بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ سال ہا سال ان کی طرف توجہ نہیں ہو پاتی، اور پھر کہیں نہ کہیں سے ایسی تحریک ملتی ہے کہ وہ با آسانی پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ میرے دادا مرحوم محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی کی غیر مطبوعہ شاعری کا بھی ہے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے کبھی شاعری کی اشاعت کے حوالے سے نہیں سوچا۔ ان کا نعتیہ کلام کا مجموعہ “لمعاتِ نظر” ان کی وفات کے دس سال بعد ۲۰۰۵ء شائع ہوا۔ البتہ ان کی غزلیں اور نظمیں غیر مطبوعہ ہی رہیں، اور اب تک مختلف کاپیوں اور ڈائریوں میں محفوظ تھیں۔ نعتیہ کلام کی طباعت کے وقت اور نہ ہی اس کے بعد بقیہ کلام کی طباعت کا خیال کبھی ذہن میں آیا۔ گذشتہ سال انٹرنیٹ پر ‘اردو محفل فورم’ سے وابستگی ہوئی۔ وہاں پر مختلف کتب کی کمپوزنگ کے حوالے سے رضا کارانہ طور پر بہت کام ہو رہا ہے۔ اردو کمپوزنگ سے تعلق تو پہلے سے موجود تھا، لہٰذا یہاں سے تحریک ہوئی کہ دادا کے کلام کو کم از کم کمپوز کر کے محفوظ کر لیا جائے۔ والدِ محترم محمد احسن صدیقی صاحب کے سامنے اپنا منصوبہ رکھا تو انہوں نے بخوشی اجازت دے دی۔ اور تمام کلام جس صورت میں بھی موجود تھا، فراہم کر دیا۔ شروع میں لکھائی کو سمجھنا ذرا مشکل معلوم ہوا، مگر والد محترم کی مدد سے یہ مشکل بھی آسان ہو گئی۔ اس کے علاوہ اپنی کم علمی کے باعث بہت سی فارسی تراکیب کو سمجھنا بھی والدِ محترم کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔ الحمد للہ، پانچ سے چھ ماہ کے مختصر عرصہ میں یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔
دادا کے تعارف اور ان کی شاعری کے اسلوب اور مزاج سے آگہی کے لئے میں اپنے والد کی تحریر “میرے ابو ” کا اقتباس پیش کر رہا ہوں، جو کہ ان کے نعتیہ مجموعۂ کلام “لمعاتِ نظر” میں طبع ہو چکا ہے۔
” اُن اربابِ ذوق کے لئے جو میرے والد سے براہ راست واقفیت نہیں رکھتے، اپنے والد کا ایک مختصر تعارف تحریر کر رہا ہوں۔ شاید یہ تعارف ان کی شاعری کی تفہیم میں بھی کچھ مدد گار ثابت ہو۔
نام محمد عبدالحمید صدیقی، تخلص نظرؔ لکھنوی 3 جولائی 1927ء کو لکھنؤ موضع ‘چنہٹ’ میں پیدا ہوئے۔ ہائی سکول کی تعلیم موضع اُترولہ ضلع گونڈہ سے 1944ء میں مکمل کی اور 1945ء میں ملٹری اکاؤنٹس لکھنؤ میں ملازم ہو گئے۔ دسمبر 1947ء کو پاکستان ہجرت کی اور ملٹری اکاؤنٹس راولپنڈی میں تعینات ہوئے۔ اس طرح راولپنڈی دار الہجرت قرار پایا۔ پہلی اہلیہ کا 5 جنوری 1958ء کو راولپنڈی میں انتقال ہوا۔ ان سے پانچ اولادیں ہوئیں جن میں سے تین بیٹے شیر خوارگی کی عمر میں ہی وفات پا گئے اور دو اولادیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی حیات رہے۔ عقد ثانی 1960ء میں کیا جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری اہلیہ کا انتقال بھی 3 جنوری 1980ء میں راولپنڈی میں ہوا۔ ملازمت کے آخری دس سال فیلڈ پے آفس (FPO)، آرٹلری سنٹر اٹک شہر میں گزارے اور وہیں سے 1979ء میں چونتیس سالہ ملازمت کے بعد اپنی بیمار اہلیہ کی تیمار داری کے لئے بحیثیت اکاؤنٹنٹ ریٹائرمنٹ لے لی۔ اپنی عمر کے آخری دس سال اسلام آباد میں میرے ہمراہ گزارے۔ 3 جنوری 1994ء کو وفات پائی اور اسلام آباد میں سپرد خاک ہوئے۔ ایک بیٹا، ایک بیٹی، چھ پوتے پوتیاں اور تین نواسہ نواسیاں سوگوار چھوڑیں۔
ابّو کی شخصیت میں لکھنؤ کی تہذیبی روایت کی نفاست اور شائستگی پوری طرح موجود تھی لیکن تصنّع اور بناوٹ سے کوسوں دور تھے۔ تدیّن، خودداری، وضع داری، قناعت اور اخلاص ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ جس محفل میں شامل ہوتے ان کی موجودگی نمایاں ہو جاتی تھی۔ نہایت خوش مزاج تھے اور بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر عمر کے لوگوں میں گھل مل جاتے۔ لیکن تعلقات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اور جب چاہے سنجیدگی اور متانت کی لکیر کھینچ لیتے۔ ان کی صداقت، دیانت اور معاملہ فہمی پر بھروسہ کیا جاتا تھا اور بکثرت احباب مشورہ کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔
شاعری کا ملکہ فطری تھا اور مڈل سکول کے زمانے سے شاعری شروع کر دی تھی۔ ایک رشتہ کے ماموں جو عمر میں چند سال بڑے تھے شاعری کرتے تھے۔ انہی کی صحبت میں ذوق و شوق کی تربیت ہوئی اور ابتدائی اصلاح بھی انہی سے لی۔ کسی مشہور استادِ فن سے وابستہ نہ ہوئے۔ البتہ کلاسیکی ادب پڑھا اور ہم عصر اساتذۂ فن اور مشاعروں میں ان کی چشمک کے عینی شاہدین میں سے تھے۔ جب تک لکھنؤ میں رہے اور گھر بار کی ذمہ داریاں کم تھیں تو مشاعروں میں شرکت کا شوق رہا۔
روایت پسند تھے اور شاعری کے دبستانِ لکھنؤ کے لئے ایک خاص حمیت رکھتے تھے۔ دبستانِ لکھنؤ پر کی گئی تنقید پڑھتے ضرور تھے لیکن تسلیم نہیں کرتے تھے۔ عملی طور پر زندگی کے مشاغل میں مثبت مقصدیت کے سختی سے قائل تھے۔ ‘ادب برائے ادب’ اور ‘ادب برائے زندگی’ کی بحث میں ان کی رائے بَین بَین تھی۔ ان کا خیال تھا کہ حسنِ شعری کے وہ سارے ظاہری لوازم جو لکھنؤ دبستان کی پہچان ہیں، شاعری کی مقصدیت کے ساتھ برتے جا سکتے ہیں۔ میری اس سلسلہ میں ان سے بارہا بحث رہتی تھی جو بالآخر ان کی ہلکی سی ڈانٹ یا جھنجھلاہٹ کے ساتھ ختم ہو جاتی تھی۔
غزل اور نظم دونوں اصناف سے مناسبت تھی۔ پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کے حوالے سے موضوعاتی نظمیں بھی کہیں۔ عام طور پر سال میں تین چار مرتبہ شاعری کی کیفیت طاری ہوتی تھی جس کی ظاہری علامت زیر لب گنگناہٹ اور رات کو بار بار اٹھ کر بجلی جلانا اور لکھنا ہوتا تھا۔ پان کا استعمال بڑھ جاتا۔ ان دنوں تواتر سے کئی غزلیں، نعتیں یا نظمیں ہو جاتی تھیں۔ بیاض میں درج ہو جانے کے بعد سب سے پہلے اور اکثر اوقات آخری سامعین میں، میری بہن اور والدہ ہوتے تھے۔ میرے ایک ماموں محمد قمرالہدیٰ صاحب ذوقِ شعری سے بہرہ یاب تھے اور داد دینے کا ایک والہانہ اور مشاعرانہ انداز رکھتے تھے۔ وہ بھی مستقل سامعین میں شامل تھے اور ان کی موجودگی میں گھر کے اندر ہی مشاعرہ کا سماں بندھ جاتا تھا۔ خاندانی تقریبات کے موقع پر یا احباب کے درمیان فرمائش پر کچھ سنا دیا کرتے تھے۔ میں جب انجینئرنگ کی تعلیم اور اس کے بعد ملازمت کے سلسلہ میں گھر سے دور رہا تو جب بھی گھر جانا ہوتا تھا تو میری غیر موجودگی میں کی ہوئی شاعری مجھے سناتے تھے اور تبصرہ ‘برداشت’ کر لیا کرتے تھے۔ مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتے تھے۔
ستر کی دہائی کے ابتدائی سالوں سے رجحان نعتیہ شاعری کی طرف زیادہ ہو گیا اور اس دہائی کے اختتام تک صرف نعتیہ شاعری ہی کرنے لگے۔ جس کا سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ فرمائشی شاعری از قسم سہرا، سالگرہ وغیرہ کے سلسلہ میں باوجود ناپسندیدگی کے بے بس تھے۔ کسی کو انکار نہیں کر سکتے تھے اور کچھ نہ کچھ لکھ کر دے دیتے تھے۔ جس کا کوئی ریکارڈ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔
انکی غزلیں اور نظمیں بھی نعتیہ اشعار سے مزین ہیں اور ان کی پوری شاعری پر دینی اور ملی فکر کی گہری چھاپ ہے۔ اپنی بیاضِ غزل کا آغاز درج ذیل قطعہ سے کیا ہے جو بخوبی ان کے نظریۂ فن کو ظاہر کرتا ہے:
اشعار میں مرے مئے باطل کی بو نہیں
عشقِ بتانِ دہر کی بھی ہاؤ ہو نہیں
اسپِ سخن مرا ہے بقیدِ زمامِ دیں
دادِ سخن کی مجھ کو نظرؔ آرزو نہیں
اس قطعہ کا آخری مصرع محض شاعرانہ پیرایۂ اظہار نہیں بلکہ ان کی زندگی بھر کا عمل تھا۔ مجھے ان کی زندگی اقبالؔ کے اس مردِ مؤمن کی طرح نظر آتی ہے جس کی تمنا قلیل تھی اور مقاصد جلیل تھے۔”
مکمل کلام کے دو مجموعے مرتب کئے ہیں۔ “غزلیاتِ نظر” تمام غزلوں پر مشتمل ہے اور جیسا کہ والدِ محترم نے اپنے مضمون میں رقم کیا ہے کہ ان کی غزلوں پر بھی دینی اور ملی فکر کی گہری چھاپ ہے۔ نظریہ اور فکر کی پختگی ان کے کلام سے عیاں ہے۔ “لمحاتِ نظر” تمام نظموں پر مشتمل ہے، جو کہ زیادہ تر واقعاتی ہیں۔ اور ان کی زندگی میں رونما ہونے والے نجی و قومی واقعات و حادثات پر لکھی گئی ہیں۔ یہاں بھی دینی اور ملی فکر نمایاں نظر آئے گی۔
یہ کام اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بغیر نا ممکن تھا۔ میں سب سے پہلے تو والدِ محترم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے نہ صرف اس کام کی بخوشی اجازت دی، بلکہ کلام کی تفہیم میں مدد بھی کی اور آخر میں پروف ریڈنگ کا مشکل اور محتاط کام بھی سر انجام دیا۔ اپنی اہلیہ کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے میری اس اضافی مصروفیت کو تحمل سے برداشت کیا۔ ‘اردو محفل فورم ‘کا شکریہ ادا کروں گا کہ جس کی وجہ سے اس کام کی تحریک ملی اور حوصلہ ملتا رہا۔ کتاب کی تدوین کے حوالے سے تکنیکی معاونت پر خاص طور پر محترم عارف کریم کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور اس کاوش کو اپنی جناب میں قبول فرمائے۔ آمین۔
محمد تابش صدیقی
اسلام آباد
9 رجب المرجب، 1437ھ بمطابق 17 اپریل 2016ء