میں ایک معمولی سا شاعر اور ادیب ہوں،معروف معنوں میں صحافی ہر گز نہیں ہوں۔ پھر یہ خبریں اور خبروں پہ تبصروں کا سلسلہ کیا ہے؟۔۔۔در اصل ہوا یہ تھا کہ امریکہ میں نائن الیون کے سانحہ کے بعد امریکہ نے دنیا میں غارت گری کاجو سلسلہ شروع کیا اس کے نتیجہ میں باقی دنیا اور بالخصوص تیسری دنیا کے عوام کی طرح میں بھی دکھ اور بے بسی کی کیفیت میں مبتلا تھا۔اسی کیفیت میں، میں نے شعرو ادب کے ذریعے امریکہ کو للکارنے کی بجائے صحافتی سطح پر اپنے جذبات کا اظہار کرنا مناسب سمجھا۔چنانچہ میں نے” منظر اور پس منظر “کے مستقل عنوان سے کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔۲۳مارچ ۲۰۰۲ءسے لے کر ۱۸نومبر ۲۰۰۳ءتک میں نے ۲۵کالم لکھے جو انٹرنیٹ پرwww.urdustan.comپرساتھ کے ساتھ چھپ جاتے تھے اور بعد ازاں سرور ادبی اکادمی جرمنی اور اردوستان ڈاٹ کام ،امریکہ کے زیر اہتمام کتابی صورت میں بھی چھپ گئے۔میرے جذبات کے اظہار کے ساتھ اندر کا دباؤبھی کسی حد تک کم ہو گیا۔اس دوران جو چند دوست میرے کالموں میں زیادہ دلچسپی لیتے رہے ،مجھے براہ راست اپنے تاثرات سے آگاہ کرتے رہے اور مجھے لکھتے رہنے کا حوصلہ دیتے رہے۔
یہاںیہ وضاحت کر دوں کہ میرے چوبیس کالم ۳اپریل ۲۰۰۳ءتک چھپ چکے تھے۔اور ۲۵واں کالم ۱۸نومبر ۲۰۰۳ءکو شائع ہوا۔سو ۳اپریل کے بعد جب میں اپنے اصل کالم لکھنا ایک حد تک چھوڑ بیٹھا تب بعض دوستوں کی طرف سے اصرار ہوا کہ میں حالاتِ حاضرہ پر کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں۔ایسی میڈیائی فضا میں جہاں ٹی وی چینلز کے ذریعے پل پل کی خبریں اور خبروں پر ہر طرح کے تجزیے ہر آن دنیا کے سامنے ہیں وہاں میں کیا اور میرے تجزیے کیا۔مجھے اپنی اور اپنی صحافیانہ تحریروں کی حیثیت کا بخوبی احساس تھا۔اس لیے میں نے مزید کچھ نہ لکھنے کا ہی ارادہ کیا۔ تب میرے ساتھ زیادہ گپ شپ کرنے والے دوستوں نے مجھے کہا کہ میں روزانہ جو خبریں پڑھتا ہوں ان پر ہلکے پھلکے تبصرے کر دیا کروں۔چنانچہ میں نے اس مشورے کو ٹیسٹ کے طور پرآزمانا چاہا تو قارئین نے اسے ”منظر اور پس منظر“ سے زیادہ پسند کیا۔اگرچہ صحافیانہ سطح پر میں اپنے” منظر اور پس منظر“ کے ۲۵کالموں والے کام کو کئی جہات سے زیادہ بہتر اور اہم سمجھتا ہوں تاہم مجھے لگا کہ خبروں پر ہلکے پھلکے تبصروں کا یہ سلسلہ بھی کچھ برا نہیں ہے۔یہ کالم اردوستان ڈاٹ کام پر ساتھ کے ساتھ لگتے گئے ۔یوں ۲۱اپریل۲۰۰۳ءسے لے کر ۲۵دسمبر ۲۰۰۳ءتک میرے زیر مطالعہ آنے والی خبروں کا انتخاب اور ان پرمیرے تبصرے اب کتابی صورت میں قارئین کے ہاتھ میں ہیں۔اس قسم کے تبصرے کئی لوگوں نے کیے ہیں۔جنگ کراچی میں ابراہیم جلیس کا ”وغیرہ وغیرہ“،امروز لاہور میں احمد ندیم قاسمی کا ”حرف و حکایت“اورخوشتر گرامی کے ماہنامہ بیسویں صدی کے ’تیرو نشتر ‘سے لے کرروزنامہ نوائے وقت کے” سرِ راہے“ تک،کئی ایسے تبصرہ نما سلسلے اپنے اپنے ادوار میں مقبول رہے ہیں ”سرِ راہے“ کا ماضی قریب کا وہ عارضی دور جب اسے ڈاکٹر انورسدید لکھا کرتے تھے،اپنے اندر ادبی رنگ بھی لیے ہوئے تھا۔ اسی انداز سے ملتا جلتا بھی اور کسی حد تک مختلف و منفرد بھی، ایک سلسلہ معروف شاعر ظفر اقبال نے شروع کیا تھا ۔ ”سُرخیاں ان کی، متن ہمارے“۔یہ سب دلچسپ صحافتی سلسلے تھے ۔ میرے ان تبصروں کو میرے ان سارے بزرگوں اور پیشرو شاعرو ادیب کالم نگاروں اور ان کے کالموں کے تناظر میں ہی دیکھا جائے۔
کتاب ترتیب دیتے وقت میں نے ہر کالم کے شروع میں اس کے آن لائن ہونے کی تاریخ دے دی ہے۔ہر کالم کی تاریخ اشاعت سے ہفتہ عشرہ پہلے کی خبریں ہی میرا موضوع رہی ہیں۔اس لحاظ سے یہ ساری خبریں ایک خاص وقت کے اندر کی باتیں اور ان پر میرا ردِ عمل ہیں ۔ لیکن میں دو سال کے بعد جب آج خود انہیں کتابی ترتیب دینے لگا ہوں تو مجھے لگا ہے کہ زمانی قید کے باوجود کئی خبریں ابھی تک تازگی کا احساس دلاتی ہیں اور ہمارے عالمی، علاقائی، مقامی، سیاسی ، مذہبی اور دیگر معاشرتی رویوں کے دلچسپ یا المناک پہلوؤں کو سامنے لاتی ہیں۔
میں نے جن دنوں میں تبصروں کا یہ سلسلہ شروع کیا تھا تب اِن اخبارات کے انٹرنیٹ ایڈیشن باقاعدگی سے میرے زیر مطالعہ رہتے تھے۔میں نے ان اخبارات سے بھر پور استفادہ کیا: پاکستان سے:روزنامہ جنگ ،روزنامہ نوائے وقت،روزنامہ خبریں۔انڈیا سے:روزنامہ منصف ، روزنامہ سیاست ،روزنامہ انقلاب۔۔۔ان کے علاوہ کئی اہم اور غیر اہم ویب سائٹس سے بھی اور دستیاب ٹی وی چینلز سے بھی استفادہ کرتا رہتا تھا۔
میںاِن دنوں میں اپنے کئی ادھورے ادبی کام مکمل کرنا چاہ رہا ہوں۔اسی دوران” خبرنامہ“کی الگ الگ اِن پیج فائلز سامنے آگئیں۔اسے کتابی صورت دینا بھی میرے ذہن میں تھالیکن اتنی جلد یہ کام ہو جائے گا،اس کا اند ا زہ نہ تھا۔میں نے انڈیا میں” ترنم ریاض صاحبہ“ سے اس کتاب کے بارے میں بات کی تو انہوں نے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی کے” مصطفی کمال پاشا صاحب“ سے رابطہ کرادیا۔پھر اتنی جلدی اس کتاب کی اشاعت کا معاملہ طے پا گیا کہ میں خود ابھی تک حیران ہوںلیکن خوشی ہے کہ اب اطمینان سے اپنے دوسرے بکھرے ہوئے یا ادھورے ادبی کاموں کی طرف توجہ کر سکوں گا ۔۔۔۔۔یہاں ان دوستوں کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے امریکہ کے کاشف ہدیٰ،جرمنی کے ایس بی شاہ،ہالینڈ کے ناصر نظامی،پاکستان کے پروفیسرنذر خلیق، ارشد خالد اور سعید شباب ،انڈیا کی ترنم ریاض اور انڈیا ہی کے نصرت ظہیر اور مصطفی پاشا ۔ خبر نامہ لکھے جا نے کے دوران سے یہ کتاب چھپنے تک کسی نہ کسی مرحلہ میں ان کے مشورے ، حوصلہ افزائی، فراہم کردہ حوالے یاتعاون کی کوئی نہ کوئی قابلِ ذکر صورت میرے شاملِ حال رہی۔سو ان سب کا شکریہ۔اور اب بالکل آخری مرحلہ میں اپنے چھوٹے بیٹے طارق محمودکا بھی شکریہ کہ اس کتاب کا ذکر سن کر بغیر میرے کہے از خود اپنی طرف سے ۱۰۰کتابوں کی قیمت ڈاک خرچ سمیت ادا کر دی ہے۔ باپ بیٹے کے مابین ایسے شکریے کی ضرورت تو نہیں ہوتی لیکن پھر بھی شکر یہ طارق! ۔۔ اوراب یہ خبر نامہ بھگتئے ۔
حید ر قریشی
۲۵نومبر ۲۰۰۵ (جرمنی سے)
٭٭