حمید سہروردی(گلبرگہ)
اُس کی ٹیبل پر کاغذات بے تر تیب پڑ ے ہوئے تھے ۔کچھ کتا بیں کُھلی ہوئی تھیں اور کچھ اِدھر اُدھر رکھی ہوئی تھیں ۔اس کے سر کے اوپر ٹیوب لائٹ اپنی زندگی جی رہا تھا ۔کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کے لیے زندگی کے انکشا فات کرنے میں مدد دے رہا تھا ۔پتہ نہیں وہ کیا تحریر کر رہا تھا ۔لکھتے لکھتے اس نے بائیں ہاتھ کی طرف رکھے ہوئے دودھ کے گلاس کی طرف اپنا بایاں ہاتھ بڑھایا ۔گلاس ہاتھ میں نہیں آیا بلکہ ٹیبل پر سے نیچے زمین پر گر گیا اور اس کے ٹکڑے زمین پر پھیل گئے ۔۔۔۔۔اس نے گلاس کے ٹکڑے کھڑکی سے باہر گلی میں پھینک دیے ۔اور دودھ سے بھرے ہوئے فرش کو کپڑے سے صاف کرکے پھر سے کرسی پر بیٹھ گیا ۔
پتہ نہیں آج کیوں اُس نے اپنے روزانہ ملنے والے دوست سے روکھے پھیکے انداز میں بات کی تھی ۔روزانہ ملنے والے دوست نے اس کے روّیہ سے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ وہ ان دنوں بہت مصروف ہوگیا ہے یا اپنی گھر یلو زندگی کے بہت سے معاملات سے ذہنی انتشار کا شکار ہوگیا ہے ۔دوست نے زیادہ باتیں کرنا ضروری نہیں سمجھا اور جلد ہی اپنے اپنے راستوں پر ہولیے ۔
کرسی پر بیٹھے ہوئے اس نے سگریٹ کی ڈبیہ اور ماچس اٹھالی اور اس کی نظر میں سامنے دیوار پر لگے ہوئے عمر خیام کی رباعی کی تشریح لیے ہوئے کیلنڈر کی طرف اٹھیں ۔ٹھیک ہے کہہ کر وہ تاریخ دیکھنے لگا ۔بارہ تاریخ کو یہاں سے جانا ہوگا ۔سگر یٹ کا گہرا کش لیتے ہوئے اس نے کرسی سے پشت لگا دی اور پھر آہستہ آہستہ بڑبڑ انے لگا۔
’’سب کچھ لمحوں میں بدلتاہے اور لمحوں ہی میں سنورتا ہے ۔کوئی کب تک جتن کر کے اس کے حوالے کرتا رہے گا۔‘‘
سگریٹ کاایک گہر ا کش لے کر اس نے پین ہاتھ میں اٹھا لیا ۔پین بہت دیر سے کُھلا پڑا ہوا تھا اور پنیکھا بھی چل رہا تھا ۔۔۔۔۔پین کی نب پر انک سوکھ گئی تھی ۔کچھ لکھا نہیں گیا ۔شاید تسا ہلی تھی کی بیزاری اس نے پین کو جھٹک کر لکھنے کی کوشش نہیں کی ۔
کیوں اس نے اچانک روتے ہوئے کہا تھا کہ تم میر ی طرف کو ئی توجہّ نہیں دیتے ۔ مجھے تمہارے پاس آئے ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ ہوگیا ہے ۔ہر وقت کام کام کی رٹ لگائے رہتے ہو ۔۔۔۔۔۔آخر میں تمھارے پاس اس لیے تو آئی ہوں کہ تم سے باتیں کروں ۔مجھے معلوم ہوا تھا کہ ادھر دو ماہ سے تمھاری طبیعت خراب چل رہی ہے ۔یہاں آکر یہ تو میں نے دیکھا کہ تم روزانہ دوا کھاتے رہتے ہو۔وہ بھی بھا بھی کے کہنے پر ۔کیا تم اپنے آپ کے دشمن ہو ۔ایسا کیوں کرتے ہو بھیا ّ ۔اپنی صحت کا خیال رکھو ۔وہ روتی رہی ۔
اس نے بس اتنا ہی کہا تھا کہ تم روتی کیوں ہو ۔کیا میں مر جاؤ ں گا ۔تم روتی کیوں ہو ۔۔۔اور کیا تمھارے آنسومیری بیماری کو یا میر ے کام کو کم کرسکتے ہیں ۔دور کرسکتے ہیں ۔تم رؤونہیں میر ی بہنا ۔ اتنا کہہ کر اس نے وہ ٹیبل پر رکھی ہوئی چائے کی پیالی اٹھا کر اپنی بہن کو دی تھی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا ۔’’تم روتی ہو تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘‘بہن چائے کی پیالی لینے کے بجائے اس کی گود میں سر رکھ کر ہچکیاں لے لے کر رونے لگی اس کے رونے کی آواز سُن کر اس کے بچے ّ آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے اپنی ممی اور ماما کے قریب آئے اور ممی کو روتے ہوئے دیکھ کر دونوں لڑکیان اور لڑکا زور زور سے رونے لگے ۔
اس نے کرسی سے اٹھ کر دونوں لڑکیوں اور لڑکے کو اپنے پاس بلا لیا ۔دونوں لڑکیوں کو ٹیبل پر بٹھا یا اور لڑکے کو گود میں لے کر کہنے لگا ۔
پیارے بچو! روتے کیوں ہو۔کیا میں مرنے والا ہوں ۔ارے ارے تمھیں دیکھ کر میں کتنا خوش ہوتا ہوں ۔مگر بچےّاپنی ماں کو روتا دیکھ کر ما ما کی باتوں سے بے اثر ہی رہے ۔
ٹیبل پر رکھی ہوئی چائے ٹھنڈی ہوگئی تھی ۔اس نے اپنی بچی کو آواز دی ۔دیکھو بیٹا یہ چائے لے جاؤ اور دوسری گرم چائے لے آؤ۔کیوں بہنا تم گرم چا ئے پیوگی نا ۔۔۔ارے تم ہنسیں کیوں نہیں ۔۔۔میر ی پیاری بہنا ۔
بہن نے ایک ہچکی لی اور زور سے رونے لگی ۔اس کے رونے کی آواز سُن کر اس کی ماں بھی دیو ان خانے میں چلی آئی ۔کیوں کیا ہورہا ہے ۔کیوں رورہی ہو بیٹی ؟بہن نے جو ا ب نہیں دیا ۔ ساڑی کے پلّو سے آنکھیں پو نچھنے لگی اور اس کی دونوں لڑکیاں اور لڑ کا حیرت زدہ کبھی وہ اپنی ممیّ کو کبھی اپنی نانی کو اور کبھی ماما کو دیکھ کر وقفہ وقفہ سے رونے لگتے ہیں ۔
اس کی نظریں زمین میں دھنسی ہوئی تھیں ۔ماں، بہنا کے قریب بیٹھی ہوئی ہے اور بارہا ایک ہی سوال کر رہی تھی کہ بیٹی کیوں رو رہی ہو ۔اور بہنا ہے کہ بت بنی بیٹھی ہوئی ہے ۔تینوں خاموش ہیں ،ماں ،بیٹا اور بیٹی اور تینوں بچےّبھی بڑوں کی خا موشی کو گمبھیر بنائے ہوئے ہیں ۔ اچانک ماں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور خا موش چہرہ متفکر ،پیر کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگا ۔بہنا نے اپنی لڑکیوں سے کہا کہ بچیوتم جاکر باہر آنگن میں کھیلو ۔دیکھتی نہیں کہ ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔پھر اپنے لڑکے سے کہا جاؤ۔بیٹا تم بھی باجی کے ساتھ کھیلو ۔لڑکا ماما کی گود سے اُتر ا اور اپنے کرتے سے آنسو پو نچھتے ہوئے کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر اپنی بہنوں کے ساتھ کمرے سے نکل کیا ۔
ماں نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔کیوں بیٹا تمھیں کونسا روگ لگا ہوا ہے کہ تمھاری بیوی ہرخط میں یہی لکھتی ہے ۔تمھاری اس سا ل طبیعت گرتی جارہی ہے اور ہر وقت کھوئے کھوئے سے رہتے ہو ۔کہیں کسی آسیب کا سایہ تو نہیں ہو ا ۔تم بہت چھو ٹی عمر سے را تو ں کے جاگنے اور سڑکوں اور گلیوں میں آوارہ گردی کے عادی رہے ہو۔بہو کہہ رہی تھی کہ تم یہاں بھی یہی سب کچھ کرتے رہے ہو۔تم کسی عامل سے ملتے تھے یا نہیں ؟وہ خاموش ہی رہا ۔۔۔
ماں نے پھر کہا ۔تم کچھ کہتے کیوں نہیں ؟
ماں ،میں کیا کروں ۔میں خود نہیں جانتا ۔کیا کچھ ہورہا ہے ۔میں کیوں موم کی طرح پگھلتا جارہا ہوں ۔اس نے دھیرے سے کہا ۔
اسی لیے تو کہتی ہوں ۔تم کسی اچھے عا مل کو بتاؤ۔تمھیں ضرور کوئی آسیب کا سایہ ہوا ہے ۔
تم نہیں جانتی ہو ۔میں ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔
ہاں میں جانتی ہوں ۔ماں نے روتے ہوئے کہا ۔تمھارا اگر بس چلے تم مجھ پر بھی یقین نہیں رکھوگے ۔
ماں تم سمجھتی کیوں نہیں ۔وہ جھنجھلا گیا ۔آسیب و اسیب سب ہماری سمجھ کا چکّر ہے ۔میں تم بن کر اپنے آپ کو نہیں سوچ سکتا۔
ہاں ہاں میں جانتی ہوں ۔تم نہیں مانوگے ۔مگر۔۔۔۔۔
ایسی بات نہیں ہے ماں ۔تم میری بات کو سمجھو ۔بیماری معمول ہے تم سب اتنے پریشان کیوں ہو ۔دیکھو میں بھلا چنگا ہوں ۔تم فکر مت کرو ۔
پلنگ پر لیٹی اس کی بیوی نے اندرکمرہ میں سے کہا ۔میں ہر وقت کہتی ہوں کہ رات جاگا نہ کرو ۔مگر یہ کسی کی بات مانیں تب نا۔
ارے تم کیا کہہ رہیی ہو ۔خاموش لیٹی رہو ۔دیکھو تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹرنے تمھیں آرام کرنیء کے کیلئے کہا ہے ۔
ما ں ۔۔اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے کہنے لگی ۔چپ رہو۔تمھاری وجہ سے میری بہو بھی بیمارہوگئی ۔
کیا کہہ رہی ہو ماں۔ایسانہی کہو ۔میری وجہ سے ،کیوں ثمینہ ،ماں جو کہہ رہی ہے کیا یہ سچ ہے ؟
میں کیا کہوں ۔
تم بھی ان کے ساتھ ہوگئی ہو۔۔؟
بہنا پھر رونے لگی ۔بھیاّتم گھر چلو۔
کیا یہ گھر نہیں ہے ۔۔۔تم ۔۔۔۔
ماں نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔تم دونوں بیمارہو۔تم دونوں کی یہ حالت دیکھ کر تمھارا لڑکا پریشا ن نہ ہو جائے اور وہ اپنے پوتے کو گود میں لیے ۔میرا لاڈلا ،میرا پیارا کہتے ہوئے اس کے گالوں پر چٹ چٹ پیا ر لینے لگی ۔
لڑکا کھلونے دیکھ کر دادی سے کہنے لگا ۔پپاّ لائے ہیں ۔
اچھا تمھارے پپاکھلونے بھی لائے ہیں ۔تمھارے پپاّ کو کیا ہوا ہے ۔
لڑکے کے لیے دادی کا یہ سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتاتھا۔لڑکا دادی کی گود سے اٹھ کر اس کی بہنا کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگیا ۔
بہنا بد ستور رورہی ہے ۔
ماں نے بہنا سے پوچھا ۔بیٹی تو اتنا کیوں رورہی ہے ۔تیرا بھیاّ اچھا ہوجا ئے گا۔
پیاری بہنا تمھیں رونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔میں بیمار نہیں ہوں ۔خدا کے واسطے تم رونا بند کرو۔
بہنا اورزور زور سے رونے لگی ۔
ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔تم نے وطن سے آتے وقت بار بار کیوں بھیاّ کے پاس آنے کے لیے کہا تھا ۔اسی لیے کہ تم یہاں آکر روتی رہوگی ۔دیکھو بیٹا تمھارے پاس آنئے کے لیے یہ بے چین تھی اور جس رات یہاں آنے کا ارادہ تھا ۔تمھاری بہنا سوئی ہی نہیں تھی ۔
اس نے کرسی پر سے اُ ٹھ کر اپنی بہنا کے سر پر ہاتھ رکھااور بڑی شفقت سے کہنے لگا۔بہنا تم رو رہی ہو ۔ارے کیا تمھارا بھیاّ مر جائے گا ۔چل چل میری پیاری بہنا نارو ،نارو ،دیکھ میں تیرے لیے کیا لایا ہوں ۔
نہیں بھیا مجھے کچھ نہیں چاہیے ۔وہ بد ستور روتی رہی ۔
بھیاّوہیں فرش پر بہن اکے بازو بیٹھا ۔چھو ڑو تم میر ی بیماری کو ۔میں بیما رنہیں ہوں ۔ بھیاّ۔۔۔۔بھیاّ۔بھیاّبھر ہو زور زور سے رونے لگی ۔تم سمجھتے ہو۔بھیاّ۔مگر میں کیا سمجھوں ۔۔۔۔۔!
ہاں بیٹی تم اتنا کیوں رورہی ہو اورخود ماں بھی رونے لگی ۔
اس نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے چہرے کو بھی صاف کیا اور اندر کمرہ میں جہاں اس کی بیوی پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی چلی گئی ۔
پوچھا کیا تم نے ان سے کچھ کہا تھا ۔بہنا مسلسل کیوں رورہی ہے ؟
نہیں میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا۔بیوی نے تعجب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔پھر بہنا کیوں رورہی ہے ۔
باہر سے اس کا لڑکا روتے ہوئے اندر کمرہ میں چلا آیا ۔پپاّپپاّوہ پم پم نہیں دے رہی ہے ۔
اچھا اچھا ہم تمھیں ایک اور پم پم لا کر دیں گے ۔تم چپ رہو ۔اُس کا لڑکا اس کے پیروں سے لپٹ گیا اور پم پم کی رٹ لگا تا رہا ۔
اُدھر دیوان خانہ میں دونوں ماں اور بیٹی آہستہ آہستہ باتیں کر نے لگیں ۔بہنا بد ستو ر روتے ہوئے اپنی بات کہہ رہی تھی ۔
وہ آنگن میں رکھے ہوئے پانی کے مٹکے سے پانی لے کر پینے لگا ۔اُسے راحت سی محسوس ہوئی اور اس نے نل کے قریب جاکر اس کی ٹونٹی کھو ل دی ۔پانی نل سے گرنے لگا ۔اس نے نل کی ٹونٹی بند کردی ۔اور ٹنکی کے نل کی ٹو نٹی کھول دی ۔پانی ٹنکی میں آوا زکے ساتھ گرنے لگا ۔
ماں بیٹی سے کہنے لگی ۔تم کچھ بھی کہو۔اُسے ضرور کسی آسیب کا سایہ ہوا ہے ۔خا موش خاموش رہتاہے ۔دیکھو تو جب پچھلی چھٹیوں میں گھر آیا تھا۔تو اس کی صحت کتنی اچھی تھی مگر اب تو آدھا اُتر گیا ہے ۔
اُس کے اور بہنا کے بچّے نل کی ٹونٹی کھول کر پانی میں کھیلنے لگے ۔بچّوں کے کپڑے گیلے ہوگئے ۔اس کی بیوی پلنگ پر لیٹے لیٹے بچوّں سے کہنے لگی ۔وہاں سے ہٹ جاؤ سردی لگ جائے گی ۔
وہ بیوی کے پلنگ کے پاس کھڑا ہوا تھا ۔اُس نے بچّوں سے کچھ بھی نہیں کہا۔
ہاں بیٹی ۔ضرور کوئی آسیب کا سایہ ہوا ہے ۔
ماں ایک بات کہوں تم بُرا تو نہ مانوں گی ۔
میں تیری بات کا بُرا کیوں مانوں گی ۔
ماں جب ہم یہاں آرہے تھے نا ۔اس رات میں سو نہیں سکی تھی ۔ایسے نہیں ہے ۔
ماں میری آنکھ کچھ دیر کے لیے لگ گئی تھی ۔میں ہر بڑا کر اُٹھی تھی ۔
کیوں کیا ہو ا تھا ۔بیٹی ۔تم نے مجھ سے کیوں نہیں کہا تھا ۔
ماں مجھے ڈر لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔
ڈر کس بات کا۔۔۔
ماں کیا کہوں ،کیسے کہوں ۔اب بھی مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔
مگر کیوں ۔۔۔۔
کیا کہوں ماں ۔۔بھیاّ،بھیاّ کو میں نے ۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔ایسا کیوں کر رہی ہو ۔بیٹی کہو۔کیا کہنا چاہتی ہو۔
نہیں ماں ،میں بھیاّ کے بارے میں ایسا نہیں سوچ سکتی ۔نہیں میں کچھ نہیں کہوں گی ۔
بہنا پھر رونے لگی ۔
کہتی کیوں نہیں ہو بیٹی رو کیوں رہی ہو۔
وہ بھیاّ ۔۔۔۔میری آنکھ لگ گئی نا ۔جب ۔جب میں نے دیکھا ۔بھیاّ ٹیبل پر رکھا ہوا دودھ ۔نہیں ماں ۔۔۔میں نہیں کہوں گی ۔۔۔۔
کہہ بھی دے بیٹی کیا آسیب کو دیکھا تھا ۔
نہیں ماں ۔۔وہ دودھ۔۔۔۔۔دودھ ٹیبل پر رکھا ہوا ۔بلّی نے پی لیا۔بھیاّ باہر دالان میں پانی پینے کے لیے گئے ہوئے تھے ۔اور بلّی دیکھتے ہی دیکھتے تڑپ تڑپ کر مر گئی ۔
بہنا بدستو ر رونے لگی ہے ۔
پلنگ پر لیٹی ہوئی اس کی بیوی زور سے چیخی ۔۔۔۔۔۔اور اُٹھ بیٹھی ۔نہیں ۔ایسا ہرگز نہ کہو۔
اور وہ اس نے بہنا کے قریب آکر اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور زیرِلب مُسکر ادی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راستے جو جاتے ہیں:حمید سہروردی
عمر سے گزرنا ہے
عمر کا سلیقہ باندھ
راستے جو جاتے ہیں
پھر کہاں وہ آتے ہیں
عمر کی صداقت کو
ڈھونڈ تو نہ ماضی میں
عمر کے جو لمحے ہیں
سیدھے سیدھے ہوتے ہیں
چشم دید ہوتے ہیں