ادھر ہانیہ نے اپنا چہرا اٹھایا
بھو رے موتیوں کا ٹکرا ؤ نیلے موتیوں سے ہوا تھا
ایک سحر تھا جو فضاؤں میں پھیلا تھا
درختوں پر برف سے ڈ ھکے "زرد ” پتوں نے اس ماحول کو اور محسو ر گن بنا دیا تھا
اس سحر نے سامنے والے کو نہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔۔ معصوم سا چہرہ ۔۔ تھا ۔۔۔ جو مقناطیسی سی کشش رکھتا تھا
وہ حیرانی سے ہانیہ کو دیکھنے لگا ۔۔یہ احساس تو پہلے کبھی نہیں ہوا ۔۔حُسن تو دنیا میں بہت دیکھا تھا ۔۔۔ عجیب کشش تھی ۔۔۔ ادھر ہانیہ کا بھی یہی حال تھا ۔۔ وہ اس کے نیلے پانیوں سی آنکھوں کو تکے جا رہی تھی
پر پھر ہانیہ کو iس کے یوں ٹھاٹھکی باندھ کر دیکھنے پر غصہ آیا تو آنکھوں کے سامنے چٹکی بجا کر بولی ۔۔۔
Hello mister … behave..
If you had used this eyes for the purpose the are for .. then i would never had fallen on the ground.
This is all your fault ..
mine …. how..? پھر اس لڑکے نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔۔
Yeah ..i’m sorry … really …
really .
ریلی دا ماما نا ہوۓ تے ۔۔(ریلی کے ماموں نا ہو تو) ہانیہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا
وہاٹ ۔۔میں اردو سمجھتا ہوں ۔۔لیکن یہ جو بھی بولا ہے یقین مانئے سمجھ نہیں آیا ۔۔
ہانیہ کی آنکھیں اس انگریز کے منہ فر فر اردو سن کر فوٹ بال جیسی ہو گئی ۔۔۔
کر سٹال کلئیر بلیو آنکھوں ، گوری رنگت بھورے بالوں ، تکڑ ے سے ، چھ فٹ ۔ والے بندے کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کے اس کو اردو بھی آتی ہو گی ۔۔۔
اس طرح حیران نا ہوں ۔۔ چلیں اس کافی شاپ میں چلیں ۔۔سوری کی کافی پلا دیتا ہوں ۔۔اور کچھ تعا رف بھی ہو جائے ۔۔۔
واہ بئی واہ ۔۔۔ یہ کون سی رشتہ داری جوڑ رہے ہیں ۔۔اپنا تعارف اپنے پاس رکھیں ۔۔نا جان نا پہچان میں تیرا مہمان
یہ کہہ کر ہانیہ اٹھنے لگی تو کے پھر سے اس کا پیر پھسلا اور وہ واپس زمین بوس ہو جاتی جو سامنے والے نے گرنے سے بچایا نا ہوتا ۔۔ اس لڑکی کے چہرے پر آئی معصومیت شاہد ہو اس نے دیکھی ہو ۔۔
ہانیہ اس کے دوبارہ یوں مسلسل دیکھنے پر کنفیوژن اور کوفت کا شکار ہوئی ۔۔ تو ہاتھ چھڑا کر اپنے گھر کے راستے کی طرف تیز تیز قدم اٹھا نے لگی ۔۔۔۔
ارے ۔۔ روکیں میرا نام تو سن لیں ۔۔۔۔میرا نام ۔۔۔اس کی بات درمیان میں ہی رہ گئی
بر بر بر میں نہیں سن رہی ۔۔ہانیہ یہ کہتی تیز تیز چلنے لگی اپنے گھر کے سامنے پہنچ کر دروازہ بند کر دیا لیکن اس بلیو آنکھوں والے بندے کی آواز اس کو سنائی دے گئی تھی۔
میرا نام ۔۔۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا نام میر وجدان شاہ ہے ۔۔اف بھاگ گئی ۔۔۔یار لڑکیاں تو میرے بیچے بھاگتی ہیں یہ مجھ سے بھاگ رہی ہے ۔۔پھر آس پاس دیکھا تو ا پنی لاپرو ا ئی پر خود کو کوسا ۔۔ ابھی کوئی رپورٹر دیکھ لیتا تو کیا عزت رہ جاتی تمہاری اور اس لڑکی کی۔۔۔۔
وہ اپنی حرکت پر خود بھی حیران تھا ۔۔۔ایک بار اس گھر کی دیکھا جہاں وہ گئی تھی ۔۔۔۔ پھر اپنے پینٹ ہاؤس کے راستے کی طرف بھاگنے لگا
پینٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی اس کا سامنا اپنی اسیسٹنڈ میگن اور باڈی گارڈ سے ہوا میگن جو کے اپنے سر کے سخت راویے سے اچھی طرح واقف تھیں اس لئے سر کو دیکھتے ہی سٹارٹ ہو گئی
گڈ مارننگ سر
سر ۔۔ آج آپ نے 9 بجے سے ایک گھنٹے تک تمام عملے کی کارگردا گی رپوٹ دیکھنی تھی جس کے لئے آپ لیٹ ہیں کیونکہ اب ساڑھے نو بجنے والے ہیں ۔۔اس کے بعد 12 بجے آپ کی T2R کمپنی کے ceo کے ساتھ تکریبن دو گھنٹے کی میٹنگ ہے ۔۔۔
ابھی وہ کچھ اور بولنے ہی والی تھیں کے وجدان نے اس کو منا کر دیا ۔۔۔
مس میگن ۔۔۔آپ 9 بجے سے ١١ بجے والے سارے آج کے لئے کینسل کر دیں ۔۔۔
لیکن سر ۔۔
مس میگن باس میں ہوں کے آپ ۔۔۔ اس لئے ١٢ بجے والی میٹنگ میں دیکھ لوں گا ۔۔۔ اس وقت آپ جا سکتی ہے ۔۔
آ میگن پریشانی سے کچھ کہنے لگی پر وجدان کی بات پر خاموشی سے چلی گئی
جب کے میر وجدان ان کانچ آنکھوں کے سحر میں مبطلع ہو چکا تھا ۔۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
افف ۔۔افف ۔۔۔۔ یہ بندہ پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتا میرا ۔۔۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کے خود سے بول رہی تھی ۔۔۔
غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔
دل کے زخم پھر سے ہرے ہو گیۓ تھے ۔۔ ہانیہ نے اپنا منہ دھویا ۔۔اور ۔ شیزہ کو میسج کر کے پوچھا کے وہ کہاں پر ہے اس کا جواب آنے پر یونیورسٹی کی کینٹین کی طرف چل دی
.۔۔۔۔
۔شیزہ ۔۔ ہاں کیا ہوا ۔۔ عنایا کے بلا نے پر شیزہ نے پوچھا
میرا خیال ہے ہانیہ روئی ہے ۔۔
ہیں ۔۔۔یہ کب ہوا ۔۔مجھے کیوں نہیں بتایا ۔۔ شیزہ نے عنایا کو دیکھ کر کہا
وہ اس لئے کے مجھے بھی ابھی پتا لگا ہے وہ دیکھو سامنے ۔۔
عنایا نے سامنے آتی ہانیہ کی طرف اشارہ کیا ۔۔
ہممممم ۔۔۔۔ دیکھتے ہیں ۔۔ چنے کالے ہیں یا جل کر راکھ ہو گیۓ ہیں ۔۔۔شیزہ سے سوچتے ہوۓ کہا
ہانیہ تم ٹھیک ہو۔۔۔ یہ چہرہ کیوں لال ہیں آنکھیں بھی ۔۔۔ روئی ہو ۔۔۔ شیزہ کی جگہ رباب نے دیکھا جو پہلے کتاب پڑھنے میں مشغول تھی ۔۔
ہا ۔۔یہ آنکھیں ہی تو لے ڈوبی ہیں ۔۔۔ ہانیہ نے سوچا ۔۔
کدھر گم ہو ۔۔ دعا بولی ۔۔
ادھر ہی ۔۔ ہوں ۔۔ روئی نہیں ہوں سر میں درد ہے لگتا ہے بخار ہو گیا ہے ۔۔۔ تمھیں پتا تو ہے بخار میں میری آنکھیں بھی سوج جاتی ہیں ۔۔ ہانیہ کو واقعی ہی بخار کا احساس ہو رہا تھا
ڈرائیور کی کالز آ رہیں ہیں اب چلتی ہوں میں ۔۔ میری اگلے دو دن کی چھٹی کی درخواست ہیڈ اوف ڈیپارٹمنٹ کے دستخط کروا کر لیو لگوا دینا ۔۔ پچھلی بار کی طرح نا کرنا کے دستخط ہی نا کرواؤ ۔۔۔ نمبر ہیں اٹینڈ س کے ۔۔۔
بہت اداس رہیں گے تمہارے بن اے میری دوست ۔۔ شیزہ سے ٹوٹے پوٹے انداز سے گاتے ہوے بولا تو وہ بھی مسکرا دی ۔۔
اوکے اب چلتی ہوں اللہ حافظ ۔۔۔
چلو ہم بھی اگلی کلاس میں چلتے ہیں اس سے پہلے کے سر یاسر بھی کلاس میں کر فیو لگانا شروع کر دیں ۔۔ ۔۔ ہاں چلو ۔۔۔ سب نے اپنی چیزیں سمٹ کر کلاس کی راہ لی ۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجدان نے اپنی دادی کے روم کر دروازہ نوک کیا ۔۔
آ جاؤ ۔۔کون ہیں باہر ۔۔ میں ہوں گرینڈ ما ۔۔۔ وجدان نے کمرے میں داخل ہوتے ہوا کہا ۔۔۔
یہ گرینڈ ما ۔۔میری سمجھ سے باہر ہے ۔۔ دادی کہا کرو دادی ۔۔
شمشاد بیگم بولیں ۔۔
اچھا گرینڈ ما ۔۔میرا مطلب دادی جان ۔۔اب ٹھیک ہے ۔۔ وجدان نے مسکراتے ہوے کہا ۔۔
اچھا اب بولو کس کام سے آئے ہو ۔۔ ورنہ تو کئی دن منہ نہیں دیکھاتے ۔۔ پہلے تو باہر ہوتے تھے ۔۔ اب جو یہاں ہو تو بھی یہی حال ہے ۔۔ شمشاد بیگم نے گلا کیا
میں تو روز آ جاؤں پر کام کا بوجھ ہی اس قدر ہے ۔۔
اچھا اچھا بولو کیا کام ہے ۔۔دادی جی نے اس کو ٹوکا ۔۔ ان کو سب گھر والے بی جان کہہ کر پکارتے تھے
وہ دادی جان ۔۔ ہاں بولو ۔۔
وہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں ۔۔ وجدان نے ہمت جٹا کر کہا ۔۔
ہیں ۔۔کیا سچ میں ۔۔۔ واقعی ہی ۔۔۔ شمشاد بیگم حیران ہو کر اس کو دیکھنے لگی
جی دادی جان واقع ہی ۔۔۔ وجدان ان کے حیران ہونے پر مسکرایا بی جان نے اس کے چہرے کو دیکھا وو جو شاز و ناظر ہی مسکرایا کرتا تھا ۔۔ آج بار بار مسکرا رہا تھا ۔۔ کبھی کسی سے کھل کر اس بچے نے بات ہی نہ کی تھی ۔۔ ایسے جیسے کھلونا ہے جو اٹھتا بیٹھتا چلتا پھرتا ہے پر محسوس کچھ نہیں کرتا
ارے واہ ابھی ہفتے بر پہلے پوچھا تھا تو راضی نہ تھے ۔۔یہ بیٹھے بیٹھا ۓ کیا سوجی میاں ۔۔ لڑکی کا نام بھی بتا دو ۔۔جس کو پسند کر بیھٹے ہو ۔۔ شمشاد بیگم اس کی کلاس لیتے ہوۓ بولیں
جی دادی جان ۔۔ آپ کیسے پتہ میں نے لڑکی پسند کر لی ہے ۔۔۔
وجدان دادی جان کے سہی اندازے پر حیراں ہو کر بولا
ارے ۔۔یہ بال دھوپ میں سفید کیے ہیں ۔۔ یہ ویڈیو گیمز کھیل کر نہیں ۔ ۔
شمشاد بیگم آج کل کی نسل پر طنز کرتے ہوئے بولیں
چلو مجھے پتا بتا دو اور ان کی معلومات دے دو تاکہ میں رشتے کی بات چلا سکوں ..
اوکے دادی جان .. لیکن دھیان رکھیے گا کے لڑکی کو پتا نا چلے کے رشتہ بھجنے والا میں ہوں ۔۔ وجدان نے دادی جان کو اپنے نادر فیصلے سے دادی جان کو آ گاہ کیا
وہ کیوں بھلا ۔۔ ایسے کیسے شادی ہو گی ۔۔۔ دادی جان کو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا
بس دادی وہ ناراض ہے مجھ سے ۔۔ تو شادی کر کے منانا چاہتا ہوں ۔۔۔ شادی کے بعد منا لوں گا اور شادی ہونے کی وجہ سے مان بھی جائے گی ۔۔۔ ورنہ غصے میں کچھ سمجھ ہی نہیں آتا محترمہ کو ۔۔ آپ سمجھیں نا دادی جان آجکل کی نسل کا انا اور غرور کتنا بڑا ہوتا ہے ۔۔ آپ مجھے خوش دیکھنا چاہتی ہیں نہ
ہاں بیٹا ۔۔ میں تو ہمیشہ سے یہی چاہتی ہوں ۔۔۔ دادی جان نے پر سوچ اندز میں کہا ۔۔۔
تو میری خوشی اسی میں ہے اتنی مشکل سے خوشی ملی ہے آپ مانیں گی نہ میری بات ۔۔ وجدان نے معصوم سے شکل بنا کر کہا ۔۔۔
ہاں ۔ میں کل ہی پتہ کرتی ہوں ۔۔۔ تم فکر نا کرو ۔۔ وجدان کو دیکھ کر ویسے ہی ان کا دل موم کا ہو جاتا تھا ۔۔
اپنے بیٹے جیسا لگتا تھا ۔۔ ان کے فرقان جیسا ۔۔
وجدان کا فون بجا تو شمشاد بیگم بھی اس تلخ دنیا میں لوٹیں جہاں ان کا فرقان نہیں تھا ۔۔
میں یہ کال سن لوں دادی جان ۔۔ امپورٹنٹ ہے ۔۔۔ وجدان نے فون دیکھتے ہوۓ کہا
ہاں جاؤ ۔۔ بیٹا ۔۔ مجھے پتہ وغیرہ بتا دینا ۔۔
جی ۔ٹھیک ہے ۔۔ پھر شام کو ملتے ہیں ۔۔یہ کہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...