تم کالج نہیں گئی درِفشاں کو کمرے سے نکلتے دیکھ کر مبشرہ بیگم نے حیرت سے پوچھا،تو وہ نفی میں سر ہلا کر ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ گئی۔
“تمہارا تو ٹیسٹ تھا نہ آج”، مبشرہ بیگم کو حیرت ہوئی کیونکہ وہ کوئی ٹیسٹ مس نہیں کرتی تھیں۔
“جی میری طبیعت نہیں تھی ٹھیک سر میں درد تھا تو اس لیے تیاری نہیں کر سکی”۔
“ہوں۔۔۔تم ناشتہ کرو میں پھر تمہیں کوئی پین کلر دیتی ہوں”۔
“ساری رات وہ سو نہیں سکی تھی جو باتیں اس نے اجالا کے سامنے کی تھیں سب کے سامنے کہنے کی اس میں ہمت نہیں تھی ہو رہی کیونکہ اسے اپنے باپ سے ڈر لگتا تھا اگر یشب نے ساری باتیں ابو کو بتا دی تو بس یہی پر آکر اس کی ہمت جواب دے جاتی تھی”،درِفشاں نے پریشانی سے اپنی پیشانی مسلی۔
“درِفشاں میں نے تمہارے ابو کے لیے سوپ بنانا ہے چکن بھی نہیں ہے کل سے تمہارے ابو کو بخار ہے اور کوئی دوائی بھی نہیں ہے ،تم ایسا کرو ارصم اس وقت گھر ہو گا تو اسے بولو دوکلو چکن اور یہ دوائیاں لا دیں”مبشرہ بیگم نے دوہزار روپے اور دوائیوں کا پرچہ اسے تھمایا۔
“امی میں!!!”،درِفشاں بے زاری سے بولی۔
“ہاں یہ ساتھ والے گھر ہی تو جانا ہے ،پیچھے سے لان والے دروازے سے چلی جاوٴ اور جلدی کرو ابھی تمہارے ابو اٹھے تو بھوک بھوک کا شور مچا دے گے”،مبشرہ بیگم کہہ کر پلٹ گئی۔
درِفشاں نے بےزاری سے سر جھٹکا کیونکہ وہ اس وقت کسی سے بھی بات نہیں چاہتی تھی اس نے ایک نظر دواوٴں کی پرچی کو دیکھا۔
_____________________
درِفشاں لان کے دروازے سے ہو کر افتخار صاحب کے پورشن میں داخل ہوئی اس کا ارادہ کچن کے دروازے سے ہو کر اندر جانے کا تھا لیکن جب کھڑکی کے پاس پہنچی تو اندر سے ارصم اور جائشہ کی آوازیں آرہی تھی اس نے کچن کا دروازہ کولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو جائشہ کے منہ سے اپنا نام سن کر رک گئی۔
“کل آپ درِفشاں کے ساتھ بیٹھ کر کون سے رازونیاز کر رہے تھے”،جائشہ کا بات کرنے کا انداز بہت عجیب تھا۔
“کیوں تم میری جاسوسی کر رہی تھی”۔
“جاسوسی تو نہیں تھی کر رہی لیکن مجھے لگتا ہے اب کرنی پڑے گی اور امی کو بھی آپ کی حرکتوں کے بارے میں آگاہ کرنا پڑے گا”۔
“ایسی کوئی بات نہیں جو تم بتنگڑ بنا رہی ہو”،ارصم نے سر جھٹک کر کہا۔
“پھر سیدھے سیدھے بتائے کیا باتیں کر رہے تھے”۔
“بس برین واشنگ کر رہا تھا”۔
“برین واش!!میں سمجھی نہیں”،جائشہ نے زور سے دہرایا۔
“میں بس یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یشب کے ساتھ جو اس کی منگنی کا فیصلہ کیا گیا تھا وہ سرا سر اس کے ساتھ زیادتی ہے”۔
اس کی بات سن کر جائشہ زور سے ہنسی۔
“یہ آپ کو اتنی ہمدردی کیوں ہو رہی ہے اور اپنے دوست کی منگنی کیوں تڑوانا چاہتے ہیں”۔
“دوست!!!ارصم نے زہر خندہ آواز میں کہا،دوست نہیں دشمن ہے وہ میرا اگر اس دنیا میں مجھے کسی سے نفرت ہے تو وہ یشب ہےبچپن سے لے کر آج تک میں نے اس سے حسد اور نفرت کے سوا کچھ نہیں کیا اور دوستی تو صرف مطلب کے لیے تھی کیونکہ آج تک ابو نے ہمیں ترسانے کے سوا کچھ نہیں کیا وہ یشب بھی تو اسی خاندان کا حصہ ہے نہ لیکن اس کا لائف سٹا ئل دیکھا تھا تم نے کیا شہزادوں کی طرح زندگی گزارتا ہے جبکہ میں ہمیشہ اس کی اترن پہنتا رہا۔
کالج میں سکول میں ہر کوئی اسے پسند کرتا تھا اور میں لڑکیوں سے دوستی کرنے کے لئے ترستا تھا اور لڑکیاں اس سے بات کرنے کے لیے مرتی تھیں پر وہ اسے احساس تھا اپنی اہمیت کا”۔ارصم نے نہوست سے کہا۔
“میں نے سوچ لیا تھا کہ میں اسے سب کی نظروں سے گرادوں گا،پھر میں نے اس کے نام سے اس کے موبائل سے لڑکیوں کے ساتھ دوستی کرنا شروع کردی”۔
“ہر الٹا کام کرنے کے بعد اس پر الزام لگا دیتا پہلے تو وہ سمجھ ہی نہیں سکا لیکن جب سمجھ آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی،چاچو نے اسے مارا اور امریکہ بھیج دیا لیکن وہ اپنی پوزیشن کلیئر نہ کر سکااسے یہ پتا چل گیا تھا کہ یہ سب میں نے کیا ہے اور میں انتظار کرتا رہا کہ وہ مجھ سے لڑنے آئے گالیکن اس نے دوبارہ مجھ سے کوئ بات نہ کی اور امریکہ چلا گیا اور مجھے لگا کہ وہ سب بھول گیا لیکن جب پانچ سال بعد میں نے اسے دیکھا تو وہ بہت خوش تھا اور اس کی خوشی کی وجہ درِفشاں تھی۔
“میرا خیال تھا وہ درِفشاں سے منگنی کا سن کر خوش نہیں ہوگا اور یہی دیکھنے میں گیا تھا لیکن وہاں تو سب الٹ تھا وہ تو درِفشاں کا ساتھ پانے پر بہت خوش تھا اور بس یہی خوشی مجھے اس سے چھیننی ہے”.
باہر کھڑی درِفشاں تو جیسے زلزلوں کی زد میں تھی اس نے اگر ہاتھ دیوار پر نہ رکھا ہوتا تو اب تک زمین بوس ہو چکی ہوتی اس کی ٹانگیں لرز رہی تھیں۔
ہوں!!جائشہ نے ارصم کی بات پر ہنکار بھرا، “کیا درِفشاں آپ کی بات مان جائے گی؟”
ارے وہ۔۔۔ ارصم قہقہ لگا کر ہنسا۔
“وہ تو ایک نمبر کی بےوقوف ہے اسے بےوقوف بنانا کون سا مشکل کام ہے ،میں نے جو امیج یشب کا بنایا تھا وہ اس کے زہن میں پہلے ہی بنا ہوا تھا بس اس امیج کو مضبوط بنا آیا ہوں،بلکہ ساتھ ایک پُر کشش آفر بھی دے آیا ہوں اپنا پرپوزل”،ارصم مزے سے بولا۔
“دماغ خراب ہے بھائی آپ کا ابھی امی کو پتا چلا نہ تو آپ کا سر پھاڑ دے گی،آپ جانتے ہیں نہ کہ امی کواجالا اپی اور درِفشاں سے کتنی چڑ ہے،ابھی تک تو فائق بھائی کے رشتہ ہونے کی وجہ سے ناراض ہیں”۔
پاگل ہو میری بہنا! میں کون سا اس سے شادی کروں گا یہ چارہ تو منگنی تڑوانے کے لیے کیا ہے”اِدھر منگنی ختم اُدھر میں مکرا”۔
“بھائی آپ کولگتا ہے کہ آپ کا پرپوزل پُرکشش آفر ہے اگر دیکھا جائے تو یشب شکل ،تعلیم دولت ہر لخاظ سے آپ سے بہتر ہے”،جائشہ نے ارصم کا مزاق اُڑایا تھا اورجو ارصم کو کافی بُرا بھی لگا تھا۔
یہی بات تو میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ہر لحاظ سے مجھ سے بہتر ہونے کے باوجود بھی درِفشاں کو حاصل نہیں کر سکتا،اور جب وہ اس پر مجھے ترجیح دے گی تو اس وقت اس کا چہرہ دیکھنے والا ہوگا اور مجھے شدت سے اس دن کا انتظار ہے”۔
بے چاری درِفشاں!!!جائشہ کے کہنے پر اس نے دونوں کو ہنستے سنا۔
اب مزید سننے کی درِفشاں میں سکت نہ تھی اب ویسے بھی سننے کو رہ گیا تھا وہ بڑی مشکل سے اپنی ٹانگوں کو گھسیٹتی گھر تک پہنچی تھی شکر ہے اس کا سامنا مبشرہ بیگم سے نہیں ہوا تھا کمرے میں آکر وہ گرنے کے انداز پر بیڈ پر بیٹھ گئی اسے لگ رہا تھا کہ اس کا سانس بند ہو جائے گااور لمبے لمبے سانس لینے لگی۔
کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے وہ بھی اس کا اپنا کزن،اتنی نفرت ،اتنا حسد کہ دو زندگیاں برباد کرنے ہر تُل گیا،اب اس کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونا شروع ہوگےجو کہ اب آنکھوں سے نکل کر بالوں میں جزب ہو رہے تھے۔
قصور کسی کا نہ تھا قصور اس کا اپنا تھا جو “کانوں کی کچی اور دماغ کی کمزور تھی”،کوئی لمحہ اس کی گرفت میں ایسا نہیں تھا آیا جب یشب کو فلڑت کرتے دیکھا ہوہاں وہ مزاق کرتا تھا پر وہ بھی تو آگے سے جواب دیتی تھی اجالا نے اسے کتنا سمجھایا تھا پر وہ نہ سمجھی،اب اس کوبار بار یشب کی خود پر جمعی نظریں یاد آرہی تھی اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں ڈھانپ لیا۔
“اب کیا ہوگا میں کیا کروں گی”،درِفشاں اُٹھ کر بیٹھ گئی اجالا بھی یہاں نہیں تھی نہیں تو وہ یشب سے بات کر سکتی تھی لیکن یشب اس سے اتنا ناراض ہو چکا تھا کہ وہ اجالا سے بھی بات نہیں کر رہا تھا وہ اجالا کا نمبر ملانے لگی لیکن اس کا نمبر بند جا رہا تھا۔
_____________________
درِفشاں نے آنکھیں کھولی تو پورے کمرے میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا شاید وہ روتے روتے سو گئی تھی اس نے اُٹھ کر سوئچ آن کیا روشنی سارے کمرے میں پھیل گئی تھی شام کے سات بج رہے تھے وہ ہاتھوں سے بال سیدھے کرتے ہوئے باہر آگئی تھی تو باہر مبشرہ بیگم صوفے پہ پریشان ہو کر بیٹھ تھیں۔
کیا ہوا امی!ان کے انداز پر بے ساختہ اس نے پوچھا۔
“میں صبح سے اجالا کوکال کر رہی ہوں لیکن فون بند جا رہا ہے پھر میں نے سوچا میٹنگ میں ہو گی بعد میں کر لے گی لیکن اب تو رات ہوگئی ہے اب تک تو اسے آجانا چاہئے تھا”۔
“آپ نے ان کے کسی کولیگ کا نمبر ٹرائی کیا ہے”۔
ہاں ایک دوسہلیوں کا کیا ہےپتا ہے ایک تو ساتھ گئی نہیں اور جو گئی ہے اس کا نمبر بند جا رہا ہے۔
“ابو کو بتایا آپ نے”، درِفشاں نے پریشانی سے کہا۔
“نہیں وہ سوئے ہوئے ہیں اللّه کرے ان کے اُٹھنے سے پہلے گھر آجائے”۔
لیکن ایسا کچھ نہیں تھا ہوا رات کے گیارہ بج گئے تھے اور اس کا فون مسلسل بند جا رہا تھا خالد صاحب نے کچھ دیر انتظار کیا پھر انہوں نے فون کر کے سرفراز صاحب اور افتحار صاحب کو بلالیا اور اب وہ سب یہاں موجودتھے وہ لوگ پہلے ہی پریشان تھے اوپر سے افراء بیگم کی فضول گوئی جاری تھی ان کی ہر بات پر زرینہ لاحول ولا پڑھ رہی تھیں جبکہ مبشرہ کا رورو کر بُرا حال تھا۔
یشب اور فائق اجالا کے آفس اور ائیرپورٹ کے کئی چکر لگا آئے تھے رات کا ایک بج گیا تھا اور سب ڈنڈھال ہو گے تھےسب کے دماغ میں بُرے بُرے خیال آرہے تھے سوائے چار لوگوں کے،جائشہ، ارصم فائق اور افراء بیگم، فائق کب سے اپنا غصہ دبائے بیٹھا تھا اور ڈیڈھ بجے تو وہ پھٹ پڑا تھا۔
بس یہی رونا تھا اسی لئے میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ جاب کرے” لیکن وہی اس کی خودسری اور ڈھٹائی “،فائق کے کہنے پر سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔
میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ یہ لڑکی ہم جیسی نہیں پر تمہارے باپ پر تو بھتیجی کا بھوت سوار تھا ،کر گئی نہ منہ کالا پہلے جاب کے بہانے عشق لڑاتی رہی اب میٹنگ کا بہانہ کرکے گھر سے بھاگ گئی عاشق کے ساتھ”۔
مبشرہ بیگم اور درِفشاں نے تڑپ کر افراء بیگم کی طرف دیکھا اور دوسری شکایتی نظر باپ پر ڈالی جو جو پتا نہیں کیا سوچ رہے تھے ،سن بھی رہے تھے یا نہیں۔
“بند کرو اپنی بکواس”، افتخار صاحب دھاڑے۔
“پہلے میں چُپ ہی تھی لیکن آج میں بولوں گی ،میں ایسی گری ہوئی لڑکی کو کبھی اپنی بہو نہیں بناوْں گی”۔
“امی آپ کیا منع کرے گی میں خود انکار کرتا ہوں،میں ایسی بد کردار لڑکی سے شادی نہیں کروں گا جو راتوں کو جاب کا بہانہ بنا کرباہر رہے اور اگر شادی کے بعد بھی ایسا کرتی تو میں زرا لخاظ نہ کرتا کھڑے کھڑے طلاق دے دیتا”۔
“میں کہتا ہوں خاموش ہو جاوٴ تم سب لوگ”،افتخار صاحب چیخے۔
فائق نے ہونٹ بھینچ لیے جبکہ افراء بیگم نے منہ دوسری طرف کر لیا۔
_____________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...