مولوی شبیر علی کے اس فیصلے کی سبھی نے مخالفت کی لیکن ان کا ارادہ نہیں بدلا، کہنے لگے:
’’میں اپنے فیصلے کو نہیں بدل سکتا‘‘
’’لیکن مولوی صاحب ایک سنّت کو ترک کرنا کتنا بڑا گناہ ہے، آپ جیسا شخص اگر ایسا کرے گا تو پھر عام مسلمان کا کیا ہو گا؟‘‘
’’وہ بھی ایسا ہی کریں، اسی میں ہم سب کی خیر ہے۔‘‘
مولوی شبیر علی کے اس دو ٹوک جواب سے لوگ طیش میں آ گئے اور کہنے لگے:
’’انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو، سر سید کی طرح ان کا بھی دماغ پھر گیا ہے۔ بھائیوں اب کوئی ان کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔‘‘
اور اس فیصلے کے بعد سب لعن طعن کرتے ہوئے اِدھر اُدھر بکھر گئے۔
مولوی صاحب ان سب کی لعن طعن سے بے نیاز اپنے فیصلے پر اٹل گھر کے اندر چلے گئے۔ صحن میں ان کا چار سال کا پوتا کبیر دنیا کی خبروں سے بے خبر کھیلنے میں مصروف تھا۔ مولوی صاحب ایک اچٹتی ہوئی نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ ساٹھ سال کی رشیدہ خاتون جو گزشتہ چالیس برس سے ان کے دکھ سکھ کی شریک تھیں، پانی کا گلاس لے کر ان کے پیچھے پیچھے گئیں۔
مولوی صاحب جو اپنی شیروانی اور ٹوپی اتار کر پلنگ پر بیٹھ چکے تھے، پانی کا گلاس دیکھ کر بولے:
’’پانی تو میں نے نہیں مانگا تھا …… شاید تمہیں بھی کچھ کہنا ہو گا‘‘
’’آپ تو بات کا بتنگڑ بناتے ہیں، باہر کا غصہ باہر ہی رکھیے۔‘‘ رشیدہ خاتون نے گلاس تپائی پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’میں کیوں بات کا بتنگڑ بناتا، میرے گھر کا معاملہ ہے، میں کچھ بھی کروں، لوگ کیوں خواہ مخواہ دخل دے رہے ہیں۔‘‘ مولوی صاحب نے قدرے تیز لہجہ میں کہا
’’یہ گھر کا معاملہ نہیں …… دین کا معاملہ ہے۔ دنیا کو دین کا سبق دیتے ہو، اپنے گھر میں سنّت کا خون کرو گے، کبیر اب چار برس کا ہو گیا ہے، یہ کام اسی وقت ہو جاتا تو اچھّا رہتا۔‘‘ رشیدہ خاتون بھی اپنے اختیارات کو محسوس کرتے ہوئے کچھ تیز آواز میں بولیں:
’’تم مجھے دین کا درس مت دو، اپنا چولہا چکّی سنبھالو، میں جو کر رہا ہوں مجھے کرنے دو۔‘‘
’’ہاں! ہاں! جو دل میں آئے کرو، تمہاری تو مت ماری گئی ہے۔ زیادہ پڑھنے لکھنے سے دماغ چل گیا ہے۔ کل کو کہو گے اپنی اپنی داڑھیاں کٹوا دو۔ دنیا تھُو تھُو کر رہی ہے۔‘‘ رشیدہ خاتون بڑبڑاتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں۔
’’ہاں! ہاں! سب کرو …… تم بھی کرو …… میں تو سٹھیا گیا ہوں …… کافر ہو گیا ہوں۔‘‘ مولوی صاحب غصے میں چیخے۔
’’داڑھی رکھنے سے کوئی مسلمان نہیں ہو جاتا …… جس نے مسلمانوں کا قتل عام کروایا …… مسجدیں شہید کرائیں …… اس کی بھی داڑھی ہے۔‘‘
مولوی شبیر علی کے غصے اور جھنجھلاہٹ میں ان کے اکلوتے جوان بیٹے دبیر کی دردناک موت کا غم بھی شامل تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر صحن میں کھیلتے ہوئے کبیر پر نگاہ ڈالی۔ انہیں کبیر کے اندر دبیر کھیلتا ہوا دکھائی دیا اور اسے دیکھ کر وہ اپنا غصہ بھول گئے، مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر اُبھر آئی۔
دبیر ان کی کتاب لے کر بھاگنے لگا، وہ پیچھے پیچھے دوڑے …… دوڑتے دوڑتے چور سپاہی کا کھیل بن گیا…… وہ بار بار دبیر سے ہار کر خوش ہوتے رہے۔ عزت و وقار کی مسند پر بیٹھنے والے شبیر علی دبیر کے لئے گھوڑا بن گئے اور دبیر اس گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ چل میرے گھوڑے، ٹک ٹک۔ ٹک۔
پھر ننھّے دبیر نے مولوی شبیر علی کی لمبی شیروانی اور ٹوپی پہن کر مولویانہ انداز میں تقریر شروع کر دی:
’’ہم مسلمان ہیں …… ہمیں رسول اللہﷺ کی سنّتوں پر چلنا ہے۔‘‘
دبیر اعلا تعلیم حاصل کر کے اتنا بڑا ہو گیا کہ شبیر علی نے اسے رشتۂ ازدواج میں منسلک کر دیا اور پھر کبیر آیا۔ ان کے بڑھاپے کا کھلونا۔
اچانک دبیر کا خون میں لت پت بدن انہیں دکھائی دیا، وہ چیخنے کی حد تک چلے گئے۔
کبیر کھیلتے کھیلتے ان کے بالکل پاس آ گیا تھا، ایک انجانے خوف سے سہم کر انہوں نے کبیر کو گود میں لے کر بانہوں میں جکڑ لیا …… کبیر کلبلاتے ہوئے اپنی توتلی زبان میں بولا:
’’دادا جی …… دادا جی …… کیا بات ہے؟‘‘
مولوی شبیر علی نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا:
’’کچھ نہیں …… کچھ نہیں …… تم باہر نہیں جانا‘‘
’’باہر کیا ہے؟‘‘ کبیر نے پھر پوچھا
’’باہر …… شیطان ہے۔‘‘
’’شیطان کیا ہوتا ہے؟‘‘ کبیر بالکل ناسمجھ تھا۔
’’شیطان …… شیطان بھُوت ہوتا ہے۔‘‘ مولوی صاحب نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’بھوت کیا مار دیتا ہے؟‘‘ معصوم کبیر نے معصومانہ سوال کیا۔
’’ہاں! …… ہاں! بھُوت مار دیتا ہے۔‘‘
’’بھُوت ہمیں کیوں مارتا ہے؟‘‘
’’بس یونہی …… مار دیتا ہے‘‘
’’کیوں؟ …… کیوں؟ …… بتائیے نا …… دادا جی …… بتائیے نا‘‘ بچّہ ضد کرتا ہے۔
’’اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں؟‘‘ یہ جواب دینے میں ان پر لرزہ سا طاری ہو گیا۔
’’ہم مسلمان کیوں ہیں؟‘‘
کبیر کے اس سوال پر وہ لاجواب ہو گئے، بے بسی کے عالم میں انہوں نے کہا:
’’تم بولتے بہت ہو …… جاؤ اپنے دادی کے پاس جاؤ‘‘۔
’’آپ بتائیے نا …… ہم مسلمان کیوں ہیں؟‘‘ ننھّے کبیر نے ضد کی۔
’’اچھا سوچ کر بتاؤں گا۔‘‘
’’نہیں آپ کہیے مجھ سے جواب نہیں آتا …… میں ہار گیا۔‘‘
’’ہاں بھئی! میں ہار گیا۔‘‘
’’دادا جی ہار گئے …… دادا جی ہار گئے۔‘‘ کبیر یہ دہراتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔
دادا جی واقعی ہار گئے تھے۔
وہ سوچنے لگے۔ کیا واقعی میں ہار گیا۔ بیٹے کی موت نے مجھے ہرا دیا۔
سوچتے سوچتے وہ سو گئے۔
انہوں نے پھر وہی خواب دیکھا۔
ان کا بیٹا اپنی موت کا واقعہ بتا رہا تھا اور اپنے بیٹے کبیر کی حفاظت کا وعدہ لے رہا تھا۔
مولوی شبیر علی ہڑبڑا کر اُٹھ گئے۔ عجیب کشمکش کا عالم تھا۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
حافظ عبد العزیز اندر آئے۔
’’سب خیریت ہے؟‘‘ بعد سلام کے مولوی شبیر علی نے معلوم کیا۔
’’ہاں! منہ سے کہتے رہیے، خیریت ہے …… خیریت اب کہاں …… الیکشن کے نتائج آپ نے دیکھ لئے …… اور لیڈران کے بیان آپ نے سن لئے ہوں گے۔‘‘ حافظ عبد العزیز نے پُر درد انداز میں کہا۔
’’جی ہاں …… وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا …… جانتے ہیں غریب طبقہ نے اس پارٹی کو ووٹ کیوں دیا…… اس لئے کہ ان کی غریبی دور ہو گئی‘‘
’’وہ کیسے‘‘ حافظ عبد العزیز حیران ہوئے۔
’’فساد میں اتنا سامان لوٹا کہ گھر کے گھر بھر گئے۔ کیا بدلے میں ووٹ بھی نہ دیتے‘‘ مولوی صاحب اتنا کہہ کر کچھ دیر ٹھہرے، پھر بولے:
’’حافظ صاحب اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ الیکشن میں کون جیتتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی غلط شبیہ پیش کر کے جو نفرت پھیلائی جا رہی ہے، اسے ٹھیک کیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان میں اسلام تلوار سے پھیلا۔ اگر تلوار سے پھیلتا تو یہاں مسلمان اقلیت میں نہیں ہوتے۔‘‘ مولوی شبیر علی مولویانہ جوش میں آ گئے۔ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:
’’ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر شور مچایا جا رہا ہے …… کثیر الاولاد ہونے پر بدنام کیا جا رہا ہے …… میں کہتا ہوں سروے کرا کے دیکھیے۔ اس شہر میں کتنے لاکھ مسلمان رہتے ہیں …… کیا آپ کسی کو جانتے ہیں جس کی چار بیویاں ہیں …… چار تو دور کی بات، دو نہیں ملیں گی …… اور گاؤں دیہات میں جا کر دیکھیے، غیر مسلموں کے کتنے بچّے ہیں …… یہ صرف مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ ہے۔‘‘
’’بات تو یہی سچ ہے۔‘‘ حافظ عبد العزیز نے ان کی بات کی تائید کی، تھوڑے وقفہ کے بعد پھر بولے:
’’اچھا وہ سنّت کا کیا معاملہ ہے؟‘‘
’’وہ میرا ذاتی فیصلہ ہے۔‘‘ مولوی شبیر احمد نے بڑے استحکام کے ساتھ کہا۔
’’لیکن مولوی صاحب دین کے معاملے میں ذاتی فیصلے نہیں ہوتے …… اگر ہم ہی سنّتوں کو چھوڑنے لگے تو دین کی کیا شکل بنے گی۔‘‘ حافظ عبد العزیز نے عالمانہ انداز میں کہا۔
’’بہت سی سنتیں ہم سے چھوٹ جاتی ہیں …… کبھی دانستہ …… کبھی نا دانستہ …… کبھی کبھی حالات کے پیش نظر اختیار یا رد بھی کرنا پڑتا ہے، بعض حالات میں مونچھیں رکھنا یا بالوں میں خضاب لگانا بھی جائز بتایا گیا ہے۔‘‘ مولوی شبیر علی ایک ایک لفظ پر زور دے رہے تھے۔
’’مونچھیں رکھنا یا خضاب لگانا دوسری بات ہے، لیکن آج جس سنّت کو چھوڑ رہے ہیں، وہ ہماری انفرادیت ہے، ہماری شناخت ہے۔‘‘
’’میں اپنی شناخت کھونا چاہتا ہوں‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘ حافظ عبد العزیز کو مولوی شبیر علی کی بات پر حیرت ہوئی۔
’’میں اپنے کبیر کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ عبد العزیز کی حیرانی اور بڑھی۔
’’جانتے ہو میرے بیٹے دبیر کی موت ہو گئی۔‘‘
’’جی ہاں! چلتی ہوئی ٹرین سے گر کر۔‘‘ عبد العزیز کا لہجہ کچھ پُر درد ہو گیا۔
مولوی شبیر علی نے ایک آہ سرد بھری۔
’’اُسے چلتی ہوئی ٹرین سے پھینکا گیا تھا۔‘‘
’’آپ کو کس نے بتایا؟‘‘
’’خود دبیر نے۔‘‘
’’جی؟‘‘
’’جی ہاں! اس نے کئی بار خواب میں آ کر مجھے تفصیل بتائی۔ وہ ٹرین میں خاموش بیٹھا تھا۔ لوگ شور مچا رہے تھے۔ پھر ان لوگوں نے اسے پکڑ لیا۔ اس کی پینٹ نیچے کی اور دوسرے ہی لمحے اسے چلتی ہوئی ٹرین سے نیچے پھینک دیا۔‘‘ مولوی شبیر علی یہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔
ننھا کبیر دوڑتا ہوا ان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا:
’’دادا جی …… دادا جی…… مسلمان کی پہچان کیا ہوتی ہے؟‘‘
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...