(Last Updated On: )
ادھر بھی آئے گی موجِ ہوا، اداس نہ ہو
اے برگِ صبحِ خزاں اِک ذرا، اداس نہ ہو
یہ کس نے پھر شبِ تنہا میں میرا نام لیا
اَے دل۔ یہ لگتی ہے اس کی صدا اُداس نہ ہو
دنوں سے اُلجھی ہوئی چیختی ہوئی راتیں
یہ شور اپنے لہو میں بُجھا اداس نہ ہو
وہ چاند جو شبِ ہجراں میں تُو نے سوچا تھا
وہ ریزہ ریزہ بکھر بھی چکا، اداس نہ ہو
وہ اک چراغ، جو خوں میں ترے بھڑکتا تھا
وہ تھک کے پچھلی پہر سو گیا، اداس نہ ہو
چھلک اُٹھے خم و ساغر۔ شباب ناچ اٹھا
میں سوچتا ہوں کہیں پھر خدا اداس نہ ہو
اسی کے جسم کی خوشبو ہے تیری سانسوں میں
وہ تیرے پاس ہے اسلمؔ سدا اداس نہ ہو
٭٭٭