غم کا احساس جنہیں ہوتا ہے رو سکتے ہیں غیر کے اَشک بھی دامن کو بھگو سکتے ہیں
نیند آتی نہیں پھولوں پہ خِرت مندوں کو اَرے ہم تو دیوانے ہیں کانٹوں پے بھی سو سکتے ہیں
نہ طبیبوں کی طلب ہے نہ دعا مانگی ہے نیند چاہوں تیری زلفوں کی ہوا مانگی ہے
اور دشمنوں ہاتھ اُٹھاو کہ میں جیو برسوں دوستوں نے میرے مرنے کی دعا مانگی ہے
آ ماہی رَب تیکوں آنٹرے تے میڈی جان کو ڈاڈا دُکھ اِے
خبر نہیں اِنہاں سجنڑاں دی ڈیکھاں وَل سُم کہیڑی رُت اِے
میڈی جندری لٹکی نالے وسدے اُجڑے تے ہر آس گئی اَج مُک اِے
غلام فریداؔ مل سجنٹر جو پونٹر تے مِٹ ونجم اندر دے دُکھ اِے
میں نے کہا کہ درد ہے اس نے کہا ہوا کرے میں نے کہا کہ مرتا ہوں اس نے کہا مرا کرے
میں نے کہا سانس رُک رُک کے آ رہی ہے آج ایسا نہ ہو کہ چل بسوں اُس نے کہا خدا کرے
ادھر زندگی کا
ہوئی ختم جب سے وہ صحبتیں میرے مشغلے بھی بدل گئے
کبھی روئے شام کو بیٹھ کر کبھی میکدے کو ٹہل گئے
تیرا ہاتھ ہاتھ سے چُٹ گیا تو لکیریں ہاتھ کی مٹ گہیں
جو لکھا ہوا تھا وہ مٹ گیا جو نصیب تھے وہ بدل گے
اِدھر زِندگی کا جنازہ اُٹھے گا اُدھر زِندگی اُن کی دُلہن بنے گی
قیامت سے پہلے قیامت ہے یارو میرے سامنے میری دنیا لُٹے گی
جوانی پہ میری ستم ڈھانے والو ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
شب فراق میں یوں کی ہے میں نے نیند سے بات کہ اب تو کیوں نہیں آتی ہے مجھ غریب کے پاس
تو ہنس کے بولی کہ تو ہی بتا دے اِے کمبخت میں تیرے پاس رہوں یا تیرے نصیب کے پاس
جوانی پہ میری ستم ڈھانے والو ذرا سوچ لو کیا کہے گا زمانہ
اِدھر میرے اَرمان کفن پہن لیں گے اُدھر انکے ہاتھوں پہ مہندی لگے گی
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آئیں آگے نہ میں جاوں پیچھے
میں تو نالاں ہو زندگی سے مگر زندگی مجھ سے پیار کرتی ہے
میں نے کتنا اسے ذلیل کیا پھر بھی کمبخت مجھ پر مرتی ہے
وہ پردے کے پیچھے میں پردے کے آگے نہ وہ آئیں آگے نہ میں جاوں پیچھے
وہ آگے بڑھیں گے تو کچھ بھی نہ ہو گا
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اُس زُود پِشیماں کا پشیماں ہونا
وہ آگے بڑھیں گے تو کچھ بھی نہ ہو گا میں پیچھے ہٹوں گا تو دنیا ہنسے گی
اَزل سے محبت کی دُشمن ہے دنیا کہیں دو دلوں کو ملنے نہ دے گی
شباب و شوق کا اپنا بھی ایک زمانہ تھا خبر نہیں وہ حقیقت تھی یا فسانہ تھا
نصیب اب تو نہیں شاخ بھی نشیمن کی لدا ہوا کبھی پھولوں سے آشیانہ تھا
اَزل سے محبت کی دُشمن ہے دنیا کہیں دو دلوں کو ملنے نہ دے گی
ادھر میرے دل پر خنجر چلے گا اُدھر اُن کے ماتھے پہ بندیا سجے گی
اَبھی اُنکے ہنسنے کے دن ہیں وہ ہنس لیں اَبھی میرے رونے کے دن ہیں میں رو لوں
دیکھ کے مرضی دلبر دی بےجرم ظلم سہہ گے آں چپ کر گے آں
ساڈی وَسدی جھوک اجاڑی دلبر اکھی نال جو دیدے رہ آں چپ کر گے آں
نہیں شکوہ زبان میڈی تے آیا کہیں وار جو سامنڑیں تھے آں چپ کر گے آں
میڈی وسدی جھوک اُجاڑی دلبر اکھی نال جو دیدے رے آں چپ کر گے آں
اَبھی اُنکے ہنسنے کے دن ہیں وہ ہنس لیں اَبھی میرے رونے کے دن ہیں میں رو لوں
مگر اِیک دِن اُن کو رونا پڑے گا کہ جس دِن بھی میری میت اُٹھے گی