔ہاں تم تو یہ سب عیاشیاں خود کی کمائی دولت پر کر رہے ہو نہ،زیشان تایا نے طنز سے اسکو دیکھا۔دیکھیں اگر اس ہفتے کے اندر اندر مائشہ راضی نہیں ہوتی تو مجھے پتہ ہے کہ اسکو کیسے راضی کرنا ہے۔وہ کرسی کو پاؤں سے مارتا کمرے سے نکل گیا۔آفرین تائی دل پکڑ کر بیٹھ گئیں۔کس کی نظر لگ گئی میرے گھر کو۔میں کل ہی گھر میں آیت کریمہ کا ختم کرواتی ہوں۔انہوں نے زیشان تایا کو دیکھتے ہوۓ کہا۔ہاں اپنی اولاد کے کرتوت نہ دیکھو،سارا الزام بس نظر پر ڈال دو۔وہ تنفر سے کہتے کمبل کھینچ کر لیٹ گئے۔
۔۔۔۔۔۔
رات کو جب جنت صندوق سے بستر نکال رہی تھی،تب اسکی نظر اس کے اوپر رکھے کیم کارڈر پر گئی۔اس نے خاموشی سے اس کے اوپر ایک لحاف ڈال کر صندوق بند کردیا۔مجھے بڑی بی بی نے بلایا ہے آج انکو مجھ سے کچھ کام ہے۔صبح جنت نے رشید کی پلیٹ میں گرما گرم پراٹھا رکھتے ہوۓ کہا۔وہ کنکھیوں سے رشید کو دیکھ رہی تھی۔اچھا،تو ساتھ ہی چل لے میرے۔نہیں کام نمٹا کر جاؤں گی اپنا۔جنت نے چولہا بند کرتے ہوئے کہا۔بس تھوڑے دن اور غلامی کرلے،جلد ہی میں نوکری چھوڑنے کی بات کرلوںگا۔رشید نے چائےکا گھونٹ بھرتے ہوۓ کہا۔تو نوکری چھوڑ دے گا؟؟جنت نے خوف اور حیرت سے کہا۔ہاں میں وہ ویڈیو تھوڑے دن بعد بھیجوں گا اور نوکری چھوڑنے کا ابھی سے کہہ دونگا تاکہ کسی کو کوئی شک نہ ہو۔بس تو بھی سب کو یہی بتا کہ ہم گاؤں واپس جارہے ہیں۔میری زمیں کا حصہ مجھے مل گیا ہے،اور ہم اس پر کھیتی باڑی کریں گے۔تاکہ جب ہم اچانک جائیں تو کسی کو شک نہ ہو۔ویسے بھی ہمارے پاس اتنے پیسے آجائیں گے کہ ہم یہ شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔وہاں نئی زندگی شروع کریں گے۔رشید نے بہت دور تک کی پلاننگ کی ہوئی تھی۔جنت نے تہیہ کرلیا تھا وہ یہ کام رشید کو ہرگز نہیں کرنے دے گی۔رشید کے نکلتے ہی اس نے صندوق سے کیمکارڈر نکالا اور اسکو چادر میں چھپا میں کر نکلی۔اسکو پتہ تھا رشید سب سے پہلے گھر کے عقبی حصہ اور لان وغیرہ کی صفائی کرتا تھا۔اسلئے وہ اسکے گھرکے اندرونی حصے میں داخل ہونے سے پہلے پہلے مشی سے ملنا چاہتی تھی،وہ دعا کرتی ہوئی گئی تھی کہ اسکو مشی مل جائے،اور شاید یہ اسکی قبولیت کا وقت تھا کہ مشی اسکو لاؤنج میں بیٹھی ہوئی مل گئی۔وہ کسی میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھی۔جنت نے کانپتے ہاتھوں سے مائشہ کو کیم کارڈر پکڑایا۔یہ تم کو کہاں سے ملا؟؟مائشہ نے حیرت سے اسکو اور پھر کیم کارڈر کو دیکھا۔وہ بی بی ۔۔جنت پھولی سانسوں کے درمیاں شروع ہوئی،وہ چاہتی تھی کسی کہ بھی آنے سے پہلے وہ مشی کو ساری حقیقت بتادے۔جب ہی آفرین تائی لاؤنج میں آگئیں۔ارے جنت تم کب آئیں۔؟؟وہ میں نے سوچا آپکو کوئی کام وغیرہ ہو تو کردوں۔تو مشی بی بی کا یہ کیمرہ مجھے باہر رکھا نظر آگیا تو دینے آگئی۔جنت آفرین کو دیکھ کر ایکدم گھبرا گئی۔چلو شکریہ تمھارا۔مشی نے اسکو مسکرا کر دیکھا اور موبائیل چیک کرنے لگی کہ شاید پاپا کا کوئی میسج ہو۔مگر کوئی بھی میسج نہ پاکر اسکا دل افسردہ ہوگیا تھا۔آج تک ایسا نہیں ہوا تھا ،پاپا اسکو دن میں ایک دو میسج ضرور کرتے تھے،اور ٹائم مل جائے تو کال بھی کرلیتے تھے۔اور اب کی بار نہ انکے میسجز آرہے تھے،نہ مائشہ کے جارہے تھے۔اور اب آج کا دن جیسے جیسے گزر رہا تھا ،اسکا دل بہت بری طرح گھبرانا شروع ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تایا ابو پلیز آپ معلوم کریں،آخر پاپا کہاں گئے ہیں جو آج دوسرا دن ہوگیا ہے انکا کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔ہاں میں نے اپنے ایس پی دوست سے کہا ہے۔میں بھی کل سے کانٹیکٹ کی کوشش کر رہا ہوں،مگر نہیں مل رہا۔زیشان تایا نے مصنوعی پریشانی سے کہا۔مگر پاپا کہاں کا کہہ نکلے تھے ؟؟میں رات کو اس کے کمرے میں گیا تھا کچھ پیپرز وغیرہ کی بات کرنے تو وہ پیکنگ کر رہا تھا،بلکہ میں باہر آیا تو کرم دین دودھ لارہا تھا میں نے خود اس سے دودھ لے کر سلمان کو لے جاکر دیا۔کہہ رہا تھا،ارجنٹ کام ہے،دو تین دن میں آجاؤنگا۔میں نے سوچا وہ تو ایسے جاتا رہتا ہے اسلئے زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی۔زیشان تایا نے من گھڑت کہانی مشی کو سنا کر مطمئن کیا۔مگر فون کیوں بند ہے انکا،مجھے پریشانی بس اس بات کی ہے۔۔۔مائشہ نے روہانسی ہوتے ہوۓ کہا۔ہاں دیکھو معلومات کرتا ہوں ،تم پریشان نہ ہو۔انہوں نے مائشہ کو گلے لگاتے ہوۓ اسکے سر کو تھپک کر کہا۔مائشہ اس بات سے بے خبر کہ وہ ان ہی ہاتھوں سے اسکے باپ کو دفنا کر آۓ ہیں ،انکے اندر اپنے پاپا کا لمس ڈھونڈ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مائشہ نے کیم کارڈر لاکے اپنی الماری کی ڈرار میں ڈال دیا تھا،اسکو پتہ ہی نہیں تھا کہ جس سوال کے لئے وہ اتنی پریشان ہے کہ آخر پاپا کہاں گئے،اسکا جواب اس کیم کارڈر میں چھپا ہے۔تایا ابو سے بات کرکے بھی اسکو زیادہ تسلی نہیں ہوئی تھی۔وہ بغیر کچھ کھاۓ پیے ایسے ہی لیٹی تھی۔اچانک اسکو خیال آیا کہ کیا پتہ پاپا نے اسکے لئے کوئی ویڈیو میسج چھوڑا ہو،جب ہی تو اسکا کیم کارڈر باہر کہیں تھا۔کیا پتہ وہ جلدی میں میسج ریکارڈ کرکے باہر لان میں رکھ گئے ہوں۔یہ خیال آتے ہی اس نے فوراً کیم کارڈر نکالا۔آن کرنے پر پتہ لگا کہ اسکی بیٹری لو ہے۔۔اسکو چارج پر لگا کر وہ شاور لینے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت کو آفرین تائی نے کافی چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگا لیا تھا،وہ واپس آئی تو رشید گھر آچکا تھا،اور پورا صندوق اور ساری الماری خالی تھی۔رشید جنت کو دیکھتے ہی لپک کے اسکے پاس آیا۔سچ سچ بتا کہاں ہے وہ کیمرہ؟؟مم مجھے نہیں پتہ،جنت نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔دیکھ جنت سیدھے سے بتادے،مجھے پتہ ہے تو نہیں چاہتی کہ میں وہ ویڈیو بھیجوں مگر اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے،اس نے اسکو پچکارتے ہوئے کہا۔میں نے کہا نہ مجھے نہیں معلوم،میں تو خود تیرے پیچھے پیچھے نکل گئی تھی۔پوچھ لے بڑی بیبی سے۔۔کب سے ہوں انکے پاس،جنت اب سنبھل چکی تھی۔تو آخر کہاں گیا۔میں نے رات خود لاکر یہاں رکھا ہے۔اس نے اپنے بال نوچتے ہوئے کہا۔میں نے کل ہی دوست کے لیپ ٹاپ سےاسکویو ایس بی میں کاپی کیا تھا،اور واپس لاکر یہیں رکھا ہے۔اس نے صندوق کی طرف اشارہ کیا۔جنت کو اسکی بات کچھ سمجھ نہیں آئی،کیا کیا تونے؟؟میں نے اس ویڈیو کو ایک جگہ اور رکھ لیا ہے،تیرے پلے نہیں پڑے گی،تو چھوڑ اس بات کو،مگر وہ کیمرہ کھو گیا تو مسئلہ ہوجائے گا،بات اور لوگوں کو بھی پتہ لگ جائے گی۔رشید کا یہ انکشاف سن کر کہ وہ ویڈیو ابھی بھی اسکے پاس تھی،جنت کے دل کو دھکا سا لگا۔اس نے اتنا رسک لے کر وہ کیمرہ بیبی کو دیا اور اسکا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا۔وہ مرے مرے دل کے ساتھ سارا پھیلا ہوا سامان سمیٹنے لگی۔رشید سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا وہ سوچ رہا تھا آخر کون انکے اس کمرے میں آسکتا تھا،جسکو یہ بھی پتہ تھا کہ کیم کارڈر کہاں رکھا ہے۔اسکے چہرے پر سوچ کا جال تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متقین دو دن پہلے ہی کراچی شفٹ ہوا تھا،دادو کی تو خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں تھا،انہوں نے اسکے آنے سے پہلے سے لیکر اب تک گھر کے نوکروں کی پریڈ لگوائی ہوئی تھی۔متقین کے لئے انہوں نے اوپر اسکا روم صاف کرودیا تھا،متقین کے ماما پاپا ایک کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگئے تھے۔اس وقت متقین دس سال کا تھا،اسکو دادو نے ہی پالا تھا۔اسکے پاپا دادو کی اکلوتی اولاد تھے۔اور ماما کو کبھی اس نے انکے گھر والوں سے ملتے نہیں دیکھا تھا۔اسلئے اسکے ننھیال کا اسکو پتہ نہیں تھا۔ رشتوں کے نام پر اسکے پاس دادو تھیں۔جن پر وہ جان چھڑکتا تھا۔آج چھٹی کا دن تھا مگر متقین کو صبح خیزی کی عادت تھی۔اسلئے وہ فجر کے بعد جاگنگ کے لئے نکل گیا تھا،اور اب آٹھ بجے کے قریب اسکی واپسی ہوئی تھی۔جب تک وہ فریش ہونے گیا،دادو نے اسکے لئے ناشتہ لگوادیا تھا۔متقین اب بس تم شادی کرلو،دادو نے کپ میں چائے انڈیلتے ہوۓ کہا۔دادو کیوں میری آزادی چھیننا چاہتی ہیں آپ؟متقین نے فرائیڈ انڈے کو کانٹے میں پھنساتے ہوئے کہا۔بس بہت ہوگئی ہے،من مانی۔تم کو کوئی پسند ہے تو بتادو ورنہ میں نے ایک لڑکی پسند کرلی ہے،ہماری ہی کالونی کی ہے،آگے والے بلاک میں رہتے ہیں،بڑی ہی پیاری اور معصوم سی ہے،یونیورسٹی میں پڑھتی ہے ابھی تو،بس تم سے پوچھنا تھا،ورنہ کل میں جاکر رشتہ کی بات ڈال آؤنگی۔دادو نے اپنا فیصلہ سنایا۔دادو بہت چھوٹی نہیں ہے؟؟متقین نے تھوڑا پریشان ہوکر پوچھا۔ارے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں،تم کون سے بوڑھے ہو جو وہ چھوٹی لگ رہی ہے،آٹھ ،نو سال کا فرق تو عام سی بات ہے،دادو کے پاس سارے دلائل موجود تھے۔اچھا،جو آپکو ٹھیک لگے۔اس نے موبائیل اسکرول کرتے ہوئے کہا،میرا چاند ہمیشہ خوش رہے۔دادو نے خوش ہوکر اسکی بلائیں لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔