پروفیسر بیگ احساس(گلبرگہ)
’’ادھر اُدھر ‘‘اپنے عنوان کی طرح مختصراور خوب صورت افسانہ ہے ۔یہ حمید سہروردی کے دوسرے افسانوں سے قدرے مختلف افسانہ ہے ۔حمید سہروردی نے اس افسانے میں اپنی منفرد پر اسرار فضا سازی کو برقرار رکھا ہے لیکن ا سکا اسلوب تکنیک طرز ادا ایسا ہے جس سے اردو کا قاری مانوش ہے ۔ہمارا قاری اسی بیانیہ کا بر سوں سے عادی ہے ۔افسانے ختم کرنے کے بعد اسے پتہ چلتاہے کہ یہ روایتی افسانہ نہیں ہے ۔کئی باتوں کے لیے اسے دوسری اور تیسری قرات کرنی پڑتی ہے افسانہ دودھ بھرے گلاس کے ٹوٹنے سے شروع ہوتاہے ۔اور دودھ بھرے گلاس پر ختم ہوتاہے ۔اس طرح دائرہ بناتے بناتے افسانہ قاری پر اپنی گرفت مضبوط کرتا جاتاہے ۔
کہانی کا مرکزی استعارہ ’بیماری ‘ہے ۔مرکزی کردار بیمارہے ۔اس مرد کر دار سے جڑے تین نسوانی رشتے ماں ،بہن اور بیوی کے ہیں ۔مرکزی کردار خود نہیں جانتاکہ وہ کیوں موم کی طرح پگھلتا جارہا ہے ۔بہن کو اپنی بھابھی یعنی مرکزی کردارکی بیوی پر شک ہے ۔ماں توہم پرست ہے وہ بیماری کی وجہ آسیب کا سایہ سمجھتی ہے ۔بیوی اس کا علاج کروارہی ہے ۔کوئی نہیں جانتا یہ بیماری کیا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے ۔آخر میں افسانہ نگار بیوی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر کر ایک خلش میں مبتلا کردیتاہے اور شک کا تیر نیم کش جگر کے پار نہیں ہوتا۔
کہانی کردار کہانی کے واقعات سے پورے وجود کے ساتھ ابھرتے ہیں ۔کرداروں کی ذہنی و قلبی کیفیات منکشف ہونے لگتی ہیں ۔مرکزی کردار پڑھنے لکھنے سے دلچسپی ہے ۔غالباََ ادبی ذوق بھی رکھتاہے کیوں کہ اس کے گھر مٰں ایسا کیلنڈر ہے جس پر عمر خیام کی رباعی کی تشریح ہے ۔وہ اپنی بے پناہ مصروفیت یا گھر یلو معاملات کی وجہ سے ذہنی انتشار کا شکا رہے ۔وہ کم عمر ی سے جاگنے اور سڑکوں و گلیوں میں آوارہ گردی کرنے کا عادی ہے ۔اب بھی راتوں میں جاگتاہے ۔ سگریٹ پیتاہے ۔لکھنے میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ دودھ پینے کی فرصت بھی نہیں ہوتی لکھتے لکھتے ہاتھ بڑھاتاہے گلاس گر کر ٹوٹ جاتا ہے فرش پر دودھ پھیل جاتاہے ۔گلاس کے ٹکڑے وہ خود چن کر باہر پھینکتاہے ۔دودھ کو بھی وہی صاف کرتاہے ۔شاید بیوی کی بیماری کی وجہ سے یا خو ف کی وجہ وہ بیوی کو تکلیف نہیں دیتا ۔گھر میں کوئی ملازم بھی نہیں ہے ۔وہ ذہنی خلفشارکی وجہ سے دوستوں سے روکھا برتاؤکر تاہے ۔وہ بہن سے پیا رکرتاہے اس کے رونے سے پر یشان ہوجاتاہے ۔اسے ہر طرح منانے کی کو شش کرتاہے ۔ماں کی عزت کرتا ہے ۔جب ماں یہ کہتی ہے کہ اس کی وجہ اس کی بیوی بیمار ہوگئی ہے ۔تو وہ چونکتا ہے اور بیوی سے تصدیق کرتا ہے ۔اپنے بیٹے کا خیا ل رکھتاہے ۔ بہن کے بچوں کے ساتھ بھی اس کا سلوک اچھا ہے ۔اسے بارہ تاریخ کو کہیں جانا ہے ۔وہ سمجھتاہے کہ سب کچھ لمحوں میں بدلتاہے اور لمحوں ہی میں سنورتا ہے ‘‘۔وہ کاہل ہے کچھ لکھنا چا ہتاہے لیکن نب پر سیا ہی سو کھ گئی ہے وہ تساہل کی وجہ سے پیں کی سیاہی چیک نہیں کرتا ۔تساہل ہی کی وجہ سے وہ دوا وقت پر نہیں کھاتابحیثیت مجموعی وہ ایک نارمل انسان ہے ۔دوسرا اہم کردار بہن کا ہے ۔جو روتے روتے کہانی میں داخل ہوتی ہے ۔۔۔کوئی نہیں جانتاوہ مسلسل کیوں رو رہی ہے ۔بہن کے رونے کی وجہ پو چھنے میں کہانی آگے بڑھتی ہے پرتیں کھلتی ہیں ۔کہانی کے اختتام تک بہن آنسو بہاتی رہتی ہے ۔وہ اپنے بھائی کی مزاج پرسی کے لیے وطن سے ماں اور بچوں کے ساتھ سفر کر کے آئی ہے وہ ہفتہ بھر سے بھائی کے گھر میں ہے ۔اس کا بغور مشاہدہ کررہی ہے ۔اس کا گم سم رہنا دوائی وقت پر نہی کھانا ۔نویں دن وہ بھائی کو پکڑ لیتی ہے اور رونے لگتی ہے کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اتنا رو کیوں رہی ہے ۔آخر میں وہ اپنا خواب بیان کرتی ہے کہ ٹیبل پر دودھ کا گلاس رکھا ہوا ہے ۔بھیاّپانی پینے کے لیے گئے ہوئے تھیت بلّی نے وہ دودھ پی لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تڑپ تڑپ کر مر گئی ۔اس خواب سے وہ خوفزدہ ہے وہ بھائی کے بارے میں ایسا سوچنا بھی نہیں چا ہتی ۔لاشعور میں کہیں بھابھی کے بارے میں بد گمانی ہے ۔ممکن ہے اسی بدگمانی نے وہ خواب دکھلایا ہو۔بہن کا یہ شک کہانی کی فضا ء میں تناؤپیدا کرتاہے
ماں ایک عام سی متوسط طبقے کی عورت ہے ۔اسے اپنے بیٹے کی فکر تو ہے لیکن ویسی تشویش نہیں جیسی بہن کو ہے ۔اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس کے ذہن میں بہو کے متعلق کوئی بدگمانی نہیں ہے ۔اسے بہو سے بھی ہمدردی ہے بیٹے کی بے راہ روی اور بیماری نے بہو کو بھی بیمار کردیا ہے ۔اپنے پوتے کی بھی فکر ہے کہ دونوں کی یہ حالت دیکھ کر وہ بھی کہیں بیمارنہ ہوجائے۔وہ توہم پرست ہے اور اسے پورا یقین ہیکہ بیٹے پر کسی آسیب کا سایہ ہے وہ اپنی بیٹی کے مسلسل رونے سے پر یشان بھی ہے رقیق القلب ہے اس لیے بیٹی کو روتا دیکھ کر خود بھی رونے لگتی ہے
بیوی کا کردار پوری طرح اُبھر کر نہیں آتاہے ۔اپنی ساس کو وہی خطوط کے ذریعہ اپنے شوہر کے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ کھو یا کھویا رہتاہے اس کی صحت گرتی جارہی ہے ۔پورے افسانے میں اس کے تین چار مکالمے ہیں ۔جس میں وہ شوہر کے رات میں دیر تک جاگنے کی شکایت کرتی ہے ۔جب اس کا شوہر پوچھتاہے کہ کیا وہ اس کی وجہ سے بیمارہوگئی ہے تو کہتی ہے ــ’میں کیا کہوں ‘پھر کہانی کے اختتام پر اپنی نند سے خواب سن کر چیخ اٹھتی ہے پھر زیرِلب مسکر دیتی ہے ۔ یہ مسکراہٹ معنی خیز بھی ہوسکتی ہے اور طنزیہ بھی ۔
یہ افسانہ نفسیاتی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے ۔مرکزی کردار کی بیماری کا ردّعمل کرداروں کی نفسیات کو ابھارتاہے ۔اس بیماری نے سب کو الجھا رکھاہے ۔یہ ایک متوسط طبقے کا خاندان ہے ۔گھر چھوٹا ہے دیوان خانے اور کمرے میں اتنا کم فاصلہ ہے کہ دیوان خانے میں کی جانے والی گفتگوکمرے میں سنائی دیتی ہے ۔گھر میں فریج نہیں پانی کا مٹکہ ہے ۔بچے کھلونوں کے لیے لڑرہے ہیں ۔پانی کی ٹونٹی کھول کر کھیلنے لگتے ہیں ۔گھر میں کسی ملازم کا بھی پتہ نہیں چلتا۔کرداروں کی گفتگو میں بھی مقامی رنگ ہے ۔کہانی کی سب سے بڑی خوبی جزوئیات نگاری ہے ۔مرکزی کردار کے کمرے اور گھر کی تفصیلات بچوں کا ماں کو روتے دیکھ کر کچھ سمجھے بغیر رونے لگنا ۔بچوں کو بڑوں کے درمیان سے ہٹا کر انھیں کھیلنے کے لیے بھیج دینا ۔ایک حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں اس کی صحت کتنی اچھی تھی مگر اب آدھا اتر گیا ہے ،بھیا وہیں فرش پر بہنا کے بازوبیٹھا ۔ بہن چائے کی پیالی پینے کے بجائے جیسی زبان افسانے کا ماحول اور فضا بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے ۔حمید سہروردی کا یہ افسانہ رشتوں کی نزاکت کا ایک عمدہ افسانہ ہے ۔