دھند بڑھتی جا رہی تھی جس کی وجہ سے موسم کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ سردی اور دھند کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک مشہور شاہراہ جہاں رات دیر گئے تک ٹریفک کا رش معمول کی بات تھی آج وہاں بھی اکا دکا گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔
تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک شخص اُس مشہور شاہراہ پر آدھی رات کے وقت ہاتھ میں ایک بریف کیس پکڑے پیدل کہیں جا رہا تھا کہ تیزی سے آتی یکے بعد دیگرے تین گاڑیاں اُس شخص کے اردگرد آ کر رکیں، کچھ لوگ جن کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا، نیچے اترے اور اسے پکڑ کر گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔
دو دن تک اس شخص کا کچھ پتہ نہ چلا۔ دو دن کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ نوجوان لڑکوں نے اُس اغوا ہونے والے شخص کی گمشدگی کی باتیں کرنا شروع کیں جو کہ اصل میں کسی یونیورسٹی میں ایک پروفیسر تھا جس کا حال ہی میں اس شہر میں ٹرانسفر ہوا تھا ۔ تیسرے دن تھانے میں پروفیسر کے یوں اچانک غائب ہونے کی رپورٹ بھی درج کر لی گئی اور باقاعدہ تحقیقات شروع ہو گئیں۔
پروفیسر کے غائب ہونے کی خبر سوشل میڈیا پر تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی۔ پولیس کو بھی ایک ہفتے بعد بالآخر تحقیقات کے نتیجے میں اس شاہراہ کی CCTV ویڈیو مل گئی جس رات پروفیسر کو اغوا کیا گیا تھا۔
دھند کی وجہ سے ویڈیو واضح دکھائی نہیں دے رہی تھی، لیکن اس میں ایک شخص کہیں جا رہا تھا جو شاید پروفیسر تھا اور اس دوران تین گاڑیاں وہاں آکر رکیں جن سے کچھ لوگ باہر نکلے جنہوں نے وہاں چلتے ہوئےاس شخص کو زبردستی اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا اور وہاں سے غائب ہو گئے۔ اب پولیس نے ایف آئی آر درج کر کے اس واقعے کی چھان بین شروع کر دی اور اس دوران تک سوشل میڈیا پر یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ سوشل میڈیا سے پھر یہ معاملہ سیدھا الیکٹرانک میڈیا پر بحث ہونا شروع ہو گیا۔
” ایک پروفیسر جن کا نام ڈاکٹر آزاد بتایا جا رہا ہے ان کو ایک مصروف شاہراہ سے تین گاڑیوں میں سوار کچھ لوگوں نے رات کے وقت اسلحے کے زور پر اغوا کر لیا اور اس واقعے کو گزرے آج پورے دس دن ہو چکے ہیں لیکن ڈاکٹر آزاد کا اب تک کچھ پتہ نہیں چل سکا، اُن کی اِس پراسرار گمشدگی اور اغواء کو لے کر ان کے طالب علموں میں بہت غم و غصہ پایا جا رہا ہے جنہوں نے اپنے استاد کی بازیابی کے لئے احتجاج کرتے ہوئے چیتاونی دی ہے کہ اگر انہیں دو دن کے اندر اندر بازیاب نہیں کرایا گیا تو ان کا احتجاج سنگین صورت اختیار کر لے گا”
کچھ ہی دنوں میں پروفیسر آزاد کے اغوا کی خبر تمام میڈیا چینلز کی زینت بن گئی اور دوسری طرف اُن کے طالب علموں کی طرف سے احتجاج زور پکڑتا جا رہا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر آزاد کی ایک طالبہ رافیعہ کر رہی تھی جو کہ ایم فل میں پڑھتی تھی۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا احتجاجی مظاہروں کا دائرہ کار بڑھتا جا رہا تھا۔ اب تقریباً پورا ملک ڈاکٹر آزاد کی بازیابی کی بات کر رہا تھا۔
دو ہفتے گزر جانے کے باوجود بھی پولیس اپنی تحقیقات میں مکمل طور پر ناکام تھی کیونکہ پروفیسر آزاد کے حوالے سے پولیس کو اب تک کوئی ایک سراغ بھی نہ مل سکا۔ یہاں تک کہ پولیس یہ بھی معلوم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی کہ پروفیسر آزاد زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ڈاکٹر آزاد کے حق میں آواز بلند کی جا رہی تھی۔ اب مقامی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ملکی باگ ڈور سنبھالنے والے بڑے بڑے وزیروں کے لئے بھی یہ مسئلہ ایک بہت بڑا معمہ بن چکا تھا۔ اپوزیشن نے بھی اس معاملے پر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان پر شدید تنقید کے تیر برسائے کہ معلمی کے پیشہ سے وابستہ افرادفرد جو معاشرے کے لوگوں کو باشعور بنا کر جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کے نور سے منور کرتے ہیں، آج وہ لوگ بھی ہمارے معاشرے میں محفوظ نہیں ہیں۔
عوام کا غم و غصہ دیکھتے ہوئے حکومت کے ایک نامور وزیر نے جلد از جلد پروفیسر آزاد کی بازیابی کی یقین دلانی کرائی اور عوام سے پر امن رہنے کی درخواست کی۔
“ہمارے سر ایک ہنس مکھ انسان تھے جو ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے، ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی، وہ تو آج تک اپنے کسی طالب علم سے غصے میں نہیں بولے، میری آپ سب دیکھنے والوں سے گزارش ہے کہ صرف ٹی وی پر نہ دیکھیں گھروں سے باہر نکلیں اور پروفیسر آزاد کے حق میں آواز بلند کریں”
رافیعہ ٹی وی چینل کے رپورٹر کو انٹرویو دینے کے بعد دوبارہ احتجاجی مظاہرے میں شریک ہو گئی۔
وہ رپورٹر جب اپنی گاڑی کی طرف جانے لگا تو اسے موبائل پر ایک پیغام موصول ہوا جسے پڑھتے ہی اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، اس نے پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھا اور چپکے سے احتجاجی مظاہرے سے نکل گیا۔
شہر سے دور یہ کوئی ریگستانی علاقہ تھا۔ انسانی آبادی تو دور کی بات یہاں کوئی جانور تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ سردی کا موسم ہونے کے باوجود بھی سورج کی تپش اتنی تھی کہ سورج کی روشنی میں زیادہ دیر کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا۔ اُس رپورٹر نے موبائل پر موصول ہونے والی تصویر کو دوبارہ غور سے دیکھا اور سامنے پڑے ایک ڈبے کی طرف چل پڑا۔ ڈبے کے بالکل پاس پہنچ کر اس نے ڈرتے ہوئے چاروں اطراف دیکھا اور ڈبے کے اندر پڑی USB اٹھا کر جیب میں ڈالی اور بھاگتے ہوئے گاڑی کی طرف پہنچا۔
گاڑی کے اندر بیٹھ کر اس نے لیپ ٹاپ پر وہ USB لگائی اور اس کے اندر موجود ویڈیو کو دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔ پہلے ہی ڈر کے مارے تیز رفتاری سے چلتی اس کی سانسیں ویڈیو دیکھنے کے بعد مزید تیزی سے چلنا شروع ہو گئیں۔ اس نے پاس رکھی پانی کی بوتل اٹھائی اور ڈھکن کھول کر غٹاغٹ سارا پانی ایک ہی سانس میں پی گیا۔ پریشانی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات اس رپورٹر کے چہرے پر واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔ واپس جاتے ہوئے اس نے کسی کو فون کیا اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد وہ ایک مشہور چینل کے ہیڈ آفس پہنچ گیا جہاں پر چینل کا مالک پہلے ہی اس کا منتظر تھا جسے فون پر وہ پہلے ہی سب کچھ بتا چکا تھا۔
” ناظرین اِس وقت ہم آپ کو ایک بہت بڑی بریکنگ نیوز دے رہے ہیں، پچھلے دو ہفتوں سے جس شخص کی بازیابی کے لئے پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، اغواء کاروں کی جانب سے بالآخر ہمیں ایک ویڈیو پیغام موصول ہوا ہے جو ابھی دس منٹ کے بعد فقط ہمارے ہی چینل پر نشر کیا جائے گا، تو آج کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز کو جاننے کے لئے ہمارے ساتھ جڑے رہیں”
اگلے دس منٹ تک ٹی پر فقط اِسی بات کی تشہیر کی گئی۔
” آئیے ناظرین آپ کو لئے چلتے ہیں اغواء کاروں کی طرف سے موصول ہوئی پروفیسر آزاد کی ویڈیو کی طرف” ۔
فرش پر پڑا ایک شخص، جس کے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف بندھے ہوئے تھے، ابھی تک تھری پیس سوٹ میں ہی ملبوس تھا۔ جس پر جگہ جگہ مٹی لگی ہوئی تھی۔ لمبے بالوں نے اس کے چہرے کو چھپایا ہوا تھا۔ اسلحہ تھامے ایک نقاب پوش آیا اور فرش پر بندھے پڑے اُس شخص کو بالوں سے پکڑ کر سیدھا کیا تو اُس کا چہرہ نظر آیا جس پر تشدد کے نشانات واضح طور پر نظر آ رہے تھے۔ اس کے باوجود بھی اس کا خوش شکل ہونا اس کی شخصیت کو بہت منفرد بنا رہا تھا۔ ابھی اس شخص کی ویڈیو چل ہی رہی تھی کہ یکدم گولی کے چلنے کی آواز آئی اور ویڈیو بند ہو گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...