افلاک کے پردوں سے جاری ہوا فرمان
والعصر خسارے ہی خسارے میں ہے انسان۔
گاڑی اس کے گھر کے باہر رکی ۔ فائل پر جھکی ارسا نے سر اٹھایا۔ اس کی نظر گھر کے باہر گارڈن میں کھڑے زالان پر پڑی ۔ اس نے فائل بند کی اور گاڑی سے باہر نکلی ۔ ڈرائیور کو اندر جانے کا اشارہ کیا اور خود گارڈن کی طرف بڑھی ۔ زالان بھی اسے دیکھ چکا تھا سو اس کے پاس آیا۔ لال اور کالے رنگ کے کنٹراس پر ٹی شرٹ پہنے کالی پینٹ پہنے وہ جیل والے زالان سے مختلف لگ رہا تھا ۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ارسا اس کے قریب آئی۔
مجھے زیادہ دیر تو نہیں ہوئی۔ اس نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
نہیں میں بس ابھی آیا تھا۔ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا
سہی ۔۔ اندر آجاؤ۔ یہ کہ کر وہ واپس مڑی اور اندر چلی گئی ۔ زالان اس کی پشت دیکھ کر رہ گیا۔
میم آپ کو اندر بلارہی ہیں ۔ کچھ دیر بعد گارڈ اس کے پاس آیا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا اور اندر کی طرف بڑھا۔ دروازے سے اندر داخل ہو کر اس نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا۔ بڑا سا بینگلو جس کے سائیڈ میں لان میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر وہ بیٹھی تھی ۔ زالان اس کی طرف آیا اور کرسی پر بیٹھا ۔
جلدی بولو سن رہی ہوں ۔ اسے خاموش دیکھ کر ارسا نے کہا۔
آپ میری ایک بات مانیں گی ۔ اس نے جھجھکتے ہوئے کہا
ارسا نے ایک آئیبرو اوپر اٹھائی۔
بات بتاؤ مسٹر پہیلیاں نہ بجھواؤ ۔ اس نے تیز لہجے میں کہا۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ کچھ عرصے کے لیئے یہ ملک چھوڑ دیں آپ کہیں دور چلی جائیں ۔ اس نے جلدی جلدی کہا
ارسا نے حیرت سے اسے دیکھا۔
مسٹر زالان حیدر تم بھول رہے ہو کہ میں تمہارے کیس کی جج رہ چکی ہوں ۔ ابھی اگر اپنے ہی فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں چلی گئی نا تو تم اپنی زبان کی وجہ سے پھانسی کے تختے پر ہوگے ۔ زالان نے سر جھکایا۔
ویل مجھے یہ بتاؤ کہ میں یہاں سے کیوں چلی جاؤں وجہ ؟ اس نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا۔
اگر میں آپ کو وجہ نہ بتاؤں تو۔۔؟ارسا کا دل کیا وہ سامنے بیٹھے اس شخص کا سر پھاڑ دے ۔
مسٹر پہلے تو تم میری جاسوسی کرواتے ہو پھر تم میرے آفس آتے ہو کی مجھے آپ سے بات کرنی ہے لیکن یہاں نہیں پھر تم میرے گھر آکر کہتے ہو میں اپنا ملک چھوڑ کر کہیں دور چلی جاؤں ۔ اور وجہ بھی نہیں بتانی ۔ لگتا ہے جیل میں تم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے ہو۔ اس نے طنز بھرے لہہجے میں کہا۔
بات سمجھنے کی کوشش کریں میں آپ کو وجہ نہیں بتا سکتا ۔ زالان نے الجھ کر کہا
ٹھیک ہے جب تمہارا دماغی توازن ٹھیک ہوجائے پھر میرے پاس آنا ۔ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
پرسوں رات اگر وجہ بتانا چاہو تو اس ایڈریس پر آجانا۔ اس نے ایک کاغذ اس کی طرف بڑھایا ۔ اور اسے گھورتے ہوئے جانے کے لیئے مڑی ۔
سنو۔ زالان نے اس کی طرف دیکھا۔
تمہاری کوئی بہن ہے ؟ زالان کے گلے میں گلٹی ابھری ۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔
نام؟ اس نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا۔
فاطمہ۔ ارسا چونکی ۔
کہاں ہے؟
جب پتا چلا تو آپ کو ضرور بتاؤں گا ۔ یہ کہ کر وہ باہر چلا گیا ۔ ارسا نے حیرت سے اسے دیکھا تھا ۔ اس کا شک صحیح تھا ۔ ایک آنسو اس کے گال پر پھسلا تھا ۔
اللہ تعالیٰ پلیز میری مدد کریں ۔ اس نے سر اٹھا کر کہا ۔ اور اندر کی طرف بڑھ گئی ۔
———- ———–
غم زندگی تیری راہ میں
شب آرزو تیری چاہ میں
جو اجڑ گیا وہ بسا نہیں
جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں
زالان ۔۔زالان کہاں ہو بات سنو۔ اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے زالان کے کانوں سے ہادی کی آواز ٹکرائی۔
ہاں بولو کیا بات ہے ؟ اس نے اندر آتے ہوئے کہا
یہ دیکھو ۔ تم نے بالکل درست فرمایا تھا۔ ہادی نے لیپ ٹاپ اس کے آگے کیا۔
انصاف مہم کی لیڈر سیشن جج ارسا ہاشم بن گئی ہے ۔ ہادی نے جلے بھنے انداز میں کہا۔
جانتا ہوں ۔۔
تو۔۔۔۔۔اب؟ اس نے کھوئے کھوئے انداز میں پوچھا۔
اب یہ کہ حسیب کمانڈر کے آرڈرز کا انتظار کرنا ہے ۔ ہادی نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
ہادی تمہیں نہیں لگتا کہ ہم یہ ٹھیک نہیں کر رہے۔ ہادی کی پیشانی پر بل آئے۔
کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ ہم لوگ اپنے ملک کے دشمنوں کے خلاف ایک ہونے کے بجائے اپنے ہی لوگوں کو مار رہے ہیں ۔ حسیب کمانڈر کو لگا کہ شاید چیف جسٹس کو مار کر وہ اس مہم کو ختم کرسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ہادی وہ لوگ نہیں رکیں گے آخر ہم کتنی جانیں لیں گے؟ اس نے سر جھکا کر کہا
کل چیف جسٹس آج ارسا آئندہ کوئی اور ۔ ہم اپنے ہی ہم وطنوں کے خون سے اپنے ہاتھ کب تک رنگیں گے ؟ اس نے دھیمے لہجے میں کہا ۔
تم کہاں سے آرہے ہو ؟ ہادی نے اپنے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر پوچھا۔
میں۔۔۔ بس یہیں پارک گیا تھا۔ اس نے جلدی سے کہا مبادہ پکڑا ہی نہ جائے
اچھاااا۔۔۔۔۔چلو میں نے مان لیا۔ اور میری بات غور سے سنو یہ سب باتیں ہمارے کمانڈرز کے سوچنے کی ہیں ہمارا کام جو آرڈرز ملیں ان پر عمل کرنا ہے ۔ سمجھے؟ زالان نے بے بسی سے اسے دیکھا ۔
ہادی ایک وعدہ کرو مجھ سے۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا۔
تم۔۔۔۔تمہیں اگر آرڈرز بھی ملیں تب بھی تم ارسا کو نہیں مارو گے۔ ہادی چونکا
زالان صاحب خیر تو ہے آج کیا ہوا تمہیں الٹی سیدھی باتیں کیوں کر رہے ہو ؟ ہادی کھڑا ہوا تھا ۔
میں ٹھیک ہوں بس تم وعدہ کرو تم اسے نہیں مارو گے ۔ اس نے جلدی جلدی کہا
کیوں نا ماروں میں اسے حتیٰ کہ اگر آرڈرز آجائیں تب بھی ؟ ہادی نے تیز آواز میں کہا
میں نہیں جانتا ۔لیکن پتا نہیں کیوں ارسا مجھے جانی پہچانی لگتی ہے یوں لگتا ہے جیسے میں اسے جانتا ہوں ۔ اور ۔۔اور اس کی آنکھیں وہ بالکل فاطمہ جیسی ہیں ۔ ہادی بالکل ویسی ہیں ۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ارسا کا اور فاطمہ کا آپس میں کوئی گہرا کنیکشن ہو کوئی تعلق ہو ۔ تیز تیز بولتے وہ شاید خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا بول رہا ہے ۔ اس کے سر پر کھڑا ہادی حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔
تمہاری ان فضول باتوں کی فی الحال مجھے سمجھ نہیں آرہی ۔ شاید جیل نے تمہارے دماغ پر اثر کیا ہے ۔ تھوڑا فریش ہو جاؤ ۔ میں آتا ہوں تھوڑی دیر میں۔ اس نے مڑتے ہوئے کہا۔
اور ایک بات یاد رکھنا زالان ! ہم آرڈرز کے خلاف نہیں جاسکتے ۔ یہ کہ کر وہ چلا گیا ۔ جبکہ پیچھے زالان نے اپنی آنکھوں میں آئے پانی کو صاف کرتے ہوئے اپنا سر گھٹنوں میں ٹکا دیا۔۔۔نجانے اس کی زندگی کس ڈور میں چل رہی تھی جہاں وہ بکھرتا جا رہا تھا۔۔۔۔
————- ——–
منزل نہ رہی، ساحل نہ رہا
ساحل کی تمنا بھی نہ رہی
اے پوچھنے والے ظاہر ہے
انجام ہمارا کیا ہوگا۔
آپی ؟اسے موبائل میں لگا دیکھ کر بور ہوتی زینب نے اسے بلایا
ہمم بولو؟مصروف انداز میں جواب آیا ۔
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم سب اس حال میں کیوں ہیں ؟ ارسا نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
مطلب کہ ہمارا ملک ترقی پذیر ممالک (سست رفتاری سے ترقی کرتے ممالک) میں شامل ہو رہا ہے غربت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ سیاست ایک گھناؤنا کھیل بن چکا ہے۔ اناڑی لوگ حکمران بن بیٹھے ہیں ۔ اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک مغربی طرز پر چل رہا ہے ۔ لوگ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔سکون یا امن تو صرف جوک بن کر رہ گئے ہیں ۔ زینب نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
اصل میں ۔۔ہر چیز کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں ۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اسے کن نظروں سے دیکھتے ہو ۔ اسی طرح ان سب باتوں کی بھی بہت سی وجوہات ہیں ۔ اب میں ایک جج ہوں تو مجھے لگے گا کہ یہ سب ناانصافی کی وجہ سے ہے لیکن یہ سب صرف ناانصافی کی وجہ سے نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر میرے خیال سے اس سب کی ایک اور وجہ ہے۔ اس نے دھیمے لہجے میں زینب کو سمجھاتے ہوئے کہا
فرقوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو لوگوں کے دو طبقے ہیں ۔ ایک دیندار اور دوسرے دنیادار۔ دیندار وہ جو اسلام کے لحاظ سے اس دنیا میں چلتے ہیں ۔ وہ صرف اسلام کو دیکھتے ہیں دنیا کو سائیڈ پر کر دیتے ہیں اور دنیادار وہ جو دنیا کے کہنے پر چلتے ہیں وہ دین کو بھول جاتے ہیں انہیں صرف دنیا سے مطلب ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک کا یہ حال ایسے لوگوں کی وجہ سے بھی ہوا ہے ۔ کیونکہ جو دیندار لوگ ہیں وہ دنیا کو بالکل نہیں دیکھتے جس کی وجہ سے وہ سیاست میں نہیں آتے اور پھر دنیادار ہمارے حکمران بن جاتے ہیں جن کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ پھر ظاہر ہے جب ایسے لوگ ہمارے حکمران بنیں گے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق حکمرانی نہیں کریں گے تو ہمارے ملک کا یہ حال تو ہونا ہی ہے ۔ زینب نے اس کی بات سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
تو پھر ان میں بہتر یا اچھے لوگ کون ہیں؟
وہ جو دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔ یہ کام تھوڑا مشکل ہے لیکن ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہیں ۔
(کوئی بھی کام آسان نہیں ہوتا اسے آسان بنانا پڑتا ہے ۔) اس کے کانوں میں حدید کی آواز گونجی ۔
اور جانتی ہو زینب کوئی بھی کام آسان نہیں ہوتا اسے آسان بنانا پڑتا ہے۔ اس نے کہا ۔
اب مجھے نیند آرہی ہے میں سونے جارہی ہوں ۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا
ایگاجلار ایفندے(شب بخیر جناب) زینب نے ہنستے ہوئے کہا
ارسا بھی مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ چمکتے چاند اور دمکتے ستاروں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر گہری سانس لی ۔ قسمت مسکرائی ۔ یہ خاموشی ایک بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی ۔۔۔۔۔
————- ———–
بدلے ہیں یوں حالات کے حیران کھڑے ہیں،
ہم اپنی وفاوں پر پشیمان کھڑے ہیں،
موجوں کے طلاطم سے نکل جاوں میں کیسے
ساحل پر میری تاک میں طوفان کھڑے ہیں
رات کا اندھیرا چھٹ چکا تھا ۔ ایک اور روشن صبح آگئی تھی ۔ کورٹ روم سے باہر نکل کر وہ اب کاریڈور میں چل رہی تھی ۔ لانگ کوٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالےنقاب سے جھانکتی بڑی بڑی آنکھیں سامنے مرکوز کیئے وہ آفس کے اندر آگئی ۔ ٹیبل کی طرف مڑتے ہوئے اس کی نظر سفید رنگ کے اس باکس پر پڑی ۔ اس نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ پھر راکنگ چیئر پر بیٹھ کر اس نے سفید رنگ کے باکس کو کھولا ۔
اندر شیشے کا ایک فریم پڑا تھا ۔ سائیڈ میں کچھ چاکلیٹس پڑی تھیں ۔ اس نے نقاب ٹھوڑی پر ٹکایا ۔ اور چاکلیٹ کا ریپر اتار کر چاکلیٹ منہ میں ڈالا ۔ پھر اس فریم کو اٹھا کر سیدھا کیا ۔ اس میں ایک تصویر لگی تھی ۔ ڈائس کے پاس کھڑی نقاب لگائے سنجیدگی سے بولتی ارسا ہاشم ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بہیرا یونیورسٹی میں تقریر کرتا اپنا چہرہ لہرایا ۔وہ مسکرائی ۔ اس نے باکس پر لگا کارڈ اٹھایا ۔
اس مغرور لڑکی کے نام جو ماہر ہے دوسروں کے موبائل چھیننے میں ، جو منفرد ہے سب میں ۔۔ اس لڑکی کو لیڈرشپ بہت بہت مبارک ہو۔ میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ۔۔۔ ہادیہ ۔۔۔ اس نے کارڈ کو سائیڈ پر رکھا اور ٹیبل پر سر ٹکا دیا ۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ آفس کا دروازہ ناک ہوا۔
یس ۔
دروازہ کھلا اور بلیک کوٹ پینٹ میں ملبوس مسکرتا ہوا حدید اندر داخل ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں سیاہ رنگ کا باکس تھا ۔
اسلام و علیکم ۔ اس نے باکس کو ٹیبل پر رکھا۔
وعلیکم سلام ۔ ارسا نے ایک نظر اس باکس کو دیکھا ۔
یہ تمہارے لیئے ۔ باکس اس کی طرف کھسکایا گیا ۔ اس نے آگے بڑھ کر باکس کو لیا اور کھولنے لگی ۔
اندر ایک سمپل اور پیارا جگمگاتا تاج رکھا تھا ۔ ہلکے گولڈن کلر کا وہ تاج اسے بہت اچھا لگا تھا ۔ اس نے باکس کے اوپر لگے کارڈ کو کھولا ۔
” ظالم ملکہ کے لیئے ! جو بنا تاج کے بالکل اچھی نہیں لگتی ۔ ”
کیسا لگا ؟ حدید نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا
ارسا نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر کرسی کی پشت پر ٹیک لگالیا۔
حدید نے حیرت سے اسے دیکھا ۔
کوئی مسئلہ ہے ؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔
کیا ؟ ارسا نے سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔
زالان ۔۔۔۔ زالان حیدر ۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا
کیا ہوا اسے ؟
وہ ۔۔۔۔۔
وہ فاطمہ حیدر کا بھائی ہے حدید ۔۔حدید کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔
ارسا تمہیں یقین ہے ؟ اس نے آگے ہوکر اس سے پوچھا ۔ نقاب سے جھانکتی آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔
دس سال ۔۔۔ دس سال کی عمر میں اسے آخری دفع دیکھا تھا اسی لیئے پہلے پہچان نہیں پائی ۔ لیکن مجھے یقین ہے یہ وہی ہے ۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا ۔ اس کا یہ رنگ بالکل مختلف تھا ۔ وہ اس وقت ایک بکھری لڑکی لگ رہی تھی ۔
یا اللہ یہ کیا ہورہا ہے ؟ حدید نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا ۔
لیکن وہ تو انٹیلیجنس کا کارکن ہے نا ۔اس نے پوچھا تھا آنکھوں میں بے پناہ حیرت تھی ۔
ہمدانی سر اور پھر تم ۔ ارسا ان کا اگلا ٹارگٹ تم ہو ۔ زالان حیدر تمہیں مارنے آیا ہے یہاں ۔ اس نے تیز لہجے میں کہا تھا ۔
لیکن جانے انجانے میں وہ یہاں فاطمہ حیدر کو مارنے آیا ہے ۔ وہ کھڑا ہوا تھا ۔
وہ یہاں فاطمہ حیدر کو نہیں ارسا ہاشم کو مارنے آیا ہے ۔ وہ چلائی تھی ۔
تو فاطمہ حیدر ؟ فاطمہ حیدر کون ہے ارسا ہاشم ؟ اس نے چلا کر پوچھا تھا ۔ ارسا نے بےبسی سے سر جھکایا تھا ۔
فاطمہ حیدر ارسا ہاشم ہے جو کہ اپنے بھائی کے جانے کے بعد یتیم خانے سے نکل کر اپنے باپ کے دوست کے پاس آئی تھی رائٹ ؟ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا تھا ۔ ایک آنسو ارسا کے گال پر پھسلا تھا ۔ ہر چیز حیران ہوئی تھی ۔ تیز چلتی ٹھنڈی ہوا بھی رکی تھی ۔ یہ وہ کیا کہ رہا تھا ؟۔۔۔۔
یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے
کہیں اک حسین خواب ہے
کہیں جان لیوا عذاب ہے
کبھی کھو لیا، کبھی پالیا
کبھی رولیا ، کبھی گالیا
کہیں رحمتوں کی ہیں بارشیں
کہیں تشنگی بے حساب ہے
کہیں چھاوں ہے کہیں دھوپ ہے
کہیں اور ہی کوئی روپ ہے
کہیں چھین لیتی ہے ہر خوشی
کہیں مہربان بے حساب ہے
یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے۔۔
———- ———–
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...